”شام و فلسطین“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”شام و فلسطین“ میں علامہ اقبال نے فرنگی سیاست کو بے نقاب کیا ہے۔
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
نظم ”شام و فلسطین“ کی تشریح
رِندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت
پُر ہے مئے گُلرنگ سے ہر شیشہ حلَب کا
سلطنتِ عثمانیہ کے زمانے میں شام ایک بڑا ملک تھا جس میں فلسطین، لبنان اور اردن کے کچھ حصے بھی شامل تھے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد اسے تقسیم کر دیا گیا اور یہاں یورپ کے شرابی آ گئے۔ انہوں نے ان ملکوں کے شہروں کو بھی شراب خانوں سے آشنا کر دیا اور لوگوں کو شراب اور بے حیائی پر لگا دیا۔ ان حالات کو دیکھ کر علامہ طنز کے طور پر کہتے ہیں کہ:-
فرانس کے شرابیوں (رِندانِ فرانسیس) کے شراب خانے سلامت رہیں، جن کے شام میں آنے سے شام کے شہر بھی شراب خانوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ حکومتِ فرانس نے حکومتِ برطانیہ سے ساز باز کر کے شام پر اپنا تسلط قائم کیا اور وہاں تہذیبِ مغرب کے تمام برائیاں (خصوصاً شراب نوشی) عام کر دی۔ چنانچہ حلب کا وہ شہر جو پہلے شیشے بنانے میں مشہور تھا، اب شراب کے شیشوں یعنی پیالوں اور صراحیوں کو بنانے لگا ہے اور ان شرابیوں نے شراب پورے ملک میں عام کر دی ہے۔
یعنی حکومتِ فرانس نے حکومتِ برطانیہ سے ساز باز کر کے پہلے تو مُلک شام پر اپنا تسلط قائم کیا اور پھر وہاں تہذیبِ مغرب کے تمام برائیاں (خصوصاً شراب نوشی) عام کر دیں۔
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عَرب کا
شامیوں کے اخلاق تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں حکومتوں نے فلسطین کے یہودیوں کو درپردہ عربوں کے خلاف بغاوت کرنے پر آمادہ کیا اور عذر یہ تراشا کہ فلسطین میں کیونکہ یہودی ایک زمانہ میں حکمران رہ چکے ہیں، اس لیے یہ اُن کا آبائی اور قومی وطن ہے اور یہاں ان ہی کو حکمران ہونا چاہیے۔ اقبالؔ کہتے ہیں کہ اگر فرزندانِ ابلیس کی یہ دلیل صحیح ہے تو پھر ہسپانیہ (اسپین) عربوں کو مِلنا چاہیے کیونکہ اُن کے آباء و اجداد بھی اس ملک میں سات سو سال حکومت کر چکے ہیں۔
اگر فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کا کوئی حق ہے تو پھر ہسپانیہ پر اہلِ عرب کا حق کیوں نہیں ہے؟ فلسطین پر انگریزوں نے قبضہ کرنے کے بعد وہاں یہودیوں کو پہنچانے اور انہیں اپنی سرپرستی میں خوب مضبوط کرنے کا اقدام اُٹھایا تاکہ وہ عربوں کے لیے مسلسل بہت بڑا خطرہ بنے رہیں، یہ صورتِ حال آج اکیسویں صدی واضح طور پر ہمارے سامنے اور ملکِ اسرائیل کی صورت میں ہے۔ دعویٰ عیار و خبیث انگریزوں کا یہ تھا کہ یہودی دراصل فلسطین ہی کے باشندے تھے۔ سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ اگر یہودی دو ہزار سال بعد فلسطین کے حقدار قرار پاتے ہیں تو پھر عربوں کا کیا قصور ہے کہ وہ ہسپانیہ کے حقدار نہیں ہیں، جہاں انہوں نے آٹھ سو سال حکومت کی اور وہاں سے انہیں نکلے ہوئے صرف پانچ صدیاں گزری ہیں۔
مقصد ہے مُلوکیّتِ انگلِیس کا کچھ اور
قصّہ نہیں نارنج کا یا شہد و رُطَب کا
انگریزی حکومت کا فلسطین میں یہودیوں کو یوں بسانا اس لیے نہیں ہے کہ ان کے ذریعے یہاں سنگتروں، شہد اور کھجوروں کی تجارت سے فائدہ اُٹھایا جائے بلکہ مقصود یہ ہے کہ یہودیوں کو یہاں بسا کر ان کے ذریعے سارے عربوں میں پھُوٹ ڈالی جائے اور جملہ ممالکِ اسلام کو ڈرایا اور دھمکایا جائے۔۔ جیسا کہ اسرائیل بننے کے بعد ثابت ہو چکا ہے اور اہلِ مغرب یہودیوں کے ذریعے مسلمان ملکوں میں افراتفری پھیلانے کا ہر کام لے رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ انگریز قوم کو کسی نہ کسی بہانے اپنی حکومت روا رکھنی درکار ہے۔ اسی لیے وہ اہلِ عرب میں کشیدگی پیدا کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں قومیں باہم کشمکش میں کمزور ہوں گی اور دونوں انگریز کے تعاون کی طلبگار ہوں گی۔ چنانچہ انگریز ان کی اس مجبوری اور کمزوری سے فائدہ اُٹھا کر ایسے معاہدے کرے گا کہ مستقبل میں ان پر حاکم بن سکے گا۔
نوٹ
اقبالؔ کہتے ہیں کہ شام اور فلسطین پر فرانس اور برطانیہ کے قبضہ کا مقصد یہ نہیں کہ وہ ان ملکوں سے کوئی تجارتی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ عربوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ قوم ہمیشہ ان کی دست نِگر رہے۔
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی