Skip to content
بالِ جبریل 131: فرمانِ خُدا

بالِ جبریل 131: فرمانِ خُدا

”فرمانِ خُدا“ از علامہ اقبال

تعارف

گذشتہ دو نظموں ”لینن خدا کے حضور میں“ اور”فرشتوں کا گیت“ میں انسانی معاشرے میں طبقاتی تضاد اور انتشار کے حوالے سے جو شکوے کیے گئے تھے۔ زیرِ شرح نظم ”فرمانِ خُدا“ پہلی نظموں کا ایک طرح سے جواب ہے جس میں خدائے تعالی فرشتوں کے نام اپنا فرمان جاری کرتے ہوئے انہیں حکم دیتے ہیں۔

YouTube video

نظم ”فرمانِ خُدا“ کی تشریح

اُٹھّو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمَرا کے در و دیوار ہِلا دو

حلِ لغات:

جگا دومراد ظلم کے خلاف لڑنے کے لیے اُن میں حوصلہ پیدا کر دو
کاخِ اُمرادولتمندوں کے محل
حلِ لغات (بالِ جبریل 131: فرمانِ خُدا)

تشریح:

اے فرشتو! اے قدرت کے کارخانے کو چلانے والی قوّتو! اٹھو! اور میری دنیا میں جاکر غریبوں کو بیدار کردو اور ان کے اندر ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کا جذبہ پیدا کردو۔۔۔

امیر لوگوں نے جو اونچے اونچے محل بنا رکھے ہیں، ان کے در و دیوار میں زلزلہ پیدا کردو تاکہ وہ ذاتی مفادات کے ساتھ ساتھ غریبوں کے مفادات کو بھی پیشِ نظر رکھیں اور ان کے کام آئیں۔


گرماؤ غلاموں کا لہُو سوزِ یقیں سے
کُنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو

حلِ لغات:

لہو گرماناجوش دِلانا، خون جوش میں آجانا
سوزِ یقینیقین کی حرارت
کُنجِشکچڑیا
فرومایہحقیر، معمولی، ناچیز
حلِ لغات (بالِ جبریل 131: فرمانِ خُدا)

تشریح:

جو لوگ محکوم اور غلام بن بیٹھے ہیں، ان میں یقین کی ایسی حرارت پیدا کردو کہ ان کا خون جوش میں آجائے۔۔۔ یہ (محکوم اور غلام لوگ) آج چڑیا کی طرح ناچیر اور بے حقیقت نظر آتے ہیں، ان کے مقابلے میں دولت مند اور سرمایہ دار اپنے وسیع سروسامان کی بدولت شاہین کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔ ایسا بندوبست کرو کہ چڑیا شاہین سے لڑجائے (یعنی مفلس، غریب اور نادار امیروں، سرمایہ پرستوں اور دولت مندوں سے جا بھِڑیں)

یعنی غلام قوموں کے دِل میں یقین کی آگ بھڑکادو تاکہ وہ ظالم اور جابر حکمرانوں کا تختہ اُلٹ دیں۔


سُلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کُہَن تم کو نظر آئے، مِٹا دو

حلِ لغات:

سُلطانی جمہورعوام کی حکومت، جمہوریّت
آتا ہےانے والا ہے (فعل حال بطور مستقبل استعمال ہوا ہے)
نقشِ کُہنپُرانا نقش۔ مُراد پُرانا اندازِ حُکمرانی
حلِ لغات (بالِ جبریل 131: فرمانِ خُدا)

تشریح:

زمانے کا رنگ بدل گیا ہے۔۔ شہنشاہی اور سرمایہ پرستی کا دور گزر گیا ہے۔۔ اب عوام کی بادشاہی کا زمانہ آرہا ہے۔۔ تمام معاملات کی باگ ڈور اب عوام ہی کے ہاتھ میں ہوگی۔۔ لہذا پرانے دور (شہنشاہی اور سرمایہ پرستی کا دور) کے جو جو نقوش تمہیں نظر آتے ہیں، ان سب کو مِٹا ڈالو


جس کھیت سے دہقاں کو میسرّ نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

حلِ لغات:

دہقانکسان، مزدور، محنت کش طبقہ
خؤشۂ گندمگندم کی بالی / گچھا / سِٹّا
حلِ لغات (بالِ جبریل 131: فرمانِ خُدا)

تشریح:

جب معاملات کی باگ ڈور عوام کے ہاتھ میں آئے گی تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ وہ کس انداز میں سوچیں گے؟ کس نقطہ نگاہ سے ہر چیز کو دیکھیں گے؟ ان کا نقطۂ نگاہ یہ ہوگا کہ جس کھیت سے کسان کو روزی نہیں ملتی، اس کا ہر سِٹّا جلا دینے کے قابل ہے تاکہ سرمایہ دار بھی اس سے فائدہ نہ اُٹھا سکے۔

اس بات سے محض ایک بنیادی حقیقت واضح کرنا مقصود ہے۔ یہ نہیں کہ لوگوں کو بے آئینی یا تباہ کاری کی تعلیم دی جائے۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ ہر کاشت کار اور کسان اپنی محنت اور مشقّت کے بدلے میں پیٹ بھرنے اور تن ڈھانپنے کا یقینًا حقدار ہے۔ اگر سرمایہ پرست اور زمیندار یہ بنیدای حق بھی تسلیم نہیں کرتے تو وہ یقینًا صریح ظلم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ عوام کے دل میں یہ جذبہ پیدا کرتے ہیں کہ ایسی کھیتیاں جلادینے کے قابل ہیں۔ روسی انقلاب ایسے ہی حالات کا نتیجہ تھا اور جہاں یہ حالات پیدا ہوں گے، یقینًا ایسا انقلاب آئے گا، جس میں سرمایہ پرست اور زمیندار بری طرح مِٹ جائیں گے۔ اقبال نے اس شعر میں یہی حقیقت واضح کی ہے۔


کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پِیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو

حلِ لغات:

پردے حائل رہنادرمیان میں پردے پڑے رہنا
پیرانِ کلیساگِرجے کے بوڑھے پادری۔ مراد تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کے مجاورین جو انسانوں کو اللہ تک پہنچنے نہیں دیتے
حلِ لغات (بالِ جبریل 131: فرمانِ خُدا)

تشریح:

مذہبی پیشواؤں اور خصوصاً پادریوں نے خدا اور اس کے بندوں کے درمیان پردے تان دیے ہیں۔ وہ اپنے واسطے کے بغیر کسی کو خدا تک پہنچنے نہیں دیتے۔ ان مذہبی پیشواؤں کو کلیساؤں کے اُٹھا دو، تاکہ بیچ کے پردے بھی اُٹھ جائیں۔۔ خدا اور اس کے بندوں کے درمیان براہِ راست تعلق پیدا ہوجائے۔

یہ شعر دراصل مسیحی کلیسا کی سرگزشت کا ایک نہایت اہم باب ہے۔ اہلِ کلیسا تمام مذہبی معاملات کے مختار خود بن گئے تھے۔ صدیوں تک دنیا نجات کے لیے انہی کی طرف دیکھتی رہی۔ جب علم پھیلا، عوام کے دماغوں میں روشنی پیدا ہوئی تو نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ نہ صرف کلیسا سے بدظن ہوئے بلکہ مذہب ہی سے بیزار ہوگئے۔ بالکل یہی کفیت ہندو دھرم کے پنڈِتوں اور پروہِتوں نے پیدا کی اور ایسی ہی حالت ہماری قوم کے بعض نام نہاد عالموں اور پیروں کی ہے۔


حق را بسجودے، صنَماں را بطوافے
بہتر ہے چراغِ حَرم و دَیر بُجھا دو

حلِ لغات:

دَیرمندر
حلِ لغات (بالِ جبریل 131: فرمانِ خُدا)

تشریح:

نوٹ: اس شعر کا پہلا مصرع کا صدر اس فارسی شعر سے ماخوذ ہے:-

؎ زنہار! ازاں قوم بناشی کہ فریبند
حق را بسجودے و نبی را بدرودے

مطلب یہ ہے کہ چونکہ یہ دنیا پرست مذیبی پیشوا لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے مسجدوں میں سجدہ کرتے ہیں اور مندروں میں طواف کرتے ہیں، اس لیے ان تمام معابد کو مٹادو جہاں مُلّاؤں اور پنڈتوں نے ریاکاری کا جال بچھا رکھا ہے۔

کعبہ اور بُت خانے کی حالت کیا ہے؟ کعبہ میں مذہب کی حقیقیت یہ سمجھ لی گئی کہ وقتاً فوقتاً خدا کو سجدہ کردیا۔ بُت خانے والوں کے نزدیک مذہب کا حاصل یہ ہے کہ بُتوں کے اردگرد چکّر لیے، یعنی انہوں نے صرف چند نمائشی باتوں کو مذہب سمجھ رکھا ہے۔ اس کی روح و حقیقت کا انہیں کقی احساس نہیں۔ ایسا مذہب کس کام کا؟ بہتر یہی ہے کہ اس کا چراغ بجھا دیا جائے تاکہ لوگ مذہب کی روح و حقیقت پہچان سکیں۔

نوٹ: ان تینوں نظموں (لینن – خدا کے حضور میں، فرشتوں کا گیت، فرمانِ خدا – فرشتوں سے) میں اقبالؔ نے اپنے جذبات کو تمثیلی رنگ دیا ہے۔

”چراغِ حرم و دیر“ کے بجھانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اقبال نفسِ مذہب کے مخالف ہیں، جیسا کہ اقبال کے ایک فاضل نقاد نے سمجھ لیا ہے بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ عبادت میں خلوص شرط ہے یعنی جو عبادت ریاکاری پر مبنی ہواللہ تعالی اس کو قبول نہیں کرتے۔۔ چنانچہ ائندہ شعر سے میری تاویل کی تصدیق ہوسکتی ہے جس میں اقبال نے “مٹی کے حرم” کا اثبات کیا ہے۔

(حوالہ: شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)


میں ناخوش و بیزار ہُوں مَرمَر کی سِلوں سے
میرے لیے مٹّی کا حرم اور بنا دو

حلِ لغات:

مرمر کی سِلسنگِ مرمر کر خوبصورت فرش
حرمچار دیواری، کعبہ
حلِ لغات (بالِ جبریل 131: فرمانِ خُدا)

تشریح:

کعبہ میں سنگِ مرمر کی سِلیں لگانے سے کیا حاصل؟ عالی شان مسجدیں، گرجے اور مندر تعمیر کرنے کا کیا فائدہ؟ اصل مقصود تو یہ ہے کہ مذہبی جذبے کے ماتحت خلقِ خدا کی خدمت بہتر سے بہتر طریق پر انجام پائے۔ مجھے یہ سنگِ مرمر کی عالیشان عمارتیں درکار نہیں بلکہ میں تو ان سے ناراض ار بیزار ہوں۔ مجھے تو ایسا کعبہ چاہیے، جو عوام میں سچّا دینی جذبہ پیدا کرے، اگرچہ وہ کعبی مٹی کا ہی بنا ہوا ہو۔

مراد یہ ہے کہ مذہب کی روح اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے۔ عبادت کے لیے عالیشان عمارتیں بنالینا اس صورت میں بالکل بے سود ہے جب دل سچے مذہبی جذبے سے خالی ہوں۔ رسولِ اکرم ﷺ کے عہدِ مبارک میں کعبہ کی عمارت بالکل معمولی حیثیت کی تھی اور مسجدِ نبوی کا یہ حال تھا کہ پتھروں اور مٹی کی معمولی دیواریں تھیں اور کھجور کے پتوں کی چھت۔ کھجور کے تنے جابجا ستونوں کا کام دے رہے تھے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے تک مسجد اسی حالت میں رہی۔ بنوامیّہ کے زمانے میں کعبہ اور مسجدِ نبوی کی عالیشان عمارتیں بنیں۔ پھر تکلّفات بڑھتے گئے اور مذہبی روح گھٹتے گھٹتے آخری حد تک پہنچ گئی۔ مقصود حقیقی معنویت ہے نہ کہ ظاہرداری۔


تہذیبِ نوی کارگہِ شیشہ گراں ہے
آدابِ جُنوں شاعرِ مشرِق کو سِکھا دو!

حلِ لغات:

تہذیبِ نوَینئی تہذیب
کارگۂ شیشہ گراںشیشہ بنانے والوں کا کارخانہ۔ مراد ناپائیدار جگہ
آدابِ جُنوںجنون کی کیفیّت، دیوانگی، اہلِ جنون کا طریقہ
حلِ لغات (بالِ جبریل 131: فرمانِ خُدا)

تشریح:

یہ جو نئی تہذیب ہے، یہ شیشہ بنانے والوں کی کارگاہ ہے، یعنی ذرا سی ضرب بھی پڑے تو چُور چُور ہوجائے گی۔ اسے تباہ کردینا ہی ضروری ہے۔۔ اور تباہ کردینے کی کیا صورت ہے؟ صورت یہ ہے کہ مشرق کے شاعر (اقبالؔ) کو جنون کے طریقے سکھادو یعنی وہ ایسا پیغام دے جو لوگوں میں جنون کی ایک خاص کیفیت پیدا کردے اور لوگ اس کارگاہِ شیشہ (تہذیبِ حاضر) کو ریزہ ریزہ کر ڈالیں۔ اس لیے کہ جب تک یہ تہذیب نہ مِٹے گی، اس وقت تک وہ مصیبتیں دور نہ ہوں گی، جو اس تہذیب کے باطل اقتصادی نظام نے عوام کے لیے بیدار کیں۔

حوالہ جات

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
تنویر ابنِ بشیر

اقبالیات زندگی جھنجھوڑ دینے کی چیز ہے ۔اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے ۔آمین۔