”جبریل و ابلیس“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”جبریل و ابلیس“ میں علامہ اقبال نے فلسفیانہ غور و فکر کے ساتھ ساتھ جذبات نگاری، حقیقت بیانی اور رمز و ایماء۔۔ غرض کہ تمام ادبی خوبیوں کو جمع کر دیا ہے جس کی وجہ سے یہ نظم بالِ جبریل ہی نہیں، بلکہ اردو ادب کی بہترین نظموں میں شمار کی جا سکتی ہے۔
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
چونکہ ابلیس کائنات میں شر کا سب سے بڑا مظہر ہے اور انسان کا روحانی ارتقا اسی قوت کو مغلوب کرنے پر موقوف ہے، جیسا کہ اقبالؔ خود کہتے ہیں:-
؎ خوش تر آں باشد مسلمانش کنی
کشتۂ شمشیرِ قرآنش کنی
بہتر یہی ہے کہ تُو اسے (ابلیس کو) مسلمان کر لے اور اسے قرآن کی تلوار سے قتل کردے۔
(حوالہ: جاوید نامہ: فلک عطارد: حکمت خیز کثیر است)
اس لیے انہوں نے اپنی اکثر تصانیف مثلاً پیامِ مشرق، جاوید نامہ، بالِ جبریل، ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز میں ابلیس کی سیرت کے اہم پہلوؤں کو نمایاں کیا ہے۔
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
کشتن ابلیس کاری مشکل است
زانکہ او گم اندر اعماقِ دِل است
خوشتر آن باشد مسلمانش کنی
کشتۂ شمشیرِ قرآنش کنی
ابلیس کو ہلاک کرنا بہت مشکل کام ہے،
کیونکہ وہ دِل کی گہرائیوں میں روپوش ہوجاتا ہے۔
بہتر یہی ہے کہ تُو اُسے مسلمان کرلے،
اور قرآن کی تلوار سے قتل کردے۔
(حوالہ: جاوید نامہ: فلک عطارد: حکمت خیز کثیر است)
نظم ”جبریل و ابلیس“ کی تشریح
جبریل
ہمدمِ دیرینہ! کیسا ہے جہانِ رنگ و بُو؟
جبریل ابلیس سے دوستانہ لہجے میں دریافت کرتے ہیں کہ تم نے جہانِ رنگ و بُو کو کیسا پایا؟ کچھ وہاں کی سرگذشت مجھے بھی سناؤ۔ اس مصرع میں ابلیس کو ”ہمدمِ دیرینہ“ یعنی پرانا دوست کہہ کر مخاطب کیا ہے، یہ اقبالؔ کے رمزیہ اندازِ بیان کی بہت عمدہ مثال ہے یعنی انہوں نے لفظِ دیرینہ سے اس طرف اشارہ کر دیا کہ ابلیس مدّتوں تک فرشتوں کے ساتھ رہ چکا ہے۔
ابلیس
سوز و ساز و درد و داغ و جستجوے و آرزو
ابلیس کا جواب حقیقت پژدھی (کلاسیکیت) کی بڑی دلکش مثال ہے، کیونکہ دنیا در اصل انہی چیزوں کا نام ہے یعنی وہ کونسا انسان ہے جو ان کیفیات میں سے کسی ایک کیفیت سے آشنا نہیں؟ بلکہ میری (پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی) ذاتی مسلک کے مطابق ان آفات و بلیات سہ (چھ) میں سے کسی نہ کسی آفت میں مبتلا نہیں ہے؟
- سوز
- ساز
- درد
- داغ
- جستجو
- آرزو
بالفاظِ دِگر اقبالؔ نے چھ لفظوں میں دنیا کی کوشش ہزار سالہ تاریخ کا خلاصہ بیان کر دیا ہے۔ ہینی بال (Hannibal) (متوفی 183 قبلِ مسیح) سے لے کر ہٹلر (Hitler) (متوفی 1949ء) تک انسان آرزو کی شراب ہی سے مست و بیخود نظر آتا ہے۔
جبریل
ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گُفتگو
کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاکِ دامن ہو رُفو؟
آسمانوں پر ہر وقت تیرے ہی بارے میں باتیں ہوتی رہتی ہیں، ساکنانِ عرشِ اعظم ابھی تک تجھے یاد کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ تٗو واپس آ جائے۔ اس لیے کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ تُو اپنی گستاخی پر اظہارِ پشیمانی کرے اور جنابِ باری تعالی میں توبہ کر کے دوبارہ اسی مقامِ تقرب و اختصاص کو حاصل کر لے۔
اقبالؔ نے ان باتوں کو ”چاکِ دامن کے رفو“ سے تعبیر کیا ہے اور یہ کنایہ کی بہترین مثال ہے۔
ابلیس
آہ اے جِبریل! تُو واقف نہیں اس راز سے
کر گیا سرمست مجھ کو ٹُوٹ کر میرا سبُو
یہ سن کر ابلیس نے جواب دیا کہ اے جبرئیل! مجھے افسوس ہے کہ تٗو اس راز سے آگاہ نہیں ہے کہ اگرچہ میرا سبو ٹوٹ گیا لیکن مجھے دائمی سرمستی عطا کر گیا، یعنی انکار اور نافرمانی کی بنا پر میں تو بیشک مردود ہو گیا لیکن اس کی بدولت مجھے اپنی خودی کا ایسا شدید احساس حاصل ہو گیا کہ وہ اب قیامت تک ذائل نہیں ہو سکتا۔ یہ مصرع بھی کنایات اور استعارات سے لبریز ہے جس کی وجہ سے اس ساری نظم میں غضب کی دلکشی پیدا ہو گئی ہے اور اکثر نقادانِ فن اس چھوٹی سی نظم کو اقبالّ کی شاعری کا بہترین نمونہ تصوّر کرتے ہیں۔
اب یہاں میری گزر ممکن نہیں، ممکن نہیں
کس قدر خاموش ہے یہ عالَمِ بے کاخ و کُو!
میں اب اوپر کی دنیا میں ہرگز نہیں رہ سکتا، ہرگز نہیں رہ سکتا، اس لیے کہ وہاں ہر وقت خاموشی چھائی رہتی ہے، جبکہ میں ایک عرصے سے عالمِ رنگ و بُو (دنیا) کے ہنگامہ ہائے تُو بتُو کا خوگر (عادی) ہو چکا ہوں اور تیرا عالمِ بے کاخ و کُو (ایسی دنیا جس میں نہ گھر ہیں، نہ سڑکیں، یعنی کسی قسم کا ہنگامہ موجود نہیں) انتہائی خاموش اور پر سکون ہے۔۔ نیز وہاں نہ کسی ٭قلو پطرہ (ملکۂ مصر، متوفیہ 30 قبلِ مسیح) کی حسن فروشی کے جلوے ہیں، نہ کسی ایلزیبتھ (ملکۂ انگلستان، متوفیہ 1603ء) داد دہش کے مناظر ہیں۔۔ اندریں حالات میرا دِل وہاں کیسے لگے گا۔
٭ قلوپطرہ اور ایلزبتھ: یہ عورتیں نفس پرستی اور بدکاری کے لحاظ سے دخترانِ ابلیس کی سرتاج گزری ہیں۔ اول الذکر نے تو چالیس سال ہی کی عمر میں ایک سانپ کی وساطت سے اپنی ناپاک زندگی کا خاتمہ کر دیا لیکن آخر الذکر تو ساٹھ سال کی عمر تک شوہر کے انتخاب میں مشغول رہی۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو جیمری سائیکلوپیڈیا، جلد چہارم، صفحہ نمبر 14، مطبوعہ لندن 1874ء
جس کی نومِیدی سے ہو سوزِ دُرونِ کائنات
اُس کے حق میں ’تَقنَطُوا‘ اچھا ہے یا ’لاتَقنَطُوا‘؟
آخری بات یہ ہے کہ میں نے اللہ کی جناب میں کوئی معمولی گستاخی نہیں کی ہے۔ اس لیے مجھے ہر گز امید نہیں ہے کہ وہ میرا قصور معاف کر دے گا۔ واضح ہو کہ ابلیس کائنات میں نا امیدی و مایوسی کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ اس لیے اقبالؔ نے اس کی زبان سے ایک بہت بڑی حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ اگر ابلیس اللہ تعالی کی رحمتِ کلی سے بالکل مایوس نہ ہو جاتا تو اس دنیا میں آکر کیوں مستقل طور سے سکونت اختیار کرتا؟ اور جب وہ یہاں نہ آتا تو اس عالم کے باشندوں میں سوز و گداز کا رنگ کیسے پیدا ہوتا؟ اور جب یہ رنگ پیدا نہ ہوتا تو زندگی کے یہ گوناگوں ہنگامے کس طرح پیدا ہوتے؟ اور انسان زن، زر اور زمین کی آرزو اور جستجو نہ کرتا نہ رشک و حسد۔ رقابت اور منافقت کا بازار گرم نہ ہوتا اور نہ کوئی خسروؔ و فرہاد ہوتا۔ لہذا ایسی ہستی کے حق میں تقنطو ہی بہتر ہے نہ کہ لاتقنطو یعنی ابلیس کہتا ہے کہ مجھے رحمتِ الہی سے نا امید رہنا ہی مناسب ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے:-
قُلْ يَا عِبَادِىَ الَّـذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓى اَنْفُسِهِـمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْـمَةِ اللّـٰهِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُـوْبَ جَـمِيْعًا ۚ اِنَّهٝ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِـيْمُ
اے نبی ﷺ کہہ دو کہ اے میرے بندو ، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے ، وہ تو غفور ورحیم ہے۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ الزمر، آیت نمبر 53)
جبریل
کھو دیے انکار سے تُو نے مقاماتِ بلند
چشمِ یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو!
مجھےایسا معلوم ہوتا ہے کہ نافرمانی کا مادہ تیری گھُٹی میں پڑا ہوا ہے ورنہ تو ضرور اس بات پر غور کرتا کہ تیری اس نافرمانی اور انکار سے صرف تو ہی ذلیل و خوار نہیں ہوا بلکہ سارے فرشتوں کی بے عزتی ہو گئی۔
ابلیس
ہے مری جُرأت سے مشتِ خاک میں ذوقِ نمو
میرے فتنے جامۂ عقل و خِرد کا تاروپو
ابلیس نے جواب دیا کہ اے جبریل! تُو نے اس حقیقت پر غور نہیں کیا کہ یہ انکار میرے حق میں مہجوری (جدائی) کا باعث تو بے شک بن گیا (اسی لیے اقبالؔ نے ابلیس کو “خواجۂ اہلِ فراق” کا بے نظیر لقب دیا ہے، حوالہ: جاوید نامہ: نمودار شدن خواجۂ اہلِ فراق ابلیس) لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہو گیا کہ میرے اندر اس قدر اخلاقی جرأت موجود ہے کہ میں نے جس بات کو صحیح سمجھا اسے بے خوف و خطر بیان کر دیا۔ اے جبریل! انسان میں جو یہ (ذوقِ نمو) پایا جاتا ہے، یہ میری اسی جرأۚتِ رِندانہ کا تنیجہ ہے۔ اگر میں انسان کے سامنے جرأت کا یہ نمو قائم نہ کرتا تو کسی کے اندر اپنی شخصیت کو قائم رکھنے کی جرأت پیدا نہ ہوتی۔ میرا انکار بلاوجہ یعنی غیر مدلّل تو نہ تھا۔ میں نے جو کہا اس کی صحت پر عقل دلیل بھی پیش کر دی۔
قیاسِ ابلیس کی منطقی (Logical) شکل یہ ہے:-
- قیاسِ صُغریٰ: آدم خاکی ہے، میں ناری ہوں۔
- قیاسِ کُبریٰ: نار، خاک سے افضل ہے۔
- نتیجہ: اس لیے میں آدم سے افضل ہوں۔
قیاس: سے مراد ہے ذہن میں دو چیزوں کے درمیان موازنہ یا برابر کرنے کا عمل یا کسی چیز کی مثال سے اندازہ کرنے کا عمل۔
چنانچہ میرے ہی انکار کو دیکھ انسان کے اندر عقل و خِرد سے کام لینے کا مادّہ پیدا ہوا۔ اسی حقیقت کو مرشدِ رومی نے یوں بیان کیا ہے:-
؏ زیر کی ز ابلیس و عشق از آدم است
یعنی عقلیت کا رنگ ابلیس کی خصوصیتِ ذاتی ہے اور عشق کا جذبہ آدم کا طُغرائے امتیاز ہے۔
(حوالہ: مثنوی مولانا: دفتر چہارم: بخش 52: قصۂ رستن خروب در گوشۂ مسجد اقصی و غمگین شدن سلیمان علیہ السلام از آن چون بہ سخن آمد با او و خاصیت و نام خود بگفت)
دیکھتا ہے تُو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر
کون طُوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے، مَیں کہ تو؟
اے جبریل! تُو خیر و شر کی جنگ، جو اس کائنات میں شروع سے جاری ہے، ساحل پر کھڑا دیکھ رہا ہے لیکن میری ہمت پر غور کر! میں ایک فریق کی حیثیت سے اس طوفان کے طمانچے کھا رہا ہوں، ساری دنیا کی لعنت کا بارِ گِراں اپنے سر پر اُٹھا رہا ہوں، اس کے باوجود میرے پائے ثبات میں لغزش نہیں ہوتی۔
خِضر بھی بے دست و پا، الیاس بھی بے دست و پا
میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا، جُو بہ جُو
میں نے بحرِ ہستی میں وہ طوفان برپا کر رکھا ہے کہ عوام کو تو ذکر ہی فضول ہے، حضرت خضرؑ اور حضرت الیاسؑ جیسے صاحبِ ہمت انسان بھی، میرے سامنے دست و پا و بے بس نظر آتے ہیں۔
گر کبھی خلوَت میَسّر ہو تو پُوچھ اللہ سے
قِصّۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہُو!
اب اگر بارگاہِ ایزدی میں کبھی خلوت نصیب ہو تو یہ ضرور استفسار کرنا کہ بنی آدم کے واقعہ کو کس نے قربانی دے کر لہو رنگ کیا۔ حضرت آدمؑ اور ان کی اولاد کی زندگی میں جو کچھ دلکشی اور جاذبیت نظر آتی ہے (یعنی بدکاری کا مقابلہ کرنا اور اس پر غلبہ پانے کی ارتقائی منازل طے کرنا) یہ سب میری ہی (نافرمانی کی) بدولت ہے۔ اگر میں انکار کر کے اپنی عزت کا دیدہ و دانستہ خون نہ کرتا تو آدم کے قصہ میں یہ رنگینی کیسے پیدا ہوتی؟
مَیں کھٹکتا ہُوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
تُو فقط اللہھوٗ، اللہھوٗ، اللہھوٗ!
اے جبریل! تُو میرے مقام سے کیسے آگاہ ہو سکتا ہے؟ کجا میں کجا تُو (کہاں میں کہاں تُو)۔ بیشک میں نے بارگاہِ ایزدی میں اس عزت کو، جو مجھے حاصل تھی، ہمیشہ کے لیے کھو دیا لیکن اس انکار کی بدولت میں نے خدا نی نظر میں اپنی انفرادیّت کا اثبات ضرور کر دیا۔ اب میرے مقابلہ میں تُو اپنی حیثیت پر غور کر۔ کیا تُو خدا سے دوبدو مساویانہ رنگ میں مدِ مقابل کی حیثیت سے گفتگو کر سکتا ہے؟ کیا تُو اس کے حکم سے سرتابی کر سکتا ہے؟ کیا تُو اپنے کسی دعوی پر دلیل پیش کر سکتا ہے؟ کیا تُو اپنی خودی کا اثبات کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! تیرے اندر یہ جرأت، یہ حوصلہ اور یہ ہمت سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔۔ تُو کیا اور تیری بساط کیا؟ تیری کُل زندگی صرف ایک لفظ سے عبارت ہے یعنی اطاعت بِلا چون و چرا۔
نوٹ: اقبالؔ نے اسی اطاعت کو ”اللہ ھو“ سے تعبیر کیا ہے۔ آخر ی شعر کا پہلا مصرع محض شاعرانہ اندازِ بیان ہے، اسے منطق کے پیمانہ سے ناپنا درست نہیں۔
حوالہ جات
- شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بالِ جبریل از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح بالِ جبریل از اسرار زیدی