”کُفر و اِسلام“ از علامہ اقبال
فہرست
نظم ”کُفر و اِسلام“ میں علامہ اقبال نے میر رضی دانش کے ایک شعر پر تضمین کی ہے۔ یہ ایرانی شاعر مشہد کے رہنے والے تھے۔
نظم ”کُفر و اِسلام“ کی تشریح
ایک دن اقبالؔ نے پُوچھا کلیمِ طُور سے
اے کہ تیرے نقشِ پا سے وادیِ سِینا چمن
ایک دن اقبالؔ نے کوہِ طُور پر اللہ تعالی سے کلام کرنے والے (کلیم اللہ، اللہ تعالی سے کلام کرنے والے، حضرت موسیؑ کا لقب) یعنی حضرت موسیؑ سے پوچھا کہ آپ کے نقشِ پا کی برکت سے وادیٔ سینا (وہ خطہ جس میں کوہِ طُور واقع ہے، اسی لیے اس کو طورِ سینا بھی کہتے ہیں) باغ و بہار بن گئی ہے۔
آتشِ نمرود ہے اب تک جہاں میں شُعلہ ریز
ہوگیا آنکھوں سے پنہاں کیوں ترا سوزِ کُہن
ذرا یہ تو فرمائیے کہ نمرُود کی آگ (کفر و شِرک) سے اب تک شعلے اُٹھ رہے ہیں، آپ کے جذبۂ عشق کی وہ پرانی حرارت (سوزِ کہن) جو کفر و باطل کو جلا کر راکھ کر دینے کی صلاحیت رکھتی تھی، آج کے انسانوں میں وہ نظر کیوں نہیں آتی؟ آخر آپ کی جذبۂ عشق سے سرشار باتیں کیوں انسانوں کی نظر سے پوشیدہ ہو گئی ہیں، یعنی وہ ان پر توجہ کیوں نہیں دے رہے؟
آتشِ نمرُود: نمرود وہ کافر اور خدا کا مدعی بادشاہ جس نے حضرت ابراہیمؑ کو جلانے کے لیے بہت بڑی آگ روشن کرائی تھی۔ آتشِ نمرُود سے یہاں کفر و شِرک یا بت پرستی مراد ہے۔
تھا جوابِ صاحبِ سینا کہ مسلم ہے اگر
چھوڑ کر غائب کو تُو حاضر کا شیدائی نہ بن
حضرت موسیؑ نے جواب دیا کہ اے اقبال! اگر تُو مسلم ہے تو غائب (خدا تعالیٰ) کو چھوڑ کر موجودہ باطل قوتوں کا شیدائی نہ بن۔ ایمان بالغیب کی تعلیم کو مدِ نظر رکھ! اللہ تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ غائب پر ایمان لائیں یعنی اُس خدا پر، جو آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:-
یہ الکتاب ہے اس میں کچھ شک نہیں۔ ہدایت ہے پرہیزگار لوگوں کے لیے۔ جو ایمان رکھتے ہیں غیب پر اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ البقرۃ: آیت نمبر 2 تا 3)
ذوقِ حاضر ہے تو پھر لازم ہے ایمانِ خلیلؑ
ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیرہن
اگر بالفرض تُو حاضر ہی کے ذریعے حقیقت جاننا چاہتا ہے تو پھر سطحی چیزوں کو دیکھنے کی بجائے حضرت ابراہیمؑ جیسا ایمان پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس بات سے اشارہ قرآن پاک کی اس آیت کی طرف ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے رات کی تاریکی میں ستاروں کو چمکتے دیکھا تو انہیں خدا قرار دیا، پھر چاند نکلا تو آپؑ نے سوچا کہ ستارے نہیں بلکہ یہ چاند خدا ہے۔ صبح ہوئی اور سورج نکلا تو چاند کی روشنی بھی ماند پڑ گئی تو حضرت ابراہیمؑ نے سورج کو معبود قرار دیا لیکن شام کو سورج بھی غروب ہو گیا۔ تو وہ حاضر و موجود اشیاء کے اس مشاہدے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب چیزیں خدا نہیں بلکہ خدا وہ ہے جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا۔
اقبالؔ کہتے ہیں کہ اگر حاضر و موجود کا شوق ہے تو پھر حضرت ابراہیمؑ جیسے ایمان کی ضرورت ہے ورنہ تیری زندگی کا لباس خاکستر ہو جائے گا۔ سطحی نظر سے کسی شے کو دیکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، ورنہ تیرا عقیدہ تباہی کا سبب بن جائے گا
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گُلستاں پیدا
(حوالہ: بانگِ درا: جوابِ شکوہ)
؎ براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
(حوالہ: بانگِ درا: طلوعِ اسلام)
ہے اگر دیوانۂ غائب تو کچھ پروا نہ کر
منتظر رہ وادیِ فاراں میں ہو کر خیمہ زن
اگر تُو غائب کا دیوانہ ہے یعنی تیرا ایمان پکّا ہے تو جو کچھ پیش آ رہا ہے اس سے بالکل بے پروا ہو جا۔ فاران کی وادی میں خیمہ نصب کر لے اور قدرت کے کرشموں کا انتظار کر۔ فاران کی وادی میں خیمہ نصب کر لینے سے مراد ہے کہ شریعت کا پابند ہو جا، اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر حالات کے بدلنے کا انتظار کر۔
عارضی ہے شانِ حاضر، سطوَتِ غائب مدام
اس صداقت کو محبّت سے ہے ربطِ جان و تن
یاد رکھ! کہ حاضر کی شان و شوکت محض عارضی اور چند روزہ ہے اور اسلام کی شوکت دائمی (ہمیشہ رہنے والی) ہے۔ کفر ایک دِن ضرور مِٹ جائے گا لیکن اللہ تعالی چونکہ حق ہے، اس لیے ہمیشہ قائم رہے گا۔ اس صداقت کو (کہ اللہ تعالی حق ہے) محبت کے ساتھ وہی رابطہ و نسبت ہے جو روح کو جسم کے ساتھ ہے۔ یعنی عشقِ حقیقی سے سرشاری میری بات کی تصدیق کرتی ہے اور اگر اللہ سے محبت کا رنگ پیدا ہو جائے تو آدمی اس صداقت کو سمجھ سکتا ہے۔
شعلۂ نمرود ہے روشن زمانے میں تو کیا
”شمع خود را می گدازد درمیانِ انجمن
نورِ ما چوں آتشِ سنگ از نظر پنہاں خوش است“
اگر کُفر و شرک (شعلۂ نمرود) زمانہ میں ہر جگہ آشکارا ہے تو ہراساں ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ شمع کو دیکھو! وہ محفل (انجمن) میں سب کو اپنا جلوہ دکھاتی ہے یعنی اس میں شانِ ظہور پائی جاتی ہے لیکن یہ شان عارضی ہے کیونکہ صبح ہوتے شمع ختم ہو جاتی ہے، اس کے مقابلہ میں ہمارا نور (خدا) شمع کی طرح دنیا والوں کو جلوہ تو نہیں دِکھاتا بلکہ آتشِ سنگ (پتھر کی آگ) کی طرح پوشیدہ ہے لیکن اس کا وجود دائمی (ہمیشہ قائم رہنے والا) ہے، اس پر کبھی فنا طاری نہیں ہوگی۔
نظم ”کُفر و اِسلام“ پر تبصرہ
اس نظم میں اقبالؔ نے میر رضی دانش کے ایک شعر پر تضمین (کسی دوسرے شاعر کے شعر کو یا مصرع کو مضمون کی مناسبت سے اپنے کلام میں شامل کرنا تضمین کہلاتا ہے) کی ہے۔ یہ ایرانی شاعر مشہد کے رہنے والے تھے۔ عہدِ شاہجہانی میں اپنے باپ کے ساتھ ہندوستان آئے، بادشاہ کی خدمت میں ایک قصیدہ لکھ کر پیش کیا جس کا مطلع یہ تھا:-
؎ بخواں بلند کہ تفسیر آیۂ کرم است
خطے کہ از کف دستِ مبارکش پیداست
شاہجہاں نے دو ہزار روپیہ انعام دیا، کچھ عرصہ کے بعد بادشاہ کو چھوڑ کر دارا شکوہ کی ملازمت اختیار کر لی۔ اس عقلمند شاہزادہ نے ان کو اس شعر پر ایک لاکھ روپیہ انعام دیا تھا:-
؎ تاک را سر سبز کن اے ابر نیساں در بہار
قطرۂ تامے تو اندشد چرا گو ہر شود
لیکن مجھے ان کا یہ شعر بہت پسند ہے:-
؎ متاب رخ نفسے تا بجائے خود باشیم
چو عکسِ آئینہ، مازندہ از نگاہ تو ایم
حضرتِ اقبالؔ نے ان کے جس شعر کو تضمین کے لیے منتخب کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ پروانوں کا محبوب تو سب کے سامنے موجود ہے لیکن ہمارا محبوب، آتشِ سنگ (پتھر میں پوشیدہ آگ) کی طرح لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے اور اس کا نظروں سے اوجھل رہنا ہی اچھا ہے (تاکہ آتشِ شوق بھڑکتی رہے، یعنی اللہ تعالی کے دیدار کی طلب میں اضافہ ہوتا رہے)۔ اقبالؔ نے جب یہ شعر پڑھا تو انہوں نے اپنی خداداد ذہانت سے یہ مفہوم پیدا کیا کہ کفر (بت) ظاہر ہے لیکن ہمارا محبوب (خدا) پوشیدہ ہے، ”نُورِ ما“ سے شاعر کی مراد تو اس کا محبوب ہے لیکن اقبالؔ نے اس سے خدا کی ذات مراد لی ہے۔ اسی نکتہ نے اس شعر کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ یعنی اقبالؔ نے اس پر تضمین کر کے شعر اور صاحبِ شعر دونوں کو زندہ و جاوید بنا دیا۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)