Skip to content
ضربِ کلیم 11: عِلم و عشق

ضربِ کلیم 11: عِلم و عشق


”عِلم و عشق“ از علامہ اقبال

تعارف

نظم ”عِلم و عشق“ میں علامہ اقبال نے علم اور عشق کا تقابُل کیا ہے۔ خودی اور فقر کی طرح عشق بھی اقبالؔ کی خاص اصطلاحوں میں سے ہے۔ مولانا رومؒ کی طرح اقبالؔ بھی عشق کے بہت بڑے مدّاح ہیں اور اس کو علم یا عقل پر فضیلت دیتے ہیں۔

(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسرحمید اللہ شاہ ہاشمی)


؎ مومن از عشق است و عشق از مومن است
عشق را ناممکنِ ما ممکن است

مومن اللہ تعالے کے عشق سے قائم ہے اور عشق کا وجود مومن سے ہے؛ وہ چیزیں جو ہمارے لیے ناممکن ہیں وہ عشق کے نزدیک ممکن ہیں۔

(حوالہ: رموزِ بیخودی: در معنی حُریتِ اسلامیہ و سِرّ حادثۂ کربلا)

YouTube video

بند نمبر 1

علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ‌ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن

حلِ لغات:

تخمیناندازہ، قیاس، گُمان
ظنیقین اور شک کے درمیان کی حالت، گُمان
حلِ لغات (ضربِ کلیم 11: عِلم و عشق)

تشریح:

اقبالؔ کی نظم عِلم و عشق میں اربابِ علم کہتے ہیں کہ اصحابِ عشق دیوانے ہوتے ہیں، یعنی ایسی باتیں کرتے ہیں جو عقل کےخلاف ہوں۔ اس کے جواب میں اصحابِ عشق کہتے ہیں کہ عُلماء یعنی حکماء و فلاسفہ، ساری عمر قیاس اور گمان کی وادیوں میں سرگرداں رہتے ہیں (تخمین و ظن: تخمین کے معنی اندازہ، قیاس اور گمان کے ہیں اور ظن کے معنی یقین اور شک کی درمیانی حالت کے ہیں)

اقبالؔ رموزِ بیخودی میں فرماتے ہیں:-

عقل در پیچاکِ اسباب و علل
عشق چوگان بازِ میدانِ عمل

عقل اسباب اور وجود کے چکر میں پڑی رہتی ہے؛
عشق میدان عمل کا شہسوار ہے۔

(حوالہ: رموزِ بیخودی: درمعنی حُریتِ اسلامیہ و سِرّ حادثۂ کربلا)


بندۂ تخمین و ظن! کِرمِ کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور، علم سراپا حِجاب!

حلِ لغات:

کِرمِ کتابیکِرم سے مُراد ہے کیڑا، کِرمِ کتابی یعنی کتابی کیڑا
حضوراللہ کی تجلّیات کا سامنے ہونا، کُلیتاً حاضری
حجابپردہ
حلِ لغات (ضربِ کلیم 11: عِلم و عشق)

تشریح:

نظم علم و عشق میں اقبال علم کے پُجاری کو پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ کتابی کیڑا مت بن! جو کچھ کتابوں میں لکھا ہے اسی پر اکتفا نہ کر، اسے زیادہ سے زیادہ سمجھ، کیونکہ منزل تو بہت آگے ہے اور تجھے منزل تک صرف عشق ہی پہنچائے گا۔ یاد رکھ کہ معرفت کتابوں سے حاصل نہیں ہو سکتی۔

مثلاً کوئی فلسفی آج تک یہ نہیں بتا سکا کہ خدا کیا ہے؟ انسان کیا ہے؟ روح کیا ہے؟ روح اور کائنات میں کیا رِشتہ ہے؟ مختصر یہ  کہ علم تو حجابات پیدا کرتا ہے۔ اگر ایک سوال کا جواب دیتا ہے تو اُس جواب سے مزید سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں! عشق سے تمام حجابات دُور ہو جاتے ہیں اور حقیقت تک رسائی ہو جاتی ہے، اسی لیے عشق کا مرتبہ عقل سے بلند تر ہے۔

علم بیشک ضروری ہے لیکن حقیقت تک پہنچنے کے لیے بیکار ہے۔ نظم علم و عشق میں اقبال اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ علم کی تکمیل کے بعد عشق کے راستہ پر بھی آنا ضروری ہے کیونکہ وہم و گمان کی راہ پر چلنا دانشمندی نہیں ہے۔ حقیقت علم پر نہیں کھُلتی۔ اس کے برعکس عشق اختیاری تجھے حضورِ ذات تک پہنچا دے گی۔ تمام پردے اُٹھ جائیں گے اور حقیقت عیاں ہو جائے گی۔

؎  گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نُور
چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے
(حوالہ: بالِ جبریل)

بند نمبر 2

عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات
علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات

حلِ لغات:

معرکۂ کائناتکائنات کا معرکہ، کائنات کا میدانِ جنگ، دُنیا کی تگ و دو
مقامِ صفاتاللہ تعالیٰ کی صفات کا مقام
تماشائے ذاتذات کو دیکھنا، اللہ تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ یا دیدار
حلِ لغات (ضربِ کلیم 11: عِلم و عشق)

تشریح:

اس کائنات کے معرکے میں جو حرارت و گرمی اور رونق ہے، وہ عشق ہی کی بدولت ہے۔ علم سے ذاتِ ایزدی کی صفات کے بارے میں صرف معلومات حاصل ہو سکتی ہیں جبکہ عشق کی برکت سے اس ذاتِ اقدس کا دیدار نصیب ہو جاتا ہے۔

بقول کانٹؔ عقل کی مدد سے ہم صرف مظاہر کو جان سکتے ہیں، حقائق تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ کانٹ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ”تنقیدِ عقلِ خالص“ میں اس مسئلہ کو بڑی شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ انگریزی میں مظاہر کے لیے Phenomena اور حقائق کے لیے Noumena کی اصطلاحیں استعمال کی ہیں۔

واضح ہو کہ عاشق سے نظم علم و عشق میں اقبالؔ کی مُراد فرہادؔ یا قیسؔ کی قسم کے عاشق نہیں، بلکہ عاشق سے مراد ہے وہ شخص جو اللہ کے عشق میں سرشار ہو اور کسی مُرشدِ کامل کی صحبت میں بیٹھ کر اُس سے تزکیہ و تصفیۂ نفس کر لیا ہو۔ مثلاً حضرت صدیقِ اکبرؓ، حضرت فاروقِ اعظمؓ، حضرت مولانا رومؓ، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؓ، حضرت مجدد الف ثانیؓ، حضرت مجدد دہلویؓ۔


عشق سکُون و ثبات، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پِنہاں جواب!

حلِ لغات:

ثباتبقا، اِستقامت، اپنے حال پر قائم اور برقرار رہنے کی کیفیت
حیاتزندگی
مماتموت
پیدا سوالکھُلا اور ظاہر سوال
پِنہاں جوابچھُپا ہوا جواب
حلِ لغات (ضربِ کلیم 11: عِلم و عشق)

تشریح:

زندگی میں اگر سکون و ثبات ہے تو وہ عشق ہی کی بدولت ہے۔ موت و حیات کے راز کو علم نہیں، عشق کھولتا ہے۔ مثلاً رُوح کے آثار و مظاہر کو دیکھ کر ایک منطقی روح کے متعلق کچھ قیاسات پیش کر سکتا ہے، لیکن روح کی حقیقت کیا ہے، یہ صرف ایک عاشق ہی سمجھ سکتا ہے۔

الغرض عشق کی بدولت یہ کائنات زندہ ہے اور اس میں جو عملِ ارتقاء نظر آتا ہے، سب عشق کا کرشمہ ہے۔ عشق سے قلب کو اطمینان اور روح کو ثبات حاصل ہوتا ہے۔ نظم علم و عشق میں اقبال کا سبق یہ ہے کہ علم تو شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے، یہ ایک ایسا ظاہری سوال ہے جس کے پاس کوئی جواب نہیں۔ اس ظاہری سوال کا پوشیدہ جواب اگر کسی کے پاس موجود ہے تو وہ عشق ہے۔ جس بات کو اور جس حقیقت کو علم نہیں سمجھتا، عشق اس کو سمجھ بھی لیتا ہے اور پا بھی لیتا ہے۔ اس لیے علم پر بھروسہ کرکے نہ  بیٹھے رہو بلکہ عشق اختیار کرو۔

 ؎ وہ پُرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سِیتا ہے اُنھیں بے سوزن و تارِ رَفو
(حوالہ: ارمغانِ حجاز)

بند نمبر 3

عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دِیں
عشق کے ادنیٰ غلام صاحبِ تاج و نگیں

حلِ لغات:

فقرفقر یہاں صوفی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے اور اِس سے مُراد ہے ہر چیز سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرنا
ادنیٰمعمولی، کم حیثیّت
نگیںنگینہ، بمعنی شاہی مہر، یعنی حکومت اور اِقتدار کی علامت و نشانی
حلِ لغات (ضربِ کلیم 11: عِلم و عشق)

تشریح:

سلطنت، حکومت، فقر اور دین، یہ سب عشق ہی کے معجزات یا کارنامے ہیں اور بڑے بڑے بادشاہ، اربابِ عشق کے سامنے غلاموں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ دُور کیوں جائیے، ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے۔ سلطان شمس الدین ایلتمش، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے سامنے بڑے ادب کے ساتھ ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا تھا۔ اسی طرح سلطان علاؤالدین خلجی اس آرزو میں رہا کہ حضرت محبوبِ الہی سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء کبھی اس کے دربار میں تشریف لائیں یا اُسی کو حاضری کی اجازت دیں۔ لیکن اُس کی یہ آرزو کبھی پوری نہ ہو سکی۔ اسی لیے اقبالؔ نے یہ لکھا ہے:-

؎ پادشاہاں در قباہای حریر
زرد رو از سہم آں عریاں فقیر

ایسے عریاں فقیر کی ہیبت سے ریشمی قباؤں میں ملبوس پادشاہوں کے چہرے زرد پڑ جاتے ہیں۔

(حوالہ: پس چہ بائد کرد: مردِ حُر)

کچھ ایسے ہی ایمان و احساس کا نتیجہ تھا وہ پیغام جو حضرت بو علی قلندرؒ نے شاہِ وقت کو بھیجا تھا، یہ واقعہ اقبالؔ نے اسرارِ خودی میں بیان فرمایا ہے۔

واقعہ ہے کہ بو علی قلندرؒ کا مرید، جو شرابِ معرفت سے سرمست تھا، بازار گیا۔ شہر کے حاکم کی سواری بھی وہاں سے گزر رہی تھی۔ ایک چوبدار نے کہا کہ اے نا سمجھ! حاکم کے ہمراہیوں کا راستہ نہ روک۔ مگر وہ درویش سر جھکائے اپنے افکار میں مست اسی طرح چلتا رہا۔ تکبر میں مست چوبدار نے درویش کے سر پر لاٹھی دے ماری۔ وہ درویش حکمران کے ہاتھوں ناخوش اور افسردہ گیا اور جا کر حضرت بو علی کے سامنے فریاد کی اور آنسو بہائے۔

یہ سُن کر شیخ پہاڑ پر گرنے والی بجلی کی مانند اپنی گفتگو سے شعلہ بار ہوئے اور مُنشی کو بلا کر فرمایا کہ فقیر کی طرف سے پادشاہ کو فرمان لکھے کہ میرے درویش کو تیرے عامل نے سر پر لاٹھی ماری ہے؛ یہ کام ایسا ہے کہ اُس کی متاعِ جان کو جلا دے گا۔ اس بد نہاد عامل کو یہاں سے واپس بلا؛ ورنہ میں تیری بادشاہت کسی اور کو دے دوں گا۔ یہ پڑھ کر بادشاہ پر کپکپی طاری ہوگئی۔ اس کے رگ و پے میں رنج و غم کا طوفان امڈ آیا؛ اور اس کا چہرہ آفتابِ شام کی طرح زرد پڑ گیا۔ اس نے حاکم کی گرفتاری کا حکم جاری کیا اور قلندر سے اپنی غلطی کی معافی کا خواستگار ہوا۔


عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں، اور یقیں فتحِ باب!

حلِ لغات:

مکان و مکیںٹھکانا اور اُس میں رہنے والا، مُراد کائنات کی ہر شے میں اللہ تعالیٰ کا ظہور ہے
فتحِ بابکامیابی کے دروازے کا کھُلنا
حلِ لغات (ضربِ کلیم 11: عِلم و عشق)

تشریح:

الغرض نظم علم و عشق میں اقبال ظاہر کرتے ہیں کہ عشق ہی اس کائنات میں سب سے بڑی طاقت ہے۔ عاشق عناصر پر حکمراں ہوتا ہے۔ زمان و زمین، مکان و مکیں سب عشق ہی کی بدولت اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ عشق سے ظن و تخمین کا ازالہ ہو جاتا ہے اور یقین سے انسان کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔ عشق ہی سے دولتِ یقین نصیب ہوتی ہے اور یقین ہی سے دروازے کھُلتے ہیں۔ اگر یقین نہ ہو تو انسان سعیِ مسلسل نہیں کرتا اور سعیِ مسلسل کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔  خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی۔ علم منزل کے راستے دِکھاتا ہے لیکن عشق منزل پر پہنچانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

چنانچہ اقبالؔ لکھتے ہیں:-

؎ یقیں پیدا کر اے ناداں! یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی، کہ جس کے سامنے جھُکتی ہے فغفوری
(حوالہ: بالِ جبریل)

؎ مہر و مہ و انجم کا محاسِب ہے قلندر
ایّام کا مَرکب نہیں، راکِب ہے قلندر
(حوالہ: ضربِ کلیم: قلندر کی پہچان)

بند نمبر 4

شرعِ محبّت میں ہے عشرتِ منزل حرام
شورشِ طُوفاں حلال، لذّتِ ساحل حرام

حلِ لغات:

شرعشریعت، مسلک، قانون
عشرتِ منزلعشرت یعنی عیش، فرحت، آرام۔ عشرتَ منزل سے مُراد ہے منزل (پڑاؤ) پر رُک جانے کی خوشی
شورِش طوفانطوفان کا شور و غُل، جوش، ولوَلہ
حلِ لغات (ضربِ کلیم 11: عِلم و عشق)

تشریح:

علم یا عقل کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی دنیا میں عیش و عشرت کے سامان مہیا کرے۔ لیکن یا عشق یا محبت کی شریعت (قانون) میں یہ بات حرام ہے۔ عقل کی نظر میں انسان کو طوفان سے بچنا چاہیے اور ساحل یعنی عافیت اختیار کرنی چاہیے۔ لیکن اس کے برعکس محبت کی شریعت میں لذتِ ساحل (عافیت کی زندگی) حرام ہے۔ وہ (عشق) تو مسلسل حرکت میں اور رواں دواں رہنے کا نام ہے۔ عشق ہنگاموں اور مصائب و آلام سے ٹکراتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے۔ ساحل کا سکون اس کی شان کے خلاف ہے۔

 یعنی عشق آدمی کو عقل کے خلاف راستوں پر چلاتا ہے۔

چنانچہ بانگِ درا میں اقبالؔ لکھتے ہیں:-

؎ بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
(حوالہ: بانگِ درا)


عشق پہ بجلی حلال، عشق پہ حاصل حرام
علم ہے اِبن الکتاب، عشق ہے اُمّ الکتاب!

حلِ لغات:

حاصلپیداوار
ابن الکتابکتاب کا بیٹا
اُمّ الکتابکتاب کی ماں
حلِ لغات (ضربِ کلیم 11: عِلم و عشق)

تشریح:

الغرض عشق کا قانون یا طریقہ عقل کے ضابطہ یا دستور کے بالکل خلاف ہے۔ مثلاً عقل کہتی ہے کہ کھیتی کے خِرمن جمع کرو اور اُن سے فائدہ اُٹھاؤ۔ لیکن عشق کہتا ہے کہ زندگی کی اعلی اقدار کے لیے ادنی چیزوں مثلاً مال و دولت، گھر بار، سب قربان کردو۔ (چنانچہ صدیقِ اکبرؓ نے دو مرتبہ اپنا سارا گھر بار اور کُل اثاثۂ حیات، اللہ کی راہ میں قربان کر دیا تھا، جب ہی تو صدیقِ اکبرؓ کا لقب پایا، جس پر ساری کائنات کو رشک آیا)۔ خلاصۂ کلام، نظم علم و عشق میں اقبال فرماتے ہیں کہ عقل، کتابوں کا نتیجہ ہے، یا کتابوں سے پیدا ہوتی ہے اور عشق، خود کتابوں کی ماں ہے، یعنی کتابی علوم اس کا نتیجہ ہیں۔

نوٹ

اگرچہ میں حتی الوسع (جہاں تک ممکن ہو سکے) اقبالؔ کے مفہوم کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن اُن کی بعض تراکیب اس قدر جامع اور بلیغ ہوتی ہیں کہ جب تک صفحے سیاہ نہ کیے جائیں، مطلب واضح نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر اس نظم کے آخری شعر کو لیجیے۔ جو لُطف اس میں ہے کہ:-

؏ علم ہے اِبن الکتاب، عشق ہے اُمّ الکتاب!

وہ اس کی شرح میں حاصل نہیں ہو سکتا۔ ”اُمّ الکتاب“ کی ترکیب میں قرآنِ مجید کی طرف بھی اشارہ ہے۔ کیونکہ قرآنِ مجید کو اُمّ الکتاب کہتے ہیں۔ یہاں اقبالؔ نے اس ترکیب سے اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ عشق اُم الکتاب ہے یعنی عاشق (مومن) حکماء کی کتابوں سے بے نیاز ہوتا ہے۔ کیونکہ عشق اُس کو قرآنِ حکیم کی روح سے آشنا کر دیتا ہے اور یہ کلامِ ربّانی خود جملہ علوم سِکھا دیتا ہے۔ چنانچہ مولانا رومؒ نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:-

؎ بینی اندر دِل علومِ انبیاء
بے کتاب و بے معید و اوستا

اپنے اندر علومِ انبیاء کافیضان موجزن پاؤگے اور بے کتاب اور استادیہ نعمت میسر ہوگی بشرطیکہ کسی اللہ والے سے تعلق کرلو۔

یعنی جو شخص اللہ کی محبت اختیار کر لیتا ہے، اُس کو تمام علومِ آسمانی بغیر کسی کتاب یا استاد کی مدد کے حاصل ہو جاتے ہیں۔

ایک اور مخفی مفہوم بھی اس ترکیب سے سمجھ آ سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا سے محبت کا طریقہ اُمّ الکتاب سے حاصل ہوتا ہے یعنی قرآن مجید انسان کو اللہ سے محبت کرنا سکھاتا ہے۔

غرض عالم، کتابوں کا محتاج ہوتا ہے کیونکہ اُس کا دِل بیدار نہیں ہوتا لیکن عاشق کتابوں کا محتاج نہیں ہوتا کیونکہ اُس کو سرچشمۂ علم یعنی قرآن مجید سے نسبتِ قلبی حاصل ہوتی ہے اور یہ نسبت اس کے قلب کو بیدار کر دیتی ہے اور جملہ علوم سے آگاہ کر دیتی ہے۔

واضح ہو کہ خودیؔ اور فقرؔ کی طرح عشقؔ بھی اقبالؔ کی خاص اصطلاحوں میں سے ہے اور اُنہوں نے اس کی توصیف میں ہر کتاب میں متعدد اشعار لکھے ہیں۔ مولانا رومؒ کی طرح اقبالؔ بھی عشقؔ کے بہت مداح ہیں اور اس کو علم یا عقل پر فضیلت دیتے ہیں۔ اقبالؔ کی رائے میں عشق، انسانی زندگی میں سے بڑی قوتِ محرکہ ہے اور اس کی بدولت انسان محیر العقول (عقل کو حیران کر دینے والے) کارنامے سر انجام دے سکتا ہے۔ خودی کی پرورِش اور تربیت محض عشق پر موقوف ہے۔ بالِ جبریل سے صرف ایک شعر نقل کرتا ہوں، جس سے عشق کا مقام واضح ہو سکتا ہے:-

؎ عقل و دِل و نگاہ کا مُرشدِ اوّلیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بُتکدۂ تصوّرات
(حوالہ: بالِ جبریل: ذوق و شوق)

نظم علم و عشق میں اقبالؔ کی عشق سے مُراد، در اصل عشقِ رسول ﷺ ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ جب تک کسی فرد یا جماعت کو کسی ذات یا شئے سے عشق نہ ہو، وہ ترقی نہیں کر سکتی۔ اور جب کسی فرد یا قوم میں یہ جذبہ پیدا ہو جاتا ہے، یعنی کسی نصب العین کے حصول کا سودا سر میں سما جاتا ہے تو وہ قوم ناممکن کو ممکن بنا کر دکھا دیتی ہے۔ جب تک کسی کو کسی سے عشق نہ ہو، وہ سخص سرگرمِ عمل نہیں ہو سکتا۔

اسی مقصد کے حصول کے لیے اقبالؔ نے اپنی قوم کو عشقِ رسول ﷺ کا سبق دیا اور کلامِ اقبالؔ شاہد ہے کہ 1914ء سے 1938ء تک وہ اسی سبق کو مختلف طریقوں سے پڑھاتے رہے اور اُن کے کلام میں جو تاثیر پیدا ہوئی وہ اسی جذبہ کا نتیجہ تھی۔

(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments