”سُلطانی“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
یہ نظم اپنی بلندیٔ افکار اور عمق معانی کے لحاظ سے ضربِ کلیم کہ بہترین نظموں میں سے ہے۔ اس نظم میں اقبالؔ نے سُلطانی (بادشاہت) کا حقیقی مفہوم سمجھایا ہے۔ یوں سمجھو کہ سُلطانی کی دو قسمیں ہیں:-
- وہ فقر جو قرآنِ کریم کی روح کو اپنی زندگی میں داخل کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔
- جب مسلمان اپنے اندر شانِ فقر پیدا کر لیتا ہے تو خودی اپنی مخفی قوتوں سے آگاہ ہو جاتی ہے۔ یعنی اُس وقت مومن کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مجھ میں کس قدر زبردست طاقتیں موجود ہیں، تو جب خودی اپنی شانِ قاہری سے آگاہ ہوتی ہے تو اس مقام یا اس وقوف ہو سلطانی کہتے ہیں۔
غرض سلطانی کی اصل حقیقتِ وقوف یا شعور ہے، نہ کہ تخت و تاج۔ یعنی اُس وقت مومن کو اس حقیقت کا احساس ہوتا ہے کہ در اصل سلطان میں ہوں، نہ کہ وہ سلاطین جو تخت پر جلوہ گر ہیں۔ اُس وقت وہ ان نقلی سلاطین کو ایسی ہی حقارت سے دیکھتا ہے، جیسے یہ دنیاوی سلاطین اپنے امیروں کو دیکھتے ہیں۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب پانی پت کے گورنر کے چوبدار نے حضرت بو علی قلندرؒ پانی پاتی کے ایک مرید کو مارا، اور وہ حضرت کی خدمت میں فریاد لے کر حاضر ہوا، تو حضرت نے اپنے کاتب کو حکم دیا کہ دہلی کے بادشاہ کو میری طرف سے خط لکھ دو کہ اگر تُو نے اس بد نیّت عامل (گورنر) کو پانی پت سے فوراً دوسری جگہ تبدیل نہیں کیا تو میں دہلی کا تخت کسی دوسرے بادشاہ کے حوالے کر دُوں گا۔
؎ باز گیر ایں عاملِ بدگوھرے
ورنہ بخشم ملکِ تُو با دیگرے
اُس بدنہاد عامل کو یہاں سے واپس بُلا؛
ورنہ میں تیری بادشاہت کسی اور کو دے دُوں گا۔
(حوالہ: اسرارِ خودی: در بیان اینکہ چون خودی از عشق و محبت محکم می گردد، قوای ظاہرہ و مخفیہ نظامِ عالم را مسخری سازد)
غور کیجیے، حضرت قلندر پانی پتیؒ محض ایک گدائے گوشہ نشین تھے، نہ اُن کے پاس فوج تھی نہ خزانہ، لیکن اس کے باوجود اُن میں اس قدر طاقت تھی کہ اُنہوں نے ہندوستان کے مطلق العنان بادشاہ کو ایسا سخت خط لکھ دیا۔ سوال یہ ہے کہ اُنؒ میں یہ طاقت اور شان و شوکت کیسی پیدا ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ:-
؎ خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی
یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سُلطانی
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
نظم ”سُلطانی“ کی تشریح
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روحِ قُرآنی
اس راز کو بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ فقر (درویشی) جس میں قرآن کی روح ظاہر ہو، ہزاروں مقام رکھتا ہے۔ سلطانی بھی اس کے ہزاروں مقامات میں سے ایک مقام ہے۔ وہ مردِ درویش جس کی درویشی (فقر) میں قرآن کی روح بیدار ہو جاتی ہے، وہ بہ ظاہر کچھ نہ رکھتا ہوا بھی سلاطینِ زمانہ سے بلند تر ہوتا ہے۔ اس فقر کے آگے دارا اور سکندر جیسے سلطان جھکتے ہیں۔ اصل سلطانی اسی مردِ درویش کی سلطانی ہے جو اسلامی تصوف/فقر کا حامل ہے۔
؎ فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر، فقر ہے شاہوں کا شاہ
(حوالہ: بالِ جبریل)
فقر کے لغوی معنی تو احتیاج کے ہیں۔ لیکن اہل معرفت کے نزدیک اس سے مراد مفلسی اور فاقہ کشی نہیں ہے، بلکہ خدا کے سوا ہر ایک سے بے نیازی ہے۔ جو شخص اپنی حاجت مندی کو غیر اللہ کے سامنے پیش کرے اور جسے غنا کی حرص دوسروں کے آگے سر جھکانے اور ہاتھ پھیلانے پر آمادہ کرے وہ لغوی حیثیت سے فقیر ہوسکتا ہے، مگر نگاہِ عارف میں دریوزہ گر ہے، فقیر نہیں ہے۔ حقیقی فقیر وہ ہے جس کا اعتماد ہر حالت میں اللہ پر ہو۔ جو مخلوق کے مقابلے میں خود دار اور خالق کے آگے بندۂ عاجز ہو۔ خالق جو کچھ بھی دے، خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، اس پر قانع و شاکر رہے اور مخلوق کی دولت و جاہ کو نگاہ بھر کر بھی نہ دیکھے۔ وہ اللہ کا فقیر ہوتا ہے نہ کہ بندوں کا۔
(حوالہ: ترجمان القرآن، اپریل 1977ء)
خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی
یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سُلطانی
خودی کو جب یہ نظر آتا ہے کہ وہ اپنے اندر ہر دوسری شئے پر غلبہ پانے کی طاقت رکھتی ہے اور وہ ہر ایک فاتحانہ شان سے حکمرانی کر سکتی ہے، تو اس کے اسی مقام کو سلطانی کہتے ہیں۔ یہ وہ سلطانی ہے جسے کوئی زوال نہیں۔ جیسے ایک بادشاہ اپنی قوت و دولت کے بل بوتے پر ہر کسی کے آگے جھکنا معیوب سمجھتا ہے، اسی طرح جب مسلمان اپنی خودی سے آگاہ ہوتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ عظمیٰ کے سوا کسی کے آگے نہیں جھکتا، چنانچہ یہی وصف (خوبی) عینِ سلطانی ہے۔
یہی مقام ہے مومن کی قُوّتوں کا عیار
اسی مقام سے آدم ہے ظِلّ سُبحانی
یہی مقامِ یعنی شانِ فقر جسے حقیقی معنی میں سلطانی کہہ سکتے ہیں، مومن کی قوتوں کی کسوٹی ہے اور اسی مقام پر پہنچ کر وہ صحیح معنی میں خلیفۃ اللہ علی الارض (زمین پر اللہ تعالی کا خلیفہ) بن جاتا ہے۔ بظاہر وہ چٹائی پر بیٹھا ہوا ہوتا ہے، لیکن در اصل ساری دُنیا پر حکومت کرتا ہے اور ساری دُنیا اس ایک فقیر سے کانپتی رہتی ہے۔
جب مسلمان اپنی خودی سے روشناس ہوتا ہے تو اس کی قوتوں کو پرکھنے کا وقت شروع ہوتا ہے، پھر وہ ساری کائنات کو تسخیر کرتا چلا جاتا ہے اور اپنے تابعِ فرمان کرتا ہے۔ یہی نشانی خدا کی ہے کہ ہر شے اس کے تابعِ فرمان ہے چنانچہ اسی نسبت سے یہ مسلمان خدا کا سایہ بن جاتا ہے یعنی وہ اپنی اندر کائنات کی بقا کے لیے اوصافِ خداوندی پیدا کرتا رہتا ہے، حتیٰ کہ اس نظام کے تحت رزق کے سر چشمے سب کے لیے برابر جاری و ساری رہتے ہیں۔ انسانیت زندہ ہو جاتی ہے اور شر و باطِل کو موت آ جاتی ہے۔ جنگ صرف باطل کا خاتمہ کرنے کے لیے روا ہوتی ہے۔
یہ جبر و قہر نہیں ہے، یہ عشق و مستی ہے
کہ جبر و قہر سے ممکن نہیں جہاں بانی
واضح ہو کہ سلطانی اپنے اندر جبر و قہر (ظلم و ستم) کا رنگ نہیں رکھتی، بلکہ عشق و مستی کا رنگ رکھتی ہے۔ بالفاظ دیگر (دوسرے الفاظ میں) دُنیاوی سلاطین (سلطان کی جمع) تو صرف لوگوں کے جسم پر حکومت کرتے ہیں، لیکن مومن (صاحبِ فقر) لوگوں کے دِلوں پر حکمران ہوتا ہے۔ دنیاوی سلاطین تو تلوار کے زور سے حکومت کرتے ہیں لیکن مومن محبت کی مدد سے حکومت کرتا ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جبر و قہر سے جہاں بانی (دنیا پر حکومت) ممکن نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن بادشاہوں نے جبر و قہر سے حکومت کی، اُن کا انجام بہت بُرا ہوا ہے۔
کِیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو
کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی
یہ شعر اس نظم کی جان ہے۔ اقبالؔ کہتے ہیں کہ تجھ کو (مسلمان قوم سے خطاب ہے) جو غلامی میں مبتلا کیا گیا ہے، اس کا سبب یہی تو ہے کہ اللہ نے تجھے حقیقی سلطانی عطا فرمائی تھی یعنی سرکارِ دو عالم ﷺ نے تجھے فقر کا سبق پڑھایا تھا (جس کی چند خوبیاں اقبالؔ نے مذکورہ بالا اشعار میں خودی کے حوالے سے بیان کی ہیں) لیکن تُو نے مادیات میں کھو کر اور جہد و عمل سے غافل رہ کر یہ سبق بالکل بھلا دیا۔ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم کو بھلا دینے کے یہ معنی ہیں کہ تُو نے اللہ کو بھلا دیا، پس اُس نے اپنے قانون کے مطابق تجھے بھُلا دیا۔
مثالِ ماہ چمکتا تھا جس کا داغِ سجود
خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی
کبھی وہ دور تھا جب مسلمانوں کے مخلصانہ سجدوں کے باعث ان کے سجدوں کے داغ چاند کی طرح چمکتے تھے، لیکن انگریز مکار و خبیث نے ان کے ایسے جذبے ختم کر کے انہیں اپنا غلام بنا لیا ہے۔
جن مسلمانوں کے ماتھوں پر کبھی سجدوں کے نشان چاند کی طرح چمکتے تھے، آج یورپی اقوام نے ان سے وہ مسلمانی (جو داغِ سجود کا سبب تھی) خرید لی ہے۔ مراد یہ ہے کہ آج کے مسلمانوں نے اپنے مفاد اور غرض کی خاطر اسلام کی روح چھوڑ دی ہے اور محض رسمی مسلمان باقی رہ گیا ہے اور وہ انگریزی تہذیب و ثقافت کا علم بردار بن کر اپنی مسلم روایات کھو بیٹھا ہے۔
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دِل، وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں، تُو باقی نہیں ہے
(حوالہ: بالِ جبریل)
ہوا حریفِ مہ و آفتاب تُو جس سے
رہی نہ تیرے ستاروں میں وہ دُرخشانی
حلِ لغات:
حریفِ مہ و آفتاب | چاند اور سورج کا مدِّ مقابل |
دُرخشانی | چمک، روشنی |
تشریح:
آسمانِ اسلام پر چمکنے والے جو ستارے کبھی سورج اور چاند کے مدِ مقابل آتے تھے اور ان کی روشنی کو مدھم کر دیتے تھے، آج وہ ستارے خود اپنی روشنی سے محروم ہو گئے ہیں۔ سبب اس کا (جیسا کہ اوپر کے اشعار سے پتا چلتا ہے) صرف اور صرف یہ ہے کہ مسلمان سے فقر کی نگہبانی نہ ہو سکی اور وہ اپنی خودی کے مقام سے گِر گیا۔
؎ باقی نہ رہی وہ تیری آئینہ ضمیری
اے کُشتۂ سُلطانی و مُلّائی و پیری
(حوالہ: ارمغانِ حجاز: آوازِ غیب)
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی