Skip to content
بانگِ درا 159: دریوزۂ خلافت

بانگِ درا 159: دریوزۂ خلافت


”دریوزۂ خلافت“ از علامہ اقبال

تعارف

اِس نظم کا عنوان ہے دریوزۂ خلافت یعنی ”خلافت کی بھیک“، اس لیے جب تک مسئلہ خلاف کی مختصر تاریخ نہ لکھی جائے، یہ نظم سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ واضح ہو کہ پہلی جنگِ عظیم میں ترکوں کو عربوں کی غدّاری کی بدولت شکستِ فاش نصیب ہوئی، چنانچہ 3 نومبر 1918ء کو انہوں نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دئیے اور مسلمانانِ عالم کے سب سے بڑے دشمن یعنی انگریزوں کی دِلی مراد پوری ہو گئی۔ چناچنہ انگلستان کے وزیرِاعظم نے جب جنرل ائلبنی فاتح فلسطین کے سینے پر تمغہ لگایا تو اس کی فتح کو ہلال پر صلیب کی فتح قرار دیا اور کہا کہ سلطان صلاح الدین کے ہاتھوں جو شکست ہمیں نصیب ہوئی تھی، اس کا انتقام اب ہم نے لیا ہے۔

انگریزوں کے ہندوستانی مسلمان کے ساتھ جو جھوٹے وعدے کیے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو، ترکی کی سالمیت بر قرار رکھی جائے گی یعنی اس کے حصے نہیں کیے جائیں گے۔ لیکن جب دشمنانانِ اسلام کو اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل ہو گئی تو انہوں نے شرافت اور انسانیت، ہر چیز کو بالائے طاق رکھ کر ترکی کے خاتمے کا فیصلہ کر دیا اور 1919ء سے اس پر عمل در آمد شروع ہو گیا۔ جب ہندی مسلمانوں نے یہ دیکھا کہ سلطنت ترکی صفحۂ ہستی سے نیست و نابود ہونے والی ہے، تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پشاور سے لے کر مدراس تک اور کراچی سے لے کر ڈھاکہ تک، سارے ہندوستان میں صفِ ماتم بچھ گئی۔

مسلمانوں نے سارے ملک میں جلسے منعقد کر کے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور ان میں انگریزوں کو ترکوں کی سابقہ ”حماقتوں“ کا واسطہ دیا (تاکہ انگریز ترکی کی سالمیت برقرار رکھنے پر آمادہ ہو جائیں)، مثلاً:-

ا۔ 1799ء میں سلطنتِ ترکی نے سلطان ٹیپو کی امداد کرنے کی بجائے سلطنتِ برطانیہ کی امداد کی تھی یعنی سلطان شہیدؒ کو بھی غلامی قبول کر لینے کا مشورہ دیا تھا۔

ب- 1855ء میں کریمیا (روس) کی جنگ میں ترک اور انگریز۔۔ دونوں دوش بدوش لڑے تھے۔

ج- 1857ء میں ترکوں نے انگریزوں کو اجازت دی تھی کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کا بسرعتِ تمام قلع قمع کرنے کے لیے اپنی فوجیں مصر کے راستے ہندوستان پہنچا سکتے ہیں۔

ان جلسوں کے بعد دسمبر 1919ء میں خلافت کانفرنس کا اجلاس منعقد ہوا اور اس میں یہ طے پایا گیا کہ جنوری 1920ء میں انگلستان کو ایک وفد روانہ کیا جائے جو حکومتِ برطانیہ سے درخواست کرے کہ خلافت کا خاتمہ نہ کیا جائے، چنانچہ یہ وفد آٹھ مہینے انگلستان رہ کر 25 ہزار روپیہ ضائع بے نیل و مرام واپس آیا تھا۔

علامہ اقبالؔ کی نگاہِ دوربیں نے پہلے ہی محسوس کر لیا تھا کہ حکومتِ برطانیہ، جو خود زوالِ خلافت کی سب سے زیادہ آرزو مند ہے اور اس تمام فتنہ کی بانی ہے، وہ بھلا کب ارکانِ وفد کی باتوں پر غور کرے گی۔ اس لیے انہوں نے یہ بلیغ نظم سپردِ قلم کی۔

حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)


1914ء میں پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو ترکی نے بہ امرِ مجبوری جرمنی کا ساتھ دیا، جب کہ ہندی مسلمان ترکوں سے مکمل ہمدردی رکھنے کے باوجود انگریزی نو آبادی باشندے ہونے کی وجہ سے اتحادی قوتوں کے ساتھ تھے۔ البتہ انہوں نے انگریزوں سے جن شرائط پر تعاون کیا تھا اُن میں سے ایک اہم شرط یہ تھی کہ فتح کی صورت میں سلطنتِ عثمانیہ کو کوئی گزند نہیں پہنچایا جائے گا، لیکن 1918ء میں جیسے ہی ترکوں نے ہتھیار ڈالے، انگریزوں کے تیور بدل گئے۔ انگریزوں نے ترکوں کی شکست کو صلیبی جنگوں میں عیسائیت کی شکست کا انتقام قرار دیا اور یہ طے کیا کہ ترکی کو بالکل ختم کر دیا جائے۔ ان حالات میں سلطنتِ عثمانیہ اور نظامِ خلافت کے تحفظ کے لیے ہندوستان کے مسلمانوں نے تحریکِ خلافت کا آغاز کیا۔ دسمبر 1918ء میں امرتسر میں خلافت کمیٹی کے زیرِ اہتمام منعقدہ جلسے میں یہ قرارداد منظور کی گئی کہ خلافت کمیٹی کا ایک وفد وزیراعظم انگستان سے مِلے اور برطانیہ کے وعدے یاد دِلاتے ہوئے انہیں سلطنتِ عثمانیہ کو تحفظ فراہم کرنے پر آمادہ کرے۔ اقبالؔ اِس تجویز کے مخالف تھے۔ اُن کا خیال یہ تھا کہ تاریخ سے یہ امر ثابت ہے کہ تحفظ صرف قوتِ بازو سے حاصل کیا جاسکتا ہے، درخواستوں سے نہیں۔ ”دریوزۂ خلافت“ میں یہی نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے۔ بعد ازاں اقبالؔ کا یہ نقطۂ نظر درست ثابت ہوا اور خلافت کمیٹی کے وفد کو ناکام واپس آنا پڑا۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد)


نظم ”دریوزۂ خلافت“ اس موقع پر لکھی گئی جب مولانا محمد علی مرحوم ایک وفد لے کر خلافت کا مسئلہ انگلستان کے وزیرِ اعظم لائڈ جارج کے سامنے پیش کرنے کے لیے لے گئے تھے۔ یہ وفد آخر ناکام واپس آیا۔

(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)


گذشتہ نظم ”اسیری“ میں تحریکِ خلافت کے ضمن میں اقبالؔ نے جو گول مول رویہ اختیار کیا ہے، اس کی توجیح زیرِ تشریح نظم سے ہو جاتی ہے۔ اقبالؔ تحریکِ خلافت کے حق میں نہیں تھے۔ ان کا نظریہ تھا کہ اقتدار کوئی بھیک میں نہیں دیتا بلکہ قوتِ بازو سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کی واضح مثال پہلی عالمی جنگ میں ترکی پر انگریزوں کا تسلّط اور ہندوستانی مسلمانوں سے ان کی بدعہدی تاریخی شواہد کے طور پر علامہ کے سامنے تھیں۔ بعد میں حالات و واقعات نے ثابت کر دیا کہ ترکی کے ضمن میں اقبالؔ کی سوچ صد فی صد درست تھی اور ہندوستانی مسلمانوں  کی جانب سے چلائی ہوئی تحریکِ خلافت کا جواز تھی۔ بعد میں ترک جرنیلوں نے ہی انگریزوں سے لڑ کر اپنے وطن کو آزاد کرایا تھا۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از اسرار زیدی)


YouTube video

قوت میں صداقت سے زیادہ الوہیت ہے۔ خدا قوی ہے۔ تُو ابھی اپنے اُس خدا کی طرح ہوجا جو آسمانوں میں ہے۔

(حوالہ: ”Stray Reflections“ از علامہ اقبالؔ)
(مترجم: میاں ساجد علی)

نظم ”دریوزۂ خلافت“ کی تشریح

اگر مُلک ہاتھوں سے جاتا ہے، جائے
تُو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی

حلِ لغات:

ہاتھوں سے جاناقبضے سے نکل جانا
احکامِ حقشریعتِ اسلامی، خدا کے احکام
بے وفائیاِنحراف، سرتابی، نافرمانی
حلِ لغات (بانگِ درا 159: دریوزۂ خلافت)

تشریح:

علامہ اقبال مسلمانوں اور بالخصوص خلافت کمیٹی کے ارکان کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ:-

اگر مُلک (ترکی) ختم ہوتا ہے تو بلا سے ہو جائے، لیکن شریعتِ اسلامیہ سے بے وفائی مت کرو، اگر تم ترکی کی سالمیت برقرار رکھنے کی گزارش لے کر دشمنانِ مِلّت کے سامنے دستِ سوال دراز کرو گے تو گویا اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرو گے۔  واضح رہے کہ اسلام ہمیں غیرت و خود داری کا درس دیتا ہے اور غیرت کا تقاضا ہے کہ دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے جائیں۔ بقول اقبالؔ:-

؏ دوسرا نام اسی دِیں کا ہے ’فقرِ غیور‘!
(حوالہ: ضربِ کلیم: اسلام)

پہلی جنگِ عظیم میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا۔ ترکی کی جنگ میں شمولیت سے ہندوستان کے مسلمان پریشان ہوئے کہ اگر انگریز کامیاب ہو گیا تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کا ساتھ دینے کے لیے وزیر اعظم برطانیہ لائیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں ہو گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ رہے گی۔ جرمنی کو شکست اور برطانیہ کو فتح ہوئی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے اپنی فوجیں بصرہ اور جدہ میں داخل کر دیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کو وعدے یاد دلانے کے لیے اور خلافت کے تحفظ کے لیے ایک تحریک شروع کی جسے ”تحریک خلافت“ کا نام دیا گیا۔

بمبئی میں مرکزی خلافت کمیٹی کے رضاکار – ترک فوج کے طرز کی وردی پہنے ہوئے ہیں، سیکرٹری مرکزی خلافت کمیٹی جناب احمد حاجی صدیق کھتری بھی (مرکز میں، گلدستہ تھامے ہوئے) ان کے مابین موجود ہیں۔ (پس منظر میں ترکی کا جھنڈا بھی دیکھا جا سکتا ہے)

نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا
خلافت کی کرنے لگا تُو گدائی

حلِ لغات:

آگہیآگاہی، واقفیّت، جاننا
گدائیبھیک مانگنا
حلِ لغات (بانگِ درا 159: دریوزۂ خلافت)

تشریح:

اقبالؔ سوال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم جو خلافت کو برقرار رکھنے کی گزارش لے کر انگریزوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے چلے ہو، کیا تم تاریخ سے آگاہی نہیں رکھتے؟ تاریخ سے واقفیت رکھنے والے یہ بات بخوبی جانتے جانتے ہیں کہ حکومت یا سلطنت بھیک کا ٹُکڑا نہیں ہے جو کوئی کسی کی جھولی میں ڈال دے، حکومت و سلطنت اپنے زورِ بازو سے حاصل ہو سکتی ہے نہ کہ دُوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے۔

تحریکِ خلافت کے بڑے بڑے مقاصد یہ تھے:-

1- خلافت عثمانیہ برقرار رکھی جائے۔

2- مقامات مقدسہ (مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ) عثمانی خلافت کی تحویل میں رہیں۔

3- سلطنتِ عثمانیہ کو تقسیم نہ کیا جائے۔

بعد میں حالات و واقعات نے ثابت کر دیا کہ ترکی کے ضمن میں اقبالؔ کی سوچ صد فی صد درست تھی اور ہندوستانی مسلمانوں  کی جانب سے چلائی ہوئی تحریکِ خلافت بے جواز تھی۔ بعد میں ترک جرنیلوں نے ہی انگریزوں سے لڑ کر اپنے وطن کو آزاد کرایا تھا۔ (شرح بانگِ درا از اسرار زیدی)


خریدیں نہ جس کو ہم اپنے لہو سے
مُسلماں کو ہے ننگ وہ پادشائی

حلِ لغات:

ننگباعثِ رُسوائی، باعثِ شرم
پادشائیبادشاہی، حکومت
حلِ لغات (بانگِ درا 159: دریوزۂ خلافت)

تشریح:

جس بادشاہت اور حکومت کو مسلمان اپنے لہو سے نہ خریدیں یعنی جسے جان کی بازی لگا کر حاصل نہ کریں، وہ بادشاہت اور حکومت مسلمانوں کے لیے باعثِ ننگ (شرم و ندامت) ہوتی ہے۔ وہ پادشاہی سراسر باعثِ ذلّت ہے جو اپنے زورِ بازو سے حاصل نہ کی جائے بلکہ کسی کی مہربانی سے حاصل ہو جائے، یقیناً ایسی حکومت غلامی کی دِلفریب شکل ہو گی۔


”مرا از شکستن چُناں عار ناید
کہ از دیگراں خواستن مومیائی“

تشریح:

اس شعر کا ترجمہ ہے کہ ”مجھے اپنے جسم کی ہڈی ٹوٹ جانے سے اِس قدر صدمہ نہیں پہنچتا، جس قدر اِس کے علاج کے لیے غیروں سے مومیائی مانگنے میں شرم آتی ہے“۔

مومیائی: ہڈی کو جوڑنے کی ایک مجرّب دوا۔

اقبالؔ فرماتے ہیں کہ بلاشبہ ملک (ترکی) کا ہاتھوں سے جانا میرے لیے بہت صدمے کی بات ہے، لیکن میری غیرت اس بات کو گوارا نہیں کرتی کہ میں ملک کی سالمیت برقرار رکھنے کے لیے دشمنوں کے آگے ہاتھ پھیلاؤں اور احکامِ حق کی خلاف ورزی کروں۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا دین ہمیں غیرت و حمیت کا درس دیتا ہے، یہ تاریخ کا سبق اور غیرت و حمیت کا تقاضا ہے کہ اپنا حق اپنے زورِ بازو سے حاصل کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امتِ مسلمہ تمام نسلی و جغرافیائی امتیازات کو بھلا کر متحد ہو جائے، مسلمانوں کو قوّی بنانے والی صرف اور صرف ایک ہی قوّت ہے اور وہ ہے توحید۔

بقول اقبالؔ:-

؎ بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے
(حوالہ: بانگِ درا: وطنیّت)

شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ:-

؎ حقا کہ با عقوبتِ دوزخ برابر است
رفتن بہ پائے مردیِ ہمسایہ در بہشت

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments