Skip to content
بانگِ درا 23: سیّد کی لوحِ تُربَت

بانگِ درا 23: سیّد کی لوحِ تُربَت


”سیّد کی لوحِ تُربَت“ از علامہ اقبال

فہرست

نظم ”سیّد کی لوحِ تُربَت“ کا تعارف

سر سیّد احمد خان مرحوم و مغفور انیسویں صدی میں انقلابِ 1857ء کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کی مادی اور سیاسی پشت پناہ تھے۔ مولانا محمد قاسمؒ نے دیوبند میں مسلمانوں کے دین کی بقا کے لیے مدرسہ قائم کیا۔ سر سیّد نے علی گڑھ میں اُن کی دنیا سنوارنے کے لیے کالج قائم کیا۔ اگرچہ علی گڑھ تحریک سے اسلام کو اور ضمناً مسلمانوں کو کئی پہلوؤں سے نقصان پہنچا، لیکن اس کی ذمہ داری سر سیّد پر نہیں ہے۔ ان کی نیت بھی نیک تھی اور وہ انگریز پرستی کے بھی خلاف تھے۔ نیز ان کے اندر اخلاقی جراءت تو اس قدر تھی کہ آج کل کے لیڈروں میں اس کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا۔ اقبالؔ نے سر سیؔد کی زندگی اور اصلاحی کارناموں سے جو اثر قبول کیا، اس کو سر سیّد موصوف کی لوحِ تُربت کی زبان سے اپنی قوم کے علماء، سیاسی قائدین اور شعراء کو نظم ”سیّد کی لوحِ تُربَت“ کی صورت میں پیغام دیا ہے۔

سر سید علماء کو ان الفاظ میں نصیحت کرتے ہیں کہ اگر آپ حضرات اپنی قوم کو دینی تعلیم دینی چاہتے ہیں تو بڑے شوق سے دیجیے، لیکن:

1۔ دین کے ساتھ ساتھ دنیا کی اہمیت بھی ان کے دماغوں میں جاگزیں کیجیے۔

2۔ فرقہ بندی سے اجتناب کرنے کی تلقین کیجیے، کیونکہ اس سے قوم تباہ ہو جاتی ہے۔

3۔ تصنیف و تالیف میں دِل آزاری کا رنگ پیدا ہونے نہ پائے، ورنہ تصنیف کا مقصد فوت ہو جائے گا۔

4۔ اُن باتوں کو زیرِ بحث نہ لائیے جو گزر چکی ہیں۔ اور اب اُن کے دہرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اس کے بعد مدبّرین (اربابِ سیاست) کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ قوم کے لیڈروں میں دلیری اور اخلاقی جراءت کا پایا جانا پہلی شرط ہے۔ مُسلمان کی پہچان یہ ہے کہ نہ وہ ڈرپوک ہوتا ہے اور نہ ریاکار یا منافق اور بادشاہوں کے سامنے کلمۂ کہنے سے ڈرتا ہے۔

اس کے بعد شعراء کو نصیحت کرتے ہیں کہ اپنی زبان کو ہجوؔ، مذمتؔ اور بدگوئی سے پاکر رکھو اور کسی کی خوشامد مت کرو کیونکہ پھر تمہارا کلام بے وقعت ہو جائے گا اور اپنی شاعری کو قوم کو بیدار کرنے اور صداقت کی تبلیغ کے لیے وقف کر دو۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)


یہ نظم 1903ء کے مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ اصل نظم کے تیس شعر تھے۔ نظرِ ثآنی میں صرف چودہ باقی رکھے۔

سر سیّد احمد خان وہ بزرگ رہنما تھے جنہوں نے زوالِ حکومت کے بعد مسلمانوں کی مستقل ملّی ہستی کی بنیاد رکھی اور قومی زندگی کے احیاء کا وہ کارنامہ انجام دیا، جس کی بدولت مسلمان اس سرزمین میں اعزاز و اکرام کے بلند رتبے پر پہنچے۔ سیّد مرحوم مسلمانوں کے شہرۂ آفاق رہنما، مصلح اور مدبّر تھے۔ مسلمانوں میں جدید تعلیم کا آغاز آپ ہی نے کیا۔ علی گڑھ رہتی دنیا تک ان کا نام زندہ رکھے گا۔ وہ 1817ء میں پیدا ہوئے اور 1897ء میں وفات پائی۔ قومی اصطلاح میں عزیمت کا جو مقام انہیں حاصل ہوا، وہ کسی دوسرے رہنما کے حصے میں نہ آیا۔

”مخزن“نے یہ نظم چھاپتے وقت مندرجہ ذیل تمہیدی نوٹ لکھا:-

”تخیّل کے کانوں نے سر سیّد مرحوم کی قبر سے وہ صدائے درد سُنی، جس کی ایسے دِل سے جو مرحوم کے پہلو میں تھا، ہو سکتی تھی۔ خوبی یہ ہے کہ سر سیّد زندگی میں کئی حیثیتوں کا جامع تھا۔ اسی طرح اس کی لوحِ تُربت سے وہ کلماتِ نصیحت شیح محمد اقبال کی طبعِ رسا نے اخذ کیے ہیں جو زندگی کے مختلف مشاغل کے جامع ہیں اور جن سے ہر طبقے کے لوگ مستفید ہو سکتے ہیں۔ اس زمانے میں جب دہلی میں محمڈن کانفرنس کے جلسے زور و شور سے ہو رہے ہیں، ان کا شائع ہونا ایک لطفِ مزید رکھتا ہے۔“

(مخزن، بابت جنوری 1903ء، صفحہ 73)

اس نظم میں اقبالؔ نے سر سیّد احمد خان کی زبان سے عالمِ دین، مدبّر اور شاعر کی صحیح راہِ عمل بتائی ہے:

  1. عالمِ دین کا فرض یہ ہے کہ قوم کو دین کی صحیح تعلیم دے۔ دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی ہدایت نہ کرے۔ فرقہ بندی سے بچا رہے۔ قوم میں اتحاد پیدا کرے۔ کسی کا دل نہ دُکھائے اور پرانے زمانے کے جھگڑے تازہ کر کے قومی جمعیّت میں خلل نہ ڈالے۔
  2. سیاسی کارکن کے لیے لازم ہے کہ قومی مطالبات میں دلیری سے کام لے۔ فرماں روا کی قوت سے نہ ڈرے۔ اپنا دِل خوف اور ریا کاری سے پاک رکھے۔ اس کی نیت نیک ہو اور ہر ذاتی غرض سے بے پروا رہے۔
  3. اگر وہ شاعر ہے تو ایسی باتیں زبان پر لائے جو اس کے پیغام کی آبرو کو بڑھائیں اور اس کے کلام میں زندگی کی روح پیدا ہو جائے۔ مخالف قوتیں جل کر راکھ ہو جائیں۔

(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)


علامہ اقبال کی نظم ”سیّد کی لوحِ تُربَت“ رسالہ مخزن، لاہور کے شمارہ جنوری 1903ء میں شائع ہوئی تھی۔  اس میں سر سیّد احمد خان کی تعلیمات کو علامہ نے ان کی لوحِ تربت کی زبان سے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ اس حوالے سے علماء سے کہا گیا ہے کہ دینی تعلیم کے ساتھ قوم کو دنیا کی تعلیم حاصل کرنے کی بھی رغبت دِلاؤ۔ فرقہ بندی سے قوم کو روکو اور اُس تباہی سے بچاؤ جو باہم پھوٹ پڑنے یا نا اتفاقی کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ سیاسی لیڈروں سے کہتی ہے کہ سچے مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ وہ بزدل نہیں ہوتا اور ہر موقع پر اخلاقی جراءت سے کام لیتا ہے، ریا کاری اور نفاق کے نزدیک بھی نہیں جاتا۔ شاعروں کو ہجو و بدگوئی سے بچنے، جھوٹے قصیدے نہ کہنے اور قوم کی اصلاح کے لیے اپنی شاعری کو وقف کرنے کی تلقین کی ہے۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)


علامہ اقبال کے ہم عصر دانِشور اور بعض شارحین کے نزدیک نظم ”سیّد کی لوحِ تُربَت“ علمی سطح پر ”سر سید احمد خان“ کے پیغام کی حیثیت رکھتی ہے۔ اِس نظم میں سر سیّد کے نظریات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از اسرار زیدی)


نظم ”سیّد کی لوحِ تُربَت“ علامہ اقبال کے نزدیک اہلِ ہند کے لیے سر سید احمد خان کے پیغام کی حیثیت رکھتی ہے۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ کسی قوم کی رہنمائی کا فرض، مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کے علاوہ شاعروں اور ادیبوں پر ہوتا ہے۔ اس لیے علامہ اقبال نے سر سید کے پیغام کے طور پر ان طبقوں کو مخاطب کیا ہے اور انہیں ان کا وظیفۂ منصب بھی بتایا ہے۔ پُر لطف بات یہ ہے کہ جب علامہ نے یہ نظم کہی اُس وقت مذہبی رہنماؤں، سیاست دانوں اور شعراء میں یہ امراض عام طور پر پائے جاتے تھے، جن سے اس نظم میں بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس نظم کا قابلِ غور پہلو یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال نے اس نظم میں سر سید کے جن خیالات کو پیش کیا ہے، آخر عمر میں سر سید احمد خان خود ان کو مسترد کو چکے تھے اور انہوں نے مختلف تلخ تجربات کے بعد ہندو مسلم علیحدگی پر زور دیا تھا۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد)

YouTube video

بند نمبر 1

اے کہ تیرا مرغِ جاں تارِ نفَس میں ہے اسیر
اے کہ تیری رُوح کا طائر قفَس میں ہے اسیر

حلِ لغات:

مُرغِ جاںجان کا پرندہ، روح
تارِ نَفَسسانس کی ڈوری، سانس، دَم
اسیرقیدی، پابند
طائرپرندہ
قَفَسپنجرہ
حلِ لغات (بانگِ درا 23: سیّد کی لوحِ تُربَت)

تشریح:

۔۔ اس نظم میں اقبالؔ نے سر سید احمد خاں کا پیغام اپنے الفاظ میں پیش کیا ہے۔ سر سیّد کی لوحِ تُربت (لوحِ تُربت: مزار کا پتھر، جس پر نام اور تاریخِ وفات کندہ ہوتی ہے) ہندوستان کے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ:-

اے میری قبر کی زیارت کرنے والے! تیری جان کا پرندہ (مرغِ نفس) تیری سانس (موجِ نفس) کے رشتے (تار) میں بند (اسیر) ہے، جبکہ تیری روح کا پرندہ (روح کا طائر) پنجرے (قفس) میں قید (اسیر) ہے۔ مراد یہ ہے کہ تیری سانسوں کا سلسلہ جاری ہے اور تیری روح تیرے بدن میں موجود ہے، یعنی تُو ابھی زندہ ہے۔


اس چمن کے نغمہ پیراؤں کی آزادی تو دیکھ
شہر جو اُجڑا ہوا تھا اُس کی آبادی تو دیکھ

حلِ لغات:

چمنگُلستان، باغ
نغہ پیرانغمے گانے والا، راگ الاپنے والا
حلِ لغات (بانگِ درا 23: سیّد کی لوحِ تُربَت)

تشریح:

چونکہ تُم ابھی قیدِ حیات میں ہو (یعنی زندہ ہو) اس لیے ذرا اس چمن میں نغمے الاپنے والوں کی آزادی تو دیکھو! ذرا دیکھو کہ میں نے ویرانے میں ایک شہر بسایا تھا، جہاں کے طلبہ اور اساتذہ آزادی سے محوِ تقریر و تقریر (یعنی نغمہ پیرا) ہیں، جس سے ویرانے میں رونق آ گئی ہے۔ بظاہر اشارہ علی گڑھ کی طرف ہے جو ایک غیر معروف مقام تھا اور سر سیّد کے قائم کیے ہوئے کالج کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت کا حق دار بن گیا ہے۔ ذرا دیکھ کہ اس دارالعلوم میں طلبہ کس انداز سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان کی وجہ سے مِلت کا اُجڑا ہوا شہر پھر آباد ہو گیا ہے۔


فکر رہتی تھی مجھے جس کی وہ محفل ہے یہی
صبر و استقلال کی کھیتی کا حاصل ہے یہی

حلِ لغات:

صبر و اِستقلالقوّتِ برداشت اور ثابت قدمی (کسی نظریے پر قائم رہنا٭
حلِ لغات (بانگِ درا 23: سیّد کی لوحِ تُربَت)

تشریح:

سن لے! کہ جو محفل میرے خوابوں کا ماحصل تھی، وہ اپنی تعبیر کی حیثیت سے تیرے روبرو (سامنے) ہے۔ میں نے جس صبر و استقلال کے ساتھ جد و جہد سے  یہ کھیتی کاشت کی تھی، اس کا پھل سامنے آ چکا ہے۔ یعنی میں اپنی زندگی میں جس قسم کے تعلیمی ادارے کا تصوّر کیا کرتا تھا اور جس کی تعمیر و ترقی کے لیے میں نے بے حد محنت کی تھی، اب میری محنت کا پھل اس ادارے کی بارونق محفلوں کی شکل میں سب کے سامنے موجود ہے۔


سنگِ تُربت ہے مرا گرویدۂ تقریر دیکھ
چشمِ باطن سے ذرا اس لوح کی تحریر دیکھ

حلِ لغات:

سنگِ تُربَتقبر کا پتھر / کُتبہ
گرویدۂ تقریرگفتگو کا شوق رکھنے والا، مائلِ گُفتار، تقریر کا شیدائی
چشمِ باطندِل کی آنکھ
لوحتختی، کُتبہ
حلِ لغات (بانگِ درا 23: سیّد کی لوحِ تُربَت)

تشریح:

سر سید احمد خاں کہتے ہیں کہ دیکھ! میرے مزار (تُربت) پر لگی ہوئی پتھر کی تختی (سنگِ تُربت) اب گفتگو کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ ذرا اپنے باطن کی آنکھ کھول، اور لوحِ مزار پر جو کچھ لکھا اُسے غور سے پڑھ!

بند نمبر 2

مدّعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیمِ دیں
ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سِکھلانا کہیں

حلِ لغات:

مٗدّعامقصود، غرض، طلب، مطلب
ترکِ دُنیارہبانیّت، دُنیا کو چھوڑ دینا
حلِ لغات (بانگِ درا 23: سیّد کی لوحِ تُربَت)

تشریح:

علامہ اقبال کو سر سید کی تربت سے جو پیغام ملتا ہے اس کا لُبِ لباب یہ ہے کہ:-

اے میری قبر کی زیارت کرنے والے! اگر تُو کوئی مذہبی رہنما ہے اور دنیا میں دین کی تعلیم عام کرنا چاہتا ہے تو یہ بہت ہی نیک کام ہے، لیکن قوم کو رہبانیت (ترکِ دنیا، بے عملی، دنیاوی فرائض سے غافل ہوجانا) کا سبق نہ سکھانا بلکہ با عمل زندگی گزارنے کی طرف مائل کرنا، تاکہ وہ ترقی کی دوڑ میں باقی اقوام سے پیچھے نہ رہ جائے۔

واضح رہے کہ دینِ اسلام میں رہبانیت کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ہر پہلو عملی زندگی کی ایک روشن مثال ہے۔ علامہ اقبال رہبانیت کے سخت خلاف تھے، چنانچہ آپ نے اپنے کلام میں بھی اس کا اظہار فرمایا ہے:

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دِلگیری
ترے دین و ادب سے آرہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی اُمتوں کا عالمِ پیری
(حوالہ: ارمغانِ حجاز)

کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی
سماتی کہاں اس میں فقیری میری
(حوالہ: بالِ جبریل: دین و سیاست)


وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چھُپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں

حلِ لغات:

وا کرناکھولنا
چھُپ کے بیٹھا ہےابھی دبا ہوا ہے
ہنگامۂ محشرقیامت کا ہنگامہ، بڑا فساد / فتنہ
حلِ لغات (بانگِ درا 23: سیّد کی لوحِ تُربَت)

تشریح:

فرقہ بندی کے لیے زبان نہ کھولنا (وا نہ کرنا) یعنی فرقہ بندی کی تعلیم نہ دینا، اس لیے کہ فرقہ بندی کے اندر قیامت خیز ہنگامہ (ہنگامۂ محشر) چھپا ہوا ہے، وہ بپا ہو گا تو سب کچھ تلپٹ (اُلٹ پلٹ) کر ڈالے گا یعنی باہمی جھگڑوں میں قوم تباہ ہو جائے گی۔  فرقہ بندی سے ملتِ اسلامیہ پارہ پارہ ہو جائے گی اور یوں اس کی تباہی کا سامان ہوگا۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ آج نام نہاد مُلاؤں نے اسی فرقہ بندی پر سارا زور صرف کر کھا ہے، چناچنہ آئے دِن مختلف صورتوں میں مسلمان باہم بر سرِ  پیکار ہوتے رہتے ہیں۔

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
(حوالہ: بانگِ درا: جوابِ شکوہ)

شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا
یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو
(حوالہ: بانگِ درا: تصویرِ درد)


وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ! کوئی دل نہ دُکھ جائے تری تقریر سے

حلِ لغات:

وصلاِتحاد و یکجہتی، اِتفاق
اسبابسبب کی جمع۔ سامان
دِل دُکھنادِل کو تکلیف پہنچنا
تقریروعظ، گفتگو
حلِ لغات (بانگِ درا 23: سیّد کی لوحِ تُربَت)

تشریح:

تُو اگر کوئی دینی تصنیف کرے تو اس کا انداز ایسا ہونا چاہیے جس سے قوم کے افراد میں ایک دوسرے سے میل جول اور اتحاد کو ترقی ہو۔ اگر تُو کسی دینے مسئلے کے متعلق تقریر کرے تو یہ امر بہ طور خاص پیشِ نظر رکھنا کہ کوئی ایسی بات زبان پر نہ آ جائے، جس سے کسی کا دِل دُکھ اُٹھے۔ اس لیے کہ دِل دُکھا کر میل جول اور اتحاد بڑھایا نہیں جا سکتا۔


محفلِ نَو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جو اَب نہ آئیں اُن فسانوں کو نہ چھیڑ

حلِ لغات:

محفلِ نوجدید دور، نئی محفل، نیا زمانہ
پُرانی داستان چھیڑناپرانے مسئلے چھیڑنا یا اُن کو ہوا دینا
رنگ پر آناپسندیدہ / مقبول ہونا، جوبن پر آنا
فسانہکہانی، داستان، قصّہ، سرگزشت
حلِ لغات (بانگِ درا 23: سیّد کی لوحِ تُربَت)

تشریح:

زمانہ بہت آگے نِکل چکا ہے۔ نئے زمانے  (محفلِ نو یعنی نئی محفل) میں پُرانے قصے چھیڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جن کہانیوں میں اب کوئی لُطف باقی نہیں اور جو بے وقت کی راگنی معلوم ہوتی ہیں، اُنھیں کیوں چھیڑا جائے؟ فرقہ واریت اور مذہبی اختلافات سے متعلق مباحث اور ہندو مسلم کے تاریخی اختلافات اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب اِن قصوں کو چھیڑنا مناسب نہیں۔ اس لیے کہ اب یہ اپنا اثر کھو چکے ہیں اور جو افسانے اپنا اثر ذائل کر چکے ہوں، ان کا ذکر بھی لا حاصل ہوتا ہے۔

بند نمبر 3

تُو اگر کوئی مدبّر ہے تو سُن میری صدا
ہے دلیری دستِ اربابِ سیاست کا عصا

حلِ لغات:

مُدبّرتدبیر کرنے والا، سیاسی رہنما
صداآواز۔ مراد نصیحت
دلیریبہادری، بے باکی
دستِ اربابِ سیاستسیاسی لوگوں کا ہاتھ
عصالکڑی، سونٹا۔ مراد سہارا
حلِ لغات (بانگِ درا 23: سیّد کی لوحِ تُربَت)

تشریح:

اگر تُو کوئی سیاست دان ہے اور قوم کی بہتری و بھلائی کے لیے تدابیر کرنے والا  (مدبّر یعنی تدبیر کرنے والا، عاقل، دانشمند) شخص ہے تو تجھے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قوم کے سیاسی لیڈروں کے لیے جراءت مندی اتنی ہی ضروری اور مفید ہے، جتنا حضرت موسی علیہ السلام کے لیے اُن کا عصا اہم تھا، کہ جس کی بدولت اُنہوں نے خدائی کا دعوی کرنے والے فرعون کو زیر کیا (دیکھیے سورۃ الاعراف آیت نمبر 103 تا 126، سورۃ طہ آیت نمبر 9 تا 35)۔

سیاستدانوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں وہ اپنا مافی الضمیر بِلا خوف و خطر بیان کریں، اور اپنی عوام حقوق کے لیے بے خوف ہو کر لڑیں۔

مدبّرین (اربابِ سیاست) میں دلیری اور اخلاقی جراءت کا پایا جانا پہلی شرط ہے۔ مُسلمان کی پہچان یہ ہے کہ نہ وہ ڈرپوک ہوتا ہے اور نہ ریاکار یا منافق اور نہ بادشاہوں کے سامنے کلمۂ کہنے سے ڈرتا ہے۔


عرضِ مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے
نیک ہے نیّت اگر تیری تو کیا پروا تجھے

حلِ لغات:

عرضِ مطلباپنا مطلب بیان کرنا
جھِجک جانارُک جانا، ڈر محسوس کرنا
زیبا ہوناموزوں، متناسب، سزاوار، مُناسب، شایانِ شان
حلِ لغات (بانگِ درا 23: سیّد کی لوحِ تُربَت)

تشریح:

جب کوئی مطالبہ پیش کرنا ہو اور وہ حق پر مبنی ہو تو تیرے لیے جھک جانا تجھے زیب نہیں دیتا۔ سچائی کے اظہار کے لیے کسی قسم کی جھجک کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔ اس لیے کہ اگر نیت نیک ہو تو اپنی بات کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔


بندۂ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے
قوّت فرماں روا کے سامنے بے باک ہے

حلِ لغات:

بیمخوف، ڈر
ریاظاہرداری، فریب، دھوکا، ریاکاری
فرماں رواحاکم، بادشاہ
بے باکنڈر، صاف بات کہہ دینے والا
حلِ لغات (بانگِ درا 23: سیّد کی لوحِ تُربَت)

تشریح:

بندہ مومن کا دِل ہر طرح کے خوف اور ریاکاری سے پاک ہوتا ہے۔ حکمران خواہ کتنے ہی جابر ہوں، ان کے روبرو اپنا نقطہ اظہار پوری بیباکی اور جراءت مندی کے ساتھ کرتا ہے۔ وہ کوئی سچا مطالبہ پیش کرتا ہوا ڈرتا نہیں اور نہ کسی دِکھاوے پر عمل کرتا ہے۔  اس کے دِل میں صرف اللہ تعالی کا خوف ہوتا ہے۔

 بقول علامہ اقبال:-

کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلۂ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے  بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
چُپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبالؔ
کرتا کوئی اس بندۂ گستاخ کا منہ بند
(حوالہ: بالِ جبریل)

(نوٹ: سر سید احمد خان نے رسالہ ”اسبابِ بغاوتِ ہند“ میں انگریزوں کو سچی باتیں بتائی تھیں، جس سے اُنہیں اس زمانے میں جان کا خطرہ بھی ہو سکتا تھا مگر اُنہوں نے دلیری سے کام لیا اور ڈرے نہیں)

بند نمبر 4

ہو اگر ہاتھوں میں تیرے خامۂ معجز رقم
شیشۂ دل ہو اگر تیرا مثالِ جامِ جم

حلِ لغات:

خامۂ معجز رقمزوردار قلم، ایسا قلم جس کی تحریر میں معجزے کا سا اثر ہو
شیشۂ دِلمُراد دِل
جامِ جمجمشید کا پیالہ۔ کہتے ہیں کہ ایران کے بادشاہ جمشید کا پاس ایک ایسا پیالہ تھا جس میں جھانک کر واقعاتِ عالم کی جھلک دیکھ لیا کرتا تھا۔ دنیا بھر میں جمشید کے اس پیالے کی ایسی دھوم مچی کہ اسے جامِ جمشید کے ساتھ ساتھ جامِ جہاں نما بھی کہا جانے لگا۔
حلِ لغات (بانگِ درا 23: سیّد کی لوحِ تُربَت)

تشریح:

اے میری قبر کی زیارت کرنے والے!

تُو اگر معلمِ مذہب و اخلاق اور سیاسی رہنما کی بجائے شاعر و ادیب ہے اور تیرے ہاتھ میں ایسا قلم ہے جو اپنی تحریر کے ذریعے معجزے دکھا سکتا ہے (خامہ: قلم، معجز رقم: معجزے دکھانے والا، خامہ معجز رقم: باکمال تحریریں لکھنے والا قلم) اور تیرا دِل جمشید کے ساغر (جمشید کے پیالہ) کی طرح صاف اور شفاف ہے، ذاتی اغراض سے پاک ہے، تو سُن!


پاک رکھ اپنی زباں، تلمیذِ رحمانی ہے تُو
ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو!

حلِ لغات:

پاک رکھ اپنی زباںکسی کو بُرا بھلا نہ کہنا، گالی گلوچ نہ کرنا
تلمیذِ رحمانیخدا کا شاگرد۔ عربی مقولہ الشعراء تلامیذ الرحمن: شاعر خدا کے شاگرد ہوتے ہیں، شاعری خاص عطیۂ الہی ہے۔
صدامراد شاعری
بے آبرُوذلیل
حلِ لغات (بانگِ درا 23: سیّد کی لوحِ تُربَت)

تشریح:

تُو اپنی زبان (یعنی شاعری اور نثر) کو فضول باتوں سے پاک رکھ۔ اس لیے کہ تُو براہِ راست اللہ تعالی کا شاگرد (تلمیذِ رحمانی: )۔ چناچنہ تجھے اپنی زبان کو ہجو اور بدگوئی سے پاک رکھنا چاہیے، اور حاکموں سے مفاد حاصل کرنے کے کی خاطر اُن کی بے جا قسم کی مدح سرائی کرنے سے گریز کرنا چاہیے کہ اس سے قوم میں تُو بے آبرو ہو کر رہ جائے گا۔


سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے
خرمنِ باطل جلا دے شُعلۂ آواز سے

حلِ لغات:

سونے والےجو عمل اور جد و جہد نہیں کرتے، غافل
اعجازمعجزہ، جادو
خرمنِ باطلدھوکے کا ڈھیر، فریب کا سرمایہ
شعلۂ آوازآواز کا شعلہ
حلِ لغات (بانگِ درا 23: سیّد کی لوحِ تُربَت)

تشریح:

اے شاعر! تجھے چاہیے کہ تُو اپنے خامۂ معجز رقم (معجزے رقم کرنے والا قلم) سے ایسی شاعری لکھ جو قوم کو خوابِ غفلت سے بیدار کر دے اور اپنی آواز کے شعلے سے باطل کے کھلیان (کھیت) جلا کر راکھ کر دے۔ تیری شاعری با مقصد شاعری ہو۔ تُو اس کے ذریعے بے عمل قوم کو عمل اور جد و جہد کی طرف رغبت دِلا اور باطل قوتوں سے ٹکرا کر اُنہیں پاش پاش کر دے۔

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments