Skip to content
بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام

بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام

”طلوعِ اسلام“ از علامہ اقبال

فہرست

نظم ”طلوعِ اسلام“ کا پس منظر

نظم ”طلوعِ اسلام“ علامہ اقبال نے 1922ء میں لکھی تھی۔ چونکہ اس زمانہ میں مصطفیٰ کمال پاشا نے سقّاریہ کی جنگ میں یونانیوں کو شکست دے کر ساری دُنیا پر یہ حقیقت آشکار کر دی تھی کہ ترک ابھی زندہ ہیں اور سمرنا فتح کر کے مسٹر گلیڈسٹن کے خاندان میں صفِ ماتم بِچھا دی تھی، اس لیے اقبالؔ نے جس طرح مایوسی کے عالم میں ”شمع اور شاعر“ لکھی تھی، اُسی طرح رجائیّت (اُمید کی کیفیت) کے عالم میں یہ نظم کہی۔

(شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

YouTube video

نظم ”طلوعِ اسلام“ کی تشریح

بند نمبر 1

دلیلِ صُبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
اُفُق سے آفتاب اُبھرا، گیا دورِ گراں خوابی

حلِ لغات:

الفاظمعانی
دلیلگواہی، نشانی
تُنک تابیہلکی روشنی، ٹِمٹِماہٹ، دھیمی دھیمی روشنی
اُفقآسمان کا کنارہ
آفتاب اُبھراسورج طلوع ہوا، اشارہ ہے اُس دور کی طرف جب مسلمانغفلت کا شکار تھے کہ اچانک مصطفی کمال اتاتُرک اُٹھے اور کفار کے بڑھتے ہوئے قدم روک دیے
دورِ گِراں خوابیگہری نیند میں سونے کا زمانہ
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

ستاروں کی روشنی کا پھیکا پڑنا (ٹِمٹِمانا) اس بات کی روشن نشانی ہے کہ تاریک رات بالآخر ختم ہونے والی ہے اور روشن صبح کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ وہ دیکھو! سورج آسمان کے کنارے پر نمودار ہو رہا ہے اور گہری نیند سونے والوں کے لیے بیداری کا پیغام لایا ہے۔

یعنی مسلمانوں پر عرصۂ دراز سے غفلت کی تاریک رات چھائی ہوئی تھی، بالآخر مصطفیٰ کمال (آفتاب) نے اُنہیں خوابِ غفلت سے بیدار کر دیا۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی کے مطابق یہاں ’آفتاب‘ سے مراد مصطفی کمال پاشا ہیں، کیونکہ ترکی نے اُن ہی کی قیادت میں یونانیوں کو شِکست دی۔


عُروُقِ مُردۂ مشرق میں خُونِ زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی

حلِ لغات:

الفاظمعانی
عُروقِ مُردہعرق کی جمع۔ بے جان رگیں
خونِ زندگی دوڑازندگی کا خون چلنے لگا، بیداری کے اثار پیدا ہو گئے
سینا و فارابیبو علی سینا اور محمد بن طرخان ابو نصر فارابی، دونوں مشہور فلسفی تھے
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

سرزمینِ مشرق (ایشیاء) کی مُردہ رگوں میں زندگی کا خون گردِش کرنے لگا ہے اور یہ وہ راز ہے جسے بو علی سینا اور بو نصر فارابی جیسے فلسفی نہیں سمجھ سکتے۔

یعنی مشرقی اقوام میں زندگی کی جو نئی لہر پیدا ہوئی ہے اس کا صحیح اندازہ وہ لوگ نہیں کر سکتے جن کی عمریں اسباب و عوامل کے منطقی کھوج میں بسر ہو جائیں۔ اُن کی نظریں ہمیشہ چیزوں کی ظاہری حالت پر رہتی ہیں۔ وہ زندگی اور بیداری کی ان کیفیّتوں کا اندازہ نہیں کر سکتے جو قوموں کے ذہنوں، دِماغوں اور دِلوں میں موج زَن ہوتی ہیں۔


مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

حلِ لغات:

الفاظمعانی
مسلماں کر دیاصحیح معنوں میں اسلام کا شیدائی بنا دیا
طوفانِ مغربیورپ کا ہنگامہ، اشارہ ہے 1914ء کی عالمگیر جنگ کی طرف
طلاطُم ہاطلاطم کی جمع۔ طوفان کے تھپیڑے، پانی کی طغیانی
گوہرموتی۔ مراد: مسلمان
سیرابیتازگی، چمک دمک
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

سچ ہے، سمندر میں طوفان آتے رہنے سے ہی موتیوں میں آب و تاب اور چمک دمک پیدا ہوتی ہے۔ مشہور ہے کہ جب سمندر میں طوفان آتا ہے تو لہریں سیپیوں کو سطح سے اُٹھا کر ساحل کے قریب پھینک دیتی ہیں۔ سیپی میں جو کیڑا ہوتا ہے وہ ساحل کی ریت سے ایک دو ذرّے اپنے اندر کھینچ لیتا ہے اور سیپی کا منہ بند ہو جاتا ہے۔ پھر کیڑا انہیں ذرّوں کے اردگرد اپنے لعاب سے تہیں بناتا ہے یہاں تک کہ موتی تیار ہو جاتا ہے۔ اگر طوفان کے سبب سیپیوں کو ساحل کے قریب پہنچنا نصیب نہ ہو تو وہ اپنی گودیوں میں موتیوں کی پرورِش نہ کر سکیں۔

اقبالؔ نے اس سے یہ مضمون پیدا کیا ہے کہ مغرب سے طوفان (جنگِ عظیم 1914ء تا 1918ء) اُٹھا اور اس نے مسلمانوں میں سچّی دینی حمیّت پیدا کر دی۔ وہ مسلمان جو برسوں سے غفلت کی نیند سو رہے تھے، بیدار ہو گئے اور اُن میں اپنی حفاظت کا جوش اور ولولہ پیدا ہو گیا، یعنی مسلمانوں کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ اگر ہم جدوجہد نہیں کریں گے تو فنا ہو جائیں گے۔ گویا اس طوفان نے اُنہیں صحیح معنوں میں مسلمان بنا دیا۔


عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نُطقِ اعرابی

حلِ لغات:

الفاظمعانی
درگاہِ حقاللہ کی بارگاہ / دربار
شِکوہِ تُرکمانیتُرکوں کی سی شان و شوکت
ذہنِ ہندیہندوستان والوں کی ذہانت
نُطقِ اعرابیعربوں کی زبان یعنی عربوں جیسی فصاحت (یعنی خوش بیانی، خوش کلامی، گُفتگو کا پُرکشش انداز)
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

آثار بتا رہے ہیں کہ مسلم اُمّت کو دُنیا میں دوبارہ سر بُلندی نصیب ہوگی اور ترکوں کی سی شان و شوکت، ہندیوں کی سی تیزیٔ ذہن اور عقل و دانائی، عربوں کی سی فصاحت و بلاغت عطا ہوگی۔ یعنی مسلمان دوبارہ زندگی کے اعلیٰ جوہروں سے زینت پانے والے ہیں۔

آثار ایسا اس لیے بتا رہے ہیں کیونکہ مسلمان غفلت کی نیند سے بیدار ہو چُکے ہیں اور اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔


اثر کچھ خواب کا غُنچوں میں باقی ہے تو اے بُلبل!
“نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی”

حلِ لغات:

الفاظمعانی
غُنچوںکلیوں
بُلبُلمراد: اقبال
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے بُلبُل! اگر تُو محسوس کرے کہ تیری کلیوں میں اب تک نیند کا اثر موجود ہے اور وہ کھِلنے اور اپنی خوشبو سے فضا کو معطّر کرنے کے لیے ابھی مکمل طور پر بیدار نہیں ہوئیں، تو مناسب یہ ہے کہ اپنے نغموں کو اور بلند کر دے تاکہ اُنہیں تیری گیت سُننے کا شوق کم نہ ہونے پائے۔ بلبل سے اقبالؔ کا اشارہ بہ ظاہر اپنی طرف ہے جو اپنے باغ کی کلیوں کو بیدار کرنے لگے ہیں اور کلیوں سے مراد افرادِ ملت ہیں۔

یعنی اے اقبالؔ! اگر تُو دیکھے کہ تیری قوم میں ابھی بھی کُچھ غفلت باقی ہے تو تجھے چاہیے کہ اپنی شاعری میں مزید جوش و خروش کا رنگ پیدا کر دے۔ اگر لوگوں میں گانا سُننے کا ذوق نہیں ہے تو مُطرب (نغمے گانے والا) کو چاہیے کہ زیادہ دِلکشی سے گائے تاکہ لوگ متوجہ ہوں۔

اِس شعر کا دوسرا مصرع عُرفیؔ کا ہے:–

؎ نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی
حُدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی


تڑپ صحنِ چمن میں، آشیاں میں، شاخساروں میں
جُدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیرِ سیمابی

حلِ لغات:

الفاظمعانی
شاخساردرخت کے اوپر کا حصہ جو ٹہنیوں والا ہوتا ہے، درختوں کا جھُنڈ
تڑپبے چینی، جذبۂ عشق کے سبب بے قراری
تقدیرِ سیمابیتڑپ، پارے کی سی قسمت
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے اقبالؔ! مِلّتِ اسلامیہ کے باغ میں تیری حیثیت ایک بُلبُل کی سی ہے اور باغ کو اُجڑتا ہوا دیکھ کر تڑپنا بُلبُل کی فطرت میں شامل ہے۔ تُو باغ کے صحن میں ہو یا گھونسلے میں یا درختوں کی شاخوں پر۔۔ جہاں بھی ہو، تڑپتا رہ تاکہ باغ میں بیداری پیدا ہو۔ تُو پارا (سیماب) ہے اور پارے کی فطرت ہی یہ ہے کہ ہر لحظہ تڑپتا ہے، یہ فطرت اس سے چھینی نہیں جاسکتی۔ یعنی تجھے چاہیے کہ اور ہر جگہ، ہر مجلس اور ہر تقریب میں مسلمانوں کو بیدار کر اور جہاں موقع ملے اور جس طرح ممکن ہو، قوم کو بیداری کا پیغام دے۔

پروفیسر یوسف سلیم چشتی اس شعر کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:-

اقبالؔ لاکھ خطاکار سہی لیکن اُس اللہ کے بندے نے اپنے طرزِ عمل سے اس مصرع کو سچ کر دِکھایا، جب تک وہ زندہ رہا (میں گواہی دیتا ہوں) کہ قوم کے عشق میں تڑپتا رہا۔ میرے علاوہ صدہا انسانوں نے اُسے بچشمِ خود تڑپتے دیکھا، بلکہ اُس نے بہت سے مسلمانوں کو تڑپنا سِکھا دیا۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ ایک مرتبہ تڑپنے کی حالت میں یہ الفاظ اُس کے منہ سے نکلے تھے: ”یاد رکھو! سرکارِ دو عالم ﷺ کا عاشق دُنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہو سکتا۔“

(شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

وہ چشمِ پاک‌ بیں کیوں زینتِ برگستواں دیکھے
نظر آتی ہے جس کو مردِ غازی کی جگر تابی

حلِ لغات:

الفاظمعانی
چشمِ پاک بیںاچھی / پاک چیزوں کا نظارہ کرنے والی آنکھ
برگستوَاںگھوڑے کا ساز اور زین، پاکھر، گھوٹے کا حفاظتی لباس
جِگر تابیچمکتا ہوا دِل، بہادُر دِل، جوشِ جہاد
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

جس حقیقت نِگر اور حق شناس آنکھ کو مردِ غازی کی بہادری، دلیری اور جاں فشانی نظر آتی ہے، اُسے یہ دیکھنے کی کیا ضرورت ہے کہ گھوڑوں پر جو پاکھڑیں پڑی ہوئی ہیں اُن کی زیب و زینت اور آرائش کی کیا کیفیت ہے؟

اِس شعر میں جن استعاروں سے کام لیا گیا ہے وہ بڑے ہی پاکیزہ ہیں، لیکن اندیشہ ہے کہ عام پڑھنے والوں کی نظریں استعاروں سے گزر کر حقیقت تک نہ پہنچ سکیں، اس لیے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ زینتِ برگستواں سے مراد لڑائی کا ساز و سامان ہے۔ اقبالؔ کہتے ہیں کہ بے شک مسلمانوں کے پاس لڑائی کا وہ ساز و سامان موجود نہیں جو اہلِ یورپ کے پاس ہے لیکن ان میں جاں باز مجاہدوں کی کمی نہیں ہے اور اس کی تازہ مثال وہ ترک غازی پیش کر چُکے تھے، جنہوں نے مصطفیٰ کمال کی سالاری میں یورپ کی بڑی بڑی طاقتوں کے سازشی پھندے ٹُکڑے ٹُکڑے کر ڈالے۔ اُن کے پاس کون سا ساز و سامان تھا؟ وہ اپنی ہمت سے اُٹھے اور یونانیوں کو پے در پے شکست دے کر اناطولیہ سے نکال دیا، حالانکہ انگریز اور فرانسیسی یونانیوں کی پُشت پر تھے۔ یونانیوں سے فارغ ہو کر ترک غازی قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) کی طرف بڑھے تو انگریزوں اور فرانسیسیوں سے جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ ترک اس سے ہراساں نہ ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فرانس نے ترکوں سے صُلح کر لی۔ انگریزوں کے وزیرِاعظم لارئڈ جارج نے جنگ کی ٹھانی لیکن کسی نے بھی اُس کا ساتھ نہ دیا۔ اُس کی وزارت ٹوٹ گئی۔ نئی وزارت نے ترکوں سے صُلح کی گفتگو شروع کر دی، لوازن میں عہد نامہ مکمل ہو گیا اور ترکوں کو آزادی مل گئی۔ اِس مثال سے یہ بات روزِ روشن کی طرح آشکارا ہے کہ ہمت، دلیری ور جاں فشانی موجود ہو تو بڑے ساز و سامان کے بغیر بھی فتح و نصرت پاؤں چومنے لگتی ہے۔

بات یہ ہے کہ لڑائی میں ہر حال مردِ غازی کا وجود ہر چیز ہر مقدّم ہے۔ غازی ہوگا تو ساز و سامان سے کام لے گا۔ غازی ہی نہ ہوگا تو ساز و سامان کس کام آئے گا؟


ضمیرِ لالہ میں روشن چراغِ آرزو کر دے
چمن کے ذرّے ذرّے کو شہیدِ جُستجو کر دے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
ضمیرِ لالہلالہ کا دِل۔ مراد: قلبِ مسلم
چمنباغ۔ مراد مسلمان قوم
شہیدِ جُستجوتلاش و جستجو کا شیدائی اور عاشق
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے اقبال! تُو لالہ یعنی مسلمانوں کے سینوں میں پھر سے عشقِ رسول اللہ ﷺ کی آگ بھڑکا دے دے اور قوم کے افراد کے دِل میں یہ آرزو پیدا کر دے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کر سکیں۔

نوٹ: جستجو سے مراد ہے عظمتِ رفتہ کی جستجو اور آرزو سے مراد ہے سرکارِ دو عالم ﷺ کے نقشِ قدم پر چلنے کی آرزو۔

بند نمبر 2

سرشکِ چشمِ مُسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہؑ کے دریا میں ہوں گے پھر گُہر پیدا

حلِ لغات:

الفاظمعانی
سرشکِ چشمِ مسلمسرشک: آنسو۔ چشم: آنکھ۔ سرشکِ چشمِ مسلم یعنی مسلمان کی آنکھ سے بہنے والا آنسو
نیساںبارش کا وہ قطرہ جو سیپی کے منہ میں پڑ کر موتی بنتا ہے
خلیل اللہلفظی معنی: اللہ کا دوست۔ خلیل اللہ حضرت ابراہیمؑ کا لقب ہے
گُہرموتی
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

مسلمان اپنی حالتِ زار پر آنسو بہا رہے ہیں۔ خدا کی بارگاہ میں گِڑگِڑا رہے ہیں کہ ان کے گناہ معاف ہو جائیں اور انہیں پھر دینی فرائض بجا لانے کی توفیق نصیب ہو۔ مجھے نظر آرہا ہے کہ ان آنسوؤں میں اس ابرِ بہار کی کیفیت نمایاں ہے جس کے برسنے سے سیپیوں کی گود میں موتی پرورِش پانے لگتے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ کی اولاد میں پھر سے وہ قوتِ عمل بیدار ہونے لگی ہے جو کبھی اُن کے اسلاف کا ورثہ ہوا کرتی تھی اور جس کے سبب انہوں نے اپنی قلیل تعداد کے باوجود دنیا بھر میں فتح و نصرت کے جھنڈے گاڑ دیے۔

خلیل اللہ کے دریا سے مراد مِلتِ اسلامیہ ہے۔


کتابِ مِلّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا

حلِ لغات:

الفاظمعانی
مِلّتِ بیضاروشن قوم۔ مراد: مسلمان
شیرازہ بندیجِلد بندی۔ یعنی اتفاق، تنظیم اور اتحاد۔ متحد کرنا، اِکٹھا کرنا
شاخِ ہاشمیہاشم کا درخت، مراد: مسلمان قوم
برگ و برپتے اور پھل
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

مِلّتِ اسلامیہ پارہ پارہ ہو کر بِکھر چُکی تھی لیکن اب پھر متحد ہو رہی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے شاخِ ہاشمی یعنی مِلّتِ اسلامیہ ایک بار پھر پھول و پھل سےآراستہ ہوگی یعنی مسلمانوں کی ترقی کا زمانہ آ گیا ہے۔


ربود آں تُرکِ شیرازی دلِ تبریز و کابل را
صبا کرتی ہے بُوئے گُل سے اپنا ہم‌سفر پیدا

حلِ لغات:

الفاظمعانی
صباصبح کی خوشگوار ہوا
بوئے گُلپھول کی خوشبو
ہم سفرسفر کا ساتھی
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

وہ شیرای تُرک تبریز اور کابل کا دِل چھین کر لے گیا۔ صبا باغ سے نکلتی ہے تو پھولوں کی خوشبو کو سفر میں اپنا ساتھی بنا لیتی ہے۔

یہ شعر بھی استعاروں سے بھرا ہوا ہے۔ ”ترُکِ شیرازی“ حافظؔ کی ایجاد کی ہوئی ترکیب ہے:-

؏ اگر آں ترکِ شیرازی بدست آرد دلِ مارا
(حوالہ کے لیے یہ لِنک وزٹ کیجیے)

اقبالؔ نے جو انداز اختیار کیا ہے اس سے بھی صاف ظاہر ہے کہ یہ مصرع کہتے وقت خواجہ حافظؔ کا شعر سامنے تھا۔ تُرکِ شیرازی سے اشارہ بہ ظاہر مصطفیٰ کمال کی طرف ہے۔ تبریز سے مراد ایران اور کابل سے افغانستان مراد ہے۔ اقبالؔ کا مُدعا یہ ہے کہ ترک غازیوں کے مجاہدانہ کارناموں نے ایران اور افغانستان میں بھی زندگی کا جذبہ پیدا کر دیا۔ ترکوں میں ہمت تھی وہ تنہا لڑ کا کامیاب ہو گئے۔ ایران و افغانستان میں اتنی ہمت نہ تھی، لیکن ترکوں کے سہارے انہیں بھی فائدہ پہنچا اور اس کی مثال یہ ہے کہ پھول کی خوشبو صبا کے بغیر اِدھر اُدھر نہیں بِکھر سکتی۔ صبا چلے تو خوشبو بھی اُس کے ساتھ چل نکلتی ہے۔

مختصر یہ کہ ترکی کے عظیم سپوت مصطفی کمال اور اُس کے رفقاء نے اپنی جرأت و ہمت کے طفیل ایران اور افغانستان کے مسلمانوں کے دل جیت لیے اور جس طرح صبا پھولوں کی خوشبو کو اپنا ہم سفر بنا لیتی ہے اسی طرح دوسرے علاقوں کے مسلمان بھی ترکوں کی طرح بیدار ہو گئے ہیں۔


اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹُوٹا تو کیا غم ہے
کہ خُونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحَر پیدا

حلِ لغات:

الفاظمعانی
عثمانیترک
کوہِ غم ٹوٹاغم کا پہاڑ گِر پڑا۔ اشارہ ہے 1914ء کی عالمگیر جنگ کی طرف جس میں ترکوں نے بہت مصیبتیں برداشت کیں
خونِ صد ہزار انجملاکھوں ستاروں کا خون
سحر پیدا ہوناصبح طلوع ہونا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمانو! یہ سچ ہے کہ جنگِ عظیم میں ترکوں نے عظیم نقصان برداشت کیا بلکہ سلطنت، سیادت اور سطوَت تینوں چیزوں کا خاتمہ ہو گیا لیکن یہ آزردہ ہونے کی بات نہیں ہے، کیونکہ ہمیشہ مصائب کے بعد راحت نصیب ہوتی ہے اگر فطرت سے اس بات کی شہادت درکار ہے تو اس بات پر غور کرو کہ لاکھوں ستارے فنا ہو جاتے ہیں تو ایک سحر پیدا ہوتی ہے۔ گویا قربانیاں پیش کرنے سے ہی آزادی و عظمت حاصل کی جاتی ہے۔


جہاں بانی سے ہے دُشوار تر کارِ جہاں بینی
جگر خُوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا

حلِ لغات:

الفاظمعانی
جہاں بانیدُنیا پر حکومت کرنا
دُشوار ترزیادہ مشکل
کارکام
جہاں بینیحکومت کا نظام، نظامِ کائنات کو سمجھنا
جِگر خوں ہوناتکالیف برداشت کرنا، سخت محنت کرنا
چشمِ دِلبصیرت، فراست
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

دُنیا پر حکمرانی (جہاں بانی) اتنی مشکل نہیں جتنا زندگی کی حقیقتوں کو پہچاننا مشکل ہے۔ جب تک کلیجا لہو نہ ہو جائے دِل کی آنکھ میں نظر پیدا نہیں ہوتی۔

مراد ہے کہ اے مسلمانو! حکومت (جہاں بانی) تو ایک عارضی شے ہے، آج چلی گئی تو کل آ جائے گی۔ بڑی چیز ”جہاں بینی“ ہے یعنی تمہیں قوموں کے عروج و زوال کے فلسفہ کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ تم وہ غلطی نہ کرو جس کا نتیجہ تباہی ہوتا ہے۔


ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ‌وَر پیدا

حلِ لغات:

الفاظمعانی
نرگسایک پھول جو آنکھ سے مشابہت رکھتا ہے
بے نوریآنکھوں کا روشن نہ ہونا، اندھا پن
چمنباغ
دیدہ ورآنکھوں والا، پرکھنے والا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اپنے استدلال کی حمایت میں اقبالؔ نرگس کے حوالے سے تمثیل اس طرح پیش کرتے ہیں کہ نرگس کا پھول جو آنکھ سے بہت مشابہت رکھتا ہے وہ ہزارہا سال بینائی سے محرومی کے کرب میں مبتلا رہتا ہے اس کے باوجود بصارت اس کا مقدر نہیں بنتی کہ اس کا حصول بہت مشکل ہے۔ مراد یہ ہے کہ انسان آنکھیں رکھنے کے باوجود بصیرت حاصل کرنے کے لیے بڑے مراحل سے گزرتا ہے۔

پروفیسر یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں:-

یادرکھو! ایسا شخص جو کسی مُردہ قوم کو زندہ کر دے صدیوں بعد جا کر پیدا ہوتا ہے۔ ”دیدہ وَر“ سے اشارہ مصطفی کمال کی طرف ہے جس نے 1922ء میں اقبالؔ کے اس شعر پر عمل کر دکھایا:-

؎ پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
(بانگِ درا: خضرِ راہ)

دُنیا شاہد ہے کہ اس نے نئی ترکی پیدا کر دی، جس میں نہ ملوکیّت ہے، نہ احباریت، نہ حرم سرائے سُلطانی ہے نہ کنیزوں کی فوج ظفر موج، نہ گنڈا، نہ تعویز۔

(شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

بقول علامہ اقبال:-

؎ عمر ہا در کعبہ و بُت خانہ می نالد حیات
تا ز بزمِ عشق یک دانائے راز آید برُوں

زندگی طویل عرصے تک کعبہ اور بُت خانے میں گِریہ و زادی کرتی ہے۔ تب کہیں جا کر بزمِ عشق سے ایک دانائے راز پیدا ہوتا ہے۔

(زبورِ عجم: حصہ دوم: خضرِ وقت از خلوتِ دشتِ حجاز آید برُوں)


نوا پیرا ہو اے بُلبل کہ ہو تیرے ترنّم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا

حلِ لغات:

الفاظمعانی
نوا پیرا ہوناچہچہانا۔ مراد: جذبے اُبھارنے والے شعر کہنا
بُلبُلایک پرندہ۔ مراد: شاعر / اقبالؔ
ترنّمنغمہ، گیت
کبوترمراد: کمزور اور محکوم مسلمان
شاہیں کا جگرشاہین کی سی جرأت، شاہین کا دِل
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے بلبل! تُو نغمے گائے جا تاکہ تیرے نغموں سے کبوتر کے نازک جسم میں شاہین  کا جگر پیدا ہو جائے۔ مراد یہ ہے کہ اے اقبالؔ! جو مسلمان تیرے مخاطب ہیں وہ کبوتروں کے سے ہیں اور جو منزل درپیش ہے اُس کے لیے شاہیں درکار ہیں، چنانچہ تُو اپنا پیغامِ زندگی اُنہیں (مسلمانوں کو) سُنائے جا۔ اسی طرح اُن میں وہ دلیری پیدا ہو گی جو شاہینوں کے دلوں میں ہوتی ہے۔

یعنی بیشک مال و اسباب اور ساز و سامان کے اعتبار سے مسلمانوں کی حالت کبوتر کی سی ہے اور وہ حالات کا مقابلہ کرنے کی سَکَت نہیں رکھتے لیکن تیرے نغموں سے حاصل ہونے والے ولولے اور ہمت کے باعث یہی لوگ بہادر اور دلیر ہو کر اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتے ہیں۔


ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے
مسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی کہہ دے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
پوشیدہچھُپا ہوا
رازِ زندگیزندگی کا بھید۔ مراد: زندگی کی اصلیّت و مقصود
حدیثبات، روایت
سوز و سازجلنے اور بنانے کی حالت
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اِس مقصد کے لیے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ اے شاعر! تیرے سینے میں جو زندگی کا راز پوشیدہ ہے وہ منکشف کر دے اور مسلمانوں کو زندگی کے ان تمام نشیب و فراز سے آگاہ کر دے جو اُن کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ مراد یہ ہے کہ مِلّت کے افراد اپنی بے حسی کے سبب دینِ اسلام کے اصولوں اور تعلیمات کو جس طرح بھُلائے بیٹھے ہیں، تُو اُن کو آگاہ کر دے تاکہ وہ بیدار ہو کر اپنی سابقہ عظمت و سربلندی کا پھر سے سامان کریں۔

بند نمبر 3

خدائے لم یزل کا دستِ قُدرت تُو، زباں تُو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گُماں تو ہے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
لم یزلجس کو کبھی زوال نہ آئے
دستہاتھ
قدرتقوت، طاقت
یقیں پیدا کراپنی صلاحیتوں پر اعتماد کر، ایمان
مغلوبِ گُماںویم کا شکار، وہمی
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمان! تُو نے کبھی سوچا ہے کہ اس کائنات میں تیرا درجہ کیا ہے؟ تُو اُس خدا پاک کی قدرت کا ہاتھ اور زبان ہے جسے کبھی زوال نہیں۔ تیرے ذریعہ سے، وہ دُنیا والوں سے ہمکلام ہونا چاہتا ہے یعنی اُس نے تجھے اپنے کلام کا امین اور مبلّغ بنایا ہے۔ تیرے پاس وہ ضابطۂ حیات (قرآنِ مجید) موجود اور محفوظ ہے جو اللہ کی مشیّت کا ترجمان ہے۔ البتہ یہ ہے کہ تُو بے اعتمادی کا شکار ہے چنانچہ اپنی حقیقت کو پوری طرح جاننے کے لیے یقین و اعتماد حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ تیرا دِل شکوک و شبہات کا خزینہ بنا ہوا ہے جس کے سبب تُو حقائق کی آگاہی سے محروم رہتا ہے۔ لہذا تجھ پر لازم ہے کہ خود پر یقین و اعتماد پیدا کرے۔

؎ یقیں پیدا کر اے ناداں! یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی، کہ جس کے سامنے جھُکتی ہے فغفوری
(بالِ جبریل)


پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
پرے ہےبُلند تر ہے
چرخآسمان
چرخِ نیلی فامنیلگوں آسماں
گردِ راہراستے کی مٹی
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

کیا تجھے معلوم نہیں کہ مسلمان کی منزلِ مقصود اس نیلے آسمان سے بھی بہت آگے ہے؟ اس کے قافلے کو اتنی بلندی پر جانا چاہیے کہ ستارے راستے کا غبار بن جائیں۔ سربلندی کے ان منازل و مقامات کا اندازہ کون کر سکتا ہے؟ مراد ہے کہ قدرت نے تیرے مقام کو جو رِفعت عطا کی ہے وہ کسی دوسری قوم کو حاصل نہیں ہے۔

؎ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے اِمتحاں اور بھی ہیں
(بالِ جبریل)


مکاں فانی، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تُو، جاوداں تو ہے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
فانیفنا ہو جانے والا
مکیںرہنے والا
ازل تیرا، ابد تیرایعنی وقت تیرے قابو میں ہے
خدا کا آخری پیغاماسلام آخری اور مکمل پیغام ہے
جاوداںہمیشہ رہنے والا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

یاد رکھ! یہ دنیا فانی ہے اور اِس میں تیرا قیام (انسانی زندگی) عارضی ہے لیکن اپنی ذات کے اعتبار سے تُو غیر فانی ہے اور تیرے بعد کوئی قوم پیدا نہیں ہوگی۔ یہ سب کُچھ مِٹ جائے گا لیکن تُو خدا کا آخری پیغام ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا۔ یقین رکھ کہ دُنیا کی پیدائش سے اِس کے انجام تک جو کُچھ ہے، سب تیرا ہے۔ مبادا کسی کو غلط فہمی نہ ہو، اقبالؔ کا مقصد خدانخواستہ یہ نہیں کہ مسلمان بطورِ وجود جاودانی (ہمیشہ رہنے والا) ہے یا ازل و ابد اُس کے ہیں۔ مقصود یہ ہے کہ وہ اِس دنیا میں خدا کا آخری پیغام ہے۔ وہ قرآن پاک کی تعلیم دینے کا ذمہ دار ہے۔ اِس لحاظ سے اُ،س کا وجود اس وقت تک قائم رہے گا جب تک قرآن کی تعلیم باقی رہے گی۔ نہ کوئی اور تعلیم نازل ہوگی نہ کوئی دوسری قوم بنے گی۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر مسلمان خدا کے پیغام کا داعی نہ ہو تو اُس کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ یہی پاک تعلیم اُس کے لیے دائمی زندگی کا سامان ہے۔

نوٹ: ”ازل تیرا“ شاعرانہ اندازِ بیاں ہے۔ وگرنہ اقبالؔ انسان کو ازلی نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ بات قرآن پاک کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ چونکہ قرآن مجید اللہ تعالی کا آخری پیغام ہے اور مسلمان اُس کا حامل ہے، اس لیے وہ بھی قرآنِ حکیم سے رابطۂ قلبی کی بنا پر جاودانی ہے۔

شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی

حنا بندِ عروسِ لالہ ہے خُونِ جگر تیرا
تری نسبت براہیمی ہے، معمارِ جہاں تو ہے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
حنا بندِ عروسِ لالہدُنیا کے باغ کی دُلہن کو مہندی لگانے والا / سُرخی دینے والا
خونِ جگر تیرامراد: تیری توحید پرستی اور حُسنِ عمل یا جذبۂ جہاد
نسبتواستہ، تعلق، لگاؤ
معمارِ جہاںدُنیا کی تعمیر کرنے والا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

لالے کی دُلہن کے لیے تیرے جگر کے لہو سے مہندی کا سامان مہیا ہوتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ انسانی فطرت کی آرائش تیری ہی محنت و مشقت اور تعلیم و تربیت کی محتاج ہے۔ تجھے حضرت ابراہیمؑ سے خصوصی نسبت ہے اس لیے تو بھی دنیا کا معمار ہے، جس طرح اُنہوں نے خانہ کعبہ کی بنیادیں اُٹھائیں، تُو بھی نئی (اسلامی) دُنیا تعمیر کر۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:-

وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْـرَاهِيْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْـمَاعِيْلُ ؕرَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِـيْمُ

اور جب ابراھیم اور اسماعیل کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے، اے ہمارے رب ہم سے قبول کر، بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے۔

(القرآن: سورۃ البقرۃ: آیت نمبر 127)

واضح ہو کہ اِس بند میں یہ اور اگلے دو شعر بہت مشکل ہیں۔ مضامین نہایت بلند ہیں اور بندِش بغایت پیچیدہ ہے۔

”حنا بندِ عروس۔۔۔“ بہت بلیغ مصرعہ ہے اقبالؔ نے اس مصرع کو بالِ جبریل میں یوں باندھا ہے:-

؏ مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دِلنوازی کا

”عروسِ لالہ“ سے وہ افراد اور اشیاء مراد ہیں جن میں ترقی کی صلاحیت پائی جاتی ہے یا جن کا وجود دُنیا کے لیے زیب و زینت کا موجب ہے۔


تری فطرت امیں ہے ممکناتِ زندگانی کی
جہاں کے جوہرِ مُضمَر کا گویا امتحاں تو ہے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
امیںامانت دار
ممکناتِ زندگانیانسانی زندگی کی ممکن ہو سکنے والی چیزیں
جوہرِ مضمرچھُپا ہوا جوہر، اصلی روح
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمان! اللہ نے تیرے فطرت میں ترقی کی غیر محدود صلاحیتیں ودیعت فرما دی ہیں (ممکنات زندگی اقبالؔ کی وضع کردہ اصطلاح ہے) اس لیے تُو اپنی اہمیت کا صحیح شعور پیدا کر۔ اگر تُو نے اپنی صلاحیتوں کو برباد کر دیا، تو یہ کائنات گویا امتحان میں فیل ہو جائے گی۔ اللہ نے اس کائنات میں بہت سی نعماء مخفی کر دی ہیں۔ اگر تُو ان کو مُسخّر نہیں کرے گا تو اِس کائنات کی تخلیق کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔

گویا قدرت نے تجھے وہ قوت و صلاحیت عطا کی ہے جس سے تُو پردۂ راز میں پوشیدہ اُن چیزوں کو سامنے لا سکتا ہے جو دوسروں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ اُن چیزوں سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔


جہانِ آب و گِل سے عالَمِ جاوید کی خاطر
نبوّت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
جہانِ آب و گِلپانی اور مٹی کی یہ دُنیا، یہ کائنات
عالمِ جاویدغیر فانی دنیا، ہمیشہ قائم رہنے والی دنیا
نبوّتنبی ہونے کا درجہ
ارمغاںتحفہ
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمان! تُو وہ تحفہ ہے جس کو نبوّت اس دنیا سے عالمِ جاوید کی خاطر اپنے ساتھ لے گئی۔ اِس بلیغ شعر کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دِن اللہ سرکارِ دو عالم ﷺ سے دریافت فرمائیں گے کہ ہم نے آپ ﷺ کو جو دُنیا میں نبی بنا کر بھیجا آپ ﷺ نے وہاں کیا کارِ نمایاں سر انجام دیا؟ تو حضورِ اقدس ﷺ بارگاہِ ایزدی میں عرض کر سکتے ہیں کہ میں نے تیرے مخلص بندوں کی ایک جماعت پیدا کر دی مثلاً صدیقِ اکبرؓ، فاروق اعظمؓ، عثمان غنیؓ اور علی المرتضیؓ وغیرہم۔

لہذا اے مسلمان! تُو اپنے اندر ایمان پیدا کر لے تاکہ قیامت کے دن تیرا شمار بھی اُن مسلمانوں میں ہو سکے جن پر حضورِ انور ﷺ فخر کریں گے۔

پروفیسر یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں کہ اقبالؔ نے جب یہ شعر لکھا تھا تو اُس وقت یہ حدیث اُن کے پیشِ نظر رہی ہوگی:-

”انی اباھی بکم الامم“ یعنی میں تمہاری وجہ سے (قیامت کے دن) دوسری اُمتوں پر فخر کروں گا (کہ اے خدا میری اُمت نے سب  اُمتوں سے بڑھ کر تیرے نام کو بلند کیا ہے)

(شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

نوٹ: مندرجہ بالا حدیث کا حوالہ نہیں مِل سکا۔ اگر قارئین کو معلوم ہو تو ہمیں مطلع فرمائیں۔ شکریہ


یہ نکتہ سرگزشتِ مِلّتِ بیضا سے ہے پیدا
کہ اقوامِ زمینِ ایشیا کا پاسباں تو ہے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
سرگزشتواقعہ، کہانی، تاریخ
مِلّتِ بیضاءروشن مِلّت – مِلّتِ اسلامیہ
پیداظاہر
پاسباںمحافظ
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

مِلّتِ اسلام کی تاریخ سے یہ بنیادی نکتہ آشکارا ہوتا ہے کہ ایشیا کی سرزمیں میں جتنی بھی قومیں آباد ہیں، اُن کی حفاظت کرنے والا مسلمان کے سوا اور کوئی نہیں۔

اِس بند کے اشعار میں مسلمان کو جو بلند درجہ دیا گیا ہے، اُس کی مثال شعر و ادب کی کسی کتاب میں نہیں ملتی۔ لیکن حقیقت میں یہ تعریف مسلمان کی نہیں، خدا کے آخری پیغام اسلام کی ہے اور مسلمان کی ساری عظمت اسلام ہی کی پیروی پر موقوف ہے۔


سبَق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

حلِ لغات:

الفاظمعانی
صداقتسچائی، حق بات
عدالتعدل و انصاف
شجاعتدلیری، بہادری
امامتپیشوائی، سرداری، رہنمائی
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اس صورتِ حال میں تیرے لیے لازم ہے کہ پھر سے اپنے اسلاف کی تعلیمات کو یاد کرے یعنی سچائی، انصاف اور شجاعت کو اپنا لے جو تیرے اجداد کی خصوصیات تھیں، اس لیے کہ یہ تو طے ہے اور قدرت نے اس مرتبے کا تجھے اہل قرار دیا ہے کہ بالآخر مستقبل میں دنیا بھر کی رہنمائی اور قیادت کا ذمہ دار تُو ہی ہے۔

صداقت سے مراد یہ کہ مسلمان اس کائنات میں اُن سچائیوں کا عملی پیکر ہو، جن کی تصدیق کلام اللہ کر رہا ہے اور وہ دنیا کو اُن سچائیوں کی دعوت دیتا رہے۔

عدالت سے مقصود یہ ہے کہ خدا کے بندوں کا اِنتظام اُس کے حوالے ہو تو اپنے پرائے میں تمیز کیے بغیر سب سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرے۔

شجاعت سے مراد یہ ہے کہ جب خدا کی راہ میں  باطل قوتوں سے ٹکراؤ کا موقع آ جائے تو مسلمان عزم و ہمّت کی بے پناہ تلوار بن جائے اور دُشمنوں کی بڑی سے بڑی قوّت بھی اسے ہراساں نہ کر سکے۔

جس قوم میں یہ اوصاف پیدا ہو جائیں وہی دُنیا کی امامت کا فریضہ سر انجام دے سکتی ہے اور اسی کے لیے یہ منصب زیبا ہے۔

واضح ہو کہ یہ تینوں خوبیاں اصحاب رسولِ ﷺ میں بدرجۂ اُتم موجود تھیں۔ صداقت سیّدِنا صدیقِ اکبرؓ کا خاص وصف ہے، عدالت سّیدِنا عمرِ فارقؓ کا خاص وصف ہے اور شُجاعت سیّدِنا علی المرتضیٰؓ کا خاص وصف ہے۔ اسی طرح ”جوابِ شکوہ“ میں ایک مقام پر چاروں اصحابِ کرام کے اوصاف کا ذکر آیا ہے:

دمِ تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک
عدل اُس کا تھا قوی، لوثِ مراعات سے پاک
شجَرِ فطرتِ مسلم تھا حیا سے نم ناک
تھا شجاعت میں وہ اک ہستیِ فوق الادراک
خود گدازی نمِ کیفیّت صہبایش بود
خالی از خویش شُدن صورتِ مینایش بود
(بانگِ درا: جوابِ شکوہ)

  • صداقت: سیّدنا ابوبکر صدیقؓ
  • عدل: سیّدنا عمرِ فاروقؓ
  • حیا: سیّدنا عثمان غنیؓ
  • شجاعت: سیّدنا علی المرتضیٰؓ

بند نمبر 4

یہی مقصودِ فطرت ہے، یہی رمزِ مسلمانی
اُخُوّت کی جہاں‌گیری، محبّت کی فراوانی

حلِ لغات:

الفاظمعانی
مقصودِ فطرتقدرت کی غرض و غایت، فطرت کا منشا
رمزِ مسلمانیمسلمان ہونے کا راز / بھید
اُخوت کی جہاں گیریدُنیا میں انسانی بھائی چارے کا پھیلاؤ
جہاں گیریدُنیا کو فتح کرنا
فراوانیبہتات، کثرت
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمان! تُو سوچ کہ فطرت کا مقصد کیا ہے اور اسلامی روح کیا پیغام دیتی ہے؟ صرف یہ کہ بھائی چارے کے رشتے ساری دُنیا میں پھیل کر عام ہو جائیں اور ہر گوشے میں محبت ہی محبت نظر آئے۔ ہر شخص دوسروں کو اپنا بھائی سمجھے اور بھائیوں کی طرح اُن سے محبّت کرے۔

؎ تعصّب چھوڑ ناداں! دہر کے آئینہ خانہ میں
یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے بُرا تُو نے
(بانگِ درا: تصویرِ درد)

اقبالؔ نے اسلام کی پیروی میں دُنیا بھر کو اخوت اور محبت کا پیغام دیا لیکن خاص اس مقام پر یہ پیغام صرف مسلمانوں کے لیے ہے، جیسا کہ اگلے شعر میں واضح فرما دیا۔


بُتانِ رنگ و خُوں کو توڑ کر مِلّت میں گُم ہو جا
نہ تُورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی

حلِ لغات:

الفاظمعانی
بُتانِ رنگ و خوںرنگ اور نسل کے امتیازات – ذات پات کا فرق
مِلّت میں گُم ہو جااِتحاد و اتفاق سے ایک قوم بن جا
نہ تُورانی نہ افغانییعنی علاقائی قومیتیں ختم ہو جائیں
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

تُو رنگ اور خون کے بُتوں کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر دے اور اسلام کے سِوا کوئی رشتہ باقی نہ رہنے دے۔ نہ تو تُو تُورانی ہے، نہ ایرانی اور نہ افغانی۔ تیرا رسول ﷺ ایک ہے، تیرا قرآن ایک ہے۔ پھر چھوٹے چھوٹے گروہ کیوں بناتا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ تمام مسلمان ہر تعلق توڑ کر صرف اسلامی تعلیق اختیار نہیں کر لیتے؟ تجھے چاہیے کہ ذات، پات، نسل، خاندان اور قبیلہ کے اِمتیازات کو مٹا دے اور اپنے آپ کو ایرانی افغانی پاکستانی کہنے کی بجائے ملتِ اسلامیہ کا فرد قرار دے یعنی اپنے آپ کو کسی مُلک یا نسل سے منسوب نہ کر۔

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پَنپنے کی یہی باتیں ہیں
(بانگِ درا: جوابِ شکوہ)

واضح ہو کہ مِلّتِ واحدہ کا تصور اُسی صورت عام ہو سکتا ہے جب علاقائی حدود کو یکسر مسترد کر دیا جائے اور قومیّت کی بنیاد عقیدۂ توحید پر رکھی جائے۔


میانِ شاخساراں صحبتِ مرغِ چمن کب تک!
ترے بازو میں ہے پروازِ شاہینِ قہستانی

حلِ لغات:

الفاظمعانی
میانِ شاخساراںٹہنیوں کے درمیان
صحبتباہم مل بیٹھنا
پروازاُڑنے کی قوت
قھستانخراسان کے ایک علاقے کا نام
شاہیں قھستانیقھستان خراسان کا ایک علاقہ ہے جہاں کے شاہین مشہور ہیں
شاہینعقاب کی قسم کا ایک پرندہ جو تیز اور بلندی کی طرف اُڑتا ہے
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اِس شعر کا لفظی معنی یہ ہے کہ اے مسلمان! تُو باغ کے پرندوں کی صحبت اختیار کر کے شاخوں کے اندر کب تک بیٹھا رہے گا۔ تیرے پروں میں وہ قوت موجود ہے جو قہستانی شاہیں کے پروں میں ہوتی ہے اور اُسی کی طرح انتہائی بلندیوں پر اُڑ سکتا ہے۔

مراد ہے کہ اے مسلمان! تُو غیروں کے درمیان کب تک اپنی انفرادیت کو گُم کرتا رہے گا، جب کہ تیرے بازو میں ایسی قوت ہے کہ تُو اپنا جہاں آپ تعمیر کر سکتا ہے۔ تیری ذات تو شاہین جیسی ہے جو دوسرے پرندوں کا مارا ہوا اور پس خوردہ کھانے سے گریز کرتا ہے اور بلند پروازی کے ذریعے اپنے لیے خود ہی شکار کرتا ہے۔ تجھے چاہیے کہ عیش و عشرت کی زندگی چھوؑ کر جہد و عملی کی طرف آ اور اپنی عظمت و بقا کا سامان کر۔

دوسرے معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ جب تُو ساری دنیا فتح کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو کسی خاص خطۂ ارض پر قناعت کیوں کرتا ہے؟

؎ یہ پورب، یہ پچھم چکوروں کی دنیا
مِرا نیلگوں آسماں بیکرانہ
(بالِ جبریل: شاہین)


گماں آبادِ ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا
بیاباں کی شبِ تاریک میں قِندیلِ رہبانی

حلِ لغات:

الفاظمعانی
گُماںشک و شبہ، وہم، خیال، قیاس
بیاباںدشت، صحرا، ریگستان، جنگل، ویرانہ، اُجاڑ
شبِ تاریکاندھیری رات
قندیلشمع
قندیلِ رہبانیترکِ دُنیا کرنے والے (راہبوں) کا چراغ
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

یہ دُنیا وہم و گمان سے بھری ہوئی ہے۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے، اس میں مسلمان کے یقین و ایمان کو وہی درجہ حاصل ہے جو بیابان کی اندھیری رات میں درویش کے چراغ کو حاصل ہوتا ہے۔ جس طرح وہ بھولے بھٹکے مسافروں کو راہ دکھا سکتا ہے یا پناہ دے سکتا ہے, اُسی طرح مسلمان اس دنیا میں گمراہ انسانیت کو راہِ راست دِکھا سکتا ہے۔ یہی ایمان انسانیت کے لیے پہلا اور آخری سہارا ہے۔ یقین و ایمان سے انسان میں وہ عزم و ہمت پیدا ہوتی ہے جس کی بدولت دنیا کی تاریخ کے عظیم الشان کارنامے انجام پائے۔


مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا، زورِ حیدرؓ، فقرِ بُوذرؓ، صِدقِ سلمانیؓ

حلِ لغات:

الفاظمعانی
قیصرشہنشاہِ روپ کا لقب
کسریٰنوشیرواں بادشاہ، ایران کا لقب
اِستبدارظلم و جود سے حکومت کرنا
زورِ حیدرؓحضرت علی المرتضیؓ کی قوتِ بازو
فقرِ بوذرؓحضرت ابوذر غفاریؓ کا صبر و قناعت
صدقِ سلمانیؓحضرت سلمان فارسیؓ کا صدق و اخلاق
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

قیصر و کسریٰ اور ایران و روم کے مطلع العنان شہنشاہوں کو کس نے مِٹایا؟ حضرت علی المرتضیؓ کے زور و قوت، حضرت ابوذرغفاریؓ کے فقر اور حضرت سلمان فارسیؓ کے صدق نے۔ جو قوم خدا کی راہ میں انتہائی مردانگی سے لڑنے کے واسطے تیار نہ ہو، جو خود کم سے کم چیزوں پر قناعت نہ کر لے اور سب کے سامنے بے باکانہ سچ نہ کہے۔۔۔ وہ قوم اس دنیا میں شہنشاہی اور ظُلم و جور کو نہیں مِٹا سکتی اور نہ اسلامی نظام قائم کر سکتی ہے۔ مسلمانوں کو زور و قوت، فقر اور صدق کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اگر تم اپنے زمانہ میں ملوکیّت کو مِٹا کر اسلامی مساوات قائم کرنا چاہتے ہو تو حضرت علیؓ کا زور، حضرت ابوزرغفاریؓ کا فقر اور حضرت سلمان فارسیؓ کا صدق پیدا کر لو۔

حضرت علیؓ کی قوت ایسی تھی کہ کبھی ذاتی اغراض کے لیے متحرک نہ ہوئی اور کفر و باطل کے مقابلے میں کبھی شش و پنج کا شکار نہیں ہوئی۔

حضرت ابوذر غفاریؓ کا فقر یہ تھا کہ اُن کے نزدیک مسلمانوں کے لیے مال و زر جمع کرنا بالکل حرام تھا۔

دین کے معاملے میں حضرت سلمان فارسیؓ کے صدق کا یہ عالم تھا کہ وہ ایک زرتشی کے گھرانے میں پیدا ہوئے، راہِ حق کی تلاش میں عیسائیت اختیار کی۔ بے سر و سامانی کے باوجود ہزاورں میل کا سفر طے کرکے اور سینکڑوں مقامات پر ٹھوکریں کھانے کے بعد مدینہ منورہ پہنچے اور اسلام قبول کیا۔

پروفیسر یوسف سلیم چشتی لِکھتے ہیں کہ:-

یہ شعر افادیت کے لحاظ سے اِس نظم کا حاصل ہے۔ اگر اقبالؔ صرف یہی ایک شعر لِکھ کر اس نظم کو ختم کر دیتے تو اُن کا مقصد پورا ہو جاتا۔ میری رائے میں مسلمانوں کی سب سے بڑی نادانی یہ ہے کہ وہ دنیا میں حکمرانی کی آرزو تو رکھتے ہیں لیکن ساری دُنیا جانتی ہے کہ وہ اُس کے اہل نہیں ہیں اور وہ خود  بھی اس تلخ حقیت سے بے خبر نہیں ہیں۔ قرآن  مجید یہ فرماتا ہے کہ پہلے حکمرانی کی اہلیت پیدا کرو، پھر آرزو کرو۔ لیکن ہماری قوم کو طرزِ عمل یہ ہے کہ خود تو اسلام دے دُور کر واسطہ  بھی نہیں ہے لیکن پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے آرزومند ہیں۔

؎ سُنا ہے میں نے غلامی سے اُمّتوں کی نجات
خودی پرورِش و لذّتِ نمود میں ہے
(ضربِ کلیم: فلسطینی عرب سے)

(شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

ہُوئے احرارِ مِلّت جادہ پیما کس تجمّل سے
تماشائی شگافِ در سے ہیں صدیوں کے زِندانی

حلِ لغات:

الفاظمعانی
احرارحُر کی جمع – آزادی پسند، بے قید
احرارِ مِلّتمِلّتِ اسلامیہ کے آزاد نوجوان
جادہ پیماراستہ ناپنے والے۔ مراد راستہ چلنے والے، راستہ طے کرنے والے
تجمّلشان و شوکت
تماشائیدیکھنے والے
شگافِ دردروازے کا سوراخ
صدیوںسیکڑوں برسوں سے
زندانیقیدی
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ترکی، ایران اور افغانستان میں مِلت کی آزادی کے لیے لڑنے والے جس شان و شوکت سے اپنے سفر پر نکلے، اس کو سینکڑوں سال کے اسیر و مقید بھی اپنے اپنے قید خانوں کے سوراخوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یعنی احرارِ ملت کا ایک بہت بنیادی نوعیت کا فریضہ یہ بھی ہے کہ وہ مظلم و مقہور لوگوں کو ظُلم و جبر سے نجات دلائیں۔

اس شعر کا ایک مطلب یہ ہے سکتا ہے کہ مسلمانوں نے اِس شان کے ساتھ حکومت کی یعنی بنی آدم کو حریت کا درس دیا کہ جو لوگ صدیوں سے انسانوں کی غلامی میں مبتلا تھے، وہ بیک جنبشِ نگاہ آزاد ہو گئے مثلاً مصری، شامی، عراقی، ایرانی، اور ہندی اقوام اسلام لائیں تو وہ بُتوں، برہمنوں، ذات پات اور توہماتِ غلامی سے آزاد ہو گئیں۔


ثباتِ زندگی ایمانِ مُحکم سے ہے دنیا میں
کہ المانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تُورانی

حلِ لغات:

الفاظمعانی
ثباتِ زندگیزندگی کا وجود یا زندگی کا قیام
محکممضبوط، پُختہ، پکا
المانیجرمن
پائندہ ترزیادہ مضبوط و مستحکم
تُورانیتُوران / ترکی کا باشندہ
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

دیکھو! اِس دُنیا میں زندگی کا قیام مضبوط ایمان پر موقوف ہے، نہ کہ ساز و سامان کی زیادتی پر۔ اس کی مثال تمہارے سامنے ہے۔ جرمنی سے ساز و سامان کا مقابلہ کوئی نہ کر سکتا تھا، پس یہ ختم ہو گیا تو جرمن قوم مقابلے کی تاب نہ لا سکی اور ہار گئی۔ اس کے برعکس ترکوں کو دیکھو! اُن کے پاس ساز و سامانِ جنگ جرمنی سے بہت کم تھا، لیکن بے سامانی کی حالت میں بھی وہ لڑتے رہے۔ جرمن اپنے عہدنامۂ صلح کو بدلوا نہ سکے، لیکن ترکوں نے تلوار کے زور سے پہلا عہد نامہ پُرزے پُرزے کر ڈالا اور نیا عہد نامہ بنوا لیا جو اُن کی آزادی کا پروانہ تھا۔ گویا ایمان کی بدولت تُرک  جرمنوں کے مقابلے میں زیادہ پُختہ اور پائیدار نکلے۔

؎ کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
(بالِ جبریل)

اقبالؔ کا اشارہ اُن فتوحات کی طرف ہے جو ترکوں نے 1918ء کی شکست کے صرف چار سال بعد 1923ء میں متحدہ پر حاصل کیں۔


جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پرِ رُوح الامیں پیدا

حلِ لغات:

الفاظمعانی
انگارۂ خاکیمٹی کا دھکتا ہوا ٹُکڑا – مراد جوشیلا انسان
بال و پرِ روح الامیںحضرت جبرائیلؑ کی سی قوتِ بازو
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

بات یہ ہے کہ جب مٹی کے اِس پُتلے (انسان) میں یقین (ایمان) کی صِفت پیدا ہو جاتی ہے تو وہ جبرائیلؑ (روح الامین) کی طرح قدسی نفس اور مقربِ بارگاہِ خداوندی ہو جاتا ہے۔

بند نمبر 5

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

حلِ لغات:

الفاظمعانی
شمشیریںتلواریں
تدبیریںکوششیں
ذوقِ یقیںپکا ایمان، قوتِ ایمان
زنجیریں کٹ جاناآزادی حاصل کرنا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمانو! تُم اِس وقت غلامی کی لعنت میں گرفتار ہو۔ اِس سے نکلنے کا طریقہ، اسلامی طریقہ یہ ہے کہ تم فتنہ و فساد اور قتل و غارت کا سلسلہ شروع کرنے کی بجائے اپنے اندر ایمان کا رنگ پیدا کر لو۔ مثلاً سرکارِ دو عالم ﷺ نے مسلمانوں کے اندر پہلے ایمان پیدا کیا، پھر اللہ نے ان کو جنگِ بدر میں کامیاب کیا۔ اکبر الہ آبادی لِکھتے ہیں:-

؎ خدا کے کام دیکھو بعد کیا ہے اور کیا پہلے
نظر آتا ہے مجھ کو بدر سے غارِ حرا پہلے

یعنی پہلے ایمان، پھر جہاد۔ گویا یہ شعر اقبالؔ نے اسوۂ رسولِ مقبول ﷺ کو پیشِ نظر رکھ کر لِکھا ہے۔ راقم الحروف کا بھی یہی مسلک ہے یہ اگر مسلمان اپنے دُشمنوں سے اِنتقام لینا چاہتے ہیں تو پہلے ایمان پیدا کر لیں۔

یہ بند اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اقبالؔ نے یہاں یقین و اعتماد کے موضوع کو نسبتاً وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اُن کا نظریہ ہے کہ غلامی کے دور میں اسلحہ اور تدابیر عملاً اُس وقت تک مفلوج ہو کر رہ جاتی ہیں جب تک کہ متعلقہ قوم کے افراد یقین و اعتماد کی منزل تک نہ پہنچ جائیں۔ یہی وہ صورت ہے جو غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دِیں
عشق کے ادنیٰ غلام صاحبِ تاج و نگیں
عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں، اور یقیں فتحِ باب!
(ضربِ کلیم: علم و عشق)

یقیں، مثلِ خلیل آتش نشینی
یقیں، اللہ مستی، خود گُزینی
سُن، اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار
غلامی سے بَتر ہے بے یقینی
(بالِ جبریل)

اُٹھّو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمَرا کے در و دیوار ہِلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہُو سوزِ یقیں سے
کُنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
(بالِ جبریل: فرمانِ خدا)

؎ آگ اس کی پھُونک دیتی ہے برنا و پیر کو
لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحبِ یقیں
(ضربِ کلیم)

؎ نُقطۂ پرکارِ حق، مردِ خدا کا یقیں
اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
(بالِ جبریل: مسجدِ قرطبہ)


کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زور بازو کا!
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

حلِ لغات:

الفاظمعانی
نگاہنظر
مردِ مومنپکے ایمان والا مسلمان
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمانو! جب تمہارے اندر ایمان پیدا ہو جائے گا تو تُم دُنیا میں اسی طرح انقلاب برپا کر دو گے جس طرح تمہارے اسلاف نے پیدا کر کے دُنیا کو محوِ حیرت بنا دیا تھا، کیونکہ:

؎ ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکُشا، کارساز
(بالِ جبریل: مسجدِ قرطبہ)

اقبالؔ کہتے ہیں کہ نگاہِ مردِ مومن سے تقدیر بدل سکتی ہے۔ جب مسلمان اس شعر کو سُنتے ہیں تو بغیر سمجھے واہ واہ اور سبحان اللہ کرنے لگتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ آج تک کسی کو یہ توفیق حاصل نہ ہو سکی کہ وہ اس کا مفہوم سمجھتا اور پھر اس پر عمل کرتا۔ بات یہ ہے کہ ہم لوگ کلامِ اقبالؔ کو محض سیاسی اغراض یا گرمیٔ محفل، یا قوالی یا تقریر کی زینت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بیشک نگاہِ مردِ مومن سے تقدیر بدل سکتی ہے لیکن پہلے کوئی مسلمان کسی مومن کی صحبت میں بیٹھ کر کُچھ دنوں اُس کی کشف برداری کرکے اپنے اندر نگاہ تو پیدا کر لے۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ مغربی تعلیم کی بدولت مسلمان کی ذہنیّت اس قدر مادہ پرستانہ ہو گئی ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتا کہ:-

  • ا۔ تقدیر بھی کوئی چیز ہے۔
  • ب۔ نگاہ کی بھی کوئی اصلیّت ہے۔
  • ج۔ صحبت سے یہ چیز پیدا ہو سکتی ہے۔
  • د۔ دُنیا میں مجھ سے زیادہ قابل بھی کوئی شخص موجود ہے۔

خدا معلوم اقبالؔ کا تجربہ کیا تھا، راقم الحروف (پروفیسر یوسف سلیم چشتی) کا تیس سالہ تجربہ تو یہ ہے کہ میری قوم میں جہلِ مرکّب کی کیفیّت یہ ہے کہ معمولی پڑھا لکھا آدمی تو اپنے آپ کو ارسطو سے بڑھ کر سمجھتا ہے اور شریعت کا برائے نام پابند مسلمان اپنے آپ کو مجدد الف ثانی کا ہم پلہ شمار کرتا ہے۔۔۔ اندریں حالات نگاہ پیدا ہو تو کیسے۔۔۔


ولایت، پادشاہی، علمِ اشیا کی جہاں‌گیری
یہ سب کیا ہیں، فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں

حلِ لغات:

الفاظمعانی
ولایتولی ہونا، اللہ تعالی سے تقرب
علمِ اشیاءفلسفہ، سائنس
علمِ اشیاء کی جہاں گیریفلسفہ و سائنس پر دسترس
نُکتۂ ایماںایمان کی گہری بات / حقیقت
تفسیریںوضاحتیں، تشریحات
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

انسان کو اِس دنیا میں کن کن درجوں کی آرزو ہو سکتی ہے؟ یہ کہ اُسے ولایت کا مرتبہ مل جائے اور وہ خدا کا قرب حاصل کر لے، اسے بادشاہی اور حکمرانی نصیب ہو، اُسے اشیاء کا علم عطا ہو جائے جس سے کوئی شے باہر نہ رہے، لیکن یہ سب چیزیں کیا ہیں؟ صرف ایمان کے نُکتے کی شرحیں ہیں۔ ایمان پُختہ ہو تو سب کُچھ حاصل ہو سکتا ہے۔ ایمان پُختہ نہ ہو تو اولاً یہ حاصل نہ ہوں گی اور اتفاق سے ہاتھ آجائیں تو زیادہ دیر تک باقی نہ رہیں گی۔

تمہیں یقین نہ ہو تو عربوں کی تاریخ کا مطالعہ کر لو، اُن کو یہ سب نعمتیں حضورِ انور ﷺ کی غلامی (ایمان) کی بدولت حاصل ہو گئیں تھیں۔


براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہَوس چھُپ چھُپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں

حلِ لغات:

الفاظمعانی
براہیمی نظرحضرت ابراہیمؑ کی سی بصیرت، شانِ توحید
ہوَسلالچ، حرص
تصویریں بناناخاکہ / نقشہ بنانا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

صحیح اور پُختہ ایمان، جیسا حضرت ابراہیمؑ کی حقیقت رس نظروں نے حاصل کیا، آسانی سے ہاتھ نہیں آتا۔ انسان کی حرص آرزوؤں کی تصویریں سینوں میں بنا لیتی ہے اور اُن کی پرستش میں لگ جاتی ہے۔ خالص اللہ اور اس کے دینِ پاک کے لیے قربانیاں کرنا سہل نہیں۔ ہمیں ایسے ہی ایمان کی ضرورت ہے جو ذاتی اغراض سے پاک ہو اور جس میں دین و مخلوق کی خدمت کے سوا کوئی جذبہ کارفرما نہ ہو۔

واضح ہو کہ انسان کے اندر دُنیا حاصل کرنے کی ہوس بڑی شدت سے کار فرما ہے اور اس ناپاک مگر واقعی صفت کی بدولت، انسان زبان سے تو اسلام کا اِدِّعا (دعویٰ) کرتا ہے لیکن دل میں خدا کی بجائے اپنی ہوا و ہوس یعنی نفسانی خواہشات کی پرستِش کرتا ہے۔ واضح ہو کہ کوئی شخص، مرشد کی صحبت کے بغیر اس دشمن پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتا۔ حضرت علیؓ، حضرت ابوذر غفاریؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ میں ایمان کا رنگ ذاتی کوشش کی بنا پر پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ یہ کسی مردِ مومن کی نگاہ کا فیض تھا۔ پس اگر مسلمان ”ہوس“ کے بُت کو توڑنا چاہتے ہیں تو کسی مومن کی صحبت میں بیٹھ کر اپنے بازہ میں طاقت پیدا کر لیں۔ اگر استاد کی تعلیم اور اکھاڑے کی ورزش کے بغیر کوئی شخص اپنے مادی حریف کو چِت نہیں کر سکتا تو مُرشد (استاد) کی نگاہ (تعلیم) اور خانقاہ (اکھاڑا) میں مجاہدہ (ورزش) کے بغیر کوئی شخص اپنے روحانی دشمن کو کیسے شکست دے سکتا ہے؟ اے مسلمانو! یاد رکھو جو شخص تمہیں بزرگانِ دین کی صحبت سے روکتا ہے، وہ تمہار بدترین دُشمن ہے۔

اب کوئی شخص اللہ والا ہے یا نہیں، یہ صرف اُسی وقت معلوم ہو سکتا ہے جب اُسے قرآن و سُنت کی روشنی میں پرکھا جائے، کیونکہ:-

؎ اے بسا ابلیس آدم روئے ہست
پس بہ ہر دستے نباید داد دست

کبھی کبھی شیطان بھی مشائخ کی شکل بنا لیتے ہیں، پس اُن کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے سے بچو۔

(مولانا جلال الدین رومی)


تمیزِ بندہ و آقا فسادِ آدمیّت ہے
حذَر اے چِیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

حلِ لغات:

الفاظمعانی
تمیزِ بندہ و آقاغلام اور آقا میں فرق کرنا
فسادِ آدمیّتانسانیت کا بگاڑ / تباہی
حذرڈرو، پرہیز کرو
چیرہ دستظلم و ستم کرنے والا
فطرت کی تعزیریںفطرت کی سزائیں – قانونِ مکافاتِ عمل
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمانو! ذات پات، قوم، قبیلہ اور برادریوں کے اِمتیازات اور بندہ و آقا کی تمیز کو مِٹا دو۔ یہ امتیازات انسانیّت کے حق میں سمِ قاتل ہیں۔ یاد رکھو! قرآن کی رو سے کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا آقا یا غلام نہیں ہو سکتا۔ تم سب کا ایک ہی آقا ہے اور وہ ﷺ۔۔ کیا اُس ﷺ کا نام بتانے کی ضرورت ہے؟

؎ وہ دانائے سُبل، ختم الرُّسل، مولائے کُلؐ جس نے
غُبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
(حوالہ: بالِ جبریل)

دوسرے مصرع میں اقبالؔ نے اُن سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو، جو مظلوم، بے کس اور بے زبان مزدوروں اور کاشتکاروں کو اپنا زرخرید غلام سمجھتے ہیں اور اُن کی عورتوں کی بے عزتی کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں، متنبہ کیا ہے کہ اگر تُم اپنی حرکاتِ ملعونہ سے باز نہیں آؤ گے تو فطرت تمہیں مِٹا کر رکھ دے گی۔

ان بطش۔۔ بیشک تیرے رب کی گرفت (بازپرس) بہت ہی سخت ہوتی ہے۔

اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌ

بے شک تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔

(القرآن: سورۃ البروج: آیت نمبر 12)

؎ ہر لحظہ ہے قوموں کے عمل پر نظر اُس کی
بُرّاں صفتِ تیغِ دوپیکر نظر اُس کی
(ضربِ کلیم: تقدیر)


حقیقت ایک ہے ہر شے کی، خاکی ہو کہ نُوری ہو
لہُو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چِیریں

حلِ لغات:

الفاظمعانی
حقیقتاصلیت، سچائی
خاکیمٹی کا بنا ہوا، انسان
نورینور کا بنا ہوا، فرشتہ
لہوخون
خورشیدسورج
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمانو! بندہ اور آقا کا امتیاز ظالم، خودغرض اور بدکار انسانوں کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اللہ نے تو سب کو یکساں بنایا ہے، بلکہ کائنات میں ہر شے کی اصل و بنیاد ایک ہی ہے۔ بظاہر آفتاب اور ذرہ میں بڑا فرق نظر آتا ہے لیکن در حقیقت ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یا یوں سمجھو کہ ان دونوں کی حقیقت ایک ہی ہے۔ آفتاب بھی مادّی ہے، ذرہ بھی مادّی ہے۔ وہ بھی مخلوق اور مجبور، یہ بھی مخلوق اور مجبور ہے۔

رسولِ پاک ﷺ کا ارشاد ہے کہ تم سب لوگ آدمؑ کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ کوئی وجود خاکی ہو یا ناری ہو، سب کی اصل ایک ہے۔ اگر ذرے کا دِل چیز کر دیکھیں تو اُس میں سے خون ٹپکنے لگے۔ مراد یہ کہ اگرچہ ذرہ سورج کے مقابلے میں ہیچ ہے، لیکن جب ان کی اصل ایک ہے تو پھر فرق کیوں کیا جائے؟

آج کل کی اصطلاحات سے متاثر ہونے والے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ اقبالؔ نے اس شعر میں ایک بہت بڑی حقیقت بیان کر دی جو بائیس چوبیس برس بعد سائنس کی تحقیقات سے پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی یعنی جوہری قوّت کی ایجاد۔ یہ قوّت ذرّے کی تحلیل سے پیدا ہوتی ہے، لیکن اس درجہ بے پناہ ہے کہ بڑی بڑی آبادیوں کو چشمِ زدن میں بھسم کر کے رکھ دیتی ہے۔ اس حوالے سے ادارہ آدھی بات کی تحقیق پیش ہے:-

اقبالؔ صاحب کی نظم ”طلوعِ اسلام“ کا یہ شعر”نیوکلیئر فشن ری ایکشن“ کی عکاسی کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔

واقعہ کُچھ یوں ہے کہ جب اوٹوہان (Otto Hahn) اور سٹراس مین (Fritz Strassmann) نے یورینیئم (Uranium) کے آئسوٹوپ یورینیئم-235 پر کم رفتار کے نیوٹران (Neutron) کی بوچھاڑ کی تو یورینیئم کا یہ نیوکلیئس (Nucleus) دو نیوکلیائی (Nuclei) میں ٹوٹ گیا اور انرجی خارج ہوئی۔ اِس عمل کو ”فشن ری ایکشن“ کہتے ہیں جس کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ: ”ایسا ری ایکشن جس میں ایک بھاری نیوکلیئس دو یا اُس سے زیادہ چھوٹے نیوکلیائی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور انرجی خارج ہوتی ہے۔“

اِس دریافت نے نیوکلیئر فزکس کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ واضح ہو کہ ایٹم بم میں ”فشن ری ایکشن“ ہی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ لاتعداد نیوکلیائی ٹوٹتے ہیں، جس سے اس قدر تباہ کُن انرجی خارج ہوتی ہے۔ ∆∆

ایٹم بم میں جب ایک آزاد نیوٹران (Neutron) یورینیم (Uranium) یا پلوٹونیم (Plutonium) جیسے تابکار (Radioactive) مادے کے ایٹم کے مرکز پر حملہ کرتا ہے، تو یہ دو یا تین مزید نیوٹرانوں کو وہاں سے آزاد کر دیتا ہے۔ توانائی اُس وقت خارج ہوتی ہے جب وہ نیوٹران نیوکلئس (Nucleus) سے الگ ہو جاتے ہیں۔ نکلنے والے یہ نئے نیوٹران دوسرے یورینیم یا پلوٹونیم نیوکلیائی (Nuclei) پر حملہ کرتے ہیں، اسی طرح ان کو تقسیم کرتے ہیں، زیادہ توانائی اور مزید نیوٹران آزاد کرتے ہیں۔ یہ ردِ عمل تقریباً فوری طور پر (Instantly) پھیلتا ہے اور انرجی کی ایک بڑی مقدار خارج ہوتی ہے۔ ∆∆∆

”فشن ری ایکشن“ نیوکلیئر پاور پلانٹس میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی تقریباً بیس فیصد بجلی نیوکلیئر پاور پلانٹس سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بحری بیڑے اور سبمرین (submarine) وغیرہ بھی نیوکلیئر انرجی سے استعفادہ کرتے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ نظم ”طلوعِ اسلام“ 1923ء میں انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں پڑھی گئی جبکہ ”فِشن ری ایکشن“ کی دریافت 19 دسمبر 1938ء میں وقوع پزیر ہوئی۔ ∆∆∆∆

حوالہ جات:

https://bit.ly/3R7ZJsz

∆∆ https://bit.ly/3feaUm8

∆∆∆ https://bit.ly/2Ocf2zM

∆∆∆∆ https://bit.ly/3xMeESp

فشن ری ایکشن کی دریافت کا سن اس صفحہ سے لیا گیا ہے:

https://bit.ly/3xLyPjd

طلوعِ اسلام کا سن ذیل شُرُوح سے لیا گیا ہے:

  • مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر
  • شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد

یقیں محکم، عمل پیہم، محبّت فاتحِ عالم
جہادِ زِندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

حلِ لغات:

الفاظمعانی
یقیں محکمپکا ایمان
عمل پیہممسلسل اور لگاتار جدوجہد
محبت فاتحِ عالمدُنیا کو فتح کرنے والی محبت
جہادِ زندگانیزندگی کی کشمکش
شمشیریںشمشیر کی جمع، تلوار
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمانو! اگر تم اپنے اندر یقینِ محکم، عملِ پیہم اور محبت، یہ صفاتِ سہ گانہ پیدا کر لو تو تُم ساری دُنیا کو فتح کر سکتے ہو۔

زندگی کے جہاد میں مردانِ خُدا کی یہ تلواریں کیا ہیں؟ محض یہ کہ خدا پر اور اپنے مقاصد کی سچائی پر پکا ایمان، اس کے مطابق لگاتار کوشش اور ایسی محبت جو زمانے بھر کو مسخّر کر لے۔ ”یہی تلواریں“ تھیں جن کی بدولت مسلمان ابتدائی دور میں کامیابی کی معراج پر پہنچے تھے۔ اُن کے پاس ساز و سامان نہ تھا۔ بڑے بڑے خزانے بھی نہ تھے، تربیت یافتہ فوجیں بھی نہ تھیں، لیکن خدا پر ایمان پُختہ تھا۔ کتاب اللہ کی بیان کی ہوئی سچائیوں پر اُن کا عقیدہ اُستوار ہو چُکا تھا۔ اِنہیں سچائیوں کو دُنیا میں پھیلانے کے لیے وہ لگاتار جدوجہد کرتے رہے۔ پھر خدا کی مخلوق سے اُنہیں دِلی محبت تھی۔ جہاں گئے، انسانوں کے لیے راحت و آسائش، عدل و انصاف، بہبود و خیر خواہی کے ایسے سامان فراہم کر دیے جو دُنیا نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ یہی چیزیں آج کے مسلمانوں کے لیے کامیابی کے گُر ہیں۔ اِن ”تلواروں“ کا مقابلہ نہ توپیں کر سکتی ہے اور نہ ایٹم بم۔


چہ باید مرد را طبعِ بلندے، مشربِ نابے
دلِ گرمے، نگاہِ پاک بینے، جانِ بیتابے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
طبعِ بلندبلند فطرت
مشربِ نابمحبتِ الہی سے سرشار دِل
دلِ گرمےعشقِ رسول اللہ ﷺ سے گرم دِل
نگاہِ پاک بینےہمیشہ پاکیزگی پر رہنے والی نگاہ
جانِ بے تابےروح کی تڑپ اور سوز و گُداز
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمانو! جہاد میں ایک سپاہی (مرد) کو بندوق اور رائفل سے بدرجہا زیادہ طبعِ بلند، مشربِ ناب، دلِ گرم، نگاہِ پاک بیں اور جانِ بے تاب کی ضرورت ہے۔

  • طبعِ بلند: ایک مردِ مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اُس کی فطرت بلند ہو اور وسیع نظر والا ہو
  • مشربِ ناب: اُس کا دِل محبّتِ الہی سے سرشار ہو
  • دِلِ گرمی: اُس کا دِل عشقِ رسول ﷺ سے گرم ہو
  • نگاہِ پاک بینی: اُس کی نگاہ ہمیشہ پاکیزگی پر رہے
  • جانِ بے تابے: اُس کی روح میں سوز و گداز اور تڑپ ہو

اقبالؔ کی فراست کی داد دینی پڑتی ہے کہ اُنہوں نے اس فہرست میں تمام وہی باتیں گِنائی ہیں جو ہماری قوم میں ناپید ہیں۔ مثلاً ہماری:-

(1) طبیعت کی بلندی کا یہ عالم ہے کہ چند روپیوں کے زیورات کے لیے ہم ایک معصوم لڑکی کا قتل کر سکتے ہیں۔

(2) مشرب کی پاکیزگی کا حال یہ ہے کہ سرے سے ہمارا کوئی مشرب ہی نہیں ہے۔

؎ ایمان بیچنے پہ ہیں اب سب تُلے ہوئے
لیکن خرید ہو جوعلی گڑھ کے بھاؤ سے

(3) دل کی گرمی کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ اُس میں حضورِ انور ﷺ کے تصور کی گنجائش ہی نہیں ہے اور جب محبت ہی نہیں تو پھر گرمی کا ذکر خارج از بحث ہے۔

(4) نگاہِ پاک بیں کی کیفیت یہ ہے کہ مسلمانوں نے اگست 1947ء سے پاک اور ناپاک کی تمیز ہی اُٹھا دی ہے۔

؏ جو گنہ کیجیے ثواب ہے آج

(5) اب رہی ”جانِ بیتاب“ تو آج قوم کی زندگی ہی میں کلام ہے۔ بے تابی کا مسئلہ تو اس کے بعد زیرِ بحث آئے گا۔

؎ دیکھ آئے قوم سنتے تھے جسے!
چند لڑکے ہیں مشن اسکول کے
(اکبر مرحوم)

بند نمبر 6

عقابی شان سے جھپٹے تھے جو، بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خُونِ شفَق میں ڈُوب کر نکلے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
عقابی شانمراد رعب و دبدبہ – جرمنوں کی طرف اشارہ ہے
بے بال و پر نکلےاُڑنے سے عاری، مار کھا گئے
شفقسُرخی جو طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کے وقت اُفق پر نمودار ہوتی ہے
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

تمہیں مسلمانوں کی شانِ استواری اور بلندی میں کوئی شبہ ہے؟ یہ دیکھو، جرمن جن کے جھنڈوں کا نشان عقاب تھا، عقابی شان سے اپنے دشمنوں پر حملہ آور ہوئے تھے لیکن لڑائی ختم ہوئی تو یہ ظاہر ہو گیا کہ وہ بال و پر نچوا بیٹھے۔ دوسری طرف نگاہ ڈالو کی سرزمینِ شام کے ستارے یعنی ترک شفق کی لہر میں ڈوب پر پھر اُبھر آئے۔

جیسا کہ شرح میں عرض کیا گیا، عقابی شان کے ساتھ جھپٹنے والوں سے اشارہ جرمنوں کی طرف ہے، جن کی ابتدائی فتوحات نے (پہلی جنگِ یورپ) ساری دُنیا پر کپکپی طاری کر دی تھی، لیکن چار سال میں اس کی قوت زائل ہو گئی اور وہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ برطانیہ، فرانس اور امریکہ نے جو صُلح نامہ اُن کے سامنے پیش کیا، اُسے چُپ چاپ قبول کر لیا۔ شام کے ستاروں سے مراد ترک ہیں اور لفظ شام لفظ اور سرزمین دونوں کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ترکوں کے پاس ویسی قوت ہرگز نہ تھی جیسی جرمنوں کے پاس تھی۔ ان بے چاروں کا خون بڑی بے دردی سے بہایا گیا۔ اُنہوں نے بھی ہتھیار ڈالے، لیکن اس شرط پر کہ ان کی آزادی بحال رہے گی۔ جب اتحادیوں نے اس آزادی کو مجروح کرنا چاہا تو ترک تلوار سنبھال کر کھڑے ہو گئے اور آزادی کو محفوظ کر چُکنے کے بعد ہی آرام سے بیٹھے۔


ہُوئے مدفونِ دریا زیرِ دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو، بن کر گُہر نکلے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
مدفوندفن
زیرِ دریا تیرنے والےیونانیوں کی آبدوزیں جنہیں ترکوں نے تباہ کر دیا تھا
طمانچےتھپیڑے
گُہرموتی
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

جن کی آبدوزیں سمندر کے نیچے ہر جگہ دوڑتی پھرتی تھیں یعنی جرمن، وہ سمندر ہی میں دفن ہو گئے، یعنی اپنے بچاؤ کے لیے کُچھ بھی نہ کر سکے۔ اِس کے برعکس ترکوں کو دیکھو کہ وہ ہر جگہ لہروں کے طمانچے کھا رہے تھے اور بظاہر اُن کی حالت بہت خستہ نظر آتی تھی، لیکن اُنہیں مصیبتوں کے طوفانوں میں سختیاں سہتے سہتے وہ موتی بن گئے اور آج اُن کی آب و تاب سے دُنیا کی نگاہوں میں چکا چوند پیدا ہو رہی ہے۔ اس شعر میں بھی جرمنوں اور ترکوں ہی کا مقابلہ کیا ہے، اگلے دو شعروں میں بھی یہی کیفیت ہے۔


غبارِ رہ گزر ہیں، کیمیا پر ناز تھا جن کو
جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو، اِکسیر گر نکلے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
غبارِ رہ گزرراستے کی مٹی / خاک
کیمیاکیمسٹری، زر سازی
ماتھاماتھا
اکسیر گرکیمیا گر، سونا بنانے والا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

جس قوم کو سائنس کے علوم میں کمال کا درجہ حاصل تھا وہ راستے کا غبار بن کر رہ گئی، لیکن جس قوم کی پیشانیاں خدا پاک کے روبرو سجدہ ریز ہوتی تھیں، وہ اکسیر بنانے والی ثابت ہوئی۔

فارسی ادب میں ”کیمیا“ سے وہ علم مراد ہے جس سے اکسیر بنائی جاتی ہے اور اکسیر مٹی یا معمولی دھاتوں کو سونا بنا دیتی ہے۔ یہاں کیمیا سے مراد کیمسٹری، طبعیات اور سائنس کے دوسرے علوم ہیں۔

راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب 1922ء میں فتح سمرنا کی خبر اخباروں میں شائع ہوئی تھی تو بریلی کی کوئی مسجد نہ تھی جس میں مسلمانوں نے گھی کے چراغ نہ جلائے ہوں۔

شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی

ہمارا نرم رو قاصد پیامِ زندگی لایا
خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
نرم رو قاصدآہستہ چلنے والا پیامی
پیامِ زندگی لایامسلمانوں کی بیداری کا سبب بنا
خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاںمراد یونانی فوج جو فون اور ٹیلی گراف سے لیس تھی
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

بیشک ترکوں کے پاس نہ لاسکی (wireless) کا انتظام تھا نہ تلغراف (telegraph) کا نہ ٹیلی فون کا۔۔ لیکن اس کے باوجود اُنہوں نے ان دشمنوں کے دانت کھٹے کر دیے جو جدید ترین آلاتِ حرب سے مسلح تھے۔


حرم رُسوا ہُوا پیرِ حرم کی کم نگاہی سے
جوانانِ تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
حرم رُسوا ہواعربوں کی غداری کی طرف اشارہ ہے
پیرِ حرمیعنی حجاز کا گورنر شریفِ مکہ جس نے غداری کی
کم نگاہیتنگ نظری، پست ہمتی
جوانانِ تتاریترک جوان
صاحب نظراہلِ بصیرت
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

عربوں کے ماتھے پر اگر مِلّت سے غدّاری اور اسلام سے بے وفائی کا داغ لگا تو یہ سب شریفِ مکہ (حجاز کا گورنر) کی کم نگاہی یعنی عاقبت نااندیشی اور خودغرضی کا نتیجہ تھا، کہ اُس نے ترکوں کے خلاف اجنبیوں سے ساز باز کر لی اور اسلامی مقاصد کو نقصان پہنچایا۔ وہ اپنی بادشاہی کی حرص میں سب کچھ کرنے پر آمادہ ہوا تھا، اُسے جو بادشاہی ملی وہ دوسروں کی سرپرستی کی محتاج تھی۔ لیکن ترک جوانوں کو دیکھو! انہوں نے حقیقتِ حال کا صحیح اندازہ کیا اور ہمت و جواں مردی سے کام لیتے ہوئے اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر کافروں کا مقابلہ کیا اور اپنی آزادی بہ زورِ شمشیر سب سے منوا لی۔ یہ اُن کی صاحب نظری کا ایک روشن ثبوت ہے۔

اس کے برعکس حسین شریفِ مکہ نے تو لُٹیا ہی ڈبو دی۔ اسلام کو رُسوا کر دیا کہ کافروں کے ساتھ مِل کر اُس قوم کا سینہ گولیوں سے چھلنی کر دیا جس نے حرمین شریفن کی حفاظت کے لیے صدیوں تک اپنا خون پانی کی طرح بہایا۔

طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح
حسین ابن علی (شریفِ مکہ)

زمیں سے نُوریانِ آسماں پرواز کہتے تھے
یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
نوریانِ آسماں پروازآسمانوں پر اُڑنے والے، نوری مخلوق، فرشتے
یہ خاکییہ مٹے کے بنے ہوئے انسان، مراد ترک
زندہ ترزیادہ جان دار
پائندہ ترثابت قدم، مضبوط
تابندہ ترزیادہ روشن
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

یہی وجہ ہے کہ دنیائے اسلام میں جس قدر سچے مسلمان موجود تھے، وہ سب، اور جس قدر فرشتے زمین سے آسمان تک جاتے تھے، وہ سب یہی کہتے تھے کہ واقعی ترک تو بڑے ثابت قدم، بڑے جانباز اور بڑے حوصلہ مند ثابت ہوئے۔


جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈُوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈُوبے اِدھر نکلے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
صورتِ خورشیدسورج کی طرح
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

ایمان والے لوگ اس دُنیا میں سورج کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ پرانی دنیا میں ڈوبے تو نئی دنیا میں جا نکلے، نئی دنیا میں ڈوبے تو پرانی دنیا میں آ نکلے۔ مراد یہ ہے کہ اِن کی کسی شکست کو شکست نہ سمجھنا چاہیے۔ وہ ایک میدان میں شکست کھاتے ہیں تو قوتِ ایمان کے بل پر دوسرے میدان میں فتح حاصل کر کے پہلی شکست کی تلافی کر لیتے ہیں۔ ان کے لیے سورج کی مثال نہایت ہی پاکیزہ مثال ہے۔

حقیقت بھی یہ ہے کہ جن لوگوں کے دِلوں میں ایمان کی چنگاری پوشیدہ ہوتی ہے وہ دُنیا میں آفتاب کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ اِدھر ڈُوبے اُدھر نکلے یعنی اگر 1918ء میں شکست کھائی تو 1922ء میں شکست دے دی۔


یقیں افراد کا سرمایۂ تعمیرِ مِلّت ہے
یہی قوّت ہے جو صورت گرِ تقدیر مِلّت ہے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
یقیںایمان، خود اعتمادی
سرمایۂ تعمیرِ مِلّتپوری قوم کی سربلندی اور ترقی کا سبب
صورت گرصورت بنانے والا / والی، نقاش، مصور
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

حق بات تو یہ ہے کہ افراد کا یقین ہی وہ سرمایہ ہے جو مِلّت کی تعمیر کا باعث بنتا ہے۔ اگر افراد کے دِلوں میں یقین (ایمان) کا رنگ موجود ہو تو قوم اگر کسی معرکہ میں ناکام بھی ہو جائے تو دوبارہ کُچھ عرصہ کے بعد کامیاب ہو سکتی ہے۔ یہ صفتِ یقین وہ قوت ہے جس کی بدولت کسی قوم کی بگڑی ہوئی تقدیر بن جاتی ہے۔

بند نمبر 7

تُو رازِ کن فکاں ہے، اپنی انکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا

حلِ لغات:

الفاظمعانی
رازِ کُن فکاںکائنات کو پیدا کرنے کا راز
رازداںمحرمِ اسرار
خدا کا ترجماںتوحیدِ خداوندی سے آگاہ ہو کر دوسروں کو بتانے والا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے ہندی مسلمان! ترکوں کی زندگی سے سبق لے۔ اگر وہ آزاد ہوگئے تو تُو بھی آزاد ہو سکتا ہے۔ بس اس کی صورت یہ ہے کہ تُو:-

  • ا۔ پہلے اپنی حقیقت سے آگاہی حاصل کر کہ تُو مقصدِ تخلیقِ کائنات ہے۔
  • ب۔ اس کے بعد اپنی خودی کی صحیح طریق پر (اور عشقِ رسول ﷺ کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں ہے) تربیت کر
  • ج۔ اس کے بعد دُنیا میں حکومتِ الہیہ قائم کر دے

نوٹ: واضح ہو کہ یہ شعر بہت تفصیل طلب ہے۔ میں نے صرف مطلب بیان کر دیا ہے۔ اس کی وضاحت کروں تو بذات خود ایک کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ ہاں اگر قوم نے کبھی اشتیاق ظاہر کیا تو یہ خدمت بسر و چشم انجام دوں گا۔

(شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
اُخُوّت کا بیاں ہو جا، محبّت کی زباں ہو جا

حلِ لغات:

الفاظمعانی
ہوَسلالچ، حرص
نوعِ انساںمراد تمام انسان، تمام انسانوں کی جماعت
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمان! اس وقت تمام دُنیا اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کر رہی ہے۔ ہر شخص نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ حرص و ہوس نے بنی نوع انسان کو ٹُکڑے ٹُکڑے کر ڈالا، وہ گروہوں میں بٹ گئے۔ کہیں نسلی گروں ہیں، کہیں جغرافیائی، کہیں ذات پات کی تفریق ہے، کہیں رنگ اور مذہب کی۔ پس تُو ان سب کو اخوت اور برادری کا پیغام پہنچا اور محبت کی زبان بن کر اُنہیں آپس میں جوڑ دے۔


یہ ہندی، وہ خُراسانی، یہ افغانی، وہ تُورانی
تُو اے شرمندۂ ساحل! اُچھل کر بے کراں ہو جا

حلِ لغات:

الفاظمعانی
شرمندۂ ساحلمراد خاص علاقے تک خود کو محدود کرنے والا
بے کراں ہو جاوسیع یعنی علاقئی حدود سے آزاد ہو جا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

خود مسلمانوں کی حالت دیکھ، ایک گروں ہندیوں کا ہے، دوسرا خراسانیوں کا۔ کوئی اپنے آپ کو افغان کہتا ہے، کوئی تورانی، یہ اوٹیں ہیں جو انہوں نے خود کھڑی کی ہیں۔ تُو سمندر ہے اچھل اور اوٹوں کو توڑتا ہوا ایسی وُسعت اختیار کر لے کہ کسی کو تیرے کناروں کا پتا نہ لگ سکے۔ یعنی ان چھوٹی چھوٹی حدبندیوں کو توڑ کر اسلام کے رشتہ میں جوڑ دے اور ایسی ملت بنا دے جو ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہو۔ یعنی تُو ان کو وحدتِ ملی کا درس دے اور جغرافیائی حدود و قیود سے بالا تر ہو کر ان کے اندر آفاقیّت (عالمگیریّت) کی شان پیدا کر دے۔ واضح ہو کہ اسلام نے تمام جغرافیائی حدود کو باطل کرکے مسلمانوں کو ایک عالمگیری قوم بنا دیا ہے۔

؎ بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے
(بانگِ درا: وطنیّت)


غبار آلودۂ رنگ و نَسب ہیں بال و پر تیرے
تُو اے مُرغِ حرم! اُڑنے سے پہلے پَرفشاں ہو جا

حلِ لغات:

الفاظمعانی
غبار آلودۂ رنگ و نسبتنگ نظری کی مٹی میں اٹا ہوا
بال و پرمراد قوتیں اور صلاحیتیں
مُرغِ حرمحرم کا پرندہ، مراد مسلمان
پر فشاں ہوناپروں کو جھاڑنا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

تُو کعبے کا پرندہ ہے لیکن تیرے بال و پر رنگ و نسل کے غبار سے اٹ گئے ہیں۔ اے پرندے! تُو اُڑنے سے پہلے ان پروں کو جھاڑ لے، یعنی رنگ اور نسب کا امتیاز مِٹا کر رکھ دے۔


خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سِرِّ زندگانی ہے
نکل کر حلقۂ شام و سحَر سے جاوداں ہو جا

حلِ لغات:

الفاظمعانی
سِرراز
حلقۂ شام و سحرزمانے کا چکر
جاوداںہمیشہ کی زندگی پانے والا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمان! اپنی خودی کی معرفت حاصل کر لے کیونکہ تیری ”خودی“ حیات کا راز ہے۔ زندگی کی حقیقت اسی میں پوشیدہ ہے۔ اور تیری زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ تُو اپنی خودی سے آگاہ ہو جائے۔

؎ یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
(بالِ جبریل: ساقی نامہ)

یاد رکھ! جب تُو اپنی خودی کی معرفت حاصل کر لے گا تو اُس وقت تجھ میں اس قدر طاقت حاصل ہو جائے گی کہ تُو زمان و مکان کی قید سے نکل سکے گا اور جو شخص زمان و مکان سے بالا تر ہو جاتا ہے وہ (جیسا کہ سب جانتے ہیں) حیاتِ جاوداں (ہمیشہ کی زندگی) حاصل کر لیتا ہے۔


مَصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر
شبستانِ محبّت میں حریر و پرنیاں ہو جا

حلِ لغات:

الفاظمعانی
مصافِ زندگیزندگی کا میدانِ جنگ
سیرتِ فولادفولاد کی سی خصلت / خوبی، مصیبتوں میں بھی ثابت قدم رہنے کی عادت
شبستانامیروں کے رات بسر کرنے کی جگہ
شبستانِ محبتمحبت کا محل
حریر و پرنیاںریشم و دیبا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمان! زندگی کی جنگ یا جد و جہد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے تجھے اپنے آپ کو فولاد کی طرح مضبوط بنانا چاہیے یعنی مصائب برداشت کرنے کی طاقت پیدا کرنی چاہیے لیکن جب تُو اپنے بھائیوں (مسلمانوں) سے ملے تو ریشم کی طرح نرم ہوجا۔ یعنی اُن سے نرمی کا برتاؤ کر۔ یہ مضمون اس آیت سے ماخوذ ہے:-

مُّحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّـٰهِ ۚ وَالَّـذِيْنَ مَعَهٝٓ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَـمَآءُ بَيْنَـهُـمْ ۖ

بے شک (حضرتِ اقدس) محمد ﷺ اللہ کے (سچے) رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں، یعنی (مسلمان) اس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ لافروں کے مقابلہ میں (فولاد کی طرح) سخت ہیں (لیکن) آپس میں ایک دوسرے پر مہربان ہیں۔

(القرآن: سوۃ الفتح: آیت نمبر 29)

اسی مضمون کو اقبالؔ نے اپنی نظم ”مومن“ میں یوں ادا فرمایا ہے:-

؎ ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
(ضربِ کلیم: مومن)


گزر جا بن کے سیلِ تُند رَو کوہ و بیاباں سے
گلستاں راہ میں آئے تو جُوئے نغمہ خواں ہو جا

حلِ لغات:

الفاظمعانی
سیلِ تند روپانی کا تیز چلنے والا طوفان
کوہ و بیابانپہاڑ ار اُجاڑ
گُلستاںباغ، یعنی مسلمانوں کی جماعت
جُوئے نغمہ خواںگاتی ہوئی ندی، مراد فائدہ پہنچانے والا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

پہاڑ اور بیابان راستے میں آ جائیں تو تند و تیز سیلاب کی طرح گزر جانا چاہیے۔ اگر کہیں باغ سامنے آ جائے تو وہ ندی بن جانا چاہیے جس کی رفتار سے نغمے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ دراصل پہلے شعر کے مضمون کو نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

یعنی اے مسلمان! اگر کوئی دشمن تیرے سامنے کوہ بن کر آئے تو اُس کا مقابلہ کر، لیکن اگر کوئی شخص تجھ سے دوستی کرے تو اُس کو فائدہ پہنچا، اُس کے ساتھ حُسنِ سلوک کر۔


ترے علم و محبّت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت میں نَوا کوئی

حلِ لغات:

الفاظمعانی
سازِ فطرتقدرت کا ساز
نواآواز، صدا، نِدا، سُر
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمان! تیرے علم اور محبت کی کوئی حد نہیں۔ یہ دو نعمتیں جو تجھے عطا ہوئی ہیں، کسی دوسرے کو عطا نہیں ہوئیں۔ یقین رکھ کہ فطرت کے ساز میں تجھ سے بہتر کوئی نغمہ نہیں۔ علم سے مراد وہ علم ہے جس انبیاء کے ذریعے سے انسان کو مِلا اور اس میں حقائقِ اشیاء کا علم بھی شامل ہے۔ محبت سے مراد ہے خدائے پاک سے محبّت جس کی بدولت انسانوں میں خلقِ خدا کے لیے شفقت پیدا ہوتی ہے۔

پروفیسر یوسف سلیم چشتی اس شعر کی تشریح میں لکھتے ہیں:-

اے مسلمان! تجھے اللہ نے دو قوتیں عطا فرمائی ہیں، فکر اور ذکر۔ قوت فکر کی بدولت تو علم حاصل کر سکتا ہے اور قوتِ ذکر کی بدولت تجھ میں عشقِ رسول ﷺ کا رنگ پیدا ہو سکتا ہے اور اس حقیقت کو مدِ نظر رکھ کہ نہ تیرے علم کی کوئی انتہا ہے نہ عشق کی کوئی نہایت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تُو کائنات میں اشرف المخلوقات ہے، تُو اس کائنات کا حاکم اور سردار ہے اس لیے اللہ نے تجھ کو یہ دو طاقتیں ایسی عطا فرمائی ہیں جو ذات کے اعتبار سے غیر محدود ہیں۔

(شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

بند نمبر 8

ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہریاری ہے
قیامت ہے کہ انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
صیدشکار
صیدِ زبوںعاجز شکار
شہریاریبادشاہت، حکومت، ملوکیت
قیامت ہےکتنے دُکھ کی بات ہے
شکاریظلم و ستم کرنے والا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمان! یہ بات تیرے لیے کیا باعثِ خجالت (شرمندگی، ندامت) نہیں ہے کہ تُو نے ابھی تک دُنیا سے ملوکیت کا خاتمہ نہیں کیا، جس کی وجہ سے انسان آج بھی حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہو سکا۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ انسان خود اپنے ہی بھائیوں کو اپنا غلام (شکار) بناتا رہتا ہے۔ آج سرمایہ داروں اور حکمرانوں نے اپنے اغراض کے لیے انسانوں کو نشانۂ ستم بنا رکھا ہے۔


نظر کو خِیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صنّاعی مگر جھُوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
خِیرہ کرناچندھیا دینا، چکا چوند پیدا کرنا
تہذیبِ حاضرجدید دور کا تہذیب و تمدن (رسم و رواج، اخلاقیات وغیرہ) جس پر یورپی تہذیب کا اثر ہے
صناعیکاریگری
جھوٹے نگوہ نگینے جو اصلی نہ ہوں
ریزہ کارینازک زیوارت میں ٹکڑے جوڑنا، باریک کام کرنا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

ملوکیت کے علاوہ تہذیبِ مغرب بھی آدم کے حق میں لعنت ہے۔ اگر بظاہر یہ تہذیب بڑی دِلکش ہے لیکن یہ وہ زیور ہے جس میں جھوٹے نگینے لگے ہوئے ہیں، یعنی اس میں جس قدر خوبیاں نظر آتی ہیں، وہ در اصل برائیاں ہیں۔


وہ حکمت ناز تھا جس پر خردمندانِ مغرب کو
ہوَس کے پنجۂ خُونیں میں تیغِ کارزاری ہے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
حکمتدانائی
خِردمندانخردمند کی جمع۔ مراد دانا، فلسفی
ہوَسلالچ، حرص
پہنجۂ خونیںخون سے لتھڑا ہوا ہاتھ
تیغِ کارزاریجنگ کی تلوار
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

جس سائنس پر اہل یورپ فخر کرتے تھے، آج وہی سائنس اقوامِ مغرب کی ہوس پرستی اور استعمار پسندی کی وجہ سے بنی آدم کے حق میں لعنت بلکہ تباہی کا موجب بن گیا ہے۔ اس شعر میں اُن خوفناک اور مہلک آلاتِ جنگ کی طرف اشارہ ہے جو سائنس کی بدولت عالمِ وجود میں آئے (اب اُن میں ”ایٹم بم“ کا اور اضافہ ہو گیا ہے)


تدبّر کی فسُوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدّن کی بِنا سرمایہ داری ہے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
تدبّرغور و فکر، عقل
فسوں کاریجادوگری
محکمپکا
تمدّنرہنے سہنے کا طریقہ
بِنابنیاد
سرمایہ داریزیادہ مال دار / دولت مند ہونا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

حقیقت یہ ہے کہ اہلِ مغرب کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں، تمدن (طریقِ زندگی) جس کی بنیاد سرمایہ داری اور ظلم و ستم پر ہے، کبھی پائیدار نہیں ہو سکتا۔ اقبالؔ نے یہ خیال 1922ء میں ظاہر کیا تھا، اور یہ بات آج بھی روزِ روزشن کی طرح درُست ہے۔


عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی، جہنّم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نُوری ہے نہ ناری ہے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
خاکیمراد انسان
نورینور سے بنا ہوا
ناریآگ سے بنا ہوا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

انسان، اپنی فطرت کے اعتبار سے نہ نیک (نوری) ہے نہ بد (ناری) ہے۔ وہ اس دنیا میں جیسے اعمال کرتا ہے، ویسا ہی ہو جاتا ہے۔ جو قوم اللہ کے احکام کی پابندی کرتی ہے وہ نِکوکار (جنتی) ہے اور جو نافرمانی کرتی ہے وہ بدکار(جہنمی) ہے۔


خروش آموزِ بُلبل ہو، گِرہ غنچے کی وا کر دے
کہ تُو اس گُلِستاں کے واسطے بادِ بہاری ہے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
خروش آموزجوش سکھانے والا، جوشیلا بنانے والا
گِرہ غنچے کی وا کر دےکلی کی گانٹھ کھول دے
گُلستاںباغ
بادِ بہاریبہار کی ہوا
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمان! تیرا وجود اس دنیا کے حق میں سراسر باعثِ رحمت و برکت ہے، اس لیے تُو انسانوں کو محبت کا پیغام دے اور اطاعتِ الہی کا سبق پڑھا۔ کیونکہ انسان کو صرف اللہ کی اطاعت سے اطمینانِ قلبی حاصل ہو سکتا ہے۔


پھر اُٹھّی ایشیا کے دل سے چنگاری محبّت کی
زمیں جولاں گہِ اطلس قبایانِ تتاری ہے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
جولاں گاہگھوڑے دوڑانے کا میدان
اطلسِ قبایانِ تتاریتاتار کے وہ لوگ جنہوں نے اطلس (ریشم) کی قبائیں پہن رکھی ہیں، ترک سردار
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

ترکوں نے اپنے موجود طرزِ عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ اگر وہ کمر بستہ ہو جائیں تو دُنیا کو اسلام کا امن آفریں پیغام سُنا سکتے ہیں۔


بیا پیدا خریدارست جانِ ناتوانے را
”پس از مدّت گذار افتاد بر ما کاروانے را“

حلِ لغات:

الفاظمعانی
جانِ ناتواںستم رسیدہ جان
پس از مُدّتایک مُدت گزرنے کے بعد
(بانگِ درا 163: طلوعِ اسلام از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

 اے مسلمانو! اُٹھو! ستم رسیدہ انسانیّت (جانِ ناتواں) تمھارے پیغام کو سُننے کے لیے بیتاب ہے۔ بڑی مُدّت کے بعد تمہیں یہ موقع نصیب ہوا ہے کہ اسلام کی خوبیاں دُنیا پر ظاہر کر دو۔ آج یورپ، جس مصیبت میں گرفتار ہے، اُس کا ازالہ صرف اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے ہو سکتا ہے۔

بند نمبر 9

واضح ہو کہ یہ بند اقبالؔ نے فارسی میں لکھا ہے۔ نہ تو اس کے ترجمہ سے اس کا جوشِ بیان یا سرپرستی اور کیفیت واضح ہو سکتی ہے اور نہ مفہوم ظاہر ہو سکتا ہے، اس لیے ترجمہ کی بجائے اس کا مطلب اپنے لفظوں میں بیان کرتا ہوں لیکن اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ جو بات اقبالؔ کے اشعار میں ہے، وہ میں اپنے لفظوں میں ادا نہیں کر سکتا۔

(شرح بانگِ در از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

بیا ساقی نواے مرغِ زار از شاخسار آمد
بہار آمد نگار آمد، نگار آمد قرار آمد

تشریح:

اے ساقی، آ، کہ شاخ سے ایک ناتواں پرندے کی آواز آ رہی ہے کہ بہار آ گئی، محبوب آ گیا اور جب محبوب  آ گیا تو بے قرار دِل کو سکون آ گیا۔


کشید ابرِ بہاری خیمہ اندر وادی و صحرا
صداے آبشاراں از فرازِ کوہسار آمد

تشریح:

بہار کے بادل نے جنگل کی وادی میں اپنا خیمہ نصب کر دیا ہے اور پہاڑ کی چوٹی سے چشموں کے بہنے کی (دِل کش) آوازیں آ رہی ہیں۔ اس سارے بند میں ایک ہی بات مختلف استعاروں / تشبیہوں میں کی گئی ہے۔


سرت گردم تو ہم قانونِ پیشیں ساز دہ ساقی
کہ خیلِ نغمہ پردازاں قطار اندر قطار آمد

تشریح:

اے ساقی! میں تیرے قربان جاؤں، اب تُو بھی وہی پرانا یعنی اگلے مجاہدوں کا ساز چھیڑ، کیونکہ آج نغمے سنانے والوں کی جماعت / گروہ قطار در قطار چلی آ رہی ہے (مسلمانوں میں پھر مجاہد پیدا ہونے لگے ہیں۔)


کنار از زاہداں برگیر و بےباکانہ ساغر کش
پس از مدّت ازیں شاخِ کہن بانگِ ہزار آمد

تشریح:

اے (مسلمان!) تُو زاہدوں (یا نام نہاد مُلّاؤں) کا ساتھ چھوڑ اور بے خوف ہو کر عشقِ حقیقی کا جام پی، کیونکہ ایک مُدّت کے بعد اس پرانی شاخ سے بُلبُل کی آواز آئی ہے۔ یعنی ایک مُدّت کے بعد مردِ مجاہد کی آواز سُنی ہے۔

دوسرا مصرع نظیری نیشاپوری کا ہے جس میں ”مُدّت“ کی بجائے ”عمرے“ آیا ہے۔

(شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی)

بہ مشتاقاں حدیثِ خواجۂؐ بدر و حنین آور
تصرّف ہاے پنہانش بچشمم آشکار آمد

تشریح:

عاشقوں کو جنگِ بدر اور جنگِ حنین کے سردار حضور اکرم ﷺ کا ذکر سنا دے، جن کے باطنی تصرّفات میری آنکھوں کو صاف صاف نظر آ رہے ہیں۔ یعنی مسلمانوں کو پھر سے جو کامیابی حاصل ہوئی ہے، وہ حضور اکرم ﷺ کے روحانی تصرّف (اختیار) ہی کا پھل / ثمرہ ہے۔


دگر شاخِ خلیلؑ از خُونِ ما نم ناک می گردد
ببازارِ محبّت نقدِ ما کامل عیار آمد

تشریح:

گُلزارِ ابراہیمی اب پھر ہمارے خون سے تر ہونے والا ہے (یعنی ہم اس کے تحفظ کی خاطر جان دینے پر بالکل تیار ہیں)۔ اس صورت میں ہمارا نقدِ جاں محبّت کے بازار میں کھرا نِکلا ہے۔


سرِ خاکِ شہیدے برگہاے لالہ می پاشم
کہ خونش با نہالِ مِلّتِ ما سازگار آمد

تشریح:

میں اُس شہید کی خاک پر لالہ کے پھول چڑھاتا ہوں جس کے خون نے ہماری مِلّت کے درخت کو سرسبز کر دیا۔

اس شعر میں حضرت امام حسینؓ کے واقعۂ کربلا کی طرف اشارہ ہے، جنہوں نے باطل قوت سے ٹکرا کر جان دینا قبول کیا لیکن اس کے آگے جھُکے نہیں۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اقبالؔ نے اس شعر سے ترک شہداء کو خراجِ تحسین پیش کیا ہو، کہ جن کی قربانیوں نے مسلمان قوم میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑا دی۔


”بیا تا گُل بیفشانیم و مے در ساغر اندازیم
فلک را سقف بشگافیم و طرحِ دیگر اندازیم“

تشریح:

(اے مسلمان!) آ تاکہ ہم سب مل کر پھول کی بارش کریں، یا پھول برسائیں اور دل کے پیالے کو محبت کی شراب سے لبریز کر لیں، یعنی پھر اپنے نعرہ ہائے تکبیر سے آسمان کی چھت میں شگاف ڈال دیں اور ایک نئی زندگی کی بنیاد رکھیں۔ آخری شعر حافظؔ شیرازی کی ایک غزل کا مطلع ہے۔ اسی غزل کا مقطع یوں ہے:-

؎ سُخن دانی و جوش خوانی نمی ورزند در شیراز
بیا حافظ کہ تا خود را بہ مُلکے دیگر اندازیم

اِس پورے بند میں مِلّتِ اسلامیہ کے احیاء پر جوشِ مسرّت کا اظہار کیا گیا ہے اور ضمناً مسلمانوں کو اُن کے اصل مقاصد و فرائض کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

نظم ”طلوعِ اسلام“ پر تبصرہ

”طلوعِ اسلام“ بانگِ درا کی آخری نظم ہے اور اپنی نوعیّت کے لحاظ سے بے نظیر ہے۔ بانگِ درا میں تین نظمیں بہت بلند پایہ ہیں۔ ”شمع اور شاعر“، ”خضرِ راہ“ اور ”طلوعِ اسلام“۔ چونکہ ان میں سے ہر ایک کا موضوع جُداگانہ ہے، اس لیے ان میں موازنہ نہیں ہو سکتا۔ اپنی اپنی جگہ ہر نظم لاجواب ہے۔

”شمع اور شاعر“ کا پس منظر یہ ہے کہ 1911ء-1912ء میں دنیائے اسلام پر نکبت (بدحالی، ذلت و خواری، بد نصیبی / زوال) اور ادبار (بداقبالی / بدقسمتی / بدبختی) کے مسلّط ہو جانے کی وجہ سے اقبالؔ کا دِل رنج و غم سے معمور ہو گیا تھا۔ اس لیے اِس نظم میں اُنہوں نے مسلمانوں کی غفلت پر نوحہ خوانی کی ہے اور اس کے بعد اُنہیں دوبارہ زندہ ہو جانے کی ترکیب بتائی ہے، جس پر اُنہوں (مسلمانوں) نے ابھی تک عمل نہیں کیا اور نہ مستقبل قریب میں راقم الحروف کو کوئی اُمید نظر آتی ہے:-

؏ تھا جنہیں ذوقِ تماشا وہ تو رُخصت ہو گئے
(حوالہ: بانگِ درا: شمع اور شاعر)

”خضرِ راہ“ کا پس منظر یہ ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے بعد 1919ء تا 1920ء میں دُنیا میں ایک انقلابِ عظیم رونما ہو رہا تھا۔ اس جنگ نے ملوکیّت اور سرمایہ داری۔۔ دونوں کے مفاسد (خرابیاں، برائیاں، فتنے، جھگڑے، فسادات) آشکارا کر دیے۔ اس لیے اقبالؔ نے اس نظم میں زندگی کی حقیقت بیان کی ہے، حیات کے اسرار آشکار کیے ہیں، سلطنت اور حکومت کی ماہیّت واضح کی ہے، سرمایہ اور محنت کا نقشہ کھینچا ہے، ممالکِ اسلامیہ کی غیر اسلامی روِش (قوم پرستی کی طرف میلان) پر تنقید کی ہے اور آخر میں مسلمانوں کو اُمّید کا درس دیا ہے۔

نظم ”طلوعِ اسلام“ کا بنیادی تصوّر خود اسی کے عنوان ہی میں مضمر ہے اور اس کا پہلا بند مسرّت اور شادمانی کے جذبات سے لبریز ہے۔ بلکہ ساری نظم میں یہی رنگ نظر آتا ہے۔ اقبالؔ نے مصطفیٰ کمال کی کامیابی کو طلوعِ اسلام سے تعبیر کیا ہے۔ ”خضرِ راہ“ میں کہیں نہ کہیں نااُمیدی اور مایوسی کا رنگ بھی جھلکتا ہے لیکن اِس نظم میں اقبالؔ کا دِل یقین سے معمور ہے کہ اگر مسلمان اپنے اندر ایمان پیدا کر لے تو وہ پھر ساری دُنیا کو فتح کر سکتا ہے۔

؏ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!
(حوالہ: بالِ جبریل)

میری رائے میں بندش اور ترکیب، مضمون آفرینی اور بلند پروازی، رمز و کنایہ کی فراوانی اور مشکل پسندی، شوکتِ الفاظ اور فلسفہ طرازی، غرضکہ صوری اور معنوی محاسنِ شعری کے اعتبار سے یہ نظم بانگِ درا کی تمام نظموں پر فوقیّت رکھتی ہے۔ اقبالؔ کی شاعرانہ عظمت کا نقش میرے دِل پر اسی نظم کے مطالعہ سے مرتسم ہوا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ نظم اُنہوں نے اُس وقت لکھی جب ترکوں کی کامیابی سے اُن کے دِل میں مسرّت کے جذبات موجزن تھے۔

؏ اُفق سے آفتاب اُبھرا، گیا دورِ گراں خوابی

(شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

حوالہ جات

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments