Skip to content
بالِ جبریل 181: آزادیِ افکار

بالِ جبریل 181: آزادیِ افکار

”آزادیِ افکار“ از علامہ اقبال

تعارف

نظم ”آزادیِ افکار“ میں اقبالؔ نے عصرِ حاضر کے ایک اہم مسئلہ پر اظہارِ خیال کیا ہے، یعنی آزادیِ افکار اچھی چیز ہے یا بری؟

واضح ہو کہ جمہوریت کی نشو و نما کے ساتھ ساتھ انسانوں میں اپنے افکار و خیالات کو آزادی کے ساتھ پیش کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہوا۔ ابتدا میں یہ آزادیِ افکار صرف اس حد تک تھی کہ ہر شخص اپنے نمائندہ کے انتخاب میں اپنی رائے آزادی سے دے سکتا ہے۔۔ یہاں تک تو کوئی حرج نہ تھا لیکن ابلیسؔ نے اس زریں موقع سے فائدہ اُٹھایا اور لوگوں کو یہ سمجھایا کہ جب تم آزاد ہو گئے ہو تو زندگی کے ہر معاملہ میں آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہو، اس کے بعد اس نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور یہ نکتہ ذہن نشین کیا کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس معاملہ میں بھی اپنی رائے مجتہدانہ انداز میں دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے جس کے سمجھنے کی بھی اس میں صلاحیت نہیں ہے۔

ہمارے زمانہ میں اشتراکی ادیبوں نے (جو اپنے آپ کو ”ترقی پسند“ کہتے ہیں) اس نظریہ کی اشاعت کو اپنا مقصدِ حیات بنا لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر اخلاقی پابندی کو ”رجعت پسندی (قدیم نظریات اور قدیم رسم و رواج کو ترجیح دینے کا رُجحان)“ سے تعبیر کرتے ہیں اور اربابِ علم سے یہ حقیقت مخفی نہیں کہ اشتراکیت کی لعنت میں کوئی لفظ ”رجعت پسندی“ سے زیادہ مذموم اور مکروہ نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قوم کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہر اخلاقی پابندی کو اپنے حق میں ایک عذابِ جان تصوّر کرتے ہیں اور نہایت بیتابی کے ساتھ ان پر رائے زنی کرتے ہیں جن کو سمجھنے کی بھی ان میں صلاحیت نہیں ہے۔

بات یہ ہے کہ دنیا میں ہر شخص علمی یا روحانی مسائل میں گفتگو کرنے یا اظہارِ رائے کی صلاحیت نہیں رکھتا، ہر شخص افلاطون اور ارسطو کا ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔ یہ قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔ جس قوم کے افراد اخلاقی قیود و حدود سے آزاد اور بے نیاز ہو چکے ہوں، اس کے حق میں آزادیِ افکار بہت خطرناک ثابت ہوتی ہے کیونکہ ان کی گفتگو یا تحریر میں ربط و نظم پیدا نہیں ہو سکتا اور بے ربطیِ افکار سے قوم میں انتشار رونما ہونا یقینی ہے اور انتشار سے وحدتِ فکر زائل ہو جاتی ہے اور اس کے زوال سے قوم برباد ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج روسؔ میں کوئی شخص اسٹالین سے اختلافِ رائے نہیں کر سکتا۔

(حوالہ: شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)


یہ نہیں کہ علامہ اقبال آزادیِ افکار کے پُرزور حامی نہیں تھے، البتہ یہ ضرور ہے کہ ایسی آزادی کو ناپسند کرتے تھے جو تہذیبی اور اخلاقی اقدار سے تجاوز کرتی ہو۔ بلندیِ افکار تو ہر شخص کے لیے قابلِ فخر بات ہوتی ہے۔ لیکن جو افکار عملاً مادر پِدر آزادی سے عبارت ہوں، وہ کسی بھی معاشرے اور اس کے افراد بالخصوص نوجوان نسل کے لیے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بے شک قومی اور عالمی سطح پر ہر عہد بالخصوص موجودہ دور میں آزادیِ اظہار کو انسان کے بنیادی حقوق سے وابستہ سمجھا جاتا ہے لیکن ایسے افکار جو عملاً آزادی کے حقیقی مفہوم سے متصادم ہوں، ان کو کسی طور پر بھی مثبت انداز سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ زیرِ تشریح نظم میں اقبالؔ عملاً افکار کی آزادی کے مخالف نہیں، البتہ وہ ہر نوع کی مادر پِدر آزادی کی چاہت نہیں کرتے۔ وہ ایسی آزادی کے حامی ہیں جو معاشرے کی تعمیر و ارتقاء میں مددگار ثابت ہو سکے۔ بصورتِ دیگر آزادی کا منفی رویہ کسی بڑے فتنے سے کم نہیں۔

(حوالہ: شرح بالِ جبریل از اسرار زیدی)

YouTube video

نظم ”آزادیِ افکار“ کی تشریح

جو دُونیِ فطرت سے نہیں لائقِ پرواز
اُس مُرغکِ بیچارہ کا انجام ہے اُفتاد

حلِ لغات:

دُونیِ فطرتفطرتی پستی / کمینگی
لائققابل
مُرغکِ بیچارہبے چارہ / بے بس پرندہ
اُفتادگِرنا
حلِ لغات (بالِ جبریل 181: آزادیِ افکار)

تشریح:

جو پست فطرت پرندہ فضاء میں بلندی پر اُڑنے کی صلاحیت سے محروم ہو، اس صورت میں اگر وہ اُڑنے کی جسارت کرے گا تو اس کا انجام اس کے سوا اور کچھ نہ ہو گا کہ دھڑام سے نیچے گِر پڑے۔ مراد یہ کہ افکار کی بلندی اور آزادی ہر فرد کی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اخلاقی و فنی قوانین سے آزاد ہو کر بلند افکار پیدا نہیں کیے جا سکتے۔

اقبالؔ یہ نصیحت کرتے ہیں کہ دنیا میں حقیقی حُسن و جمال اور صحیح ترقی صرف اخلاقی اور فنی قوانین کی پابندی سے ممکن ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی نغمہ یا راگنی کو فنِ موسیقی کی قیود سے آزاد کر دیا جائے تو اس کا جمال اور دِلکشی بالکل غائب ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ کسی مسئلہ میں اظہارِ رائے کا حق صرف اس شخص کو حاصل ہے جس نے اس فن میں مہارتِ تامہ حاصل کی ہے جس پر وہ مسئلہ مبنی ہے۔ مثلاً اُس شخص کو کسی طبیب کے نسخہ پر اظہارِ رائے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے جس نے فنِ طب باضابطہ حاصل نہ کیا ہو، اسی طرح اُس شخص کو دینی معاملات میں رائے دینے کا کوئی حق حاصل نہیں جس نے علومِ دینی کی باقاعدہ تکمیل نہ کی ہو۔


ہر سینہ نشیمن نہیں جبریلِ امیں کا
ہر فکر نہیں طائرِ فردوس کا صیّاد

حلِ لغات:

نشیمنآشیانہ، مکان، آماج گاہ، ٹھکانہ
طائرِ فردوسجنّت (بہشت) کا پرندہ
صیّادشکار کرنے والا، شکاری
حلِ لغات (بالِ جبریل 181: آزادیِ افکار)

تشریح:

ہر فرد کا سینہ اس قابل نہیں ہوتا کہ جبریلِ امین حق بجانب پیغامات کے ساتھ اُس پر اُتریں، مراد یہ ہے کہ حضرت جبریلِ امین کو تو محض اس امر کا ذمہ قرار دیا گیا تھا کہ وہ حق تعالی کے پیغامات اور احکامات دنیا میں اس کے پیغمبروں تک پہنچادیں کہ ہر شخص کو ان پیغامات کا اہل قرار نہیں دیا جا سکتا، صرف پیغمبر ہی ان پیغامات کے اہل ہوتے ہیں کیونکہ اُن کا سینہ ہر طرح کے باطل خیالات سے پاک ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر فکر جنت الفردوس کے پرندے کا شکار نہیں کر سکتی (فردوس کا پرندہ استعارہ ہے اعلی اور بلند خیالات کا) یعنی بلندیِ افکار کی حامل نہیں ہو سکتی


اُس قوم میں ہے شوخیِ اندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد

حلِ لغات:

شوخیِ اندیشہسوچ اور فکر کی تیزی / بے باکی
بندقید، بندھن، بندشیں، پابندیاں
حلِ لغات (بالِ جبریل 181: آزادیِ افکار)

تشریح:

یہ شعر بھی اپنے مطالب کے لحاظ سے پچھلے دو اشعار کے تسلسل میں ہے۔ یہاں اقبالؔ واضح طور پر اپنے اس نقطۂ نظر کا اظہار کرتے ہیں کہ جو قوم اور معاشرہ خود کو ہر نوع کی اخلاقی و تہذیبی آزادی اور دوسری انسانی اقدار کو مُسترد کر کے خود کو مادر پِدر آزاد قسم کی قوم اور معاشرہ تصور کر لے، اُس کے لیے آزادیٔ افکار ہمیشہ خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ یعنی آزادیٔ اظہار و افکار کے لیے بھی بعض معاشرتی اور اخلاقی اقدار کی پابندی ناگُزیر (لازمی) ہے۔ جس قوم کے افراد ان تمام پابندیوں سے آزاد ہوں، جو اجتماعی زندگی کی بنیادی شرط ہیں، تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس قوم میں فکر و خیال کی شوخی خود اُس کے لیے بڑی خطرناک ثابت ہوگی۔


گو فکرِ خدا داد سے روشن ہے زمانہ
آزادیِ افکار ہے اِبلیس کی ایجاد

حلِ لغات:

فکرِ خداداداللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی عقل
ازادیِ افکارخیالات کی آزادی
حلِ لغات (بالِ جبریل 181: آزادیِ افکار)

تشریح:

اقبالؔ کہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ عقل و خِرد وہ نعمت ہے جس کی بدولت یہ دنیا ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے اور اس دنیا میں جس قدر روشنی نظر آرہی ہے یہ سب فکرِ خداداد ہی کا کرشمہ ہے۔ ربِ ذوالجلال نے انسان کو غور و فکر اور اپنے نقطۂ نظر کے اظہار کے لیے جو صلاحیت عطا کی ہے وہ معاشرے کے لیے روشن ہدایات کا کام دیتی ہے اور راہنمائی کا سبب بنتی ہے۔

لیکن جہاں تک ”مادر پِدر آزادی“ کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں شاید یہ غلط نہ ہو کہ یہ تو شیطان کی ان ایجادات اور لعنتوں میں سے ایک ہے جو اس نے دنیا میں وارد ہو کر انسان کو گمراہی اور ذِلّت سے ہم کنار کرنے کے لیے وضع کی ہیں اور جس کا نتیجہ تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ نہیں! ابلیسؔ کا مقصد یہ ہے کہ بنی آدم روحانیت اور اخلاقِ حسنہ سے معرّا ہو جائیں اور انسانیت کے مرتبہ سے تنزل کر کے واپس حیوانیت کے دائرہ میں آجائیں۔ اس لیے اس نے انہیں سمجھایا کہ چونکہ تم آزاد ہو اس لیے اپنی فکر کو بھی تمام اخلاقی قیود سے آزاد کر دینا چاہیے۔ چنانچہ ایک بار پھر اس نقطہ کا اعادہ غیر ضروری نہیں ہوگا کہ اقبالؔ آزادیٔ افکار و اظہار کے قطعی طور پر مخالف نہیں ہیں، تاہم اس کے لیے کچھ حدود کا تعین ضروری سمجھتے ہیں جن کے بغیر یہ آزادی کارِ ابلیس کے سوا اور کچھ نہیں رہتی۔

یہی وجہ ہے کہ آج وہ لوگ دینی معاملات میں مجتہدانہ اظہارِ رائے کر رہے ہیں جنہوں نے نہ تو علمِ دین حاصل کیا اور نہ کسی شیخ کی صحبت اُٹھائی۔ محض اخبارات و رسائل کی ادارت کے وسیلہ سے ”امیرِ جماعت“ کے منصبِ عالیہ پر سرفراز ہو گئے اور آج پاکستان کے سادہ لوح مسلمانوں کو ”صالح  نمائندوں“ کی معرفت اسلامی حکومت کے قیام کا سبز باغ دکھا کر اپنی دکان چمکا رہے ہیں۔

چنانچہ ایک بار پھر اس نقطہ کا اعادہ غیر ضروری نہیں ہوگا کہ اقبالؔ آزادیٔ افکار و اظہار کے قطعی طور پر مخالف نہیں ہیں، تاہم اس کے لیے کچھ حدود کا تعین ضروری سمجھتے ہیں جن کے بغیر یہ آزادی کارِ ابلیس کے سوا اور کچھ نہیں رہتی۔

حوالہ جات

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments