Skip to content
بالِ جبریل 139: ایک نوجوان کے نام

بالِ جبریل 139: ایک نوجوان کے نام


”ایک نوجوان کے نام“ از علامہ اقبال

تعارف

ممکن ہے کہ نظم ”ایک نوجوان کے نام“ میں علامہ اقبال مرحوم نے کسی خاص نوجوان کو مخاطب کیا ہو لیکن جس حکیمانہ نُکتہ کہ اُنہوں نے تبلیغ کی ہے اس سے پوری قوم مستفید ہو سکتی ہے۔ اقبالؔ مسلمان نوجوان کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ:-

؏ پایا میں نے استغنا میں معراجِ مسلمانی

(حوالہ: شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

YouTube video

اِس نظم میں یہ نُکتہ واضح کیا گیا ہے کہ مسلم قوم کو اسلامی زندگی کے کمال کا آخری درجہ مغربی علوم و فنون کے حصول یا تہذیبِ فرنگ کے رنگ میں رنگے جانے سے نہیں بلکہ اِستغنا یعنی بے نیازی سے حاصل ہو سکتا ہے، نیز نئی نسل کے نوجوانوں کو تن آساں نہیں بلکہ جفاکَش ہونا چاہیے۔ نوجوانوں کو بادشاہوں اور حاکموں کا دست پروردہ نہیں ہونا چاہیے اور اُنہیں چاہیے کہ نااُمیدی کو پاس بھی پھٹکنے نہ دیں۔

(حوالہ: شرح بالِ جبریل از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)

نظم ”ایک نوجوان کے نام“ کی تشریح

بند نمبر 1

ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانیِ
لہُو مجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

حلِ لغات:

الفاظمعنی
صوفےفرنیچر کی ایک قسم
افرنگیمغربی یعنی یورپی
لہُو رُلاناخون کے آنسو رونا، بہت دُکھ ہونا
تن آسانیآرام پسندی، آرام طلبی، عیش پسندی
(”ایک نوجوان کے نام“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے نوجوان! ہر چند کہ تیرے ایوانِ راحت میں عیش و عشرت کے تمام لوازمات یکجا نظر آتے ہیں۔ تُو نے یورپی انداز کے صوفے رکھے ہیں اور تیرے قالین ایرانی ہیں۔ اپنی ملت کے نوجوانوں کی یہ آرام طلبی مجھے خون کے آنسو رُلاتی ہے۔ صوفے اور قالین اپنی عیش طلبی کی اور امیری کی ٹھاٹھ دکھانے کی علامت ہے۔ علامہ اپنے نوجوانوں کو بے حد محنتی اور جفا کش دیکھنے کے خواہش مند ہیں، جب وہ انہیں آرام طلب اور عیش پسند دیکھتے ہیں تو اُنہیں دُکھ ہوتا ہے، کیونکہ ایسے نوجوانوں سے عظیم کارناموں کی توقع ممکن نہیں۔


امارت کیا، شکوہِ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زورِ حیدری تجھ میں، نہ استغنائے سلمانی

حلِ لغات:

الفاظمعنی
امارتامیری۔ مراد سرداری، دولت مندی
شکوہِ خسروَیبادشاہ خسرو پرویز جیسی شان و شوکت
کیا حاصلکیا فائدہ، کُچھ فائدہ نہیں
زورِ حیدریحضرت علی المرتضیٰؓ کا سا زور اور طاقت
اِستغنائے سلمانیحضرت سلمان فارسیؓ کی سی بے نیازی
اِستغنابے نیازی، دِل کی سیری، ہر قسم کی احتیاج سے بے پرواہی
(”ایک نوجوان کے نام“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

تُو بیشک بڑا دولت مند سہی، لیکن اس کا کیا فائدہ؟ اگر تجھے خسروی شان  و شوکت بھی حاصل ہو تو اس سے تجھے کیا ملے گا؟ اس لیے کہ تجھ میں نہ تو حضرت علیؓ کا سا زور ہے کہ تُو باطل قوتوں سے ٹکرا سکے اور نہ تجھ میں حضرت سلمانؓ کی سی بے نیازی و درویشی ہے کہ تُو خود کو مادی فوائد کی الجھنوں سے آزاد رکھے، جبکہ ایک مسلم نوجوان کے لیے زور و استغنا بنیادی ضرورتیں ہیں تاکہ اس کی زندگی صحیح معنوں میں اسلامی تعلیم کی حامل بن جائے۔

واضح ہو کہ اِستغنا کے لفظی معنی ہیں بے نیازی۔ استغنا سے اقبالؔ کی مراد ہے بے نیازی کا رنگ یعنی مسلمان اللہ کے سوا کسی سے کوئی توقع نہیں رکھتا، یہی مومن کی پہچان ہے۔


نہ ڈھُونڈ اس چیز کو تہذیبِ حاضر کی تجلّی میں
کہ پایا مَیں نے استغنا میں معراجِ مسلمانی

حلِ لغات:

الفاظمعنی
تہذیبِ حاضرجدید تہذیب جو مغربی تہذیب سے متاثر ہے
تجلّیجلوہ، روشنی۔ مراد جھلک
اِستغنابے نیازی، دِل کی سیری، ہر قسم کی احتیاج سے بے پرواہی
معراجِ مسلمانیمسلمان ہونے کی اِنتہائی بلندی
(”ایک نوجوان کے نام“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

تُو بے نیازی (استغنا) کو مغربی علوم اور مغربی تہذیب میں تلاش نہ کر، اس لیے کہ یہ تہذیب تو سراسر دنیوی  ومادی فائدوں کے چکر میں الجھی رہتی ہے، اس کی ساری توجہ ان فوائد کی طرف ہے، جبکہ مجھے استغنا (بے نیازی) میں اسلام کی عظمت و سربلندی نظر آئی ہے۔ یعنی اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہر کام کو ایک طرح سے عبادت سمجھ کر کیا جائے اور یہ عبادت دنیاوی فوائد کی حرص و حوس سے پاک ہو۔

؎ کہاں سے تُو نے اے اقبالؔ سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
(حوالہ: بالِ جبریل)

بند نمبر 2

عقابی رُوح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں

حلِ لغات:

الفاظمعنی
عقابی روحمراد عقاب کی طرح بلندیوں پر اُڑنے کا جذبہ، بلند پروازی کی روح
(”ایک نوجوان کے نام“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

جب نوجوانوں میں عقابی روح پیدا ہو جاتی ہے، ان میں عزم و ارادہ اور ہمت پیدا ہو جاتا ہے تو انہیں اپنی منزل آسمانوں میں نظر آتی ہے یعنی عظمت و بلند مرتبگی کو اپنا نصب العین بنا کر جہد و عمل میں لگ جاتے ہیں اور اسی محنت اور جہد و عمل سے ایک دِن وہ اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔


نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
اُمیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں

حلِ لغات:

الفاظمعنی
نومیدیمایوسی، نااُمیدی
زوالپستی
عرفانپہچان، تمیز
علم و عرفانقرآن کا علم اور اللہ کی پہچان، دماغ اور دِل کے جوہر
اُمیدِ مردِ مومنمردِ مومن کی اُمید
رازداںراز جاننے والا، بھیدوں سے واقف
(”ایک نوجوان کے نام“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اس نکتہ کو واضح کرنے کے بعد کہ استغنا معراجِ مسلمانی ہے۔ اقبالؔ قوم کو یقین پیدا کرنے کی دعوت دیتے ہیں یعنی اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ نا امیدی تو انسان کو انجام کار کافر بنا دیتی ہے چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے:-

لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْـمَةِ اللّـٰهِ ۚ

اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو

(حوالہ: القرآن: سورۃ الزمر: آیت نمبر 53)

یہ شعر جس میں اقبالؔ نے قوم کو امید (یقین) کا پیغام دیا ہے، اسلامی زاویۂ نگاہ سے بالِ جبریل کے چند بہترین اشعار میں سے ہے جن کے ہر لفظ سے خود اقبالؔ مرحوم کی اسلام دوستی عیاں ہوتی ہے اور میرا عقیدہ یہ ہے کہ اسی ایمان و ایقان کا یہ کرشمہ ہے کہ جس طرح زندگی میں ان کے یہاں ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہتا تھا، مرنے کے بعد بھی ان کی تربت جو جامع عالمگیری کے سایہ میں ہے، زیارت گاہِ خاص و عام بنی ہوئی ہے۔ شاید اسی بنا پر انہوں نے خود یہ پیش گوئی کی تھی:-

؎ زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری
کہ خاک راہ کو میں نے بتایا رازِ الوندی
(حوالہ: بالِ جبریل)

وہ راز الوندی اس کے سوا کیا ہے کہ اے مسلمان! سرکارِ دو عالم ﷺ کی غلامی اختیار کر کے دنیا پر حکمراں ہو جا۔

اقبالؔ کہتے ہیں کہ اے مسلماں! اگر تُو رحمتِ ایزدی سے مایوس ہو جائے گا تو تجھ کو علمِ قرآن اورمعرفتِ الہی، یہ دو نعمتیں کبھی حاصل نہیں ہو سکیں گی اور اربابِ عقل اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ان کے بغیر کوئی انسان حیوانیت کی سرحد عبور نہیں کر سکتا۔ جو شے انسان کو فرس و حمار (گھوڑے اور گدھے، مراد ہے حیوانات) سے متمیز کرتی ہے وہ علم و عرفان ہی تو ہے نہ کہ خواب و خورش (سونا اور کھانا) یا تزویج و تولید (شادی و پیدائش)۔


نہیں تیرا نشیمن قصرِ سُلطانی کے گُنبد پر
تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

حلِ لغات:

الفاظمعنی
نشیمنگھونسلا، ٹھِکانا
قصرِ سُلطانیشاہی محل
گُنبدمُدوِّر چھت جو عموماً مساجد و مقابر میں بنی ہوتی ہے، بُرج نُما چھت، اُبھرواں چھت
بسیرا کرنارہنا
(”ایک نوجوان کے نام“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمان! تیرا ٹھکانا شاہی محل کے گنبد پر نہیں ہے۔ تُو شاہین ہے لہذا تُو پہاڑوں کی چٹانوں میں اپنی زندگی گزار، یعنی عیش پسندی اور آرام طلبی کی بجائے محنت و جفاکشی اور جہد و عمل کو اپنی زندگی کا وطیرہ بنا لے۔ اقبالؔ مسلمان نوجوانوں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ اگر تُو اپنے اندر شانِ استغنا پیدا کرنا چاہتا ہے تو بادشاہوں کی غلامی اختیار کرنے کی بجائے اپنا رزق اپنی قوتِ بازو سے حاصل کر۔

اِستغنا (فکرِ اقبالؔ میں)

صفتِ ”اِستغنا“ اقبالؔ کے نظامِ افکار میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے اس کو اپنی ہر کتاب میں بڑے شد و مد کے ساتھ پیش کیا ہے، چنانچہ اس سے پہلے وہ لکھ چکے ہیں:-

؎ خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں
زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے  تو استغنا
(حوالہ: بالِ جبریل)

؎ یہی فقر مردِ مسلماں نے کھو دیا جب سے
رہی نہ دولتِ سلمانی و سلیمانی
(حوالہ: ضربِ کلیم: فقر و راہبی)

اس شعرمیں دولتِ سلمانی سے شانِ استغنا ہی مراد ہے۔ استغنا سے اقبالؔ کی مراد ہے بے نیازی کا رنگ یعنی مسلمان اللہ کے سوا کسی سے کوئی توقع نہیں رکھتا، یہی مومن کی پہچان ہے، چنانچہ اقبالؔ خود کہتے ہیں:-

؎ خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دِلِ بے نیاز
(حوالہ: بالِ جبریل: مسجدِ قرطبہ)

واضح ہو کہ بے نیازی خود اللہ کی ایک صفت ہے چنانچہ رموزِ بیخودی میں لکھتے ہیں:-

؎ بے نیازی رنگِ حق پوشیدن است
رنگ از پیرہن شوئیدن است

بے نیازی اللہ تعالی کا رنگ اپنانا ہے اور غیر اللہ کا رنگ اپنے آپ سے دھو ڈالنا ہے۔

(حوالہ: رموزِ بیخودی: مثنوی مطالب در تفسیر اخلاص)

چونکہ استغنا یا بے نیازی کا رنگ صرف شانِ فقر ہی سے پیدا ہو سکتا ہے۔ اسی لیے اقبالؔ نے اس کو اپنے فلسفہ کا سنگِ بنیاد قرار دیا ہے۔ غور سے دیکھیے تو رنگِ استغنا شانِ فقر ہی کا دوسرا رخ ہے۔ اب اقبالؔ کے فلسفہ کا خلاصہ چار سطروں میں لکھے دیتا ہوں:-

  1. معراجِ مسلمانی شانِ استغنا سے حاصل وہ سکتی ہے۔
  2. شانِ استغنا فقر سے پیدا ہوتی ہے۔
  3. فقر اتباعِ رسول ﷺ پر منحصر ہے۔
  4. اتباع عشق کے بغیر نہیں ہو سکتی۔

اس لیے ہر مسلمان کو عشقِ رسول ﷺ اختیار کرنا چاہیے۔ یہی ہے حکیم اقبال کا وہ پیغام جو انہوں نے 1914ء سے 1938ء تک اپنی تصانیف کے ذریعہ سے قوم کو دیا ور اسی پیغام کو عرفِ عام میں اقبالؔ کا فلسفہ کہتے ہیں۔

(حوالہ: شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments