Skip to content
بانگِ درا 102: وطنیّت

بانگِ درا 102: وطنیّت


”وطنیّت“ از علامہ اقبال

فہرست

نظم ”وطنیّت“ کا تعارف

وطنیّت کا وہ نظریہ جس کی تبلیغ سیاستِ مغرب کی طرف سے ہوئی ہے، علامہ اقبال اُس کے شدید مخالف ہیں اور اقوام و ملل کے حق میں اس کو سمِ قاتل خیال کرتے ہیں۔ یورپ کی ملوکانہ اغراض اِس امر کی متقاضی ہیں کہ اسلام کی وحدتِ دینی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اِس سے بہتر اور کوئی حربہ نہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے بعض دینی پیشوا بھی اِس نظریہ کے حامی بنے۔ حالانکہ یورپ کا اپنا تجربہ دُنیا کے سامنے ہے کہ جب یورپ کی وحدتِ دینی پارہ پارہ ہو گئی تو اقوامِ یورپ میں اِتحاد باقی نہ رہا۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی)


اسلام بُت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کے طور پر ظاہر ہوا۔ وطن پرستی کیا ہے، بت پرستی کی ایک لطیف قسم، ایک مادی شے کو معبود ٹھہرانا۔ مختلف اقوام کے ملی نغمے میری اس بات کی تصدیق کریں گے کہ وطن پرستی ایک مادی شے کو معبود ٹھہرانا ہے۔ اسلام کسی صورت میں بت پرستی کو برداشت نہیں کرسکتا۔ یہ ہمارا ازلی مقصد ہے کہ بت پرستی کی تمام اقسام کے خلاف احتجاج کریں۔ اسلام نے جس چیز کو مٹایا تھا وہ سیاسی گواہ کی ساخت کا اہم اصول نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ پیغمبر کا قیام، وصال، جو جائے پیدائش پر نہیں ہوا، اتفاقاً اسی حقیقت کی طرف ایک عرفانی اشارہ ہے۔

(حوالہ: ”منتشر خیالاتِ اقبالؔ“ از علامہ محمد اقبال)
(مترجم: میاں ساجد علی)

YouTube video

نظم ”وطنیّت“ کی تشریح

بند نمبر 1

اِس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے جم اور
ساقی نے بِنا کی روِشِ لُطف و ستم اور

حلِ لغات:

مےشراب
جاموہ پیالہ جس میں شراب ڈالتے ہیں
جمقدیم ایرانی بادشاہ جمشید، جس نے پہلے پہل انگور سے شراب تیّار کروائی
ساقیشراب پِلانے والا۔ مراد ہے انگریز حکمران
بِنا کیبنیاد رکھی، قائم کی
روِشدستور، طور طریقہ
لـُطف و سِتمرحم اور ظلم
(بانگِ درا 102: وطنیّت از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ آج کے زمانے میں شراب بھی نئی ہے، شراب پینے کا برتن بھی نیا ہے اور شراب پلانے والے لوگ بھی نئے ہیں۔ شراب پلانے والے (ساقی) نے بھی مہربانیوں اور مظالم کے ایک مخلتف اور نئے انداز کی بنیاد رکھی ہے۔ مراد یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں سیاست اور حکومت کے طور طریقے بالکل بدل گئے ہیں۔ اربابِ حکومت نے بھی لوگوں پر مہربانی اور ستم کے طریقے بدل دیے ہیں۔


مسلم نے بھی تعمیر کِیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

حلِ لغات:

مُسلممِلّتِ اسلامیہ، مُسلمان قوم
حرممراد مسلک / دستُور، کعبہ
آزربُت تراش
تہذیب کا آزرجدید تہذیب جو انسان کو خدا سے دُور رکھتی ہے
ترشوَانابنوانا، چھِلوانا
صنمبُت
(بانگِ درا 102: وطنیّت از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

ان سب لوگوں کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے بھی اپنے لیے نیا کعبہ تعمیر کرلیا ہے اور تہذیب کے بت تراش نے ان سے نئے نئے بت ترشوالیے ہیں یعنی مسلمانوں نے بھی اپنے لیے دوسرے لوگوں کی طرح تہذیب کے نام پر بہت سی چیزوں کو اپنا معبود مان لیا۔


ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

حلِ لغات:

تازہ خدانئے آقا، نئے مسلک
پیرہنلباس
مذہب کا کفنمراد مذہب کی موت / خاتمہ
(بانگِ درا 102: وطنیّت از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

موجودہ مغربی تہذیب نے انسانوں کی پرستش کے لیے جو نئے نئے معبود (صنم) یعنی مسلک ایجاد کیتے ہیں۔۔ ان نئے معبودوں میں وطن، سب سے بڑا معبود ہے، جو آج اللہ کا مدِمقابل بنا ہوا ہے اور اس نئے خدا (وطن) کے پیش کردہ اصول اس طرح کے ہیں کہ ان کے اختیار کرنے سے دینِ اسلام فنا ہوجاتا ہے (وطن ایک ایسا خدا ہے کہ اِس کا لباس مذہب کے لیے کفن کی حیثیت رکھتا ہے یعنی وطن کی پرستش کا لازمی نتیجہ مذہب کی موت کی صورت میں سامنے آتا ہے)

بند نمبر 2

یہ بُت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبَوی ہے

حلِ لغات:

تراشیدۂ تہذیبِ نَوَینئی تہذیب (مغربی تہذیب) کا تراشا / بنایا ہوا
غارت گرتباہ کرنے والا
کاشانہگھر
غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبوی ﷺدینِ نبوی ﷺ (اسلام) کا گھرتباہ کرنے والا
(بانگِ درا 102: وطنیّت از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

یہ بُت (جدید تصوّرِ وطنیت) جسے جدید مغربی تہذیب نے تراشا ہے، رسول اکرم ﷺ کے دین کو تباہ کرنے والا بت ہے۔ اس تصور (وطنیّت – بحیثیت سیاسی تصور) کے باعث مسلمان اسلام سے دور ہوتے جارہے ہیں اور یہ امر اسلام کی عظمت کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔


بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے

حلِ لغات:

توحیداللہ تعالی کی وحدانیّت
دیسمُلک
مُصطفویحضرت محمد ﷺ کا پیروکار
(بانگِ درا 102: وطنیّت از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمان! چونکہ تو موحد (اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرنے والا) ہے اور عقیدۂ توحید (اللہ تعالی کو ایک ماننا) نے تیرے اندر کافی طاقت پیدا کردی ہے، اس لیے تُو اس بت (وطن) کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجا۔ تیرا وطن نہ مشرق ہے نہ مغرب، بلکہ اسلام ہے۔۔ اور اسلام زمان و مکان کی قیود سے بالاتر ہے۔ تُو نہ ایرانی ہے نہ عراقی، نہ ہندی نہ پاکستانی، بلکہ مصطفوی ہے، یعنی نبی اکرم ﷺ کا غلام ہے۔ تیرا روحانی تعلق کسی ملک سے نہیں بلکہ سرکارِ دوعالم ﷺ کی ذات پاک سے ہے۔


نظّارۂ دیرینہ زمانے کو دِکھا دے
اے مصطفَوی خاک میں اس بُت کو ملا دے!

حلِ لغات:

نظّارۂ دیرینہپرانا منظر / تماشا
خاک میں مِلانانیست و نابُود کر دینا
(بانگِ درا 102: وطنیّت از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

پس تُو اُٹھ اور اس بت (وطن پرستی کا بُت) کو پاش پاش کرکے، بُت شکنی کا وہی پرانا نظارہ دنیا کو دکھا دے جو کبھی تیرے اسلاف نے دنیا کو دکھایا تھا۔

بند نمبر 3

ہو قیدِ مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزادِ وطن صُورتِ ماہی

حلِ لغات:

قیدِ مقامیکسی مقام کی قید یا پابندی، جغرافیائی حدود کی پابندی
بحرسمندر
آزادِ وطنجغرافیائی حدود سے آزاد
صُورتِ ماہیمچھلی کی مانند
(بانگِ درا 102: وطنیّت از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اگر تُو اپنے آپ کو کسی خاص ملک سے وابستہ کرلے گا تو اس کا نتیجہ بربادی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے یعنی تُو مسلمان کی حیثیت سے ختم ہوجائے گا۔ تُو دنیا میں مچھلی کی طرح رہ۔۔ کہ وہ سارے سمندر کو اپنا ملک سمجھتی ہے، تُو بھی ساری دنیا کو اپنا وطن سمجھ، یعنی دنیا میں اسلام کا علم بلند کر اور اگر ضرورت پڑے تو ترکِ وطن کردے۔

؎ چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
(حوالہ: بانگِ درا: ترانۂ ملی)


ہے ترکِ وطن سُنّتِ محبوبؐ الٰہی
دے تُو بھی نبوّت کی صداقت پہ گواہی

حلِ لغات:

ترکِ وطنوطن کو چھوڑنا
سُنّتِ محبوبِ الہی ﷺرسول اکرم ﷺ کی سُنّتِ مبارک
صداقتسچائی، حق ہونا
(بانگِ درا 102: وطنیّت از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اعلیٰ اصولوں اور بلند نصب العین کے لیے وطن کو چھوڑ دینا پیارے نبی اکرم ﷺ کی سنتِ مبارک ہے۔۔ لہذا تجھے نبوت کی سچائی پر گواہی دینا چاہیے یعنی اگر ضرورت پیش آئے تو اپنے نصب العین پر وطن کو قربان کردے۔

اس بات سے علامہ اقبال کا اشارہ آپ ﷺ کی ہجرت کی طرف ہے۔ جب مکہ مکرمہ میں اسلامی زندگی بسر کرنا دشوار ہوگئی تو آپ ﷺ نے یثرب (مدینہ منورہ) کی طرف ہجرت فرمائی، اس طرح ہجرت سُنتِ نبوی قرار پائی۔ پس اگر تُو دیکھے کہ اپنے وطن میں اسلامی زندگی بسر کرنی دشوار ہے تو وطن کو ترک کردے اور پردیس کو اپنا وطن بنالے۔ تُو کس ملک میں جائے گا، وہی تیرا وطن بن جائے گا کیونکہ:-

؎ مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
(حوالہ: بانگِ درا: ترانۂ مِلّی)


گُفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوّت میں وطن اور ہی کچھ ہے

حلِ لغات:

گُفتاربات، ذکر
سیاستحکومت، سلطنت، انتظامِ مُلک
ارشادِ نبوترسول اکرم ﷺ نے جو کُچھ ارشاد فرمایا
(بانگِ درا 102: وطنیّت از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

یاد رکھ کہ سیاست کی اصطلاح میں وطن کا مفہوم بالکل مختلف ہے اس مفہوم سے، جو اسلام پیش کرتا ہے، بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

سیاست میں وطن کو مفہوم یہ ہے کہ ہر شخص جس ملک میں پیدا ہوا ہے، وہ ملک اس کا دائمی وطن ہے اور اس کا فرض یہ ہے کہ اپنے وطن کے لیے جئے اور وطن کے لیے مرے۔

اسلام میں وطن کو مفہوم یہ ہے کہ وطن سے محبت کرو اور پھر اس کی حفاظت کرو لیکن اگر تم وطن میں اللہ کا کلمہ بلند نہیں کرسکتے تو پھر ترکِ وطن (ہجرت) کردو۔ کیونکہ مقصدِ حیات (زندگی کا مقصد) وطن نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالی ہیں۔

مسلمان وہ ہے جو اللہ تعالی کے لیے جیتا اور اُنہی کے لیے مرتا ہے۔ یہ دونوں مفہوم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اس لیے ایک مسلمان سیاسی اصطلاح میں وطن پرست ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ وطن پرستی اور خدا پرستی۔۔ یہ دونوں باتیں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں۔

بند نمبر 4

اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے

حلِ لغات:

اقوامِ جہاںدُنیا کی قومیں
رقابتدُشمنی
تسخیرقابو میں لانا، فتح کرنا، مسخّر کرنا
مقصودِ تجارتتجارت کا مقصد و مُدعا
(بانگِ درا 102: وطنیّت از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

آج دنیا کی مختلف اقوام، اسی وطنیت کی بدولت، ایک دوسرے کی دشمن ہوگئی ہیں۔ روسی اپنے وطن کو دنیا میں سربلند کرنا چاہتے ہیں، امریکی اپنے وطن کو، انگریز اپنے وطن کو، جرمن اپنے وطن کو۔۔ یعنی ہر ایک اپنے وطن کو معبود سمجھتا ہے۔ لیکن مسلمان کا راستہ سب سے جُدا ہے، وہ نہ اِس مُلک کی سربلندی کا خواہاں ہے، نہ اُس کی۔ وہ تو بس اللہ تعالی کے نام کو دنیا میں سربلند کرنا چاہتا ہے۔

بہرحال وطنیت کے مفاسد (عیوب) بہت ہیں۔ ان میں سے پہلا یہ ہیں کہ اس وجہ سے اقوامِ عالم میں دشمنی پیدا ہوتی ہے۔۔ دوسرا یہ کہ تجارت سے ان اقوام کا مقصد تجارت نہیں، بلکہ اس ملک کو فتح کرنا ہوتا ہے جس میں یہ اپنی تجارت کا جال بچھاتی ہیں۔ یورپین اقوام جس ملک میں تجارت کا سلسلہ شروع کرتی ہیں، رفتہ رفتہ اُسے اپنا غلام بنالیتی ہیں۔


خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

حلِ لغات:

صداقتسچائی، حق بات
غارتبرباد ہونا، نیست و نابود ہونا
(بانگِ درا 102: وطنیّت از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

تیسرا عیب یہ ہے کہ اس نظریہ وطنیت کی رو سے سیاست میں ہر قسم کا مکر و فریب جائز ہے۔ آج کی سیاست میں جو صداقت و راست باز نہیں ہے (چالبازی اور فریب کاری اس میں سموئی ہوئی ہے) تو اس کی وجہ بھی وطنیت ہے۔ کسی کمزور قوم کا گھر یا ملک غارت ہوتا ہے تو وہ بھی اسی وجہ سے ہے۔ برِصغیر میں مسلمان کمزور ہوچکے تھے، جس کا فائدہ انگریز نے اُٹھایا۔ چنانچہ اس کو سیاسی اصطلاح میں ڈپلومیسی کہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ عیاری اور فریب کاری سے کمزور اقوام کو اپنا غلام بنایا جائے۔


اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیّتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

حلِ لغات:

بٹتی ہےتقسیم ہو جاتی ہے، بِکھر جاتی ہے
قومیّتِ اسلاماسلام کا نظریۂ قومیّت
جڑ کٹناتباہ ہونا، مِٹ جانا
(بانگِ درا 102: وطنیّت از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

چوتھا عیب (اعتراض) یہ ہے کہ اس نظریہ کی رو سے، اللہ کی مخلوق، مختلف قوموں میں منقسم (بٹ جانا، تقسیم ہوجانا) ہوجاتی ہے اور وہ قومیں ایک دوسرے کی دشمن بن جاتی ہیں۔ یعنی بنی آدم، آدم علیہ السلام کی اولاد، جو سب اللہ کے بندے ہیں، ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں اور اللہ کی بجائے اپنے وطن کی عبادت کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ”اسلامی قومیّت“ جو قرآنِ حکیم کا مقصود ہے، دنیا میں کبھی قائم نہیں ہوسکتی۔ اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک بن جائیں۔

؏ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
(حوالہ: بانگِ درا: خضرِ راہ)

لیکن نظریۂ وطنیت یہ سکھاتا ہے کہ پاکساتانی جداگانہ قوم ہیں، افغانی جداگانہ، ایرانی جداگانہ، عراقی جداگانہ، مصری جداگانہ، یعنی:-

؏ قومیتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

نوٹ: یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے ساری عمر اپنی پوری قوت کے ساتھ وطنیت کے اس غیر اسلامی نظریہ کی تردید کی اور ”بانگِ درا“ سے لے کر ”ارمغانِ حجاز“ تک ہر کتاب میں اس کے مقاصد واضح کردیے۔

علامہ اقبال کا تصوّرِ وطنیّت

وطنیّت: اِس لفظ کے دو معنی ہیں:-

(1) اپنے وطن سے محبت کا جذبہ یا وطن پروری، علامہ اقبال کی رائے میں یہ جذبہ (چونکہ قدرتی ہے) بالکل صحیح ہے اور اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر شخص کو اپنے وطن سے قدرتی لگاؤ ہوتا ہے۔

(2) یہ لفظ موجودہ زمانہ میں ایک سیاسی اصطلاح بھی ہے، یا جیسا کہ خود انھوں نے اس لفظ کے نیچے بطور تشریح لکھا ہے۔ وطنیت کا ایک سیاسی تصور بھی ہے۔ اس تصور کی رو سے اس کا مفہوم، پہلے مفہوم سے بالکل مختلف ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے:-

(ا) وطن، انسان کی تمام وفاداریوں کا مرکز ہے۔

(ب) جب دین اور وطن میں موازنہ ہو یا آویزش ہو، تو ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنے وطن کو اپنے دین و ایمان پر ترجیح دے۔ مثلاً مسلمان کے دین کا تقاضا یہ ہے کہ وہ کسی مسلمان ملک پر حملہ نہ کرے لیکن اگر وطن کا فائدہ اس بات میں ہے کہ اس وقت پاکستان کا مسلمان، عربوں پر حملہ کرے تو اسے دین کو بالائے طاق رکھ کرم بلا تامل حملہ کردینا چاہیے۔ چنانچہ 1916ء میں عربوں نے اسی اصولِ وطنیت کی بِنا پر، کافروں کے ساتھ مل کر ترکوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا (جس کی سزا وہ 1918ء سے اب تک بھُگت رہے ہیں)۔

(ج) وطن، مذہب سے بلند تر ہے۔ مثلاً اگر کوئی پوچھے تم کون ہو؟ تو وطنیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم یہ جواب دیں کہ ہم ہندوستانی ہیں۔ حالانکہ دین کی رو سے اس کا جواب یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔

مولانا محمد علی جنت آشیانی (جو بیت المقدس میں حضرت انبیاۓ اکرام کے قدموں میں آرام کررہے ہیں) سے ایک غیر مسلم نے پوچھا کہ آپ پہلے کیا ہیں؟ ہندوستانی؟ یا مسلمان؟ تو اس مردِ مومن نے یہ جواب دیا کہ میں پہلے مسلمان ہوں، بیچ میں بھی مسلمان ہوں اور آخر میں بھی مسلمان ہوں۔ اسلام اس طرح میری رگ و پے میں سما گیا ہے کہ اب کسی اور تصور کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ بس یہی بات علامہ اقبال نے اس نظم میں بیان کی ہے۔

(د) مذہب اور سیاست جداگانہ ہیں۔ حالانکہ، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ:-

؏ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
(حوالہ: بالِ جبریل)

(ہ) مذہب انسان کا نجی (Private) معاملہ ہے۔ اُسے سیاست یا امورِ مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حالانکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ، دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اورسیاست اس کا ایک شعبہ (محکمہ) ہے یعنی دین سیاست پر بھی حاکم ہے۔

(و) انسان کا فرض ہے کہ وطن کے لیے جئے اور اُسی کے لیے مرے۔ یعنی اپنی پوری زندگی وطن کی نذر کردے۔ حالانکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مسلمان صرف اللہ کے لیے جیتا ہے اور اللہ کے لیے مرتا ہے۔ آیت ملاخطہ ہو:-

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

اے رسول ﷺ! آپ ﷺ اعلان کردیجیے کہ میری نماز اور تمام دنیی رسوم اور میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ (ساری زندگی) صرف اس اللہ کے لیے ہے جو رب العالمین ہے۔

(حوالہ: القرآن: سورة الانعام: آیت نمبر 162)

وطنیت کے اس مفہوم کو مدِنظر رکھ کر ہر مسلمان فیصلہ کرسکتا ہے کہ لفظ وطنؔ جب بطور ایک سیاسی تصور کے لیے استعمال ہوتا ہے تو وہ اسلام سے متصادم ہوتا ہے۔ یعنی ایک مسلمان، وطنیت کے سیاسی مفہوم کی رو سے ہرگز ہرگز Nationalist یا قوم پرست نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اگر وہ مسلک وطنیت (Nationalism) اختیار کرے گا تو اس لامحالہ اسلام سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ بلاشبہ وطنیت، اسلام کی ضد ہے اور یہ دونوں کسی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ جس طرح ایک مسلمان اشتراکی نہیں ہوسکتا، اُسی طرح قوم پرست بھی نہیں ہوسکتا۔

یہی وجہ ہے کہ جب جنورے 1938ء میں مولانا حسین احمد صاحب دیوبندی نے دہلی کے جلسہ میں کہا تھا کہ ”موجودہ زمانہ میں قومیں اوطان (وطن کی جمع) سے بنتی ہیں“ تو علامہ اقبال نے ان کے اس غیر اسلامی ارشاد کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تھی۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments