Skip to content
بالِ جبریل 149: محبّت

بالِ جبریل 149: محبّت

”محبّت“ از علامہ اقبال

تعارف

دنیا کے مختلف مفکّرین اور ماہرین اس کُلیے پر مکمل اتفاق رکھتے ہیں کہ محبت کا جذبہ دوسرے تمام جذبوں سے افضل و اعلٰی ہے۔ اقبالؔ بھی اس نکتہ سے متّفق نظر آتے ہیں۔ زیرِ تشریح نظم کے علاوہ آپ کے کلام میں جہاں کہیں بھی محبّت کا ذکر آیا ہے، اسی حوالے سے آیا ہے۔

(حوالہ: شرح بالِ جبریل از اسرار زیدی)

YouTube video

نظم ”محبّت“ کی تشریح

شہیدِ محبّت نہ کافر نہ غازی
محبّت کی رسمیں نہ تُرکی نہ تازی

حلِ لغات:

شہیداللہ کی راہ میں یا کسی اعلی مقصد کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والا
کافراللہ کا منکر
غازیباطل یا کفر کی طاقتوں کے خلاف جہاد کرنے والا
رسمیںطور طریقے
نہ ترکی نہ تازینہ ترکی نہ عربی۔ مراد خاص یا محدود علاقوں/لوگوں کے لیے مخصوص نہیں ہیں
حلِ لغات (بالِ جبریل 149: محبّت)

تشریح:

اس مختصر مگر بغایت دلکش نظم میں اقبالؔ نے محبت کی خصوصیات بہت سلیس انداز میں بیان کی ہیں۔

محبت کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ محبت کا جذبہ عملاً تمام حدود سے متجاوز نظر آتا ہے۔ مذہب، قوم، ملک، نسل، فرقہ بندی اور دوسرے عوامل سے محبت بے نیاز رہی ہے۔ جو شخص اللہ تعالی کی محبت میں فنا ہو جاتا ہے وہ ہر قسم کے مذہبی تعصّبات سے بالاتر ہو جاتا ہے، اس لیے وہ کافر اور مسلم دونوں کے ساتھ محبت کا برتاؤ کرتا ہے۔  اس جذبے میں نہ عقیدہ کو دخل ہے، نہ کوئی روایت اور رسم اس کی پاسداری کرتی ہے۔ محبت کسی قوم یا مُلک سے مختص نہیں ہے، یہ ایک عالمگیر یا آفاقی جذبہ ہے جو ہر قسم کی نسلی، قومی، لسانی، وطنی اور جغرافیائی حدود سے بالا تر ہے۔ محبت کے عمل میں قربانی دینے والا نہ تو شہید ہوتا ہے، نہ ہی اُسے کافر اور غازی جیسے خطابات سے نوازا جا سکتا ہے، نہ ہی کسی نسلی بنیاد پر اُس کی شناخت ممکن ہے۔ محبت مخصوص قوموں یا مُلکوں سے ماورا ہے۔ ہر انسان سے محبت کرنا یعنی انسان دوستی ہی انسانیت ہے۔


وہ کچھ اور شے ہے، محبّت نہیں ہے
سِکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی

حلِ لغات:

غزنویمراد سلطان محمود غزنوی
ایّازیایّاز ہونا، غلامی (ایّاز محمود غزنوی کا خاص غلام تھا)
حلِ لغات (بالِ جبریل 149: محبّت)

تشریح:

دوسری خصوصیت یہ ہے کہ محبت مادیّات یا فانی اشیاء سے متعلق نہیں ہوتی۔ مولانا روم فرماتے ہیں کہ محبت صرف اُس ہستی سے کرنی چاہیے جسے کبھی موت نہ آئے اور وہ ذات صرف اللہ کی ہے۔ محبت صرف اللہ سے ہو اور اللہ کے لیے ہو۔ چنانچہ محمود غزنوی اور اس کے پسندیدہ غلام ایّاز کے مابین جو رِشتہ تھا، اُسے جذبۂ محبّت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ اِس تعلق کو اقبالؔ کے نقطۂ نظر کی روشنی میں واضح کیا جائے تو بات جنس پرستی اور نفس پرستی تک جا پہنچتی ہے۔


یہ جوہر اگر کار فرما نہیں ہے
تو ہیں علم و حکمت فقط شیشہ بازی

حلِ لغات:

جوہرخوبی
کار فرماکام کرنے / عمل میں لانے والا
شیشہ بازیفریب کاری کرنا، دھوکہ دینا
حلِ لغات (بالِ جبریل 149: محبّت)

تشریح:

محبت کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اسی کی بدولت فلسفہ و سائنس بنی آدم کے حق میں مفید ثابت ہو سکتے ہیں، چنانچہ جو قوم اس نعمتِ کُبریٰ (محبت) سے محروم ہے وہ اپنے علوم و فنون سے بنی آدم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی بلکہ ان کو سراسر عیّاری اور فریب کاری کے لیے استعمال کرے گی۔ علِم و حکمت انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے اور یہ اُسی صورت ممکن ہے جب وہ مادّی ترقّی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور مخلصانہ جذبوں کے بھی حامل ہوں، بصورتِ دیگر یہ انسانی تباہی کا سامان ہیں جیسا کہ یورپ کے سائنسدانون نے اِسی علم سے خطرناک قسم کے جنگی ہتھیار، بم، پھر ایٹم  بم وغیرہ ایجاد کر کے اللہ کی بے پناہ مخلوق کی تباہی کا سامان کیا، اِس لحاظ سے یہ علم و حکمت سراسر فریب کاری ہی کہلائیں گے۔ مراد یہ ہے کہ علم و حکمت عملاً انسانی بہبود و ترقّی کے ساتھ شعور و دانِش سے ہم آہنگ ہیں۔ تاہم یہ اُسی وقت فروغ پا سکتے ہیں جب یہ محبت کے جوہر سے آراستہ ہوں، اِس کے بغیر علم و حکمت بے معنی شے ہے۔


نہ محتاجِ سُلطاں، نہ مرعوبِ سُلطاں
محبّت ہے آزادی و بے نیازی

حلِ لغات:

محتاجحاجت مند، ضرورت مند
مرعوبرعب میں آیا ہوا، ڈرا ہوا
بے نیازیشانِ استغنا، بے غرضی۔ بے نیاز ایسا شخص ہوتا ہے جو اللہ کے سوا کسی کا محتاج نہ ہو
حلِ لغات (بالِ جبریل 149: محبّت)

تشریح:

محبت کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ عاشق نہ کسی دنیاوی بادشاہ کا دست نِگر (محتاج) ہوتا ہے، نہ اُس سے خوف کھاتا ہے اور نہ ہی اُس کا پابند ہوتا ہے یعنی محبت انسان کو آزادی (حُریتِ نفس) اور بے نیازی کی دولت سے مالامال کر دیتی ہے۔ واضح ہو کہ یہ دو خوبیاں انسان کے اندر صرف محبتِ الٰہی کی بدولت پیدا ہو سکتی ہیں اور کوئی صورت نہیں ہے۔ چنانچہ دیکھ لیجیے کہ دنیاوی بادشاہ اور حکمران دونوں پابندِ غیر بھی ہیں اور محتاج بھی۔ مثلاً اگر ایڈورڈ ہشتم (سابق شاہِ انگلستان) آزاد ہوتا تو وہ اپنی مرضی کے مطابق شادی کر سکتا تھا لیکن دنیا جانتی ہے کہ جب تک وہ تخت و تاج سے بکُلّی دست بردار نہیں ہوا، مِس والس سِمپسن ایک مطلقہ خاتون سے نکاح نہ کر سکا۔ اقبالؔ نے اس واقعہ سے متاثر ہو کر ایک نظم لکھی جو ارمغانِ حجاز میں ”معزول شہنشاہ“ کے عنوان سے اسرارِ ملوکیّت واضح کر رہی ہے، اس کا ایک شعر درج ہے:-

؎ ’شاہ‘ ہے برطانوی مندر میں اک مٹّی کا بُت
جس کو کر سکتے ہیں، جب چاہیں پُجاری پاش پاش
(حوالہ: ارمغانِ حجاز: معزول شہنشاہ)

اب رہی احتیاج (محتاجی) کی بات تو ہر عقلمند آدمی جانتا ہے کہ ہر بادشاہ مجلسِ وزراء اور مجلسِ عوام کی خوشنودی کا ہر لحظہ محتاج ہے۔ اگر عوام اپنے بادشاہ سے بدظن ہوجائیں تو آخر کار اُسے دست بردار ہو کر اپنی بے کیف زندگی کے باقی ماندہ ایّام رومؔ کے کسی ہوٹل میں بسر کرنے پڑیں گے۔ (اشارہ ہے سابق شاہِ افغانستان امیر امان اللہ خاں کی طرف)

امیر امان اللہ خان افغانستان میں سیاسی اور ثقافتی انقلاب برپا کرنا چاہتا تھا جس کے لیے اُس نے یورپ کے مختلف ممالک کا دورہ کیا اور وہاں کے جدید کلچر سے اس قدر متاثر ہوا کہ یورپی ثقافت کو افغانستان میں طاقت کے زور پر رائج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اُس نے اس ثقافتی انقلاب کا آغاز کیا جسے ’’1928ء کا انقلاب افغانستان‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کی شروعات جن اصلاحات سے ہوئی ان میں مردوں کے لیے مغربی لباس کے استعمال کی پابندی، ایک سے زیادہ نکاح کی قانونی ممانعت اور پردہ کے قانونی خاتمہ کے قوانین شامل تھے جن کے لیے محلوں میں نگران مقرر کیے گئے کہ کوئی عورت برقع پہن کر گھر سے باہر نہ نکلے۔ اور سڑکوں پر پولیس کھڑی کر دی گئی جو ہر اس گزرنے والے سے جرمانہ وصول کرتی تھی جس نے یورپی لباس نہ پہن رکھا ہو۔ ادھر گھر کی حالت یہ تھی کہ عزیز ہندی کے بقول ایک روز کسی خادمہ سے قرآن کریم کے کچھ اوراق گر گئے جو اس نے اٹھا کر چومنا شروع کر دیے تو بادشاہ کی بیگم نے اُسے ٹوکا کہ یہ کیا کر رہی ہو؟ اس نے کہا کہ یہ کلام پاک ہے۔ اس پر بادشاہ کی بیگم نے کہا کہ اس سے بڑھ کر بھی کتابیں لکھی جائیں گی اس لیے ان عقائد کو تہ کر کے رکھ دو اور آدمیت سیکھو۔

(حوالہ: ویکی پیڈیا)


مِرا فقر بہتر ہے اسکندری سے
یہ آدم گری ہے، وہ آئینہ سازی

حلِ لغات:

اسکندریبادشاہی
آدم گریآدمیّت، اچھا انسان بنانے کا ہنر
آئینہ سازیآئینہ بنانے کا عمل
حلِ لغات (بالِ جبریل 149: محبّت)

تشریح:

اِن خصوصیات کی تفصیل کے بعد اقبالؔ یہ نکتہ بیان کرتے ہیں کہ مومن کی شانِ فقر (بوریا نشینی) دبدبۂ اسکندری (ملوکیّت) سے بدرجہا بہتر ہے کیونکہ بادشاہ کا مُنتہائے مقصود مادی عروج یا ظاہری شان و شوکت ہے لیکن فقر میں مخلوق کی بہتری اور اس کی تربیّت کا جذبہ مضمر ہے۔ فقر (مومن) تو اپنی نگاہ کی بدولت آدمیوں کو انسان بنا دیتا ہے، یعنی خدا سے مِلا دیتا ہے۔ بقول غالبؔ:-

؏ بس کی دُشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا ”آئینہ سازی“ میں صنعتِ ابہام ہے۔ اس کے دو معنی ہیں؛ آدم گری کے مقابلہ میں اس کا معنی ہے آئینہ گری یعنی ادنیٰ درجے کی فتوحات یا مادّی کامیابی۔ اسکندری کی نسبت سے اس لفظ سے مُراد ہے وہ آئینہ جو ارسطوؔ نے اسکندرِ رومی کے لیے بنایا تھا اور اس کو اسکندریہ کے ایک بلند مینار کی چوٹی پر نصب کر دیا تھا تاکہ دشمنوں کے جہازوں کو دُور سے آتا ہوا دیکھ سکے۔ خلاصہ کلام یہ کہ شانِ فقر، شانِ ملوکیّت سے برتر ہے۔

حوالہ جات

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments