Skip to content
بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ

بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ


”بلادِ اسلامیہ“ از علامہ اقبال

فہرست

تعارف

نظم ”بلادِ اسلامیہ“ اپریل 1909ء کے ماہنامہ مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ نظرثانی میں اس کے بعض شعر قلمزد کردیے گئے تھے اور بعض میں جزوی ترامیم کی گئی تھیں۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد)

YouTube video

دہلی

دہلی: مسلمانوں کی آمد سے پہلے، ”مہا بھارت“ کے زمانہ میں اس شہر کا نام ہستنا پور تھا۔ بعد ازاں اندر پرستھ ہوا۔ مسلمانوں کے عہدِ حکومت میں کئی دفعہ اُجڑی اور کئی دفعہ آباد ہوئی۔ آخر میں شاہجہاں نے بسایا اور 1637ء میں پایۂ تخت بنایا۔ 1911ء میں انگریزوں نے اس کو اپنا دارالحکومت بنایا اور اس کے پہلو میں “نئی دِلی” کے نام سے سرکاری دفاتر تعمیر کیے۔ یہ قدیم تاریخی شہر جو بڑے بڑے دینی اور دنیاوی سلاطین کا مدفن ہے، جو صدیوں تک مسلمانوں کی تہذیب کا مرکز رہا ہے۔۔ دریائے جمنا کے دائیں کنارے پر آباد ہے۔ تقسیم سے پہلے اس کی آبادی دس لاکھ کے قریب تھی۔


(حوالہ : شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی، ویکی پیڈیا)


سرزمیں دلّی کی مسجودِ دلِ غم دیدہ ہے
ذرّے ذرّے میں لہُو اسلاف کا خوابیدہ ہے

حلِ لغات:

سر زمینشہر، مُلک
دِلِ غم دیدہغمگین دِل
اسلافسِلِف کی جمع۔ گزشتہ، سابقہ، اگلے وقتوں کے لوگ
خوابیدہسویا ہوا۔ مُراد بِکھرا ہوا
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

بلادِ اسلامیہ میں پہلا شہر دِلّی (دہلی) ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ رنجیدہ و غمگین دِل ہندوستان کے مشہور شہر دہلی کو سجدہ کررہا ہے۔

اِس لیے کہ اس شہر کے ذرّے ذرّے میں ہم مسلمانوں کے بزرگوں کا خون شامل ہوچکا ہے، یعنی اس شہر کو فتح کرنے کے بعد اسے دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمارے بزرگوں نے اِتنا خون بہایا ہے کہ دہلی کی خاک کا ہر ذرّہ خون سے رنگین معلوم ہوتا ہے، اب وہ خون جذب ہوچکا، لہذا ذرّے ذرّے میں وہ خون سورہا ہے۔


پاک اس اُجڑے گُلستاں کی نہ ہو کیونکر زمیں
خانقاہِ عظمتِ اسلام ہے یہ سرزمیں

حلِ لغات:

اُجڑا گُلِستاںتباہ شُدہ باغ یعنی دِلّی جو 1857ء میں تباہ ہوئی
خانقاہدرویشوں کے رہنے کی جگہ
عظمتِ اسلاماسلام کی بڑائی، بزرگی
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

اس اُجڑے ہوئے باغ کی سرزمین ہماری نظروں میں پاک اور مقدس کیوں نہ ہو؟ اس زمین سے تو ہم مسلمانوں کی عظمتِ ماضیہ وابستہ ہے۔

یہ شہر اِسلام کی عظمت و برتری کی خانقاہ (درویشوں اور مشایخ کے رہنے کی جگہ) ہے۔ خانقاہ یہاں بظاہر مزارا اور مدفن کی جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ کبھی دہلی میں حضرت نظام الدینؒ اولیا‌ اور دوسرے بزرگوں وغیرہ کی مسندیں تھیں۔ پھرصدیوں یہاں مسلمانوں کی حکمرانی رہی۔


سوتے ہیں اس خاک میں خیرالامم کے تاجدار
نظمِ عالم کا رہا جن کی حکومت پر مدار

حلِ لغات:

خیرالامماُمّتوں میں سب سے بہتر یعنی بہترین اٗمّت (قرآنِ کریم میں اُمّتِ مُسلمہ کے لیے کہا گیا ہے: ”خیر أمۃ“)
تاجداربادشاہ، عظیم ہستی
نظمِ عالمدُنیا کا انتظام، دُنیا کی ترتیب
مداراِنحصار
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

اس شہر کی مٹی میں دنیا کی بہترین اُمت (خیرالامم) کے وہ مسلمان سلاطین آرام کررہے ہیں (مثلاً شمس الدین التمش، فیروز تغلق، سکندر لودھی، ہمایوں، علاء الدین خلجی) جن کی حکومت پر اس دنیا کے انتظام کا دارومدار تھا۔


دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمیِ محفل کی یاد
جل چُکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد

حلِ لغات:

تڑپانابے چین کرنا
گرمیِ محفلمحفل کی رونق
حاصلکھیت یا باغ کی فصل / پیداوار، خِرمَن
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

یہ سچ ہے کہ حکومت جاچکی ہے (1883ء سے لال قلعہ پر اغیار کا علم لہرارہا ہے)، لیکن اس شہر کے دبدبہ و رونق اور شان و شوکت کی یاد اب تک دِل کو تڑپا رہی ہے۔ جو کچھ ہم نے حاصل کیا تھا، وہ تو باقی نہ رہا، جل کر راکھ ہوچکا لیکن اس کی یاد ابھی تک دِل و دماغ میں محفوظ ہے اور تڑپاتی رہتی ہے۔

بغداد

بغداد: یہ قدیم تاریخی شہر جو کسی زمانہ میں دنیائے اسلام کا مرکز تھا، دریائے دجلہ کے کنارے آباد ہے۔ اس کو ابوجعفر منصور نے جو خاندانِ عباسیہ کا دوسرا فرمانروا تھا، 762ء میں آباد کیا تھا۔ ہارون الرشید کے زمانے میں اس کی عظمت اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ اس زمانے میں اس کی آبادی پندرہ لاکھ سے زیادہ تھی۔ اس کا لقب “دارالسلام” تھا۔ 1258ء میں ہلاکو خان نے دریائے دجلہ کا پانی مسلمانوں کے خون سے سُرخ کردیا۔ 1393ء میں تیمور نے اس کو فتح کیا۔ 1638ء میں سلطان مراد عثمانی نے اس کو سلطنتِ عثمانیہ میں شامل کیا۔ 1917ء میں انگریزوں نے اس کو فتح کیا۔ اس شہر میں شیخ عبدالقادرؒ جیلانی کا مزار بھی ہے۔ کسی دور میں دارالسلام اور مسلم دنیا کا مرکز یہ شہر، 2003ء سے جاری عراق جنگ کی وجہ سے انتشار کا شکار ہے۔

(حوالہ : شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی، ویکی پیڈیا)


ہے زیارت گاہِ مسلم گو جہان آباد بھی
اس کرامت کا مگر حق دار ہے بغداد بھی

حلِ لغات:

زیارت گاہمقدّس مقام جہاں لوگ بطور عقیدت جاتے ہیں
جہان آباددؐلّی کا پُرانا نام
کرامتشرف، بزرگی
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

اگرچہ اپنی عظمت اور بزرگی کی وجہ سے دہلی بھی مسلمانوں کی خاص زیارت گاہ ہے لیکن اِس اعزازو بزرگی اور عظمت کا حق عراق کے شہر بغداد کو بھی حاصل ہے۔


یہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کے لیے سامانِ ناز
لالۂ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیبِ حجاز

حلِ لغات:

چَمَنباغ
سامانِ نازفخر کا باعث / سبب
لالۂ صحراصحرا میں اُگا ہوا لالہ کا پھول۔ مراد اسلامی تہذیب
حجازوہ علاقہ جس میں مکہ اور مدینہ ہیں
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

یہ وہ شہر ہے جس کے لیے تہذیبِ حجازی (لالہ صحرا، صحرا میں کھِلنے والا پھول، مراد ہے حجازی تہذیب، جس کی پیدائش عرب کے صحراؤں میں ہوئی) سامانِ ناز اور باعثِ افتخار تھی۔


خاک اس بستی کی ہو کیونکر نہ ہمدوشِ اِرم
جس نے دیکھے جانشینانِ پیمبرﷺ کے قدم

حلِ لغات:

ہم دوشبرابری، مساوی، ہمسَر، پم پلّہ
اِرمبہشت
جانشینانِ پیغمبر ﷺحضور اکرم ﷺ کے جانشین
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

اس شہر کی مٹی بلاشبہ اِرم (اِرم وہ حسین شہر جسے شدّاد نے بسایا تھا اور جس میں اُس نے جنّتِ ارضی بنائی تھی) کے ہم مرتبہ ہے۔

کیونکہ اس شہر میں نبی اکرم ﷺ کے جانشین (مراد ہے سلاطینِ عباسیہ، جو محض خلیفہ نہ تھے بلکہ رسول اکرم ﷺ کی قرابت کا شرف بھی انہیں حاصل تھا) اقامت گزیں رہے اور جس مقام پر چار سو سال تک خلفاء حکمران رہے ہوں، اس کی عظمت و بزرگی میں کِسے شک ہوسکتا ہے؟


جس کے غُنچے تھے چمن ساماں، وہ گلشن ہے یہی
کانپتا تھا جن سے روما، اُن کا مدفن ہے یہی

حلِ لغات:

چمن ساماںباغ کے برابر، باغ کی برابری کرنے والے
گُلشنباغ
مدفندفن کی جگہ، قبرستان
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

جس (بغداد) کے غنچے بھی باغ کی طرح بہار تھے، وہ گلشن یہی ہے اور جن حکمرانوں کی ہیبت سے روم کانپتا تھا، ان کا مدفن یہی شہر ہے۔۔ اشارہ ہے مشرقی سلطنتِ روم (قسطنطنیہ) کے عیسائی فرمانرواؤں کی طرف، جو سلاطینِ عباسیہ (خاص طور ہارون الرشید، مامون، متوکل) کی سطوت سے کانپتے تھے۔

ہارون الرشید نے روم کی شہزادی ”رنا“ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس کا لقب “اغسطہ” تھا۔ لیکن روم کے باشندگان نے اس کو معزول کر کے اپنا بادشاہ “نقفور” کو بنا لیا جو ایک جری اور غیر محتاط انسان تھا۔جب روم کی زمام حکومت نقفور کے ہاتھ آئی تو رومیوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو توڑ ڈالا اور نقفور نے ہارون رشید کو یہ خط لکھا:

شاہِ روم نقفور کی جانب سے شاہِ عرب ہارون الرشید کے نام!

اما بعد! مجھ سے پہلے روم کی زمام حکومت جس شہزادی کے ہاتھ میں تھی اس نے تجھے بہت زیادہ اہمیت دے رکھی تھی۔ وہ مرعوب ہو کر ایک عرصہ تک تجھے خراج ادا کرتی رہی، حالانکہ سچی بات تو یہ ہے کہ تجھ جیسے لوگ اس دولت و ثروت کے مستحق ہر گز نہیں ہو سکتے۔ شہزادی نے صرف صنف نازک ہونے کے سبب تیرے ساتھ معاہدہ کر رکھا تھا کیوں کہ عورتیں کمزور دل اور احمق ہوا کرتی ہیں! لہٰذا جب میرا یہ خط تجھے ملے تو جو کچھ خراج شہزادی نے تجھے بھیج رکھا ہے، وہ جلد از جلد میری خدمت میں واپس بھیج دے اور اس حکم کی تعمیل کر کے اپنا بچاؤ کر لے! ورنہ تیری سرکوبی اور ہماری جیت کا فیصلہ تلوار کرے گی۔

ہارون الرشید نے شاہ روم کا خط پڑھا تو اٗس کے چہرے پر غصے کے آثار نمایاں ہوگئے۔ اس نے ایک لمحہ سوچا اور پھر اسی خط کی پشت پر تحریر لکھی:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مسلمانوں کے امیر ہارون الرشید کی جانب سے رومی کتے نقفور کے نام!

اے کافراں کی اولاد! میں نے تیرا خط پڑھ لیا ہے اور اس کا جواب سننے سے نہیں، دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

والسلام

پھر ہارون الرشید فوراً اُٹھ کھڑا ہوا، جنگ کی تیاری کی اور اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ رومی سرحد میں داخل ہوکر رومی شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ رومی بادشاہ کی بیٹی کو اپنے حرم میں شامل کرلیا اور بہت سارا مالِ غنیمت اسے حاصل ہوا۔ نیز اس نے دشمن کے گھروں کو ویران کردیا اور باغات کو جلانے کا حکم دیا۔ جب شاہ روم کو اپنی شکست نظر آئی تو اس نے ہارون الرشید سے ہر سال خراج کی ادائیگی پر صلح کی درخواست کی۔ ہارون الرشید نے اس کی درخواست منظور کرلی۔ لیکن جب وہ واپسی میں شام کے علاقہ “رقہ” پہنچا تو نقفور نے اپنا معاہدہ توڑ ڈالا۔

ہارون الرشید کو خبر ملی تو اس نے کہا: کیا اس نے عہد شکنی کردی؟ پھر وہیں سے ہارون الرشید روم لوٹ گیا اور شاہِ روم کے آنگن میں اپنی سواری بٹھائی، نقفور سے اس کی عہد شکنی کے عوض کئی گنا بڑھ کر خراج لیا اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر واپس آیا۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ ہارون الرشید نے اس وقت روم پر جو خراج عائد کیا تھا، اس کی وجہ سے سلطنتِ روم کہ کمر دسیوں سالوں تک سیدھی نہ ہوسکی۔

(حوالہ: البدایۃ والنھایۃ، 194/10)

قرطبہ

قرطبہ: اندلس (اسپین) کا مشہور شہر، جسے عربوں نے 756ء میں فتحِ اندلس کے بعد اپنا پایۂ تخت بنایا۔ 1236ء تک یہ شہر ہر اعتبار سے دمشق اور بغداد کا ہمسر رہا۔ دورِ خلافت (1000ء) کے دوران قرطبہ تقریباً 400،000 باشندوں کی آبادی تھی۔ دسویں اور گیارہویں صدی میں قرطبہ دنیا میں سے سب سے اعلی درجے کے شہروں میں سے تھا، اسی طرح ایک عظیم ثقافتی، سیاسی، مالی اور اقتصادی مرکز بھی تھا۔ اسلامی تہذیب و تمدن کا بڑا مرکز جو “عروس البلاد” کہلاتا ہے، جس کا مطلب ہے شہروں کی دُلہن۔ خلیفہ الحكم ثانى کے دورِ حكومت ميں قرطبہ ميں دنیا كى سب سے بڑی لائبریری تھى جس ميں كتب كى تعداد 400،000 سے 1،000،000 تھى۔

اس کی جامع مسجد قرطبہ، جو دنیا کی سب سے بڑی مسجد تھی، 1238ء میں اس مسجد کو گرجا میں بدل دیا گیا۔۔ یہ مسجد آج بھی ایک گرجہ بنی یوئی ہے۔۔ کسی مردِ مومن کا انتظار کررہی ہے۔ یہ شہر ”وادی الکبیر“ کے کنارے واقع ہے۔ عظیم مسجدِ قرطبہ اس وقت کی یاد ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے مشہور نظم ”مسجدِ قرطبہ“ کہی:

اے حَرمِ قُرطُبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود
رنگ ہو یا خِشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خُونِ جگر سے نمود

(حوالہ: بالِ جبریل: مسجدِ قرطبہ)

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)


ہے زمینِ قُرطُبہ بھی دیدۂ مسلم کا نور
ظلمتِ مغرب میں جو روشن تھی مثلِ شمعِ طُور

حلِ لغات:

دیدۂ مسلممسلمان کی آنکھ
ظلمتِ مغربمغرب کا اندھیرا، یورپ کا دورِ جہالت
مِثلِ شمعِ طُورکوہِ طُور کی شنع کی طرح
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

قرطبہ کی سرزمین بھی مسلمانوں کی آنکھوں کا نور ہے کیونکہ اس شہر نے مغرب کی اندھیری رات میں تہذہب و تمدّنِ اسلامی کا چراغ روشن کیا۔ جب یورپ کے تمام شہر جہالت کے سمندر میں غرق تھے، اس وقت قرطبہ علم و فن کا مرکز بنا ہوا تھا۔ انگلستان، فرانس، جرمنی اور اٹلی کے عیسائی طلبہ اس کے مدرسوں میں علوم و فنون کی تحصیل کرتے تھے۔ یہی وہ شمع تھی جس کے ذریعے یورپ میں نور پھیلتا رہا۔


بُجھ کے بزمِ ملّتِ بیضا پریشاں کر گئی
اور دِیا تہذیبِ حاضر کا فروزاں کر گئی

حلِ لغات:

بُجھ کےمِٹ کر، تباہ ہو کر
بزمِ مِلّتِ بیضااُمّتِ مُسلمہ کی محفل (بیضا: روشن)
پریشاںمُنتشر، بکھری ہوئی
فروزاںروشن
تہذیبِ حاضردورِ حاضر کی تہذیب، فرنگی تہذیب
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

یہ شمع جب گُل ہوئی تو ساتھ ہی ملتِ اسلامیہ کی محفل بھی درہم برہم ہوگئی اور اس کی (ملتِ اسلامیہ کی) عظمت باقی نہ رہی۔ لیکن یہ بجھتے بجھتے بھی موجودہ تہذیب کا چراغ روشن جرگئی۔ مطلب یہ ہے کہ یورپ نے علوم  و فنون کی روشنی قرطبہ ہی سے حاصل کی اور اُن ہی علوم و فنون سے وہ تہذیب پیدا ہوئی جسے دورِ حاضر کی تہذیب کہا جاتا ہے یعنی تہذیبِ فرنگ۔

(جب قرطبہ کو عیسائیوں نے فتح کیا تھا تو انہوں نے اس عظیم الشان شہر کو تباہ کردیا اور کتب خانوں کو جلادیا، مدرسوں کو بند کردیا لیکن علوم و فنون کا جو چرچا اس شہر کی بدولت یورپ کے مختلف شہروں میں ہوچکا تھا، اس کی بناء ہر ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج ہمیں یورپ میں جس قدر علوم و فنون نظر آرہے ہیں، یہ سب قرطبہ کے مسلمان علماء، حکماء اور سائنسدانوں کا صدقہ جاریہ ہے۔ اگر وہ یورپ کو قدیم دنیا کے تمام علوم و فنون سے روشناس نہ کرتے تو آج یورپ میں نہ کوئی شخص فلسفہ کا نام جانتا، نہ سائنس کا)


قبر اُس تہذیب کی یہ سر زمینِ پاک ہے
جس سے تاکِ گلشنِ یورپ کی رگ نم ناک ہے

حلِ لغات:

سرزمینِ پاکپاک / مقدّس خِطہ
تاکانگور کی بیل
رگریشہ
نمناکنمی والی
تاکِ گُلشنِ یورپیورپ کے باغ کی بیل
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

قرطبہ کی سرزمین اس اسلامی تہذیب کی قبر ہے جس سے یورپ کے باغ میں انگور کی بیل کو تازگی نصیب ہوئی یعنی قرطبہ اس تہذیب کا مدفن ہے جس کی بدولت یورپ کے علمی باغوں کی بیلیں سرسبز ہورہی ہیں یعنی علوم و فنون کا چرچا ہے۔

قسطنطنیّہ

قسطنطنیہ: اس تاریخی شہر کا اصلی نام ‘بائی زین ٹین’ (Byzantine) تھا، جسے میگارا نے 657 قبلِ مسیح میں آباد کیا تھا۔ 328ء میں قسطنطین اعظم نے اس کو سلطنتِ روما کا پایۂ تخت بنایا اور اس کا نام کونسٹینٹینوپول (Constantinople) رکھا۔ 29 مئی 1453ء کو سلطان محمد خاں فاتح نے اسے فتح کیا اور اس کا نام اسلام بول رکھا مگر ترکوں کو لفظ اسلام بولنے میں مشکل ہوتی تھی، تو وہ اسے استنبول کہتے تھے اس وجہ سے اس شہر کا نام استنبول پڑا۔ یہ شہر 1923ء تک سلطنتِ ترکی کا پایۂ تخت اور مسلمانوں کا سیاسی مرکز رہا۔ یہ شہر آبنائے فاسفورس کے کنارے آباد ہے۔ آج کل اس کا سرکاری نام استنبول ہے۔

(حوالہ : شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی، ویکی پیڈیا)


خطّۂ قُسطنطنیّہ یعنی قیصر کا دیار
مہدیِ اُمّت کی سَطوت کا نشانِ پائدار

حلِ لغات:

قیصرشاہِ روم کا لقب، روم کا بادشاہ، Caesar
مہدیِ اُمّتمُراد سُلطان محمد فاتح
سطوَتشان و شوکت، دبدبہ
نشانِ پائیدارپکّا نشان
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

قسطنطنیہ کی سرزمین جو رومیوں کے قیصر خاندان کا وطن ہے (شہر قسطنطنیہ ”قسطنطین اعظم“ متوفی 337ء کا پایہ تخت تھا)، یہ شہر سلطان محمد فاتح (مہدیِ اُمت) کی شجاعت کا مستقل ثبوت اور پائیدار نشان ہے۔

مسلمانوں نے قسطنطنیہ پر کئی مرتبہ حملے کیے۔ سلطان محمد فاتح عثمانی نے 1453ء میں اسے فتح کیا اور اسلام بول نام رکھا۔ یہ سرزمین بھی دلی، بغداد اور قرطبہ کی طرح مسلمانوں کی نظروں میں محترم ہے کیونکہ ایک تو یہ شہر سلاطینِ عثمانیہ کا پایہ تخت رہ چکا ہے، جنہوں نے کم و بیش پانچ سو سال تک اسلام کی عظمت قائم رکھنے کے لیے اپنا خون پانی کی طرح بہایا اور تنِ تنہا بیت المقدس کی حفاظت کے لیے سارے یورپ کا مقابلہ کیا اور جب تک عربوں نے ان کےساتھ غداری نہ کی، انگریزوں کو ان کے مقاصد میں کامیابی نہ ہوسکی۔

مہدیِ اُمّت: اقبالؔ نے جب رسالہ ”مخزن“ یہ نظم شائع کرائی تھی تو خود اس پر نوٹ لکھا تھا کہ مہدیِ امت سے مراد سلطان محمد عثمانی فاتح قسطنطنیہ ہے۔ جناب سرورِ کائنات ﷺ کی ایک پیش گوئی کے مطابق اس عظیم الشان شہنشاہ کو مہدی کہنا چاہیے، مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر

عکس: مخزن، بابت اپریل 1909ء، جلد 17 نمبر 1، صفحہ نمبر 57


صورتِ خاکِ حرم یہ سر زمیں بھی پاک ہے
آستانِ مسند آرائے شہِ لولاکؐ ہے

حلِ لغات:

صورتِ خاکِ حرمکعبہ کی سرزمین کی طرح
آستاندہلیز، درگاہ، دروازہ
مسند آراتخت پر بیٹھنے والے
شہِ لولاک ﷺمراد حضور نبی اکرم ﷺ
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

یہ زمین بھی خانہ کعبہ کی طرح پاکیزہ اور مقدّس ہے۔ یہ زمین اُن فرمانرواؤں کا آستانہ ہے جو حضرت محمد ﷺ کی مسند سنبھالے ہوئے ہیں یعنی جنہیں مسلمانوں میں خلافت کا منصب حاصل ہوا۔


نگہتِ گُل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا
تُربتِ ایّوب انصاریؓ سے آتی ہے صدا

حلِ لغات:

نِگہتِ گُلپھول کی خوشبو
تُربَتِ ایّوب انصاریؓحضرت ایّوب انصارہؓ کی آخری آرامگاہ
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

اس شہر کی ہوا گلاب کی خوشبو کی طرح پاکیزہ ہے کیونکہ اس شہر میں صحابیِ رسول اللہ ﷺ حضرت ایوب انصاریؓ  مدفون ہیں۔

(حضرت ایوب انصاریؓ: نام خالد، ابو ایوب کنیت، قبیلہ خزرج، حضور اکرم ﷺ قبا سے مدینہ پہنچے تو آپ ﷺ کی میزبانی کا شرف انہی کو حاصل ہوا۔ آپ ﷺ تقریباً چھ مہینے انہی کے مکان میں قیام فرما رہے۔ حضور اکرم ﷺ فتح قسطنطنیہ کی بشارت دے گئے تھے۔ اس لیے جب امیر معاویہؓ کے عہد میں قسطنطنیہ پر حملہ کے لیے فوج تیار ہوئی، تو بعض دوسرے بڑے بڑے صحابہؓ کے ساتھ حضرت ابوایوبؓ بھی شریک ہوگئے۔ اتفاق سے اسلامی لشکر میں وبا پھیل گئی۔ حضرت ابوایوبؓ بھی بیمار ہوگئے۔ انہوں نے وصیت کی کہ تم دشمن کی سرزمین میں جہاں تک جاسکو میری میّت وہیں لے جاکر دفن کرنا۔ وفات کے بعد اس وصیت کی تعمیل کی گئی۔ حضرت کو رات کے وقت قسطنطنیہ کی فصیل کے پاس دفن کیا گیا اور مزار کی زمین اس خیال سے برابر کردی گئی کہ دشمن بے ادبی نہ کرسکے۔ قسطنطنیہ کی فتح کے بعد ایک بزرگ کی نشاندہی پر سلطان محمد فاتح نے حضرت ابوایوبؓ کا مزار بنوایا، جو اب تک زیارت گاہِ عام ہے)


اے مسلماں! ملّتِ اسلام کا دل ہے یہ شہر
سینکڑوں صدیوں کی کُشت و خُوں کا حاصل ہے یہ شہر

حلِ لغات:

کِشت و خونجنگ و جدل، کوشش
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

حضرت ایوبؓ انصاری کی قبر سے آج تک یہ آواز آرہی ہے کہ:

اے مسلمانوں! یہ شہر ملتِ اسلام کا دِل ہے کیونکہ مسلمانوں نے اِس کو صدیوں کی جنگ و جدل کے بعد حاصل کیا ہے۔ واضح ہو کہ مسلمانوں نے قسطنطنیہ پر پہلا حملہ 670ء میں کیا تھا اور آخری حملہ 1453ء میں کیا تھا۔ گویا کم و بیش آٹھ سو سال تک مسلمان اس شہر کو فتح کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس لیے اقبالؔ نے بالکل سچ لکھا ہے کہ ”مِلّتِ اسلام کا دِل ہے یہ شہر“۔

مدینۃ المنورہ

مدینہ منورہ: اس مبارک شہر کا قدیمی نام یثرب ہے۔ جب 622ء میں سرکارِ دوعالم ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر یہاں تشریف لے آئے تو اس کا نام مدینۃ النبی ﷺ ہوگیا۔ یہ شہر مکہ مکرمہ کے شمال میں 454 میل کے فاصلہ پر  واقع ہے۔ مسجدِ نبوی تمام مسلمانانِ عالم کی محبت کا مرکز ہے۔ مکہ کی عظمت مسلّم ہے لیکن مدینہ بلاشبہ دنیا میں مسلمانوں کا محبوب ترین شہر ہے۔ اقبالؔ لکھتے ہیں:-

؎ خاکِ یثرب از دو عالم خوش تر است
اے خنک شہرے کہ آنجا دِلبرؐ است

مدینہ منورہ کی خاک دونوں جہانوں سے پیاری ہے،
کیسا ٹھنڈک پہنچانے والا ہے وہ شہر جہاں ہمارے محبوب ﷺ آرام فرما رہے ہیں۔

(حوالہ: اسرارِ خودی: در بیان اینکہ خودی از عشق و محبت استحکام می پذیرد

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)


وہ زمیں ہے تُو مگر اے خواب گاہِ مُصطفیٰؐ
دید ہے کعبے کو تیری حجِّ اکبر سے سوا

حلِ لغات:

خواب گاہآرام کرنے کی جگہ، مزار، روضہ
دیددیکھنا
حجِ اکبربڑا حج
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

اقبالؔ کا فنِ کمال دیکھیے کہ جس شہر کا ذکر بلحاظ تقدّس پہلے کرنا چاہیے تھا، اس کا تذکرہ بغرض اثر آفرینی سب سے آخر میں کیا ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ اس مصرع میں بلا کا زور اور غضب کی تاثیر پیدا ہوگئی ہے۔

؏ وہ زمیں ہے تُو مگر اے خوابگاہِ مصطفے ﷺ

اے مدینہ کی پاک سرزمین! کیا ٹھکانہ ہے تیرے مرتبہ کا! انسان درکنار، خود خانہ کعبہ۔۔ بیت اللہ شریف تیرے دیدار کو اپنے حجِ اکبر سے بڑھ کر سمجھتا ہے (حج دو ہیں، حجِ اصغر اور حجِ اکبر۔ حجِ اصغر کو اصطلاح میں عمرہ کہتے ہیں، جو ہر وقت ادا ہوسکتا ہے، حجِ اکبر وہ حج ہے جو حج کے دنوں میں شریعت کی ہدایت کے مطابق ادا کیا جاتا ہے)


خاتمِ ہستی میں تُو تاباں ہے مانندِ نگیں
اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں

حلِ لغات:

خاتمِ ہستیزندگی کی انگوٹھی
تاباںروشن، چمکدار
مانندِ نگیںنگینے کی طرح
اپنییعنی مسلمانوں کی
ولادت گاہپیدائش کی جگہ
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

اے سرزمینِ مدینہ! تو دنیا میں اس طرح چمک رہی ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔ جس طرح مکہ اسلام کی ولادت گاہ ہے، اسی طرح تُو مسلمانوں کی شان و شوکت کی ولادت گاہ ہے۔ اسلامی حکومت کا آغاز 52ھ میں مدینہ ہی سے ہوا تھا۔


تُجھ میں راحت اُس شہنشاہِ معظّمؐ کو مِلی
جس کے دامن میں اماں اقوامِ عالم کو مِلی

حلِ لغات:

شہنشاہِ معظّم ﷺسرورِ دو جہاں نبی اکرم ﷺ
دامنسرپرستی
اماںپناہ
اقوامِ عالمدُنیا کی بڑی قومیں
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ تُو نے اس شہنشاہِ معظم ﷺ کو اپنے دِل میں جگہ دی، جس شہنشاہ ﷺ نے ساری دنیا کو اپنے دامن میں پناہ دی۔


نام لیوا جس کے شاہنشاہ عالم کے ہوئے
جانشیں قیصر کے، وارث مسندِ جم کے ہوئے

حلِ لغات:

نام لیوانام لینے والے، پیرو
شاہنشاہ عالمدُنیا کے بڑے بڑے بادشاہ / حُکمران
مسندِ جمایران کے قدیم بادشاہ جمشید کا تخت
وارثمالک
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

وہ شہنشاہ ﷺ جس کے غلام دنیا کے شہنشاہ ہوئے۔ قیصر کے جانشین ہوئے (سلطان محمد فاتح) اور تختِ جمشید کے وارث ہوئے (فاروقِ اعظمؓ)


ہے اگر قومیّتِ اسلام پابندِ مقام
ہند ہی بنیاد ہے اس کی، نہ فارس ہے، نہ شام

حلِ لغات:

قومیّتایک وطن / مُلک کے حوالے سے ایک قوم رہنا
پابندِ مقامجغرافیائی حدوں کی پابند
ہِندبرِصغیر، ہندوستان
فارسایران، Persia
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

اوّل تو اسلام کی قومیت پابندِ مقام نہیں ہے (اسلام عالمگیر مذہب ہے) لیکن اگر مصلحتاً اُسے کسی سرزمین سے وابستہ کیا جائے تو وہ سرزمین، سرزمینِ مدینہ ہی ہے۔ مسلمان نہ ہندی ہے، نہ ایرانی ہے، نہ شامی۔۔ لیکن وہ یثربی (مدنی) ضرور ہے اور اس نسبت پر فخر کرسکتا ہے۔


آہ یثرِب! دیس ہے مسلم کا تُو، ماویٰ ہے تُو
نُقطۂ جاذب تاثّر کی شعاعوں کا ہے تُو

حلِ لغات:

یثربمدینہ منوّرہ کا پرانا نام
ماویٰپناہ کی جگہ، جائے پباہ
نقطۂ جاذباپنی طرف کھینچنے والا نقطہ / مرکز
تاثّراثر، جذبۂ عشق
شعاؤںشعاع کی جمع، کِرنیں
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

اے یثرب! تُو ساری دنیا کے مسلمانوں کا روحانی وطن (مرکز) ہے،  صرف تُو ہی وہ مقام ہے جو اسلامی قومیت کی بنیاد بن سکتا ہے۔ تُو مسلمان کا دیس ہے، اس کی پناہ گاہ ہے۔ تُو مسلمانوں کے دِلوں کو اپنی طرف کھینچنے کی طاقت رکھتا ہے۔۔ کون مسلمان ہے جو تیرے تصوّر ازخود رفتہ نہیں ہوجاتا؟ اور کون مسلمان ہے جو تیری خاک میں مدفون نہیں ہونا چاہتا؟


جب تلک باقی ہے تُو دنیا میں، باقی ہم بھی ہیں
صُبح ہے تو اِس چمن میں گوہرِ شبنم بھی ہیں

حلِ لغات:

چمنباغ
گوہرِ شبنماوس کے قطرے، شبنم کے موتی
حلِ لغات (بانگِ درا 93: بلادِ اسلامیہ)

تشریح:

آخری شعر میں اقبال نے اپنا دِل کاغذ پر نِکال کر رکھ دیا ہے۔ یہ شعر نہیں ہے بلکہ ان کی شاعری کے ترکش کا آخری تیر ہے۔

کہتے ہیں کہ اے مدینہ! کب تک تُو دنیا میں باقی ہے (اور یہ شہر قائم رہے گا)، تیرے صدقے ہم (مسلمان) بھی اس دنیا میں باقی رہیں گے۔ اگر دنیا میں صبح کا وجود ہے تو اس کے ساتھ شبنم بھی موجود ہوگی۔ جس طرح شبنم کو صبح سے جدا نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح ملتِ اسلامیہ کو مدینہ سے جدا نہیں کرسکتے۔ یہ ناممکن ہے کہ اس مقدّس شہر کا فیضان بند ہوجائے۔

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments