Skip to content
بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ

بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ


”صبح کا ستارہ“ از علامہ اقبال

فہرست

تعارف

نظم ”صبح کا ستارہ“ علامہ اقبال کی قوّتِ تخیّل کا کرشمہ ہے۔ مقصد اس نظم سے یہ ہے کہ اگر کسی کو حیاتِ ابدی کی آرزو ہو تو اپنے اندر عشق کا سوز پیدا کرے۔ اس حقیقت کو اُنہوں نے صبح کے ستارہ کی زبان سے ادا کیا ہے۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)


نسیم امروہوی کے نزدیک نظم ”صبح کا ستارہ“ فروری 1904ء کے مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ جبکہ سرودِ رفتہ اور مطالبِ بانگِ درا میں مولانا غلام رسول مہر لکھتے ہیں کہ یہ نظم دسمبر 1904ء کے مخزن میں چھپی تھی اور غالباً یہی بات صحیح ہے۔ بانگِ درا میں نظموں کی عمومی ترتیب سے اِس امر کی تصدیق ہوتی ہے۔ بانگِ درا کی اشاعت کے وقت نظرِ ثانی میں ”صبح کا ستارہ“ نظم کر دو شعر حذف کر دیے گئے تھے جو باقیاتِ اقبالؔ اور سرودِ رفتہ میں شائع ہو چکے ہیں۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد)


یہ نظم رسالہ مخزن لاہور، شمارہ فروری 1904ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس نظم میں علامہ نے صبح کے ستارے کی زبان سے، جو صبح صادق کو طلوع اور سب ستاروں سے زیادہ روشن ہوتا ہے، یہ کہنا چاہا ہے کہ جو بھی انسان حیاتِ دوام پانے کا خواہشمند ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنے دِل میں عشقِ حقیقی کا سوز پیدا کرے۔

(شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)

YouTube video

بند نمبر 1

لُطفِ ہمسایگیِ شمس و قمر کو چھوڑوں
اور اس خدمتِ پیغامِ سحَر کو چھوڑوں

حلِ لغات:

لطفِ ہمسایگیایک دوسرے کے قریب رہنے کا لُطف
شمس و قمرسورج اور چاند
پیغامِ سحرصبح کی آمد کا پیغام
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

یہ نظم اقبالؔ کی قوّتِ تخیّل کا کرشمہ ہے۔ مقصد اس نظم سے یہ ہے کہ اگر کسی کو حیاتِ ابدی کی آرزو ہو تو اپنے اندر عشق کا سوز پیدا کرے۔ اس حقیقت کو اُنہوں نے صبح کے ستارہ کی زبان سے ادا کیا ہے۔ صبح کا ستارہ کہتا ہے کہ:-

اب تو یہ جی چاہتا ہے کہ مجھے سورج (شمس) اور چاند (قمر) کی ہمسائیگی میں جو لطف آتا ہے، اسے چھوڑ دوں اور اپنے طلوع ہونے سے آمدِ صبح کا جو پیغام (خدمتِ پیغامِ سحر) دیتا ہوں، اس ذمہ داری سے بھی جان چھُڑا لوں۔ صبح کا ستارہ ایسا کیوں چاہتا ہے، اس بات کا جواب اگلے اشعار میں ہے۔


میرے حق میں تو نہیں تاروں کی بستی اچھّی
اس بلندی سے زمیں والوں کی پستی اچھّی

حلِ لغات:

بستیآبادی، مراد آسمان
پستیاُتار، ذلّت، جہالت، پسماندگی، مقابلہ میں کمتر
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آسمان میں جو ستاروں کی بستی قائم ہے، میرے لیے اس بستی میں رہائش کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ یہ جو بلندی مجھے حاصل ہے، اس کی نسبت زمین کی پستی میرے لیے زیادہ مناسب ہے۔ ایسا کیوں ہے، اس کا جواب آئندہ اشعار میں۔


آسماں کیا، عدم آباد وطن ہے میرا
صبح کا دامنِ صد چاک کفن ہے میرا

حلِ لغات:

عدم آبادفنا کی دُنیا، اگلی دُنیا، قبرستان
دامنِ صد چاکوہ لباس جو جگہ جگہ سے پھٹا ہوا ہو
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ میں آسمان کا باشندہ ہوں، لیکن اصل میں میرا وطن آسمان نہیں بلکہ عدم آباد ہے (عدم سے مراد ہے فنا / نہ ہونا)، یعنی وہ جہان جہاں موت کے بعد مرنے والے پہنچتے ہیں۔ صبح کا سینکڑوں جگہ سے پھٹا ہوا لباس میرا کفن ہے، یعنی صبح ہوتی ہے تو میری زندگی تمام ہو جاتی ہے۔ پَو پھٹنے کو شاعر عام طور پر صبح کا دامن چاک ہو جانے سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ صبح کے وقت افق پر سفیدی چھا جاتی ہے، اس لیے اسے کفن سے تشبیہ دی۔


میری قسمت میں ہے ہر روز کا مرنا جینا
ساقیِ موت کے ہاتھوں سے صبُوحی پینا

حلِ لغات:

ساقیِ موتموت کی شراب پلانے والا۔ مراد سورج
صبُوحیصبح کے وقت پی جانے والی شراب
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

میرے مقدر میں یہ لکھا ہوا ہے کہ میں ہر روز جیتا اور مرتا رہوں اور موت کے ساقی کے ہاتھوں صبح کی شراب (صبوحی: وہ شراب جو صبح کے وقت پی جاتی ہے) پیتا رہوں یعنی اِدھر طلوع ہوا اُدھر جلد ہی غروب ہو گیا۔


نہ یہ خدمت، نہ یہ عزّت، نہ یہ رفعت اچھّی
اس گھڑی بھر کے چمکنے سے تو ظُلمت اچھّی

حلِ لغات:

رِفعتبلندی
گھڑی بھر کا چمکناتھوڑی دیر کے لیے چمکنا
ظُلمَتاندھیرا، تاریکی
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

اس صورتِ حال کے باعث نہ تو وہ خدمت مناسب ہے جو میرے سپرد کی گئی ہے (یعنی صبح کا پیغام دینا) اور نہ وہ عزت بہتر ہے جو مجھے حاصل ہے اور نہ آسمان کی بلندی پر رہنا میرے لیے مفید ہے بلکہ اس تھوڑی سی دیر کے چمکنے سے تو میرے لیے تاریکی ہی اچھی ہے۔ اس نوع کی ذمہ داری، عزت اور بلندی آخر کس کام کی، کہ تھوڑی دیر چمک کر اپنے وجود سے آشنا کرایا اور پھر صبح ہونے پر موت کی نیند سو گیا۔


میری قُدرت میں جو ہوتا تو نہ اختر بنتا
قعرِ دریا میں چمکتا ہُوا گوہر بنتا

حلِ لغات:

قُدرتاختیار، بس، طاقت
اخترستارہ
قعرِ دریادریا کی گہرائی، دریا کی تہ
گوہرموتی
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

اگر میرے بس میں ہوتا تو میں کبھی ستارہ (اختر) نہ بنتا بلکہ سمندر کی تہ میں ایک چمکتا ہوا موتی (گوہر) بن کر رہنا زیادہ مناسب سمجھتا، اس لیے کہ اسے کچھ تو بقا ہے۔

بند نمبر 2

واں بھی موجوں کی کشاکش سے جو دل گھبراتا
چھوڑ کر بحر کہیں زیبِ گلُو ہو جاتا

حلِ لغات:

واںوہاں
موجسمندر کی لہر
کشاکشکھینچا تانی
بحرسمندر
زیبِ گُلُوگلے کی زینت
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

(موتی بننے کی صورت میں) سمندر کی لہروں کی کھینچا تانی کی وجہ سے اگر میرا دِل گھبراتا تو میں سمندر چھوڑ کر کسی کے گلے کے ہار کی زینت بن جاتا۔ کوئی حسینہ مجھے اپنے گلے میں لٹکا لیتی اور اس طرح میں اس کی دلکشی میں اضافے کا باعث بنتا۔


ہے چمکنے میں مزا حُسن کا زیور بن کر
زینتِ تاجِ سرِ بانوئے قیصر بن کر

حلِ لغات:

تاجِ سرسر کا تاج
بانوئے قیصرروم کے بادشاہ کی ملکہ
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

اس لیے کہ آسمان کی بلندی پر چمکنے میں وہ لطف نہیں جو کسی حسین کے زیور کی چمک بن کر حاصل ہوتا ہے یا کسی شہنشاہ کی ملکہ کے تاج کی آرائش بننے میں ممکن ہے۔


ایک پتھّر کے جو ٹکڑے کا نصیبا جاگا
خاتمِ دستِ سلیماں کا نگیں بن کے رہا

حلِ لغات:

نصیبا جاگاقسمت چمکی / بیدار ہوئی
خاتمِ دستِ سلیماںحضرت سلیمانؑ کے ہاتھ کی انگُوٹھی
نگیںنگینہ، نَگ، ہیرا
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

دیکھیے کہ وہ جو دیکھنے میں ایک معمولی سا پتھر تھا، لیکن جب اس کا نصیب جاگا تو حضرت سلیمانؑ کی انگوٹھی (خاتم) کا نگینہ بن گیا۔


ایسی چنروں کا مگر دہر میں ہے کام شکست
ہے گُہر ہائے گراں مایہ کا انجام شکست

حلِ لغات:

دہردُنیا، زمانہ
شِکَستٹوٹنا، ناکامی
گُہر ہائے گراں مایہبہت زیادہ قیمتی موتی
انجامنتیجہ، اِختتام
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس قسم کی اشیاء آخرکار دنیا میں شکست و ریخت سے دوچار ہو کر رہتی ہیں۔ چنانچہ بیش قیمت اور نایاب قسم کے موتی (گہرہائے گرا نمایا: قیمتی جواہرات) کا انجام بھی بالآخر ریزہ ریزہ ہوجانا ہوتا ہے۔


زندگی وہ ہے کہ جو ہو نہ شناسائے اجل
کیا وہ جینا ہے کہ ہو جس میں تقاضائے اجل

حلِ لغات:

شناسائے اجلموت کا واقف
تقاضائے اجلموت کا تقاضآ کرنا / لازمی فنا ہونا
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

اس طرح دیکھا جائے تو اصل زندگی تو وہ ہے جو موت سے واقف نہ ہو، یعنی جسے موت نہ آئے۔ ایسا جینا کیا جینا ہے جس کی لازمی شرط موت قرار پاتی ہو (واضح رہے کہ ستارہ ایسی زندگی کا طالب ہے جو ہمیشہ قائم رہے)


ہے یہ انجام اگر زینتِ عالم ہو کر
کیوں نہ گر جاؤں کسی پھول پہ شبنم ہو کر!

حلِ لغات:

زینتِ عالمدُنیا کی سجاوَٹ
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

اگر دنیا کی زینت بن کر (موتی کی صورت میں کسی کے تاج وغیرہ کی زینت) بھی اسی انجام سے دوچار ہونا ہے تو کیا پھر میرے لیے یہ بہتر نہ ہوگا کہ شبنم بن کر کسی پھول پر ہی ٹپک پڑوں۔ کم از کم میری وجہ سے پھول تو کھِل کر ماحول کو خوشبودار کر دے گا۔

بند نمبر 3

کسی پیشانی کے افشاں کے ستاروں میں رہوں
کس مظلوم کی آہوں کے شراروں میں رہوں

حلِ لغات:

پیشانیماتھا
افشاںگوٹے کی کُترن، جو عورتیں زیبائش کے لیے ماتھے پر چُنتی ہیں اور بالوں پر چھِڑکتی ہیں
مظلومجس پر ظلم ہوا ہو
آہیںبہت افسوس کرنا، غم یا فکر کی وجہ سے ٹھنڈے سان٘س لینا
شرارےچنگاریاں
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

زیادہ اچھی بات تو یہ ہے کہ میں کسی خاتون کے ماتھے کی افشاں (طلائی یا نقرئی اوراق کے ریزے جو ماتھے کی خوبصورتی کے لئے خواتین (بالخصوص دلہنیں) چھڑکتی یا جماتی ہیں۔) میں شامل ہو کر اُس کے حسن کو دوبالا کرنے کے کام آؤں یا پھر کسی مظلوم اور مجبور انسان کی آہ و زاری سے کی چنگاریوں میں بس جاؤں۔ (آہ و زاری کو چنگاری اس لیے کہا کہ آہ و زاری کا تعلق سینے کے ساتھ ہے، جب ہم غمگین ہوتے ہیں تو ہمارے سینے میں موجود دِل سُلگتا ہوا معلوم ہوتا ہے، اسی کو آہ و زاری کی چنگاریاں کہا)


اشک بن کر سرِمژگاں سے اٹک جاؤں میں
کیوں نہ اُس بیوی کی آنکھوں سے ٹپک جاؤں میں

حلِ لغات:

اشکآنسو
سرِ مژگاںپلکوں پر، پلکوں کی نوک
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

یا میں آنسو بن جاؤں اور پلکوں کے کناروں پر اٹک جاؤں اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ میں آنسو بن کر اس بیوی کی آنکھوں سے ٹپک پڑوں  کہ۔۔۔


جس کا شوہر ہو رواں ہو کے زرہ میں مستور
سُوئے میدان وغا، حُبِّ وطن سے مجبور

حلِ لغات:

روَاں
زِرہلوہے کا لباس جو جنگ میں پہنتے ہیں
مستُورچھُپا ہوا، پوشیدہ
سُوئے میدانِ وغامیدانِ جنگ کی طرف
وغاجنگ، لڑائی
حُبِّ وطنوطن کی مُحبّت
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

(کیوں نہ میں آنسو بن جاؤں اور اس بیوی کی آنکھوں سے کر ٹپک پڑوں کہ) جس کا شوہر وطن کی محبت سے سرشار ہو کر زرہ بکتر پہنے میدانِ جنگ کی طرف رواں ہو رہا ہو۔


یاس و اُمیّد کا نظّارہ جو دِکھلاتی ہو
جس کی خاموشی سے تقریر بھی شرماتی ہو

حلِ لغات:

یاسنا اُمیدی
تقریرگفتگو
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

ایسی بیوی جس میں مایوسی اور امید دونوں صورتیں دکھائی دیتی ہوں اور جس کی خاموشی سے گفتگو بھی شرماتی ہو۔ مایوسی اس بات کی کہ شاید میرا شوہر زندہ واپش نہیں آئے گا اور امید اس بات کی کہ شاید وہ غازی بن کر واپس لوٹے۔ اس کی خاموشی کچھ اس انداز کی ہو کہ دیکھنے والے کو اس کے دردِ دِل کا صاف پتا چل جائے، جبکہ اس کے الفاظ اس کی کیفیت کو بیان کرنے سے عاجز ہوں۔


جس کو شوہر کی رضا تابِ شکیبائی دے
اور نگاہوں کو حیا طاقتِ گویائی دے

حلِ لغات:

رضامرضی، خوشی
تابِ شکیبائیصبر کی طاقت، برداشت کی ہمّت
حیاشرم، حجاب، غیرت
طاقتِ گویائیبولنے کی قوّت / طاقت
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

جس (بیوی) کو اپنے شوہر کی رضا پر راضی رہنے کے باعث صبر و شکیبائی کی قوت حاصل ہو اور اس کی حیا اس کی نگاہوں کو بولنے کی طاقت دے، وہ سراپا ”سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے“ کی عملی تعبیر ہو اور حیا کی وجہ سے اس کی نگاہوں ہی سے اس کی دِلی حالت کا پتا چل جائے۔


زرد، رُخصت کی گھڑی، عارضِ گُلگوں ہو جائے
کششِ حُسن غمِ ہجر سے افزوں ہو جائے

حلِ لغات:

زردپیلا
رُخصت کی گھڑیروَانگی کا وقت
عارضِ گُلگُوںسُرخ پھول جیسا رُخسار
کششِ حُسنخوب صورت کی دِل کشی
غمِ ہجرجُدائی کا غم
افزُوںبڑھ جانا
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

جب اس کا شوہر میدانِ جنگ کی طرف روانہ ہونے لگے تو اس کا پھولوں جیسا سرخ چہرہ غم کے باعث زرد ہو جائے اور اس کے حسن میں جو دِلکشی ہے، اس میں شوہر کے ہجر (جدائی) کی وجہ سے اور بھی اضافہ ہو جائے۔


لاکھ وہ ضبط کرے پر میں ٹپک ہی جاؤں
ساغرِ دیدۂ پُرنم سے چھلک ہی جاؤں

حلِ لغات:

ضبط کرناروکنا
ساغرپیالہ، جام
دیدہ پُرنَمآنسوؤں سے تر آنکھ
ساغرِ دیدۂ پرُ نَمآنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں کا جام، روتی ہوئی آنکھ کا پیالہ
چھلَک جانالبالب ہو کے نیچے گِر جانا
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

وہ (بیوی) لاکھ ضبط کرنے کی کوشش کرے لیکن میں (صبح کا ستارہ جو آنسو بننے کا خواہشمند ہے) اس کی آنکھوں سے ٹپک ہی جاؤں اور اس کے آنسوؤں سے بھرے ہوئے ساغر (پیالہ) سے چھلک ہی جاؤں۔


خاک میں مل کے حیاتِ ابدی پا جاؤں
عشق کا سوز زمانے کو دِکھاتا جاؤں

حلِ لغات:

حیاتِ ابدیہمیشہ رہنے والی زندگی
عشق کا سوزعشق کی حرارت
حلِ لغات (بانگِ درا 41: صبح کا ستارہ)

تشریح:

یوں میں (مذکورہ آنسو چھلکنے کے بعد) خاک میں مل کر حیاتِ ابدی (ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی) پا جاؤں اور اس طرح زمانے کو سوزِ عشق دکھاتا جاؤں۔ گویا عشق کا جذبہ ہی حیاتِ ابدی کا باعث بنتا ہے۔

؎ عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اُس پر حرام
(حوالہ: بالِ جبریل: مسجدِ قرطبہ)

تبصرہ

صبح کے ستارے نے زندگی کی ناپائیداری دیکھتے ہوئے پہلے آسمان سے اتر کر سمندر کی تہہ میں موتی بننا چاہا، پھر سوچا کہ موتی بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ جینا وہی اچھا ہے جس میں موت کا کوئی کھٹکا نہ ہو۔ اس پر خیال آیا کہ شبنم بن جانا چاہیے۔ پھر مظلوم کی آہوں کا شرارہ بن جانا چاہا وغیرہ۔ سب سے آخر میں اس بیوی کا آنسو بننا پسند کیا جس کا شوہر وطن کے لیے جنگ میں جائے۔ اس کی آنکھوں سے گِر کر مٹی میں مل جانا منظور کر لیا اور اس کو دائمی زندگی سمجھا، اس لیے کہ زمانہ اس سے سچی محبت کا سبق لے گا۔ سبق یہ ہے کہ شوہر سے اگرچہ وہ سب سے بڑھ کر محبت کرتی ہے لیکن وطن کی حفاظت میں جنگ سے نہیں روکتی۔ جدائی اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہے لیکن وطن کی محبت میں اسے صبر کے ساتھ قبول کر لیتی ہے۔ جو آنسو ضبط کے باوجود اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑتا ہے، وہ زمانے کے لیے شوہر کی محبت اور وطن کی محبت کا زندہ پیغام ہے۔

(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments