Skip to content
بانگِ درا 152: مذہب

بانگِ درا 152: مذہب


”مذہب“ از علامہ اقبال

تعارف

نظم ”مذہب“ میں علانہ اقبال نے مسلمانوں پر یہ حقیقیت واضح کی ہے کہ اسلام دنیا میں نِرالا دین ہے۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)


اس نظم میں اقبالؔ نے واضح کیا ہے کہ دنیا والوں کی قومیّت ”وطن“ سے بنتی ہے، مگر مسلمانوں کی قومیّت رشتۂ اسلام سے بنتی ہے۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)


اقبالؔ نے اِس مختصر سی نظم میں یہ اہم نُکتہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان صرف اُسی وقت ترقّی کر سکتے ہیں جب تک وہ اسلام سے اپنے تعلق کو مضبوط و مستحکم بنائے رکھیں گے۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد)

YouTube video

نظم ”مذہب“ کی تشریح

اپنی مِلّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رُسولِ ہاشمی

حلِ لغات:

مِلّتقوم۔ مراد ہے مُسلم اُمّت سے
قیاس کرناسمجھنا، خیال کرنا، اندازہ لگانا
اقوامِ مغربیورپ کی قومیں
خاصخاصیّت کی، سب سے الگ
ترکیببناوٹ، ساخت
رسولِ ہاشمی ﷺحضور اکرم ﷺ کے پردادا کا نام ”ہاشم“ تھا، اسی لیے آپ ﷺ ہاشمی کہلاتے ہیں۔
حلِ لغات (بانگِ درا 152: مذہب)

تشریح:

اے مسلمان! تجھے اپنی مِلّت اور اس کی تعلیمات کا تقابل اقوامِ مغرب سے نہیں کرنا چاہیے، یعنی تم قومیّت کا اصول مغرب سے مت سیکھو۔  اس لیے کہ اپنی ترتیب و تنظیم کے اعتبار سے آنحضرت ﷺ کی اُمّت دنیا بھر کی دوسری قوموں سے قطعی مختلف واقع ہوئی ہے۔ اس لیے تمہیں اہلِ مغرب کی روِش پر نہیں چلنا چاہیے، بلکہ اسلامی تعلیمات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ بقول علامہ:-

؎ چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلِم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
(حوالہ: بانگِ درا: ترانۂ مِلّی)


اُن کی جمعیّت کا ہے مُلک و نسَب پر انحصار
قوّتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیّت تری

حلِ لغات:

جمعیّتجماعت کی صورت، گروہ
اِنحصاردار و مدار
نسَبنسل، خاندان
مستحکممضبوط، پکّا
حلِ لغات (بانگِ درا 152: مذہب)

تشریح:

مغربی اقوام کی جمعیّت اور اتّحاد کا دار و مدار اُن کے خطۂ ارض اور نسل و خون کی نسبتوں پر ہوتا ہے۔ یعنی مغرب میں چونکہ مذہب افراد و اقوام کی زندگی سے نِکل کر محض انفرادی (ذاتی / شخصی) نوعیّت کا معاملہ رہ گیا ہے۔ اُن کی رائے میں قوم، وطن، نسب و نسل۔۔ رنگ یا زبان سے بنتی ہے۔ لیکن اسلام نے ان خود ساختہ امتیازات کو مِٹا کر تمہاری قومیّت کا انحصار عقیدۂ توحید (اسلام) پر رکھا ہے۔ لہذا تمھاری جمعیّت (جماعت) کا دار و مدار دین پر ہے۔ مسلمانوں کا اِتّحاد اور اُن کی جماعت صرف اور صرف مذہب کی قوّت کی وجہ سے مضبوط و پائیدار ہو سکتی ہے۔

؎ بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے
اِسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے
(حوالہ: بانگِ درا: وطنیّت)


دامنِ دیں ہاتھ سے چھُوٹا تو جمعیّت کہاں
اور جمعیّت ہوئی رُخصت تو مِلّت بھی گئی

حلِ لغات:

جمعیّتجماعت کی صورت، گروہ
مِلّتمُسلم قوم، اُمّتِ مُسلِمہ
حلِ لغات (بانگِ درا 152: مذہب)

تشریح:

اے مسلمان! یہ نکتہ ذہن نشین کر لے کہ اگر تُو نے دین کو ترک کر کے مغرب کے لوگوں کی طرح مذہب کو ذاتی اور انفرادی معاملہ تصوّر کیا، تو تیری جمعیّت (جماعت) کا اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا اور جمعیّت کا خاتمہ ہوا تو قوم و مِلّت کا وجود ختم ہو کر رہ جائے گا۔  بیشک دنیا کی دوسری تمام قومیں اوطان (وطن کی جمع) سے بنتی ہیں لیکن مسلمانوں کی قوم کسی وطن سے وابسطہ نہیں ہے۔ تمام دنیا کے مسلمان چین سے مراکش تک ایک قوم ہیں۔ محض اس لیے کہ ان کی قومیّت کی بنیاد وطن نہیں بلکہ دین ہے۔

یعنی اے مسلمان! دین کی مضبوط رسّی پوری قوّت سے تھامے رکھو اور اسلام کی صراطِ مستقیم پر عزت و ہمّت سے گامزن رہو۔ تمہاری بقا اور ترقّی کا راز مذہب اور صرف مذہب میں پوشیدہ ہے۔

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments