Skip to content
ضربِ کلیم 46: تقدیر (ابلیس و یزداں)

ضربِ کلیم 46: تقدیر (ابلیس و یزداں)


”تقدیر (ابلیس و یزداں)“ از علامہ اقبال

تعارف

زمان و مکان کے مسئلہ کے بعد اقبالؔ کو تقدیر کے مسئلہ سے بہت زیادہ دلچسپی رہی، چنانچہ اُنہوں نے ان دونوں اہم مسئلوں پر بہت کچھ لکھا ہے۔ اسرارِ خودی مطبوعہ 1914ء سے لے کر ارمغانِ حجاز، مطبوعہ 1938ء تک ہر کتاب میں ان دونوں مسئلوں پر مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ نظم ”تقدیر (ابلیس و یزداں)“ میں اُنہوں نے شیخ اکبر حضرت محی الدین المعروف ابن عربیؒ کی شہرۂ آفاق کتاب فصوص الحکم سے مسئلۂ تقدیر سے متعلق کچھ مطالب اخذ کر کے، شعر کے لباس میں پیش کیے ہیں۔ بنیادی تخیّل تو شیخؒ کا ہے، اندازِ بیاں اقبالؔ کا ہے۔

نوٹ: شیخ اکبرؒ دنیا کے اُن چند لوگوں میں سے ہیں جن کے خیالات کو ہر صدی میں صرف چند لوگوں نے سمجھا۔ اگرچہ اقبالؔ، شیخ اکبرؒ کے خیالات سے مکمل طور پر متفق نہیں تھے۔ لیکن اُنہوں نے ان کی تصانیف کا مطالعہ بہت غور سے کیا تھا، اور خود ایک مرتبہ مجھ سے کہا تھا کہ دنیا میں چار آدمی ایسے ہیں کہ جو شخص اُن میں سے کسی ایک کے طلسم میں گرفتار ہو جاتا ہے، مشکل ہی سے رہائی پاتا ہے۔ میں نے سراہا اشتیاق بن کر پوچھا، وہ کون ہیں؟ جواب دیا: ابنِ عربیؔ، شنکر آچاریہؔ، بیدلؔ (مرزا عبدالقادر بیدل) اور ہیگل۔

(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

YouTube video

ابلیس

اے خدائے کُن فکاں! مجھ کو نہ تھا آدم سے بَیر
آہ! وہ زندانیِ نزدیک و دُور و دیر و زُود

حلِ لغات:

خدائے کُن فکاںوہ خدا جس نے کُن (ہو جا) کہا تو فکاں (سب کُچھ ہو گیا)، قرآنی آیت کی طرف اشارہ ہے، مراد کُل مخلوق کا خدا
بیردُشمنی
زندانیقیدی
زندانیِ نزدیک و دُورنزدیک اور دُور یعنی مکان کا قیدی
دیر و زُوددیر اور جلد یعنی زمان (وقت)، مراد زمان و مکان کے چکّر میں گرفتار
حلِ لغات (ضربِ کلیم 46: تقدیر (ابلیس و یزداں))

تشریح:

ابلیس خدا کے حضور میں گِڑ گِڑا رہا ہے کہ اے وہ خدا! جس نے کن (ہو جا) کہا تو فکاں (سب کچھ) ہوگیا ( یعنی خدائے کن فکاں) کہ جس نے ساری کائنات اور اس میں جو کچھ ہے، پیدا کیا ہے۔ مجھے آدم سے کوئی دشمنی (بیر) نہ تھی، کہ جب تُو نے مجھے حکم دیا کہ اسے سجدہ کرو تو میں نے نہیں کِیا، میرا یہ انکار دشمنی کی وجہ سے نہ تھا۔ مجھے آدم سے دشمنی کی ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ تو خود نزدیک اور دور، جلدی اور دیر کے (زندانیِ نزدیک و دُور و دیر و زُود) یعنی زمان ومکان کے گورکھ دھندوں میں پھنسا ہوا ہے۔


حرفِ ’اِستکبار‘ تیرے سامنے ممکن نہ تھا
ہاں، مگر تیری مشیّت میں نہ تھا میرا سجود

حلِ لغات:

حرفِ استکبارغرور، تکبّر یا بڑائی کی بات
مشیّتمرضی، مراد ہے خدا کی مرضی / ارادہ
سجودسجدہ کی جمع۔ مراد سجدہ کرنا
حلِ لغات (ضربِ کلیم 46: تقدیر (ابلیس و یزداں))

تشریح:

اور نہ ہی مجھ میں اس قدر جسارت ہو سکتی ہے کہ میں تیرے سامنے صاف لفظوں میں تیرے حکم کی تعمیل سے انکار کرتا۔ لیکن یہ انکار جسے اے خدا تُو ”حرفِ استکبار“ سے تعبیر کرتا ہے، اس لیے سرزد ہوا کہ تیری مشیّت (مرضی / ارادہ) ہی یہ نہ تھی کہ میں آدم کو سجدہ کرُوں، یعنی میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ میرا سجدہ نہ کرنا تیری مرضی اور ارادے کے مطابق تھا، پس میں کسی طرح قابلِ سرزنش نہیں ہوں۔

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ

اور جب ہم نے حکم دیا فرشتوں کو کہ سجدہ کرو آدم کو تو سب سجدہ میں گِر پڑے سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کیا اور تکبر (غرور) کیا اور اس تکبر کی بنا پر کافروں میں شامل ہو گیا۔

(حوالہ: القرآن: سورۃ البقرہ: آیت نمبر 34)

یزداں

کب کھُلا تجھ پر یہ راز، انکار سے پہلے کہ بعد؟

حلِ لغات:

کب کھُلاکب روشن یا ظاہر ہوا
رازبھید
حلِ لغات (ضربِ کلیم 46: تقدیر (ابلیس و یزداں))

تشریح:

خدا (یزداں) شیطان کی اس صفائی پر، جو اس نے مذکورہ بالا اشعار میں دی ہے اس سے پوچھتا ہے کہ اچھا، اے ابلیس ذرا یہ تو بتا کہ ہماری مشیّت (مرضی / ارادہ) کا یہ راز، جس کا تُو اب ذکر کر رہا ہے، تیرے آدم کو سجدہ کرنے کے انکار سے پہلے کھلا یا بعد میں؟

ابلیس

بعد، اے تیری تجلّی سے کمالاتِ وجود!

حلِ لغات:

تجلّیجلوہ
کمالاتِ وجودوجود (قدرت) کے کمالات
حلِ لغات (ضربِ کلیم 46: تقدیر (ابلیس و یزداں))

تشریح:

(خدا کے اس سوال پر ابلیس جواب دیتا ہے کہ) اے ذاتِ اقدس! ہستی کے تمام کمالات تیری ہی تجلّی کا کرشمہ ہیں، یہ راز مجھے پر انکار کے بعد کھُلا۔

یزداں (فرشتوں کی طرف دیکھ کر)

پستیِ فطرت نے سِکھلائی ہے یہ حُجتّ اسے
کہتا ہے ’تیری مشیّت میں نہ تھا میرا سجود

حلِ لغات:

پستیِ فطرتفطرت کا پست ہونا، گھٹیا پن
حُجّتدلیل
مشیّتمرضی، مراد ہے خدا کی مرضی / ارادہ
حلِ لغات (ضربِ کلیم 46: تقدیر (ابلیس و یزداں))

تشریح:

اللہ تعالی نے ابلیس کا جواب سن کر فرشتوں کی طرف دیکھا اور ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: سن رہے ہو یہ کیا عرض کر رہا ہے!  اس کی فطرت کی پستی نے اِسے یہ دلیل سکھائی  ہے کہ ”میں انکار پر مجبور تھا، کیونکہ تیری مرضی ہی نہ تھی کہ میں آدم کو سجدہ کروں“۔ انکارِ سجدہ اس نے اپنی مرضی سے کیا اور اب بہانہ کر رہا ہے کہ اے خدا! میں نے جو کچھ کیا تیری مرضی سے کیا ہے یعنی تیرے ارادے اور مرضی میں اگر میرا آدم کو سجدہ کرنا ہوتا تو میں ضرور آدم کو سجدہ کرتا، اس کی یہ بات بالکل غلط ہے۔


دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام
ظالم اپنے شُعلۂ سوزاں کو خود کہتا ہے دُود!

حلِ لغات:

شعلہآگ کی لپیٹ
شعلۂ سوزاںجلا دینے والا شعلہ
دُوددھواں
حلِ لغات (ضربِ کلیم 46: تقدیر (ابلیس و یزداں))

تشریح:

دیکھو تو یہ فریب خوردہ کس قدر دروغ گوئی سے کام لے رہا ہے، اپنی کردہ گناہی کو خدا کی تقدیر بنا کر پیش کر رہا ہے اور تقدیر کا غلط مفہوم بتا رہا ہے۔  میں نے اس کو اس معاملہ میں آزادی دی تھی، یعنی اُسے اختیار بخشا تھا، خواہ یہ سجدہ کرے یا نہ کرے۔ یہ ظالم اپنے شعلۂ سوزاں کو خود ہی دھوئیں سے تعبیر کر رہا ہے، اختیار کو جبر سے تعبیر کر رہا ہے، آزادی کو مجبوری کا نام دے رہا ہے۔۔ یعنی سراسر غلط بیانی کر رہا ہے، خود ہی اپنے وقار اور مقام کی تذلیل کر رہا ہے۔

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments