Skip to content
بانگِ درا 126: دُعا

بانگِ درا 126: دُعا


”دُعا“ از علامہ اقبال

تعارف

نظم ”دُعا“ اُس زمانہ کی ہے جب مسلمانوں پر مصائب کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں اور اقبالؔ کا دِل چونکہ زکی الحس تھا، اس لیے ہر وقت مسلمانوں کی پریشانی پر خون کے آنسو بہاتا رہتا تھا۔ جب بیتابی حد سے فزوں کر گئی تو اُنہوں نے اللہ تعالی سے اِس نظم کی صورت میں دعا مانگی۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)


”دٗعا“ علامہ نے اُس دور میں کہی تھی جب ایران اور ترکی مصیبتوں کا شکار تھے اور دنیا کے دوسرے مُلک نصاری سے سازباز کر رہے تھے۔ علامہ کو اس صورتِ حال پر بے حد صدمہ تھا۔ جب اُن کا اضطراب بڑھا اور حالات کی اصلاح کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی تو اُنہوں نے بےقراری کے عالم میں یہ نظم کہی۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)


میرزا جلال الدین بیرسٹر ایٹ لاء فرماتے ہیں کہ اقبالؔ ہر شام بلاناغہ میرے ہاں تشریف لاتے تھے، وہاں گانا بھی ہوتا تھا۔ جب اٗن کا قلب متاثر ہونے لگتا:-

وہ ایک دھیمی آواز میں گنگنانا شروع کرتے جس کے ساتھ ساتھ اپنے داہنے زانو کو ہاتھ سے تھپکتے جاتے۔۔۔ سازندے جو اقبالؔ کی طبیعت سے واقف تھے نہایت مدھم سُروں میں ایک قسم کی تال سی دیتے اور وہ اپنی مخصوص لَے میں، جس کی دِلکشی کا اظہار الفاظ میں نہیں ہو سکتا، اپنے اشعار پڑھنے شروع کر دیتے اور اُن کی آواز سازوں کی ہم آہنگی کی وجہ سے کچھ ایسی دِل نواز ہو جاتی کہ ایک سماں سا بندھ جاتا۔۔۔ ”یارب! دِلِ مُسلِم کو وہ زندہ تمنّا دے“ والی نظم کی بنیاد بھی ایک ایسی ہی مجلس میں رکھی گئی تھی اور مِلّی ترانے کا پہلا شعر بھی اسی حالت میں موزوں ہوا تھا۔“
(ملفوظاتِ اقبالؔ صفحہ 68)

(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)

YouTube video

نظم ”دُعا“ کی تشریح

یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے، جو رُوح کو تڑپا دے

حلِ لغات:

زندہ تمنّاعمل پر آمادہ رکھنے والی آرزو
قلب کو گرمانادِل میں جوش پیدا کرنا
حلِ لغات (بانگِ درا 126: دُعا)

تشریح:

اے خداوند! مسلمان کے سینے میں عشقِ رسول اللہ ﷺ کی ایسی آگ روشن کر دے جو اُس کے دِل کو بیدار کر دے اور اُس کی روح کو سراپا اضطراب بنا دے۔ ایک جیتی جاگتی اور ہر وقت جہد و عمل کے لیے بے قرار رکھنے والی خواہش، جس سے مسلم عمل کے لیے بے قرار ہو کر اُٹھ کھڑا ہو اور تبلیغ و اشاعتِ اسلام کے لیے آمادہ ہو جائے۔


پھر وادیِ فاراں کے ہر ذرّے کو چمکا دے
پھر شوقِ تماشا دے، پھر ذوقِ تقاضا دے

حلِ لغات:

وادیِ فاراںفاراں: (مکہ کی ایک پہاڑی) خانہ کعبہ۔ سرچشمۂ اسلام
شوقِ تماشادیکھنے کی خواہش
ذوقِ تقاضاتجلّیاتِ الہی سے بہرہ اندوز ہونے کی تمنّا
حلِ لغات (بانگِ درا 126: دُعا)

تشریح:

اے مولا! ایک بار پھر حرمِ کعبہ (وادیِ فاراں) کے ایک ایک ذرے کو منوّر (روشن) فرما دے اور پھر مسلم میں نظارے کا شوق (شوقِ تماشا) اور تقاضے کی تمنا (ذوقِ تقاضا) پیدا کر دے

اس شعر کے دو معنی ہیں- پہلے یہ کہ مسلمانوں کے دِلوں میں حجاز کی محبت پیدا کر دے اور ان کے دِلوں میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کا شوق پیدا کر دے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ اسلام (قرآن) کے حقائق اور معارف کو مسلمانوں کے قلوب پر واضح کر دے۔ ان کا سینہ فہمِ قرآن کے لیے کھول دے۔ انہیں مطالعہ کا شوق دے اور روحانیت حاصل کرنے کا (تجھ سے رابطہ پیدا کرنے کا) ذوق دے۔


محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بِینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اَوروں کو بھی دِکھلا دے

حلِ لغات:

محرومِ تماشاجو نظارے سے محروم ہو، اندھا، جو دیکھ نہ سکے
دیدۂ بینادیکھنے والی آنکھ، بصیرت
حلِ لغات (بانگِ درا 126: دُعا)

تشریح:

اے اللہ! مسلمان دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں۔  محرومِ تماشا (دیکھنے کی صلاحیت سے محروم) مسلم کو پھر دیکھنے والی آنکھ (دیدۂ بینا) سے نواز۔ الہی! اس میں پھر اپنا عشق اور توحید و اسلام سے وابستگی پیدا کر دے اور جو حالات مجھے نظر آرہے ہیں، دوسرے مسلمان بھی اُن سے آگاہ ہو جائیں۔ اُن کے دِل میں سرکارِ دو عالم ﷺ کی محبت پیدا کر دے اور جو آگ خدمتِ اسلام کی میرے سینے میں روشن ہے، وہی اُن کے سینوں میں روشن کر دے۔


بھٹکے ہوئے آہُو کو پھر سُوئے حرم لے چل
اس شہر کے خُوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے

حلِ لغات:

بھٹکا ہوا آہوراستہ بھولا ہوا ہرن، مراد بھٹکا ہوا مسلمان
سوئے حرمکعبہ کی طرف، یعنی اسلام کی طرف
شہر کا خُوگرشہر کا عادی
وُسعتِ صحراریگستان کا سا پھیلاؤ، دُنیا میں پھیلنا
حلِ لغات (بانگِ درا 126: دُعا)

تشریح:

آج کے مسلمان کی حالت اُس ہرن (آہو) جیسی ہے جو اپنا راستے سے بھٹک چکا ہو۔ اے اللہ! اسے پھر اپنی منزل یعنی خانہ کعبہ اور اسلام کی طرف لوٹا دے۔ اسے پھر اسلام اور بانیِ اسلام ﷺ کی محبت عطا فرما۔  یہ شہر کا عادی ہو چکا ہے، اس کی نظریں تنگ اور حوصلے پست ہیں، یہ تن آسان ہو کر اپنی صلاحیتوں سے محروم ہو چکا ہے۔ یا اللہ اسے پھر سے صحراؤں کی وُسعت اور پھیلاؤ عطا فرما تاکہ سخت کوشی سے اس کی صلاحیتیں نِکھر سکیں۔ اس کی فکر کو پھر صحرا کا پھیلاؤ عطا کر جس سے نگاہوں میں تیزی اور حوصلوں میں بلندی پیدا ہو اور یہ غفلت و کاہلی چھوڑ کر جہد و عمل سے اپنی عظمت و بقا کا سامان کر سکے


پیدا دلِ ویراں میں پھر شورشِ محشر کر
اس محملِ خالی کو پھر شاہدِ لیلا دے

حلِ لغات:

دِلِ ویراںاسلام کے جذبے سے خالی دِل
شورشِ محشرقیامت کا سا ہنگامہ
محملِ خالیخآلی محمل، حضور اکرم ﷺ کے عشق سے خآلی دِل
شاہدِ لیلامحبوب لیلیٰ، مراد جذبۂ ایمان
حلِ لغات (بانگِ درا 126: دُعا)

تشریح:

یا اللہ! آج کے مسلمان کا دِل اُجڑا ہوا ہے۔ اس میں کسی عظیم تمنّا و آرزو کا سُراغ نہیں مِلتا، وجہ یہ ہے کہ اُس کا سینہ عشقِ رسول اللہ ﷺ سے خالی ہو چکا ہے۔ اس ویران یعنی جذبوں سے محروم دِل میں عشقِ رسول اللہ ﷺ کی آگ بھڑکا کر پھر قیامت (محشر) کا سا ہنگامہ پیدا کر دے۔ وہی طوفان جو مسلمانوں کے عظیم اسلاف کے قلوب میں برپا تھا۔ اِن کے دِلوں میں عظیم انقلاب اور جذبے پیدا فرما دے اور اس خالی محمل (مراد ہے دِل) کو پھر لیلی جیسی محبوبہ عطا فرما۔ یعنی اُس کے دِل میں سرکارِ دو عالم ﷺ کی محبت پیدا کر اور حضور ﷺ کے عشق میں دیوانہ بنا دے۔


اس دور کی ظُلمت میں ہر قلبِ پریشاں کو
وہ داغِ محبّت دے جو چاند کو شرما دے

حلِ لغات:

ظُلمتاندھیرا، تاریکی، بُرائیاں، خرابیاں
قلبِ پریشاںفکرمند دِل
داغِ محبّتعشق کا زخم
حلِ لغات (بانگِ درا 126: دُعا)

تشریح:

آج کے دور کی تاریکی میں ہر دِل پریشان و بے قرار ہے۔ تُو ایسے ہر دِل میں عشقِ رسول اللہ ﷺ کا ایسا داغ پیدا فرما دے جس کی چمک چاند کو بھی شرمادے، یعنی یہ داغ اپنی دِلکشی، حُسن و جمال اور کمال میں چاند کی روشنی سے بڑھ کر ہو ۔ باطل قوتیں چھائی ہوئی ہیں، جس کے باعث مسلمان بے حد پریشان ہیں۔ اے ربِ کریم! اُن کے دِلوں میں ایمان و عشقِ حقیقی کی عظیم روشنی پیدا فرما دے، اُن کے کے عشق کو درجۂ کمال تک پہنچا دے۔ وہ سچے مسلمان بنیں اور باطل قوتوں سے بے خوف ہو کر ٹکرا جائیں


رفعت میں مقاصد کو ہمدوشِ ثریّا کر
خودداریِ ساحل دے، آزادیِ دریا دے

حلِ لغات:

رفعتبلندی
ہمدوشِ ثریّاثریّآ جتنا اونچا، بہت بلند
حلِ لغات (بانگِ درا 126: دُعا)

تشریح:

مسلمانوں کے مقاصد اتنے عظیم و بلند فرما دے جو ثریا (آسمان پر چند ستاروں کا جھرمٹ سب سے نمایاں روشنی اسی جھرمٹ کی ہوتی ہے) کے ہم پلہ ہوں۔ ان کے دِلوں میں ساری دنیا کو اسلام کے نور سے منوّر کرنے کی آرزو پیدا کر دے۔ ان میں ساحل کی سی خودداری اور دریا کی سی آزادی کا جذبہ پیدا فرما دے۔ دریا جب چاہتا ہے اپنے ساحل (کنارے) کو پانی کی لہروں سے کاٹ دیتا ہے لیکن ساحل خودداری کے باعث رحم کی التجا نہیں کرتا۔ نیز دریا سے وابستہ ہونے کے باوجود کبھی دریا سے پانی طلب نہیں کرتا۔ سمندر کی آزادی یہ ہے کہ وہ جدھر کو اس کا جی چاہے، بے روک ٹوک بہنے لگتا ہے۔ گویا مسلمان دوسری قوموں اور باطل قوموں کا دست نگر ہونے کی بجائے اپنے جہد و عمل سے اپنے عظیم مقاصد حاصل کرے۔ مسلمانوں کے اِرادوں میں بلندی عطا فرما اور اُن میں غیرت، خودداری اور حُریّت کے جذبات پیدا کر دے۔


بے لَوث محبّت ہو، بے باک صداقت ہو
سینوں میں اُجالا کر، دل صورتِ مینا دے

حلِ لغات:

بے لوثآلودگی (ملاوٹ) سے پاک
بیباک صداقتخوف سے پاک سچّائی
صورتمانند، طرح
میناشراب کی صراحی
حلِ لغات (بانگِ درا 126: دُعا)

تشریح:

الہی! مسلمانوں کے دِل میں ایسی محبت بھر دے جس میں لالچ کا شائبہ تک نہ ہو اور اُنہیں بے خوف ہو کر سچ بولنے کی توفیق عطا فرما۔ اُن کے سینوں میں توحید کی روشنی پیدا فرما دے اور یوں اُن کے قلوب کو نورِ ایمان سے منوّر کر دے۔ اُنہیں شراب کی صراحی (مینا) کی طرح روشن، چمکتے اور جذبوں و ولولوں کے حامل کے دِلوں سے نواز۔ اُن کے دِل صراحی کی مانند ہو جائیں جو جو دوسروں کو فیض پہنچانے کے لیے خود خالی ہو جاتی ہے


احساس عنایت کر آثارِ مصیبت کا
امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دے

حلِ لغات:

آثارِ مصیبتمصیبت کے آثار، مصیبت کی علامات
امروزآج، حال کا زمانہ
شورشہنگامہ
اندیشۂ فرداآنے والی کل کی فکر
حلِ لغات (بانگِ درا 126: دُعا)

تشریح:

یا اللہ! آج مسلمانوں کی مِلّی زندگی چاروں طرف سے مصائب و آلام میں گھری ہوئی ہے اور انہیں اِن مصیبتوں کا احساس تک نہیں ہے۔ یہ بے حسی کا شکار ہیں۔ مسلمانوں میں اتنی سمجھ عطا فرما کہ وہ آنے والی مصیبتوں کا احساس کرکے، اُن کو دفعیہ کا انتظام کر سکیں اور آج (امروز) کے ہنگاموں میں وہ کل (فردا) سے متعلق بھی کچھ سوچ سکیں، کیونکہ جو شخص آئندہ کے لیے پہلے سے تیاری نہیں کرتا وہ عین وقت پر کچھ نہیں کر سکتا۔ مثلاً جو طالب علم سالانہ امتحان کے لیے، جو ایک سال بعد ہوگا، ابھی سے تیاری نہیں کرتا، وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ انہیں توفیق عطا فرما کہ آج جن حالات سے وہ گزر رہے ہیں، اُن سے سبق حاصل کریں اور اپنے عظیم مستقبل کے بارے میں سوچیں۔ جہد و عمل اور سعی و کوشش میں لگ جائیں اور اپنا مستقبل عظیم و باشان و شکوہ بنا لیں۔


مَیں بُلبلِ نالاں ہوں اِک اُجڑے گُلستاں کا
تاثیر کا سائل ہوں، محتاج کو، داتا دے!

حلِ لغات:

بُلبُلِ نالاںفریاد کرنے والی بُلبُل، مراد علامہ اقبال
اُجڑا گُلستاناُجڑا ہوا باغ
تاثیراثر
سائلعرضی گزارم فریادی، طالب، آرزومند، خواہاں
محتاجضرورت مند، حاجت مند، خواہش مند، خواہاں، طلب گار، متقاضی
داتادینےوالا، سخی
حلِ لغات (بانگِ درا 126: دُعا)

تشریح:

یا اللہ پاک! میری حیثیت مِلّتِ اسلامیہ کے اُجڑے ہوئے باغ میں آہ و فغاں بُلند کرنے والے بُلبُل کی سی ہے۔ میں ایک ایسی قوم کا فرد (شاعر) ہوں جو برباد ہوچکی ہے۔ مِلّتِ اسلامیہ کے حالات دیکھ کر میں بے حد صدمے میں ہوں اور اپنے صدمے کا اظہار اپنی شاعری میں کر رہا ہوں تاکہ اس کا اثر لے کر مِلّت بیدار ہو جائے۔ الہی! تُو سب کی مُرادیں پوری کرنے والا اور اسب کو عطا کرنے والا ہے، لہذا میں تیری بارگاہ میں درخواست کرتا ہوں کہ تُو میرے کلام میں ایسی تاثیر پیدا فرما دے کہ میرا کلام میری قوم کے دِلوں کو گرما سکے۔

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments