نظم ”آگہی“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”آگاہی“ میں علامہ اقبال نے صحیح شعور کی حقیقت واضح فرمائی ہے-
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
نظم ”آگاہی“ کی تشریح
نظر سپہر پہ رکھتا ہے جو ستارہ شناس
نہیں ہے اپنی خودی کے مقام سے آگاہ
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
سپہر | آسمان |
سِتارہ شناس | ماہرِ فلکیات، علم ہیئت کا ماہر |
مقام | مرتبہ |
آگاہ | آشنا، واقف، باخبر |
تشریح:
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ:-
میں نے اہلِ نجوم کو دیکھا ہے کہ وہ اپنی نظریں آسمان پر جما کر ستاروں سے قسمت کا حال جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ حیرت ہے کہ وہ اتنی دُور نظریں دوڑاتے ہیں لیکن نزدیک ترین وجود یعنی اپنے وجود کو نہیں دیکھتے اور اُس کی معرفت حاصل کر کے اپنی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے ۔ کاش وہ اس حقیقت کو پا لیتے کہ انسان اپنی قسمت کا آپ مالک ہے اور اپنے اعمال ہی سے اپنی دُنیا میں ردّ و بدل کرتا ہے۔ بقول اقبالؔ:
؎ تُو اپنی سرنوِشت اب اپنے قلم سے لِکھ
خالی رکھی ہے خامۂ حق نے تری جبیں
(حوالہ: ضربِ کلیم)
واضح ہو کہ اِنسان کی خودی کائنات کی ہر شے پر غلبہ پانے کی طاقت رکھتی ہے۔ اقبالؔ نے اسی مقام کو ضربِ کلیم کی نظم میں ”سُلطانی“ سے تعبیر فرمایا ہے۔
؎ خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی
یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سُلطانی
(حوالہ: ضربِ کلیم: سُلطانی)
خودی کو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا
وہی ہے مملکتِ صبح و شام سے آگاہ
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
فلک | آسمان |
بلند تر | زیادہ اونچا |
مملکتِ صبح و شام | دِن اور رات (وقت) کی سلطنت / حکومت |
آگاہ | آشنا، واقف، باخبر |
تشریح:
جس شخص نے اس زندہ حقیقت کو پا لیا کہ اپنی معرفت حاصل کرنا آسمان اور ستاروں کا علم حاصل کرنے سے زیادہ ارفع و اعلی بات ہے، وہی شخص (اپنی خودی کی تربیت کر کے) صبح و شام (”سلسلۂ روز و شب“ / زمانہ) کی سلطنت سے واقف ہو سکتا ہے اور زمانے پر غالب آ سکتا ہے۔ یعنی ایک صاحبِ خودی ہی کو علم ہوتا ہے کہ زندگی کیا ہے، زندگی کا گرد و پیش کیا ہے، کائنات کیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زمانے کی حقیقت کیا ہے۔ واضح ہو کہ زمانے کی حقیقت سے (بقول علامہ اقبال) صرف وہی آگاہ ہو سکتا ہے جو صاحبِ خودی ہو۔
پروفیسر یوسف سلیم چشتی ”مسجدِ قرطبہ“ کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:-
”علامہ اقبال نے ایک مرتبہ دورانِ گفتگو مجھ سے یہ فرمایا تھا کہ زمانہ کی حقیقت کو سمجھنا یا سمجھانا بڑا مشکل کام ہے؛ کیونکہ جب تک کوئی شخص اپنی خودی سے واقف نہ ہو، زمانہ کی حقیقت سے واقف نہیں ہو سکتا۔“
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
وہی نگاہ کے ناخُوب و خُوب سے محرم
وہی ہے دل کے حلال و حرام سے آگاہ
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
نگاہ | نظر |
نا خُوب | جو اچھا نہ ہو، بُرا |
محرم | واقف، کسی راز سے آگاہی رکھنے والا |
تشریح:
ٹھیک وہی انسان جس نے اپنی خودی کی معرفت حاصل کر لی ہے، اِس حقیقت سے واقف ہو سکتا ہے کہ انسان کے لیے کون سی چیز مفید اور جائز اور کون سی چیز مضر اور ناجائز ہے۔ جب تک ایک شخص کو اِن باتوں سے آگاہی حاصل نہ ہو، وہ صحیح معنوں میں اِنسان کے منصب پر فائز نہیں ہو سکتا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک صاحبِ خودی شخص اس حقیقت سے کیسے آشنا ہوتا ہے کہ انسان کے لیے کون سی چیز مفید اور جائز اور کون سی چیز مضر اور ناجائز ہے۔ جواب یہ ہے کہ قرآنِ پاک کی بدولت۔ واضح ہو کہ قرآنی تعلیمات پر عمل سے ہی انسان کی خودی پروان چڑھتی ہے۔ ایک صاحبِ خودی شخص بظاہر تو قرآن پڑھتا ہوا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں وہ خود قرآن ہوتا ہے، کیونکہ وہ قرآن کو صرف پڑھتا ہی نہیں بلکہ اُس کے حرف حرف پر عمل کرکے اُس کا آئینہ دار ہو جاتا ہے اور یوں قرآنِ تعلیمات کی بدولت وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ حلال اور حرام میں تمیز کر سکے۔ بقول اقبالؔ:-
؎ یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قُرآن!
(حوالہ: ضربِ کلیم: مردِ مُسلمان)
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی