Skip to content
ضربِ کلیم 69: موت

ضربِ کلیم 69: موت


”موت“ از علامہ اقبال

زندگی وہ فرصت ہے جس میں خودی کو عمل کے بے شمار مواقع میسّر آتے ہیں اور موت اُس کا پہلا امتحان ہے؛ یہ دیکھنے کے لیے کہ اُسے اپنے اعمال کی شیرازہ بندی میں کس حد تک کامیابی ہوئی۔

(خطبہ نمبر 5، تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ: از علامہ محمد اقبال)

تعارف

اِس نظم کی تشریح میں اقبالؔ کے نظریۂ موت کو کھوجا جائے گا۔ موت، جس سے لوگ اِس قدر خوفزدہ ہیں، دراصل زندگی کی اعلی منازل میں سے ایک منزل کا نام ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ اقبالؔ نے پروفیسر یوسف سلیم چشتی سے دورانِ گفتگو فرمایا کہ ”موت بھی زندگی کی ہی ایک شان ہے“۔ موت کا مطلب یہ ہے کہ نفس کا تعلق جسم سے منقطع ہو جاتا ہے، نہ یہ کہ نفس پر فنائے کُلّی طاری ہو جائے، یا وہ نیست و نابود ہو جائے۔

(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

YouTube video

نظم ”موت“ کی تشریح

لحد میں بھی یہی غیب و حضور رہتا ہے
اگر ہو زندہ تو دِل ناصُبور رہتا ہے

حلِ لغات:

لحدقبر
غیب و حضورغائب اور موجود ہونا، غیب اور سامنے، حضور کا دیدار، محبوب سے دُوری
ناصبورصبر نہ کرنے والا
حلِ لغات (ضربِ کلیم 69: موت)

تشریح:

نظم”موت“ میں اقبالؔ فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے دُنیاوی زندگی میں اپنے دِل کو زندہ کر لیا ہو، یعنی اپنی خودی کو، اطاعتِ اِلہی کی بدولت، مرتبۂ کمال تک پہنچا دیا ہو، تو اُس کا دِل لحد (قبر) میں بھی زندہ رہتا ہے، بلکہ مزید روحانی ترقی کے لیے بیتاب (ناصبُور) رہتا ہے۔

اقبالؔ اپنے خطبات میں فرماتے ہیں کہ:-

بقائے دوام (ہمیشہ کی زندگی) انسان کا حق نہیں۔ اس کے حصول کے دار و مدار ہماری مسلسل جد و جہد پر ہے، یعنی ہم اس کے امیدوار ہیں۔ خودی نے اپنے عمل اور سعی کی بدولت اگر اسی زندگی میں اتنا استحکام پیدا کر لیا کہ موت کے صدمے سے محفوظ رہے، تو اِس صورت میں موت کو بھی ایک راستہ ہی تصوّر کیا جائے گا، وہ راستہ جسے قرآن پاک نے برزخ کہا ہے۔

(تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ: خطبہ نمبر 4، مترجم: سید نذیر نیازی)


مہ و ستارہ، مثالِ شرارہ یک دو نفَس
میٔ خودی کا اَبد تک سُرور رہتا ہے

حلِ لغات:

مہ و ستارہچاند اور ستارہ
مثالِ شرارہچنگاری کی مانند
یَک دو نَفَسایک دو سانس / پل، مراد بالکل عارضی
مئے خودیخودی کی شراب، خودی میں ڈوبے رہنا
ابدانتہائے زمانہ، جس کی انتہا کی خبر نہ ہو
سُروردل و دماغ کی شگفتگی یا سکون بخش کیفیت، خوشی، فرحت، انبساط، کیف، سرشاری
حلِ لغات (ضربِ کلیم 69: موت)

تشریح:

چاند، ستارے، اجرامِ فلکی، نباتات، حیوانات۔۔ اِن کی زندگی تو چنگاری کی مانند مختصر ہوتی ہے لیکن انسانی خودی اگر پُختہ یعنی مستحکم ہو جائے تو پھر ابدی (ہمیشہ قائم رہنے والی) ہو جاتی ہے اور خودی کو یہ استحکام عشقِ الہی سے نصیب ہو سکتا ہے۔ بقول اقبالؔ:-

؏ عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اُس پر حرام
(حوالہ: بالِ جبریل: مسجدِ قرطبہ)

نظم کی مزید تشریح میں اقبال فرماتے ہیں کہ موت کا فرشتہ تیرے جسم کوچھوتا تو ضرور ہے، یعنی نفس کو جسم سے جُدا کر دیتا ہے (اور یہی مفہوم ہے اس آیت کا ”کل نفس ذائقۃ الموت“ یعنی ہر نفس موت کا ذائقہ ضرور چکھے گا)، لیکن تیرے وجود کے مرکز یعنی خودی پر موت یعنی فنا طاری نہیں کرتا۔ سو اگر تیری خودی میں پُختگی ہو، تو موت کا فرشتہ بے شک تیرے جسم کو چھُو لے، یعنی تیری جسمانی موت واقع ہو جائے، تو اُس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ (فرشتہ) تیرے وجود کے مرکز سے دُور رہتا ہے یعنی پُختگیٔ خودی کی بدولت تجھے حیاتِ جاوید (ابدی زندگی) حاصل ہو جاتی ہے۔


فرشتہ موت کا چھُوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دُور رہتا ہے!

حلِ لغات:

بدنجسم
وجود کا مرکزمراد خودی، جس تک موت کے فرشتے کا ہاتھ نہیں پہنچتا
مرکزمدار، درمیانی حصّہ
حلِ لغات (ضربِ کلیم 69: موت)

تشریح:

پس مومن اگر اس حقیقت سے آگاہ ہو جائے تو وہ موت سے خوفزدہ ہونے کی بجائے، تبسّم کے ساتھ اُس کا استقبال کرے گا، کیونکہ اُسے یقین ہے کہ موت میری خودی کو فنا نہیں کر سکتی۔ اِسی مطلب کو اقبالؔ نے یوں بیان کیا ہے:-

؎ نشانِ مردِ حق دیگر چہ گویم
چو مرگ آید تبسم بر لبِ اوست

ایسے مردِ حق کی پہچان میں اِس سے زیادہ اور کیا بیان کروں
کہ جب موت آتی ہے تو اُس کے لبوں پر مُسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے۔

(حوالہ: ارمغانِ حجاز (فارسی): حضورِ عالمِ انسانیت)

تبصرہ

اے مخاطب! اگر تُو نے اتباعِ رسول ﷺ کی بدولت اپنی خودی کو مستحکم (زندہ) کر لیا ہے، تو پھر تیرے لیے ”موت“ زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ تیری زندگی ہی کا ایک پہلو ہے۔ یعنی موت کی حقیقت اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کہ وہ بھی تیری زندگی کی ارتقائی منازل میں سے ایک منزل ہے۔ وہ ایک دروازہ ہے جس میں سے گذر کر تُو زندگی کی اعلی اور ارفع حالت میں داخل ہوگا۔

اب سوال یہ ہے کہ انسان کو موت سے سابقہ کیوں پڑتا ہے؟ یعنی موت کا فلسفہ کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ:-

٭ انسان بقائے دوام (ہمیشہ کی زندگی) کا طالب ہے اور اس کا حصول عاشقی پر موقوف ہے۔

٭ اس لیے طالب، یعنی مسلمان طریقِ عاشقی اختیار کرتا ہے۔

٭ عشقِ حقیقی کی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ عاشق کا امتحان لیتا ہے۔ یعنی یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ عاشق میں شانِ ثباتِ (ہمیشگی کی صفت) پیدا ہوئی ہے یا نہیں۔

٭ انسان کی نظر میں کوئی چیز موت سے زیادہ ہیبت ناک نہیں ہے۔ اس لیے عشق اِسی ہیبت ناک شئے سے خودی کے ثبات کا امتحان کرتا ہے۔ یعنی وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ عاشق کی خودی اِس قدر طاقتور ہو گئی ہے یا نہیں کہ موت کا صدمہ برداشت کر سکے؟ اگر پُختہ ہو گئی ہے تو یقیناً تصادم کے بعد ہوش میں آ جائے گی۔

نوٹ: جب تک کوئی امیدوار بی-اے کے امتحان میں کامیاب نہ ہو، یونیورسٹی اسے گریجوایٹ کی سند نہیں دے سکتی۔ اسی طرح جب تک کوئی مسلمان عاشقی کے امتحان میں کامیاب نہ ہو، بارگاہِ خداوندی سے اُسے ایمان کی سند نہیں مِل سکتی۔ اسی لیے اللہ تعانی نے قرآن پاک میں واضح طور پر یہ اعلان فرمایا ہے:

ترجمہ: اللہ وہ ہے جس نے پیدا کیا موت اور زندگی کو، تاکہ تمہارا امتحان لے سکے کہ تم میں کون کون اعمالِ صالحہ بجا لاتا ہے۔

 (حوالہ: القرآن: سورۃ الملک: آیت نمبر 2)

(حوالہ: شرح ارمغانِ حجاز از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments