Skip to content
بانگِ درا 45: ابر

بانگِ درا 45: ابر


نظم ”ابر“ از علامہ اقبال

تعارف

1904ء میں علامہ اقبال سیر و تفریح کے لیے ایبٹ آباد تشریف لے گئے تھے۔ نظم ”ابر“ اُس جگہ بیٹھ کر کہی گئی تھی جہاں آج میونسپل کمیٹی کا باغ ہے۔

اقبالؔ کی ابتدائی دور کی شاعری کے متعلق ڈاکٹر روبینہ یاسمین اور ڈاکٹر رانی بیگم اپنی تحقیق میں لکھتی ہیں:-

اقبالؔ اپنی ذہنی تحریک کی بدولت خارجی محرکات سے زیادہ تخیل کی کار فرمائی دکھاتے ہیں۔ اپنے ابتدائی دور کی شاعری میں اقبالؔ کو فطری مناظر و مظاہر سے گہرا لگاؤ نظر آتا ہے اور یہاں اُن کا رویہ ایک فطرت دوست شاعر کا سا ہے جہاں فطری مناظر حقیقی شکل میں موجود ہیں، جو مغربی شعرا کے اثر کا نتیجہ بھی معلوم ہوتا ہے۔

حوالہ: اقبالؔ کی شاعری کے ارتقاء میں فطرت کی آمیزش، از ڈاکٹر روبینہ یاسمین، ڈاکٹر رانی بیگم

علامہ کی اسی دور کی شاعری میں ابرِ کوہسار، گُلِ رنگین، ایک آرزو اور موجِ دریا جیسی اور کئی نظمیں ملتی ہیں۔

نظم ”ابر“ کی تشریح

اُٹھی پھر آج وہ پُورب سے کالی کالی گھٹا
سیاہ پوش ہُوا پھر پہاڑ سربن کا

حلِ لغات:

الفاظمعنی
پُوربمشرق
گھٹابادلوں کا حجوم
سیاہ پوشکالا لباس پہننے ولا
سربن(ایبٹ آباد کے مشرق میں واقع) ایک پہاڑ کا نام
بانگِ درا 45: ابر از علامہ اقبال

تشریح:

آج پھر مشرق کی طرف سے کالے کالے بادل آئے جن کی وجہ سے یوں لگتا ہے کہ سربن نے کالا لباس پہن لیا ہے۔

سربن کی چوٹی، جو ایبٹ آباد کے خوبصورت پہاڑوں میں سے ایک ہے، اس باغ کے بالکل مخالف نظر آتی ہے۔ قدرتی نظاروں سے مالامال نگکی گاؤں بھی کوہِ سربن ہی پر واقع ہے۔ اسی پہاڑ کے دامن میں سلہڈ کا قصبہ اور ایبٹ آباد کا شہر آباد ہے۔  کوہِ سربن میں واقع راجہ رسالو کی غار اپنے تاریخی پس منظر کی وجہ سے مشہور ہے۔

تصویر: کوہِ سربن – ایبٹ آباد


نہاں ہُوا جو رخِ مہر زیرِ دامنِ ابر
ہوائے سرد بھی آئی سوارِ توسنِ ابر

حلِ لغات:

الفاظمعنی
نہاںچھُپا ہوا
رُخِ مہرسورج کا چہرہ
زیرِ دامنِ ابرابر کے دامن کے نیچے
توسنگھوڑا
(بانگِ درا 45: ابر از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

سورج کا چہرہ بادل کے دامن کے نیچے چھُپ گیا ہے۔ سورج کے بادلوں کے پیچھے جانے سے ٹھنڈی ہوا بادل کے گھوڑے پر سوار ہو کر آتی ہے۔ یعنی بادل اور ہوا دونوں کا ظہور ہوتا ہے۔


گرج کا شور نہیں ہے، خموش ہے یہ گھٹا
عجیب مے کدۂ بے خروش ہے یہ گھٹا

بانگِ درا 45: ابر از علامہ اقبال

حلِ لغات:

الفاظمعنی
مے کدہشراب خانہ
بے خروششور و ہنگامے کے بغیر
(بانگِ درا 45: ابر از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

یہ بادل بالکل خاموش ہیں، اس لیے انہیں ایسا شراب خانہ کہا جا سکتا ہے جو بے ہنگامہ ہوں۔

گھٹا کو خاموش شراب خانے سے تعبیر کیے جانے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں:-

  1. شراب نوشوں کی رائے میں کالی گھٹا دعوتِ مے نوشی دیتی ہے، اس لیے گھٹا کو خاموش مے خانے سے تعبیر کرنے میں بڑا لطف پیدا ہوتا ہے۔
  2. شراب خانے میں میخواروں کا شور ہوتا ہے لیکن یہ گھٹا، یہ حسین منظر، جو اپنے دیکھنے والوں کو (بالکل شراب کی طرح) مست و محو کر دیتی ہے، خاموش چلی آ رہی ہے۔

چمن میں حُکمِ نشاطِ مدام لائی ہے
قبائے گُل میں گُہر ٹانکنے کو آئی ہے

بانگِ درا 45: ابر از علامہ اقبال

حلِ لغات:

الفاظمعنی
نشاطمسرت، خوشی
مدامہمیشہ رہنے والی
قبائے گُلپھول کا لباس
گہرموتی، قیمتی پتھر
(بانگِ درا 45: ابر از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

کالے بادلوں کی یہ گھٹا باغ میں اُس مسرّت، خوشی اور شادمانی کو لے کر آئی ہیں جو ہمیشہ رہنے والی ہے، کبھی ختم نہ ہوگی۔

اس کی وجہ سے پھول کے لباس میں موتی ٹانک دیے جائیں گے۔ یہاں بارش کے لیے ’گہر‘ کو استعارہ لیا گیا ہے، کیوںکہ پھولوں پر پڑے بارش کے قطرے بالکل موتیوں کی طرح لگتے ہیں۔


جو پھُول مہر کی گرمی سے سو چلے تھے، اُٹھے
زمیں کی گود میں جو پڑ کے سو رہے تھے، اُٹھے

بانگِ درا 45: ابر از علامہ اقبال

حلِ لغات:

الفاظمعنی
مہرسورج
(بانگِ درا 45: ابر از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

جو پھول سورج کی گرمی سے مُرجھا چلے تھے، وہ بارش کی وجہ سے نئے سرے سے تر و تازہ ہو گئے۔

جن پودوں کی ٹہنیاں مُرجھانے کی وجہ سے زمین کو لگنے لگی تھیں اور یوں لگتا تھا جیسے زمین کی گود میں سو رہی ہیں، وہ پھر سے جاگ اُٹھے۔


ہوا کے زور سے اُبھرا، بڑھا، اُڑا بادل
اُٹھی وہ اور گھٹا، لو! برس پڑا بادل

بانگِ درا 45: ابر از علامہ اقبال

تشریح:

ہوا کی وجہ سے یہ بادل تیزی سے آسمان میں بڑھنے اور اُڑنے لگا۔ ابھی ابھی اور بادل آئے اور بارش برسنے لگی۔

دوسرے مصرعے کی صوتیاتی خوبی یہ ہے کہ الف کی تکرار (اُبھرا، بڑھا، اُڑا) سے بادل کے اُبھرنے کی کیفیّت سامنے آنی لگتی ہے۔


عجیب خیمہ ہے کُہسار کے نہالوں کا
یہیں قیام ہو وادی میں پھِرنے والوں کا

بانگِ درا 45: ابر از علامہ اقبال

حلِ لغات:

الفاظمعنی
کہسارپہاڑ
نہالدرخت، پودا
(بانگِ درا 45: ابر از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

بارش کے اس منظر میں پہاڑ پر موجود درخت ایک عجیب منظر پیش کر رہے ہیں اور وہ منظر یہ ہے کہ اُن درختوں کی ٹہنیوں نے آپس میں مِل کر خیمے کی سی شکل اختیار کر لی ہے۔ وادی میں سیر کرنے والوں کو اسی خیمے کے نیچے ٹھہر جانا چاہیے تاکہ وہ ابر سے محفوظ رہ سکیں۔

علامہ اقبال کہنا چاہتے ہیں کہ ابر برسنے کو ہے۔ بوندا باندی سے محفوظ ہونے کے لیے وہ جگہ بہت موزوں ہے جہاں پر درختوں کے جھُند نے خیمہ بنا رکھا ہے۔

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments