”مذہب“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”مذہب“ کی تشریح
اپنی مِلّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رُسولِ ہاشمی
مِلّت | قوم۔ مراد ہے مُسلم اُمّت سے |
قیاس کرنا | سمجھنا، خیال کرنا، اندازہ لگانا |
اقوامِ مغرب | یورپ کی قومیں |
خاص | خاصیّت کی، سب سے الگ |
ترکیب | بناوٹ، ساخت |
رسولِ ہاشمی ﷺ | حضور اکرم ﷺ کے پردادا کا نام ”ہاشم“ تھا، اسی لیے آپ ﷺ ہاشمی کہلاتے ہیں۔ |
تشریح:
اے مسلمان! تجھے اپنی مِلّت اور اس کی تعلیمات کا تقابل اقوامِ مغرب سے نہیں کرنا چاہیے، یعنی تم قومیّت کا اصول مغرب سے مت سیکھو۔ اس لیے کہ اپنی ترتیب و تنظیم کے اعتبار سے آنحضرت ﷺ کی اُمّت دنیا بھر کی دوسری قوموں سے قطعی مختلف واقع ہوئی ہے۔ اس لیے تمہیں اہلِ مغرب کی روِش پر نہیں چلنا چاہیے، بلکہ اسلامی تعلیمات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ بقول علامہ:-
؎ چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلِم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
(حوالہ: بانگِ درا: ترانۂ مِلّی)
اُن کی جمعیّت کا ہے مُلک و نسَب پر انحصار
قوّتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیّت تری
جمعیّت | جماعت کی صورت، گروہ |
اِنحصار | دار و مدار |
نسَب | نسل، خاندان |
مستحکم | مضبوط، پکّا |
تشریح:
مغربی اقوام کی جمعیّت اور اتّحاد کا دار و مدار اُن کے خطۂ ارض اور نسل و خون کی نسبتوں پر ہوتا ہے۔ یعنی مغرب میں چونکہ مذہب افراد و اقوام کی زندگی سے نِکل کر محض انفرادی (ذاتی / شخصی) نوعیّت کا معاملہ رہ گیا ہے۔ اُن کی رائے میں قوم، وطن، نسب و نسل۔۔ رنگ یا زبان سے بنتی ہے۔ لیکن اسلام نے ان خود ساختہ امتیازات کو مِٹا کر تمہاری قومیّت کا انحصار عقیدۂ توحید (اسلام) پر رکھا ہے۔ لہذا تمھاری جمعیّت (جماعت) کا دار و مدار دین پر ہے۔ مسلمانوں کا اِتّحاد اور اُن کی جماعت صرف اور صرف مذہب کی قوّت کی وجہ سے مضبوط و پائیدار ہو سکتی ہے۔
؎ بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے
اِسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے
(حوالہ: بانگِ درا: وطنیّت)
دامنِ دیں ہاتھ سے چھُوٹا تو جمعیّت کہاں
اور جمعیّت ہوئی رُخصت تو مِلّت بھی گئی
جمعیّت | جماعت کی صورت، گروہ |
مِلّت | مُسلم قوم، اُمّتِ مُسلِمہ |
تشریح:
اے مسلمان! یہ نکتہ ذہن نشین کر لے کہ اگر تُو نے دین کو ترک کر کے مغرب کے لوگوں کی طرح مذہب کو ذاتی اور انفرادی معاملہ تصوّر کیا، تو تیری جمعیّت (جماعت) کا اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا اور جمعیّت کا خاتمہ ہوا تو قوم و مِلّت کا وجود ختم ہو کر رہ جائے گا۔ بیشک دنیا کی دوسری تمام قومیں اوطان (وطن کی جمع) سے بنتی ہیں لیکن مسلمانوں کی قوم کسی وطن سے وابسطہ نہیں ہے۔ تمام دنیا کے مسلمان چین سے مراکش تک ایک قوم ہیں۔ محض اس لیے کہ ان کی قومیّت کی بنیاد وطن نہیں بلکہ دین ہے۔
یعنی اے مسلمان! دین کی مضبوط رسّی پوری قوّت سے تھامے رکھو اور اسلام کی صراطِ مستقیم پر عزت و ہمّت سے گامزن رہو۔ تمہاری بقا اور ترقّی کا راز مذہب اور صرف مذہب میں پوشیدہ ہے۔