نظم ”— کی گود میں بلی کو دیکھ کر“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”— کی گود میں بلی کو دیکھ کر“ کا شمار علامہ اقبال کی شاعری کے تیسرے دور (۱۹۰۸ء سے آگے) میں ہوتا ہے۔ چونکہ یہ اپنے انداز و موضوع کے اعتبار سے دوسرے دور (۱۹۰۵ء – ۱۹۰۸ء) یعنی قیامِ یورپ کے دوران کہی گئی نظموں سے قریب تر ہے، اس لیے بانگِ درا کی اشاعت کے وقت اسے دوسرے دور میں شامل کر لیا گیا۔
نظم سے منسوب غلط فہمی
نظم کا عنوان چونکہ مبہم (غیر واضح) ہے، اس لیے اس کے متعلق عوام الناس میں اکثر قیاس آرائیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ نظم عطیہ فیضی کے بارے میں کہی گئی۔ مگر اس قیاس کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چُکا ہے، یہ غلط فہمی ادوار کے رد و بدل سے پیدا ہوئی ہے۔
دوسرا، چند ناقدین نے اسے جاوید اقبال سے بھی منسوب کیا ہے۔ اگر ادوار کا رد و بدل نہ ہوتا تو ناقدین و محققین اسے جاوید اقبال سے ہر گز منسوب نہ کرتے۔
ڈاکٹر شفیق احمد وضاحت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ در حقیقت یہ نظم بَمبا دلیپ سنگھ کے متعلق ہے، وہ سکھ حکمران مہاراجا رنجیت سنگھ کی پوتی تھیں اور اُن کے اور اقبالؔ کے درمیان باہم احترام کا تعلق تھا۔ عنوان میں اُن کا نام شامل نہ کرنے کی یقیناً یہ وجہ نظر آتی ہے کہ نظم کے موضوع سے اِس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض ایک منظر کے مشاہدے سے پیدا یا inspire ہونے والے خیالات کا اظہار ہے جو اتفاقاً بَمبا صاحبہ کے ساتھ پیش آیا۔
نظم ”— کی گود میں بلی کو دیکھ کر“ کی تشریح
تجھ کو دُزدیدہ نگاہی یہ سکھا دی کس نے
رمز آغازِ محبت کی بتا دی کس نے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
دُزدیدہ | کنکھیوں سے دیکھنے کی ادا (کنکھی: ترچھی نگاہ سے دیکھنے کا عمل، آنکھ کی ادا) |
رَمز | بھید، راز |
تشریح:
اِس شعر میں اقبالؔ کہتے ہیں کہ اے بلی، بتاؤ تو، وہ کون ہے جس نے تم کو ان نگاہوں کی تربیت دی ہے اور تمہیں کنکھیوں سے (تِرچھی نگاہوں سے) دیکھنا سکھا دیا ہے۔
چونکہ محبت کرنے والے یوں ہی نظریں چُرا چُرا کر دیکھا کرتے ہیں، اس لیے اقبالؔ نے اس کو محبت کی شروعات کا راز بتایا ہے۔اقبالؔ بلی سے پوچھتے ہیں کہ یہ راز تم پر کس نے آشکار کر دیا۔
ہر ادا سے تری پیدا ہے محبّت کیسی
نیلی آنکھوں سے ٹپکتی ہے ذکاوت کیسی
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
ذکاوت | ذہانت |
تشریح:
تیری ہر حرکت اور ادا محبت کا اظہار کر رہی ہے۔ تیری نیلی آنکھوں سے ذہانت نمایاں ہو رہی ہے۔ در اصل بلی کے طور طریقوں کے حوالے سے محبت کے انداز کی نشاندہی ہو رہی ہے۔
دیکھتی ہے کبھی ان کو، کبھی شرماتی ہے
کبھی اُٹھتی ہے، کبھی لیٹ کے سو جاتی ہے
تشریح:
اے بلّی! کبھی کبھار تُو اپنی مالکہ کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھتی ہے، اور کبھی شرم سے آنکھیں جھکا لیتی ہے۔ کسی لمحے گود سے اُٹھ کر بیٹھ جاتی ہے، اور کبھی بند آنکھوں سے تُو دُنیا کو نظر انداز کرتی ہے۔
آنکھ تیری صفَتِ آئنہ حیران ہے کیا
نُورِ آگاہی سے روشن تری پہچاں ہے کیا
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
صفتِ آئنہ | آئینے کی طرح |
نورِ آگاہی | شعور کی روشنی |
تشریح:
خطاب جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیری آنکھیں ایسے ہیں جیسے کہ آئینے کی طرح حیرت کا منظر پیش کر رہی ہوں۔
کیا تیری پہچان بھی نورِ آگاہی سے روشن ہے؟ ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی لفظ ’پہچان‘ کی تشریح کرتے ہوئے اسے ”حُسن یا قبح (نقص / خرابی) کو پرکھنے کا مادہ“ قرار دیتے ہیں۔
مارتی ہے انھیں پونہچوں سے، عجب ناز ہے یہ
چھیڑ ہے، غُصّہ ہے یا پیار کا انداز ہے یہ؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
پوہنچوں | پنجوں |
تشریح:
تُو نے ناز و انداز کے اظہار کے لیے بہت خوبصورت طریقے سیکھے ہیں، کہ کبھی اپنی مالکہ پر پنجے آزماتی ہے اور کبھی خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔ اس سے پتا نہیں چلتا کہ یہ نفرت اور غصہ ہے یا محبت کا کوئی انداز۔
شوخ تُو ہوگی تو گودی سے اُتاریں گے تجھے
گِر گیا پھُول جو سینے کا تو ماریں گے تجھے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
شوخ | شرارتی |
تشریح:
شاید تجھے خبر نہ ہو کہ ایسی شوخ ادائیں زیادہ دکھانے سے تیری مالکہ تجھے اپنی گود سے نکال دے گی اور اگر تیرا پنجہ لگنے سے اُس کے سینے پر لگا ہوا پھول اُتر گیا، تو تجھے اِس کی سزا بھی مل سکتی ہے۔
کیا تجسّس ہے تجھے، کس کی تمنّائی ہے
آہ! کیا تُو بھی اسی چیز کی سودائی ہے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
تجسّس | کھوج، تحقیق، تلاش، جستجو |
تمنائی | خواہش رکھنے والی |
سودائی | شیدائی، دیوانی |
تشریح:
تجھے کس بات کا تجسّس ہے، اور کس چیز کی تمنّا ہو رہی ہے؟ تیرے دل میں کونسی خواہش پوشیدہ ہے، کیا تُو بھی اسی کی دیوانی ہے؟
اقبالؔ کی فطرت سے متاثر یا مشاہدے سے پیدا شاعری کا یہ موضوع رہا ہے۔ وہ پریشانی اور تلاش جو انسان کو شعور عطا ہونے سے ملی ہے، اسی کی وجہ سے انسان اپنے رب کی تلاش میں رہتا ہے۔ اقبالؔ فطرت سے سوال کے ذریعے اس خیال کو بار بار اُجاگر کرتے ہیں۔ مثلاً یہاں وہ بلی سے کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ تلاش اور یہ تجسّس تو ایک ہی صورت میں پیدا ہوتا ہے، اور وہ شعور کی موجودگی ہے۔ کہیں تجھ میں بھی تو یہ شعور نہیں؟
خاص انسان سے کچھ حُسن کا احساس نہیں
صُورتِ دل ہے یہ ہر چیز کے باطن میں مکیں
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
باطن | چھپا ہوا |
مکین | رہنے والا |
تشریح:
کیا تیرے رویے سے یہ سمجھا جائے کہ حُسن کا احساس (aesthetic consciousness) صرف انسان تک محدود نہیں بلکہ جانوروں کو بھی عطا ہوا ہے؟
کیونکہ ہر جاندار کے پاس دل موجود ہے اور شعور اور شعور کی گہرائیوں میں اُترنے کا راستہ (یعنی عشق) کا مسکن دل ہی ہوتا ہے۔
شیشۂ دہر میں مانندِ مئے ناب ہے عشق
رُوح خورشید ہے، خونِ رگِ مہتاب ہے عشق
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
دہر | دنیا |
مئے ناب | خالص شراب |
خورشید | سورج |
مہتاب | چاند |
تشریح:
اس زمانے میں عشق بالکل اسی طرح ہے جس طرح شراب کے پیالے میں شراب ہوتی ہے۔ عشق تو سورج کی روح ہے، اور چاند کی کرنوں کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔
دلِ ہر ذرّہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی
نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
پوشیدہ | چُھپی |
کسک | ہلکا ہلکا درد، خلش |
جھلک | جلوہ |
تشریح:
دل کے ہر ذرے کی گہرائیوں میں اگر نظر ڈالی جائے تو عشق کی خلِش نظر آتی ہے۔ یعنی دنیا کے ایک ایک ذرّے کے دل میں اس کی چُبھن موجود ہے۔ یہ ایسی روشنی ہے جس کے اثرات ہر چیز میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
کہیں سامانِ مسرّت، کہیں سازِ غم ہے
کہیں گوہر ہے، کہیں اشک، کہیں شبنم ہے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
سامانِ مسرت | خوشی کی وجہ |
گوہر | قیمتی پتھر، قیمتی پتھر |
اشک | آنسو |
تشریح:
بلکہ یہ عشق اپنی متضاد خصوصیات ظاہر کرتا ہے، کہیں تو خوشی کی وجہ بنتا ہے، کہیں پر غم اور رنج کی۔ کہیں تو یہ نایاب اور قیمتی موتی کی مانند ہے، جبکہ دوسری طرف، شبنم کی طرح گرتے اشک، عشق ہیں۔
تبصرہ
اقبالؔ نے عشق کو اُس منصب پر بٹھایا ہے جس کی مثال اس سے پہلے پورے عالمِ اسلام کے ادب میں کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی۔
بالِ جبریل 124: مسجدِ قرطبہ از علامہ اقبال
عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰؐ
عشق خدا کا رُسول، عشق خدا کا کلام
اِس نظم میں اقبالؔ نے ایک منظر کے حُسن سے متاثر ہو کر شاعری کی۔ آخری پانچ اشعار میں اس حُسن کا عشق کے ساتھ تعلق جوڑا گیا ہے۔
حُسن اور عشق کے اس تعلق پر جناب وزیر آغا اپنے مضمون ”اقبالؔ کا تصورِ عشق“ میں کہتے ہیں:-
عشق میں پہلا مرحلہ وہ ہے جہاں عشق حُسن کو اپنے سامنے پاکر مبہوت (حیرت زدہ) ہوجاتا ہے۔ گویا حُسن کی نمود ہی سے عشق کا جوالامُکھی (آتش فشاں) جاگتا ہے اور پھر باہر کی طرف امڈنے پر خود کو مجبور کر پاتا ہے۔
مضمون: اقبالؔ کا تصوّرِ عشق از وزیر آغا
یعنی اقبالؔ کے عشق کا پہلا مرحلہ حُسن ہے۔ یہ جان لینے سے اس سادہ سی نظم میں ایک نئی معنویت پیدا ہوتی ہے اور اقبالؔ کا شروع کا کلام، اُن کے کُلّی پیغام کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔