Skip to content
بانگِ درا 63: محبّت

بانگِ درا 63: محبّت


”محبّت“ از علامہ اقبال

فہرست

تعارف

نظم ”محبّت“ جنوری 1902ء میں شائع ہوئی تھی، جب اقبالؔ کیمبرج پہنچے تھے۔ اِس نظم میں اقبالؔ نے محبّت کے متعلق بنیادی چیزیں بیان کی ہیں:-

1- محبّت اکسیر کا ایک ایسا نُسخہ ہے، جسے فرشتے آدمی سے پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں۔

2- محبّت ہی کی وجہ سے اِس دُنیا میں زندگی پیدا ہوئی اور کائنات وجود میں آئی۔

3- محبّت کائنات کی مختلف چیزوں کے خواص لے کر بنی اور کائنات کی تمام چیزوں کا حُسن محبّت ہی سے پیدا ہوا۔

(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)

YouTube video

نظم ”محبّت“ کی تشریح

عروسِ شب کی زُلفیں تھیں ابھی ناآشنا خَم سے
ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذّتِ رم سے

حلِ لغات:

عروسِ شبرات کی دُلہن
زُلفیںزُلف کی جمع۔ بالوں کا لچھا۔ مراد تاریکی
نا آشناناواقف، نہ جاننےوالا
خممُڑے ہونا، پیچ، بل
لذّتِ رمدوڑ جانے کا لُطف، دوڑ کر غائب ہوجانے کا مزہ، تگ و دو کا مزہ
حلِ لغات (بانگِ درا 63: محبّت)

تشریح:

ابتدائی اشعار میں اقبالؔ دنیا کے آغاز کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رات کی دلہن کی زلفیں ابھی پیچ و خم سے واقف نہ ہوئیں تھیں یعنی ابھی کائنات میں دن اور رات کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا اور آسمان کے ستارے ابھی گردش کی لذّٗت سے ناواقف تھے، یعنی ابھی کائنات وجود میں آرہی تھی۔


قمر اپنے لباسِ نَو میں بیگانہ سا لگتا تھا
نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئینِ مسلّم سے

حلِ لغات:

قمرچاند
لباسِ نونیا لباس
بیگانہاجنبی
گردِشکسی شے کے گِرد چکّر لگانا
آئینِ مُسلّمپکا قانون، پُختہ قائدہ
حلِ لغات (بانگِ درا 63: محبّت)

تشریح:

چاند اپنے نئے لباس (روشنی اور وجود) میں اجنبی سا لگتا تھا۔ ابھی وہ گردش کے قانون سے آگاہ نہ ہوا تھا۔

آئینِ مُسلّم: فطرت کا قانون جسے ہر شے تسلیم کرتی ہے۔


ابھی امکاں کے ظُلمت خانے سے اُبھری ہی تھی دنیا
مذاقِ زندگی پوشیدہ تھا پہنائے عالم سے

حلِ لغات:

امکاںممکن ہونا
ظُلمت خانہتاریک جگہ، اندھیرا گھر
مذاقِ زندگیزندگی گزارنے کا سلیقہ
پوشیدہچھُپا ہوا
پہنائے عالمدُنیا کی وسعت، جہان کی فراخی
حلِ لغات (بانگِ درا 63: محبّت)

تشریح:

ابھی دنیا اندھیرے گھر سے تازہ تازہ پیدا ہوئی تھی، یعنی عدم سے وجود میں آئی تھی اور اس جہان کی فراخی میں زندہ رہنے کا ذوق ابھی چھپا ہوا تھا، ظاہر نہ ہوا تھا۔ مُراد یہ ہے کہ دنیا میں ابھی ذی روح پیدا نہیں ہوئے تھے۔


کمالِ نظمِ ہستی کی ابھی تھی ابتدا گویا
ہوَیدا تھی نگینے کی تمنّا چشمِ خاتم سے

حلِ لغات:

کمالِ نظمِ ہستیزندگی کے نظام کی اِنتہا
اِبتداشروعات
ہویداظاہر
نگینے کی تمنّانگینے کی خواہش
چشمِ خاتمانگوٹھی کی آنکھ
حلِ لغات (بانگِ درا 63: محبّت)

تشریح:

کائنات کے نظام کا کمال ابھی شروع ہو رہا تھا یعنی ابھی قوانینِ فطرت جاری نہیں ہوئے تھے اور انگوٹھی کی آنکھ سے نگینے کی آرزو ٹپک رہی تھی (انگوٹھی نگینے کے بغیر نامکمل ہوتی ہے، اس حوالے سے کائنات کی ابتدائی تنظیم کی طرف اشارہ ہے)

اِن اشعار کا مطلب یہ ہے کہ دنیا پیدا ہوچکی تھی مگر اس کا کاروبار جاری نہ ہوا تھا۔ نہ راتیں بنی تھیں، نہ ستاروں اور چاند کی گردش کا سامان ہوا تھا، نہ زندگی کی چہل پہل شروع ہوئی تھی۔ البتہ اس کے لیے سر و سامان تیار ہو چکا تھا۔


سُنا ہے عالمِ بالا میں کوئی کیمیاگر تھا
صفا تھی جس کی خاکِ پا میں بڑھ کر ساغرِ جم سے

حلِ لغات:

عالمِ بالااوپر کی دُنیا، عرش
کیمیا گرعلمِ کیمیا کا ماہر
صفاصفائی
خاکِ پاپاؤں کی خاک
ساغرِ جمایران کے مشہور بادشاہ جمشید کا پیالہ۔ کہا جاتا ہے کہ بادشاہ جمشید کے پاس ایک ایسا پیالہ تھا جس میں وہ ساری دُنیا کے حالات دیکھ لیا کرتا تھا
حلِ لغات (بانگِ درا 63: محبّت)

تشریح:

یہ سننے میں آیا ہے کہ عالمِ ملکُوت میں ایک کیمیا گر رہا کرتا تھا جس کے پاؤں کی خاک پاکیزگی میں جمشید کے پیالے سے بھی بڑھ کر تھی یعنی وہ دانائے اسرار و رموز تھا۔


لِکھا تھا عرش کے پائے پہ اک اِکسیر کا نسخہ
چھُپاتے تھے فرشتے جس کو چشمِ رُوحِ آدم سے

حلِ لغات:

اکسیرکیمیا، سونا بنانے کا فن
چشمِ رُوحِ آدمآدم کی رُوح کی آنکھ
حلِ لغات (بانگِ درا 63: محبّت)

تشریح:

خدا تعالی کے عرش کے پائے پر ایک اکسیر کا نسخہ لکھا ہوا تھا۔

فرشتے اُس نُسخے کو روحِ آدمؔ کی آنکھوں سے چھپائے رکھنے کی کوشش کرتے تھے یعنی یہ چاہتے تھے کہ اکسیر کا یہ نسخہ انسان کو معلوم نہ ہو، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر آدمؔ اس سے واقف ہو گیا تو وہ ساری کائنات پر حکمران ہو جائے گا، دوسرے الفاظ میں خدا کا نائب بن جائے گا۔

اکسیر: وہ شئے جو کسی شئے کی ماہیت کو بدل دے۔


نگاہیں تاک میں رہتی تھیں لیکن کیمیاگر کی
وہ اس نسخے کو بڑھ کر جانتا تھا اسمِ اعظم سے

حلِ لغات:

تاک میں رہناگھات میں رہنا
اسمِ اعظماللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک بزرگ تر نام جس کے وِرد سے ہر شے کو تسخیر کیا جاسکتا ہے
حلِ لغات (بانگِ درا 63: محبّت)

تشریح:

عالمِ بالا کا کیمیا گر اس نسخہ کی تاک میں لگا ہوا تھا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ نسخہ اپنی تاثیر میں اسمِ اعظم سے بھی بڑھا ہوا ہے۔

اسمِ اعظم: لفظی معنی خدا کا سب سے بڑا اور متبرک ترین نام، مراد ہے اللہ کا وہ اسمِ صفت جس میں غیر معمولی تاثیرات پوشیدہ ہیں۔


بڑھا تسبیح خوانی کے بہانے عرش کی جانب
تمنّائے دلی آخر بر آئی سعیِ پیہم سے

حلِ لغات:

تسبیح خوانیتسبیح پڑھنا، حمد کہنا، ذکرِ اِلہی کرنا
تمنّائے دِلی بر آنادِل کی آرزو پوری ہونا
سعیِ پیہممُسلسل کوشش
حلِ لغات (بانگِ درا 63: محبّت)

تشریح:

آخر وہ خدائے پاک کا ذکر کرتے ہوئے عرش کی جانب بڑھنے لگا۔

لگاتار کوشش کے بعد اس کے دِل کی مراد بر آئی اور اُسے وہ نسخہ معلوم ہوگیا۔


پھرایا فکرِ اجزا نے اُسے میدانِ امکاں میں
چھُپے گی کیا کوئی شے بارگاہِ حق کے مَحرم سے

حلِ لغات:

پھِراناگھُمانا
فکرِ اجزاءمراد ہے نسخہ کے اجزاء (مُفردات) کی تلاش / فکر
میدانِ امکاںممکنات کا میدان
بارگاہِ حقاللہ تعالی کا دربار
محرممحرم، راز جاننے والا، رازداں
حلِ لغات (بانگِ درا 63: محبّت)

تشریح:

پھر اس نسخے کے اجزاء کی تلاش میں وہ اس جہان کے کونے کونے میں پھرا

وہ خدا کی بارگاہ کا رازدان تھا۔ بھلا اس کی نظروں سے کون سی چیز چھپ سکتی تھی؟

اس نسخے کے لیے اس نے جو اجزاء جمع کیے، ان کی کیفیت یہ ہے:- (آگے اشعار میں)


چمک تارے سے مانگی، چاند سے داغِ جگر مانگا
اُڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زُلفِ برہم سے

حلِ لغات:

داغِ جگرسیاہ داغ جو چاند میں ہوتا ہے، جِگر کا دھبہ
تیرگیسیاہی، تاریکی
شبرات
زُلفِ برہمبِکھرے ہوئے بال
حلِ لغات (بانگِ درا 63: محبّت)

تشریح:

تارے سے اُس نے چمک مانگی، چاند سے جگر کا داغ لیا اور رات کی بکھری ہوئی زلفوں سے تھوڑی سی سیاہی چرا لی۔


تڑپ بجلی سے پائی، حُور سے پاکیزگی پائی
حرارت لی نفَسہائے مسیحِ ابنِ مریمؑ سے

حلِ لغات:

پاکیزگیپاک صاف ہونا
نفسہائےنفس کی جمع۔ نفس، سانس، پھونکیں
نفسہائے مسیحِ ابنِ مریمحضرت عیسیٰ کے نفس سے۔ حضرت عیسیؑ حضرت مریمؑ کے بیٹے جو پھونک مار کر اللہ تعالی کے حُکم سے مُردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے
حلِ لغات (بانگِ درا 63: محبّت)

تشریح:

پھر بے قراری کی کیفیت بجلی سے اور پاکیزگی حور سے حاصل کی اور تپش اور حرارت حضرت مریمؑ کے فرزندِ ارجمند حضرت عیسیؑ کی سانس سے حاصل کر لی (حضرت عیسیؑ پھونک مار کر اور یہ کہہ کر کہ اللہ کے حکم سے اُٹھ جا، مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے۔)


ذرا سی پھر ربوبِیّت سے شانِ بے نیازی لی
مَلک سے عاجزی، اُفتادگی تقدیرِ شبنم سے

حلِ لغات:

ربوبیّترب ہونا، پروردِگاری
شانِ بے نیازیبے پروا ہونے کی شان
عاجزیخاکساری، انکساری
اُفتادگیگِر پڑنا، عاجزی
حلِ لغات (بانگِ درا 63: محبّت)

تشریح:

اس کے بعد جنابِ باری تعالی سے تھوڑی سی بے نیازی (محتاج نہ ہونے کی صفت) کی شان مانگ لی۔ واضح ہے کہ اللہ تعاکی کی سب سے نمایاں صفت یہ ہے کہ وہ بے نیاز (الصمد) ہے، کسی رنگ میں کسی کا محتاج نہیں۔

فرشتے سے عاجزی اور شبنم کی تقدیر سے اُفتادگی (خاکساری / مسکینی) لے لی۔


پھر ان اجزا کو گھولا چشمۂ حیواں کے پانی میں
مرکّب نے محبّت نام پایا عرشِ اعظم سے

حلِ لغات:

چشمۂ حیواںزندگی کا چشمہ، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا پانی پینے والا ہمیشہ زندہ رہتا ہے، جبکہ یہ محض ایک فسانہ ہے۔ مشہور ہے کہ حضرت خضر نے آبِ حیات پیا ہوا ہے
مرکّبمختلف چیزوں سے مِل کر بننے والی چیز
عرشِ اعظمبلند مرتبے والا، خدا کا تخت
حلِ لغات (بانگِ درا 63: محبّت)

تشریح:

پھر اس نے ان تمام اجزاء کو آبِ حیات میں گھول لیا اور اِس طرح جو مرکب تیار ہوا، اُسے عرشِ اعظم سے محبّت کا نام دیا گیا۔

(آبِ حیات: وہ فرضی چشمہ جس کا پانی پی لینے کے بعد موت نہیں آتی، مراد ہے ہمیشگی یا ابدیّت، محبّت ایک ابدی شۓ ہے۔)


مُہوّس نے یہ پانی ہستیِ نوخیز پر چھِڑکا
گرہ کھولی ہُنر نے اُس کے گویا کارِ عالم سے

حلِ لغات:

مُہوّسکیمیا گر
ہستیِ نوخیزنئی وجود میں آئی زندگی
گِرہ کھولنامُشکل حل کرنا
کارِ عالمدُنیا کا کاروبار
حلِ لغات (بانگِ درا 63: محبّت)

تشریح:

کیمیا گر نے یہ پانی اس ہستی پر چھڑکا جو ابھی ابھی پیدا ہوئی تھی۔

اُس کی کاری گری نے دنیا کے کاروبار کی گرہ کھول دی یعنی زندگی کے کاروبار کی مشکلات دور ہو گئیں۔ کیمیا گر کے اس ”ہنر“ نے کائنات کی تمام دشواریوں کو حل کر دیا، دنیا کا کارخانہ جو بند پڑا تھا، جاری ہو گیا۔


ہوئی جُنبش عیاں، ذرّوں نے لُطفِ خواب کو چھوڑا
گلے ملنے لگے اُٹھ اُٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے

حلِ لغات:

جُنبشحرکت
عیاںظاہر ہونا
لُطفِ خوابنیند کا مزہ
ہمدمساتھی، دوست
حلِ لغات (بانگِ درا 63: محبّت)

تشریح:

جب محبّت کار فرما ہوئی تو  ذروں نے لطفِ خواب کو چھوڑا یعنی ذرّاتِ مادی حرکت میں آگئے اور ایک دوسرے سے گلے ملنے لگے (یعنی ذرّات میں ترکیب کا عمل شروع ہو گیا)


خرامِ ناز پایا آفتابوں نے، ستاروں نے
چٹک غُنچوں نے پائی، داغ پائے لالہ زاروں نے

حلِ لغات:

خرامَ نازناز سے چلنا
آفتابسورج
چَٹَککھِلنا
داغدھبّہ
لالہ زارلالہ کے پھولوں کا باغ / کھیت
حلِ لغات (بانگِ درا 63: محبّت)

تشریح:

اس مرکب کے چھینٹوں کا یہ اثر ہوا کہ آفتاب نے اپنی گردش کا آغاز کر دیا اور ستارے بھی منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔

باغوں میں غنچے چٹک کر پھول بن گئے اور لالے کو اس کا داغ حاصل وہ گیا۔ مراد یہ ہے کہ محبّت ہی وہ جذبہ ہے جس کے طفیل کائنات کی ہر شے متحرک ہے اور اس میں زندگی کی لہر دوڑ رہی ہے۔

تبصرہ

یہ دوسرے دور کی پہلی نظم ہے جس کی بندش یہ بتا رہی ہے کہ اقبالؔ نے اس کو بہت غور و فکر کے بعد مرتّب کیا ہوگا۔ اس کے شاعرانہ محاسن سے بخوفِ طوالت قطع نظر کرتا ہوں اور معنوی خوبیوں میں سے بھی صرف ایک خوبی کی تفصیل پر اکتفا کرتا ہوں۔

واضح ہو کہ تصوفؔ کی مسلمہ تعلیم یہ ہے کہ ”حرکت بدونِ محبّت، محال ہے“ یعنی اگر محبّت نہ ہوتی تو حرکت نہ ہوتی اور حرکت نہ ہوتی تو کائنات بھی نہ ہوتی یعنی اس کائنات کا وجود محبّت پر موقوف ہے۔ اقبالؔ نےتصوف کی اسی بنیادی تعلیم کو شاعرانہ انداز میں پیش کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:-

1۔ محبّت باعثِ ایجادِ عالم ہے۔ وہ ایسی لطیف طاقت ہے جو اس کائنات کی رگ و پے میں جاری ہے۔

2۔ محبّت غیر مادی شئے ہے۔ اس کے عناصرِ ترکیبی سب غیر مادی ہیں۔

3۔ محبّت دراصل کائنات کے تمام محاسن کا مجموعہ ہے اس لیے اس میں حُسن بھی پوشیدہ ہے۔

4۔ اقبالؔ نے اس نظم میں کائنات کے حُسن کو بھی ضمنی طور سے واضح کر دیا ہے۔ جس طرح چمک تارے کا حُسن ہے، اُسی طرح رات کا زیور ہے۔

5۔ محبّت ایک غیر فانی شئے ہے، نیز یہ کہ محبّت نہ ہوتی تو یہ دنیا بھی نہ ہوتی۔

6۔ اس نظم میں اقبالؔ نے اپنے فنِ شاعری کے اُس پہلو کو نمایاں کیا ہے جسے رمزیتؔ کہتے ہیں۔

7۔ یہ نظم اقبالؔ نے 1906ء میں لکھی تھی اور اس کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہو سکتی ہے کہ انہوں نے اپنا مقصدِ حیات اسی زمانہ میں متعین کر لیا تھا یعنی دنیا کو محبّت کا درس دینا۔ چنانچہ ان کی آئندہ شاعری تادمِ آخر اسی مقصد کے لیے وقفِ عمل رہی۔

8۔ دنیا میں جہاں کہیں کوئی حُسن و خوبی یا نیکی و صداقت ہے، وہ سب محبّت ہی کا پرتُو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظر میں حُسنؔ، صداقتؔ اور نیکیؔ، یہ تینوں ایکی ہی چیز (محبّت) کے تین پہلو ہیں۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments