Skip to content
بانگِ درا 117: مسلم

بانگِ درا 117: مسلم

نظم ”مسلم“ از علامہ اقبال

فہرست

تعارف

نظم مسلم علامہ اقبال کے ذہنی انقلاب کا پتا دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ علامہ یورپ سے واپسی کے بعد 1915 ء تک قرآنِ پاک کے گہرے مطالعہ میں مصروف رہے۔ وہ تہجّد کے وقت اُٹھتے اور قرآنِ مجید کے تراجم اور تفاسیر اپنے چاروں طرف رکھ کر ایک ایک آیت کا بغور مطالعہ کرتے جس کے دوران اُن پر رِقّت طاری ہو جاتی۔ اِسی دور میں وہ اپنے ”ہندو مسلم اِتّحاد“ کے نظریے سے متنفّر اور اس سے شرمسار ہوئے اور ”فلسفۂ اِسلام“ نے اُن کے دِل کی گہرائیوں میں جگہ پکڑی۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)


جیسا کہ بانگِ درا میں وضاحت کر دی گئی ہے، علامہ اقبال نے نظم ”مسلم“ 1912ء میں لِکھی۔ مثنوی طرز کے دو بندوں پر مشتمل اِس نظم میں مکالمے کا انداز اِختیار کیا گیا ہے۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد)

YouTube video

بند نمبر 1

ہر نفَس اقبالؔ تیرا آہ میں مستور ہے
سینۂ سوزاں ترا فریاد سے معمور ہے

بانگِ درا 117: مسلم از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
نفَسسانس
آہمراد دِل میں دینِ اسلام / اُمّتِ مسلمہ کا درد ہونا
مستُورچھُپا ہوا
سینۂ سوزاںجلتا ہوا سینہ
فریادگِریہ و زاری
معموربھرا ہوا، پُر
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

اِس نظم میں علامہ اقبال سے ایک بے عمل اور مایوس مسلمان مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے اقبالؔ! تیرا سانس (نفس) ہر لمحہ آ ہ و فریاد میں چھُپا ہوا (مستُور) ہے اور جو تیرا سینہ ہے وہ بھی مسلسل غم کی آگ میں جل رہا ہے۔ تجھے مسلمانوں کی حالتِ زار پر بہت دُکھ ہے، اس لیے خود بھی روتا ہے اور ہمیں بھی رُلاتا ہے۔


نغمۂ اُمّید تیری بربطِ دل میں نہیں
ہم سمجھتے ہیں یہ لیلیٰ تیرے محمل میں نہیں

بانگِ درا 117: مسلم از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
نغمۂ اُمّیداُمّید کا ترانہ، پُر اُمیدی
بربطموسیقی کا ایک ساز
لیلیٰمحبوبہ۔ مراد اُمّید
محملکجاوہ۔ ایک قسم کی ڈولی جو اونٹ پر باندھتے ہیں، جس میں خواتین سفر کرتی ہے۔ یہاں محمل سے مراد ہے دِل
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

اگر تیرے دِل کو سازِ بربط تصوّر کر لیا جائے تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ تیرے اِس ساز (دِل) سے نکلنے والے نغموں (شاعری) میں اُمید کی کوئی کِرن باقی نہیں ہے۔ اسی طرح اگر تیرے دِل کو ایک محمِل تصّور کر لیا جائے تو اُس میں لیلائے اُمّید کا کوئی وجود نہیں ہے۔ گویا حالات بڑے مایوس کُن ہیں، ان میں انقلاب نظر نہیں آتا۔

سازِ بربط

گوش آوازِ سرودِ رفتہ کا جویا ترا
اور دل ہنگامۂ حاضر سے بے پروا ترا

بانگِ درا 117: مسلم از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
گوشکان
سُرودِ رفتہماضی کا راگ، عظمتِ گذشتہ، گذرا ہوا زمانہ (مسلمانوں کا شاندار ماضی مراد ہے)
جویامُتلاشی، ڈھونڈنے والا
ہنگامۂ حاضرحالاتِ حاضرہ
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

اے اقبالؔ! تیرے کان (گوش) تو  ہمیشہ گُزرے ہوئے نغمے (سُرودِ رفتہ) کو سننے کے لیے بے قرار ہیں، یعنی تُو اسلام کے دورِ عروج کو واپس لانا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کو ماضی کی سی شان و شوکت و عزت حاصل ہو جائے اور یہی وجہ ہے کہ تیرا دِل موجودہ زمانے اور اس کے ہنگاموں کی طرف متوجہ نہیں ہے۔


قصّۂ گُل ہم نوایانِ چمن سُنتے نہیں
اہلِ محفل تیرا پیغامِ کُہن سُنتے نہیں

بانگِ درا 117: مسلم از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
گُلپھول
قصۂ گُلمراد ہے داستانِ ماضی سے
نواآواز ، صدا ، نِدا
ہم نوایانِ چمنباغ کے پرندے جو اِکٹھے مِل کر گائیں۔ مراد مسلمان افراد
اہلِ محفلاُمّتِ مُسلمہ
پیغامِ کُہنپرانا پیغام، ماضی کی باتیں
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

حالانکہ صورتِ حال یہ ہے کہ چمن کے ساتھی (اہلِ مِلّت) تجھ سے پھول (اسلام کا عظیم دورِ ماضی) کا قصہ نہیں سنتے اور اہلِ محفل بھی پُرانی داستانوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔ یعنی تُو اپنے عظیم ماضی کی یاد دِلا کر مِلّت کے افراد کو اُس طرف لانا چاہتا ہے لیکن وہ تیرے اس پیغام پر توجہ ہی نہیں دے رہے۔ وہ کاہلی اور غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔


اے درائے کاروانِ خُفتہ پا! خاموش رہ
ہے بہت یاس آفریں تیری صدا خاموش رہ

بانگِ درا 117: مسلم از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
درائے کارواںقافلے کی گھنٹی (درا: گھنٹی)
خُفتہ پاسوئے ہوئے پاؤں والی، خاموش
درائے کاروانِ خُفتہ پاایسے قافلے کی گھنٹی جو رہا ہو
یاس آفریںمایوس کُن، نا اُمیدی پیدا کرنے والی
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

اے غافل پڑے ہوئے مسلمانوں کے قافلے کے گھنٹے! میں تجھے مشورہ دیتا ہوں کہ تُو اپنے طریقِ کار میں تبدیلی پیدا کر یا خاموش ہو جا، آخر قوم کو مسلمانوں کی گذشتہ تاریخ سُنانے کا کیا فائدہ؟ تیری شاعری بہت مایوسی پیدا کرتی ہے، اس لیے قوم اُسے سُننا پسند نہیں رکتی۔ چنانچہ بہتر یہی ہے کہ تُو مایوسی پیدا کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کرے۔

درائے کاروانِ خفتہ پا: اُس قافلے کا گھنٹہ جو سو رہا ہے، مراد ہے ذاتِ اقبالؔ سے، یعنی اقبالؔ اُس قوم کے شاعر ہیں جو خوابِ غفلت میں گرفتار ہے۔


زندہ پھر وہ محفلِ دیرینہ ہو سکتی نہیں
شمع سے روشن شبِ دوشینہ ہوسکتی نہیں

بانگِ درا 117: مسلم از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
محفلِ دیرینہپرانی مجلس، ماضی کی محفل۔ اشارہ ہے مسلمانوں کے شاندار ماضی کی طرف
شبرات
شبِ دو شینہگُزری ہوئی رات
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

حقیقتِ حال یہ ہے کہ تیری قوم مُردہ ہو چُکی ہے اور ماضی کے وہ عظیم مسلمان جن کے وجہ سے مِلّت دُنیا پر چھائی ہوئی تھی، اب پیدا ہوتے نظر نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ مِلّتِ اسلامیہ کی عظمت و شان کا دورِ گذشتہ اب واپس نہیں آ سکتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح شمع جلانے سے گذری ہوئی رات کو روشن نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی محض گذشتہ دور کا ذکر کرتے رہنے سے وہ دور واپس نہیں آئے گا، اُس دور جیسے عظیم مسلمان بھی چاہیے ہوں گے۔

بند نمبر 2

ہم نشیں! مسلم ہوں مَیں، توحید کا حامل ہوں مَیں
اس صداقت پر ازل سے شاہدِ عادل ہوں مَیں

بانگِ درا 117: مسلم از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
ہم نشیںساتھ بیٹھنے والا، دوست
توحید کا حاملتوحید کا عَلَمبردار۔ عقیدۂ توحید پر سچے دِل سے ایمان رکھنے والا
صداقتسچائی، حقیقت، توحید
ازلکائنات کی پیدائش سے پہلے کا وقت جس کا کوئی شمار نہیں، وہ زمانہ جس کی ابتدا نہ ہو
شاہدگواہ
شاہدِ عادلاِنصاف پسند گواہ، سچّا گواہ
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

یہ اعتراض سُن کر علامہ اقبال نے جواب دیا کہ:-

 اے دوست! میں مسلم ہوں اور حق تعالیٰ کی وحدانیت کا پوری طرح قائل ہوں۔ اللہ نے مسلم پر کُچھ فرائض عائد کیے ہیں، جن کی تفصیل یہ ہے کہ:-

میں دُنیا میں توحیدِ الہی کا حامل اور علمبردار، مبلغ اور محافظ ہوں اور میری زندگی کا مقصد اس کے سوا اور کُچھ نہیں کہ میں توحید کی اشاعت اور حفاظت کروں۔ میں ابتدائے عالم سے توحید پر ایک سچے گواہ (شاہدِ عادل) کی حیثیت سے گواہی دے رہا ہوں (ہر نبی نے توحید کی اشاعت ہی کی تھی)


نبضِ موجودات میں پیدا حرارت اس سے ہے
اور مسلم کے تخیّل میں جسارت اس سے ہے

حلِ لغات:

الفاظمعنی
نبضِ موجوداتکائنات کی حرکت کرنے والی رگ۔ مراد ساری کائنات
حرارتگرمی، جوش، زندگی
تخیّلقوّتِ خیال، ارادے
جسارتہمّت، جرأت، حوصلہ
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

علامہ اقبال توحید کی حقیقت سے پردہ اُٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:-

توحید کیا ہے؟ یہ زندگی کی اصل ہے۔ یہ جہاں اسی کے دم سے زندہ ہے،کائنات و موجودات کی نبض میں توحید ہی کی بدولت حرارت اور عمل کی قوت موجود ہے اور مسلم کے فکر و خیال میں جو بے باکی اور بلندی نظر آتی ہے، وہ توحید پر ایمانِ کامل ہی کی وجہ سے ہے۔ ساری کائنات کا نظام وہی ذاتِ کریم چلا رہی ہے اور مسلمانوں میں جو جوش و ولولہ اور قوت ہے، اس کا باعث بھی ان کا مذکورہ ایمان ہے۔ (اگر مسلمان توحید پرست نہ ہوتا تو بزدل ہوتا)


حق نے عالم اس صداقت کے لیے پیدا کیا
اور مجھے اس کی حفاظت کے لیے پیدا کیا

حلِ لغات:

الفاظمعنی
حقذاتِ باری تعالیٰ
عالمدُنیا، کائنات
صداقتسچ / حق بات، توحیدِ اِلہی
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

خدا نے اس دنیا کو اسی لیے پیدا کیا کہ اس میں توحید کی صداقت آشکارا ہو اور مسلمان کا فرضِ منصبی (جس کے لیے وہ پیدا ہوا ہے) بس یہی ہے کہ وہ دنیا میں توحید کی اشاعت کرے اور جہاں یہ شمع روشن ہو جائے وہاں اس کی حفاظت کرے، تاکہ یہ شمع بجھنے نہ پائے۔ آج اگر مسلمان ذلیل و خوار ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اُس نے اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی کی۔ مثلاً وہ قاہرہ اور قسطنطنیہ میں حکومت کرتا رہا اور اُس کے سامنے قرطبہ اور غرناطہ میں اسلام کی شمع بُجھ گئی۔ پس اگر مسلمان تصوّرِ توحید کے محافظ کی حیثیّت سے زندگی نہیں گزارتا تو اُس کا مسلمان ہونا مشکوک ہے اور اس کا عدم و وجود برابر ہے۔

؎ یہی دینِ محکم، یہی فتحِ باب
کہ دُنیا میں توحید ہو بے حجاب
(حوالہ: بالِ جبریل: پنجاب کے دہقان سے)


دہر میں غارت گرِ باطل پرستی مَیں ہُوا
حق تو یہ ہے حافظِ ناموسِ ہستی مَیں ہُوا

حلِ لغات:

الفاظمعنی
دہردُنیا، کائنات، زمانہ، عصر، بہت لمبا وقت
غارت گربرباد / تباہ کرنے والا
باطل پرستیکفر یا بے حقیقت باتوں کی عبادت
حقسچ بات
حافظحفاظت کرنے والا
ناموسِ ہستیزندگی کی عزت، زندگی کا وقار
حافظِ ناموسِ ہستیزندگی کی عزت و وقات کی حفاظت کرنے والا
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

میرا دوسرا فرض یہ ہے کہ دُنیا سے کُفر اور شرک کا خاتمہ کر دوں اور بنی آدم کی عزتِ نفس کی حفاظت کروں۔ چنانچہ یہ اُمّتِ مسلمہ کے پیروکار ہی تھے جنہوں نے دُنیا سے باطل کو فنا کر ڈالا اور زندگی کے وقار، اس کے ننگ و ناموس اور عزت و آبرو کے محافظ ٹھہرے۔

علامہ اقبال اسی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے نظم ”طلوعِ اسلام“ میں فرماتے ہیں:-

؎ مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا، زورِ حیدرؓ، فقرِ بُوذرؓ، صِدقِ سلمانیؓ
(حوالہ: بانگِ درا: طلوعِ اسلام)


میری ہستی پیرہن عُریانیِ عالم کی ہے
میرے مِٹ جانے سے رُسوائی بنی آدم کی ہے

حلِ لغات:

الفاظمعنی
ہستیزندگی، وجود
پیرہنلباس، زیب و زینت
عُریانیِ عالمدُنیا کا ننگا پن
رُسوائیبدنامی، بے عزتی، ذلت
بنی آدمانسان، آدم کی اولاد
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

مسلم کا وجود  دنیا کی زینت کا باعث ہے۔ میرا وجود دنیا کی عریانی کو ڈھانپنے والا لباس (پیرہن) ہے۔ اگر میں مِٹ جاتا ہوں (مسلمانوں کا وجود ختم ہو جاتا ہے) تو یہ امر بنی نوع انسان کی ذلّت اور رسوائی کا باعث بنے گا (عریانی سے مراد تہذیب سے محروم ہونے کی کیفیّت ہے)۔ ایک مسلمان قرآنی احکامات کو دُنیا میں نافذ کرتا ہے، ان احکامات کی بدولت ہی انسان صحیح تہذیب و معاشرے کا حامل ہو سکتا ہے۔


قسمتِ عالم کا مسلم کوکبِ تابندہ ہے
جس کی تابانی سے افسونِ سحَر شرمندہ ہے

حلِ لغات:

الفاظمعنی
قسمتِ عالمدُنیا کا مقدّر
کوکبستارہ
تابندہروشن
کوکبِ تابندہچمک دار ستارہ
تابانیروشنی، چمک دمک
افسُونِ سحَرصبح کا جادو / منتر، صبح کا نور
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

مسلمان دُنیا کے نصیبے کا روشن ستارہ ہے، جس کی چمک کے سامنے صبح کا جادو شرمسار ہے۔ (افسُونِ سحر سے مُراد صبح کی روشنی جو ایک دم سے جادو کی طرح نمودار ہو کر رات کو غائب کر دیتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ صبح کے طلوع ہونے سے ستارے ماند پڑ جاتے ہیں، لیکن اسلامی ستارے کی جگمگاہٹ کا یہ عالم ہے کہ صبح اس کی روشنی کم کرنے کی بجائے خود ماند پڑ جاتی ہے۔) دنیا کا عروج مسلمان کے عروج سے وابستہ ہے، ایک مسلمان ہی توحید پر ایمانِ کامل کے باعث دُنیا کا مقدّر سنوار سکتا ہے۔


آشکارا ہیں مری آنکھوں پہ اسرارِ حیات
کہہ نہیں سکتے مجھے نومیدِ پیکارِ حیات

حلِ لغات:

الفاظمعنی
آشکاراظاہر
اسرارِ حیاتزندگی کے راز
نومیدنا اُمید، جو مایوس ہو چُکا ہو
پیکارِ حیاتزندگی کی جنگ
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

میں قرآن کا قاری ہونے کی وجہ سے کائنات اور حیات، دونوں کے اسرار و رموز سے آگاہ ہوں۔ یعنی میں اپنی اور اِس دُنیا کی حقیقت سے آگاہ ہوں، اس لیے میں کشمکشِ حیات میں مسلمانوں کی کامیابی سے کبھی نا اُمید نہیں ہو سکتا۔ میں اُن لوگوں میں سے نہیں جو عملی جد و جہد سے مایوس ہو جاتے ہیں اور اور زندگی کی کشمکش میں حصہ لینے کے لیے تیار نہیں۔ مسلمان کے نزدیک حقیقی زندگی یہ نہیں کہ وہ عمل سے بیگانہ رہے، بلکہ اُس پر لازم ہے کہ وہ جہد و عمل میں مصروف رہ کر اپنی اور دُنیا کی قسمت سنوارے اور اپنی بقا کا سامان کرے۔


کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے
ہے بھروسا اپنی ملّت کے مقّدر پر مجھے

حلِ لغات:

الفاظمعنی
عارضیوہ شے جو مستقل نہ ہو، تھوڑی مدت کے لیے، غیر مستقل، چند روزہ، وقتی، اتفاقیہ، مستعار، دو دن کا
مِلّتمراد اُمّتِ مُسلمہ
مقدّراندازہ کیا گیا، تقدیری بات، قسمت، مشیّتِ ایزدی
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

اگر آج کل مسلمان عارضی طور سے پستی میں ہیں یا غمگین ہیں تو میں اس سے بالکل ہراساں نہیں ہو سکتا۔ غم کا یہ وقتی منظر مجھے کیونکر ڈرا سکتا ہے (نہیں ڈرا سکتا) اس لیے کہ مجھے مِلّت کے مقدّر پر پورا بھروسا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مِلّت جلد بیدار ہو کر اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کر لے گی۔ مِلّتِ اسلامیہ مِٹ جانے کے لیے پیدا نہیں ہوئی، اگر مِلّتِ اسلامیہ مِٹ گئی تو اسلام کی حفاظت و اشاعت کون کرے گا؟ لہذا مسلمان بھی نہیں مِٹ سکتے۔


یاس کے عُنصر سے ہے آزاد میرا روزگار
فتحِ کامل کی خبر دیتا ہے جوشِ کارزار

حلِ لغات:

الفاظمعنی
یاسنا اُمیدی، مایوسی، اُداسی، نِراشا، حسرت
عُنصرجزو، مادہ
روزگارزمانہ، دُنیا، وقت
فتحِ کاملمکمل فتح
جوشِ کارزارشدید لڑائی / جنگ
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

میرے روز و شب نااُمیدی اور یاس کے عنصر سے پاک ہیں (میں قطعاً نا اُمید نہیں ہوں)، کیونکہ کمشکشِ حیات میں مسلمانوں کا جوش و خروش اور ولولہ مکمل فتح کی اُمید دے رہا ہے، یعنی مسلمانوں میں بیداری کے جو حالات اب نظر آرہے ہیں، اُن سے صاف واضح ہو رہا ہے کہ وہ آج کے سنگین حالات میں بھی (یا دشمنوں، غیر قوّتوں کی سخت دشمنی وغیرہ کے باوجود) بفضلِ خدا تعالی، معرکۂ حیات  کامیاب و کامران ہوں گے۔


ہاں یہ سچ ہے چشم بر عہدِ کُہن رہتا ہوں مَیں
اہلِ محفل سے پُرانی داستاں کہتا ہوں مَیں

حلِ لغات:

الفاظمعنی
چشمپرانہ زمانہ
عہدِ کُہنپُرانہ دور (واضح ہو کہ پُرانے دور سے پُرانہ زمانہ مُراد نہیں، کیونکہ وہ تو واپس نہیں آسکتا، بلکہ اس سے مسلمانوں کا عروج مراد ہے، جیسا کہ پُرانے دور میں اُن کو حاصل ہوا تھا)
چشم بر عہدِ کُہنپُرانے دور کی واپسی کا منتظر
اہلِ محفلاہلِ مِلّت، مسلمان قوم
پُرانی داستاںمُراد مسلمانوں کا شان دار ماضی، یعنی صدرِ اول کے مسلمانوں کے عروج کی داستان
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

علامہ اقبال اپنی بات جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہاں! یہ سچ ہے کہ میری نگاہیں اپنے قدیم عظیم دور پر لگی رہتی ہیں اور میں اِس بات کا آرزومند ہوں کہ مسلمانوں کو پھر وہی شان و شوکت حاصل ہو جائے، جو کسی زمانہ (آج سے تین، چار سو سال پہلے) تھی۔ اسی لیے مسلمانوں کو اُن کے عہدِ عروج (مثلاً عہدِ ہارون الرشید اور سلطان محمد فاتح) کی داستانیں سُناتا رہا ہوں تاکہ اُن کے اندر ترقی کرنے کا جذبہ پیدا ہو اور وہ بیدار ہو کر پھر سابقہ عظمت حاصل کر لیں۔


یادِ عہدِ رفتہ میری خاک کو اِکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے

حلِ لغات:

الفاظمعنی
عہدِ رفتہگزرا ہوا زمانہ، ماضی
اِکسیراکسیر ایک ایسا مادہ ہے جو تانبے کو سونا بنا دیتا ہے، بکہ اس کے برعکس اکیسر سے عام طور پر مراد ایک ایسے جادوئی مرکب کی بھی لی جاتی ہے جس کو پینے سے حیات لافانی حاصل کی جاسکتی ہے یا ہر مرض کو شفا دی جاسکتی ہے۔ کیمیا، پارس
ماضیگزرا ہوا زمانہ
اِستقبالآئندہ زمانہ، مستقبل
تفسیرتشریح، تفصیل
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

اُس عظیم دور کی یاد میری خاک کے لیے اکسیر کا حکم رکھتی ہے اور میرے اندر عمل کی تحریک پیدا کرتی ہے۔ میرا روشن ماضی میرے آنے والے دور کی شرح و تفسیر ہے۔ یعنی عظیم ماضی کے حوالے سے مسلمان پھر خود کو صاحبِ عظمت بنانے کے لیے جد و جہد کریں گے اور ایک دن حاصل کر ہی لیں گے۔


سامنے رکھتا ہوں اُس دورِ نشاط افزا کو مَیں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو مَیں

حلِ لغات:

الفاظمعنی
دورِ نشاط افزاخوشی و مسرّت میں اضافہ کرنے والا زمانہ
دوشگذری ہوئی کل، ماضی
فرداآنے والی کل، مستقبل
حلِ لغات (بانگِ درا 117: مسلم)

تشریح:

آخر میں علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ میرا نصب العین وہی گذشتہ دور ہے جس میں ہر طوف خوشی ہی خوشی نظر آتی تھی۔ اسی لیے میں ہمیشہ مسلمانوں کے عروج کے زمانہ کو مدِ نظر رکھتا ہوں اور گذشتہ دور کے آئینہ میں آئندہ آنے والے دور کی تصویر دیکھتا ہوں اور مسلمانوں کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ تم بھی وہی شان و شوکت حاصل کرو، جو تمہارے اسلاف کو حاصل تھی۔

تبصرہ

یہ نظم علامہ اقبال نے 1912ء میں لِکھی تھی، جبکہ وہ قرآن مجید کے مطالعہ میں منہمک تھے۔ اُن کے دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اُس زمانہ میں وہ تہجّد کے وقت اُٹھ کر قرآنِ حکیم کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ یعنی اُس کے سمندر سے حقائق و معارف کے موتی نکالتے تھے۔ اکثر اوقات اُس پر اِس قدر رَقّت طاری ہوتی تھی کہ کلامِ پاک کے صفحات اُن کے موتیوں سے تر ہو جاتے تھے۔ قرآنِ حکیم میں اِسی تدبّر کا نتیجہ 1914ء میں اسرارِ خودی اور 1915ء میں رموزِ بیخودی کی شکل میں دُنیا کے سامنے آیا۔ اِن ہی دو کتابوں نے علامہ اقبال کو دُنیا کے حُکماء کی صف میں جگہ دی اور اُن کا سارا فلسفہ اِن ہی دو کتابوں میں مدوّن ہے اور تمام تر قرآنِ حکیم سے ماخوذ ہے۔

قرآنِ عزیز ہی کے مطالعہ ہی سے علامہ اقبال پر یہ حقیقت مُنکشف ہوئی کہ ”مسلم“ کی صِفت کیا ہے اور اِس نظم میں اُنہوں نے اِسی لفظ کی وضاحت کی ہے۔ اِس نظم میں اُس اِنقلاب کا حال بھی معلوم ہو سکتا ہے، جو اُن کی ذہنیّت میں پیدا ہوچُکا ہے۔ اب وہ ”ہمالہ“ اور ”نیا شِوالہ“ کی بجائے  ”اسلام“ اور ”مسلم“ پر غور کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو بیداری کا پیغام دے رہے ہیں۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

حوالہ جات

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments