نظم ”مدنیتِ اسلام“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
اقبالؔ نے اِس نظم میں مسلمان کی آئیڈیل (مثالی) زندگی کا نقشہ کھینچا ہے اور فی الحقیقت یہ نظم بہت غور سے پڑھنے کے لائق ہے۔
(شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
نظم ”مدنیتِ اسلام“ کی تشریح
بتاؤں تُجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے
یہ ہے نہایتِ اندیشہ و کمالِ جُنوں
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
مدنیت | تہذیب، تمدن |
نہایتِ اندیشہ | غور اور فکر کی آخری حد، عقل کی بلندی |
کمالِ جنوں | عشق کا کمال |
تشریح:
اے مخاطب! کیا میں تجھے یہ بتاؤں کہ ایک سچے مسلمان کی زندگی کیا ہوتی ہے؟ سُن! مسلمان کی زندگی نہایتِ اندیشہ اور کمالِ جنوں کا امتزاج ہوتی ہے۔ یعنی اُس کی زندگی میں علم اور عشق دونوں دوش بدوش نظر آتے ہیں اور اپنی اعلیٰ سے اعلیٰ صورت میں موجود ہوتے ہیں۔ مسلمان عقل اور عشق کے ان اعلیٰ و ارفع کمالات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی عقل کی تربیت بھی کرتا ہے اور اپنے قلب کی مخفی قوتوں کو بھی اُبھارتا ہے۔ بالفاظِ دیگر وہ فکر اور ذکر، دونوں کا جامع ہوتا ہے۔
طلوع ہے صفَتِ آفتاب اس کا غروب
یگانہ اور مثالِ زمانہ گُونا گُوں!
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
طلوع | سورج کا نکلنا |
صفتِ آفتاب | سورج کی طرح |
یگانہ | مراد جس کی کوئی مثال نہ ہو |
مثالِ زمانہ | زمانے کی طرح |
گُو نا گُوں | رنگ رنگ یا قسم قسم |
تشریح:
مسلمان آفتاب کی طرح، اگر ادھر غروب ہوتا ہے تو اُدھر طلوع ہو جاتا ہے۔ بقول علامہ اقبال:-
؎ جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
(بانگِ درا: طلوعِ اسلام)
ایک مسلمان اپنی صفات کے لحاظ سے اقوامِ عالم کے مقابلہ میں یگانہ ہے اور اپنی گوناگوں کارفرمائیوں کے لحاظ سے زمانہ کی مختلف شانیں رکھتا ہے یعنی مومن کو ایک حالت پر قرار نہیں ہے۔ وہ ہر روز ترقی کی کوشش کرتا ہے اور مدارجِ عالیہ طے کرتا رہتا ہے۔ واضح ہو کہ اقبال کے فلسفہ میں سکون موت کا دوسرا نام ہے۔ چانچہ پیامِ مشرق میں لکھتے ہیں:-
؎ اگر امروزِ تُو تصویرِ دوش است
بخاکِ تُو شرارِ زندگی نیست
اگر تیرا آج کل کی ہی تصویر ہے (اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی) تو تیری مٹی میں زندگی کی چنگاری نہیں ہے (تُو بے حِس اور مُردہ ہے)۔
(پیامِ مشرق: لالۂ طور)
نہ اس میں عصرِ رواں کی حیا سے بیزاری
نہ اس میں عہدِ کُہن کے فسانہ و افسوں
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
عصرِ رواں | موجودہ / دورِ حاضر |
بیزاری | نفرت |
عہدِ کُہن | پُرانا زمانہ |
فسانہ و افسُوں | افسانہ اور جادو – مراد ایسی کہانیاں جن کی کوئی حقیقت نہ ہو |
تشریح:
ایک مومن کی زندگی میں نہ تو عصرِ حاضر (موجودہ زمانہ) کی سی عُریانی، فحاشی اور بے حیائی پائی جاتی ہے اور نہ عہدِ کہن (قدیم زمانہ) کی سی روایات پرستی اور ضعیف الاعتقادی (توہم پرستی) نظر آتی ہے۔
مسلمان کی مدنیت (تہذیب و ثقافت اور تمدن) میں دورِ حاضر کی حیا سے بیزاری نہیں ہے۔ بلکہ اس کے نزدیک حیا نصف ایمان ہے۔ حیا ایک مسلمان، خصوصاً مسلمان عورت کا بنیادی جوہر ہے۔ حیا اور ایمان کے اس تعلق کی بِنا پر مسلمان کی زندگی کے ہر شعبہ میں حیا کار فرما ہوتی ہے اور نہ ہی مسلمان اپنی زندگی میں اساطیری کہانیوں اور افسانوں پر اعتقاد رکھتا ہے اور نہ وہ جادوگری کو مانتا ہے۔ وہ تو صرف توحید و رسالت کا شیدائی ہے، اس لیے اسلامی مدنیت وہ ہے جو ان دو محوروں یعنی توحید و رسالت کے گرد (جو اصل میں ایک ہی مشترکہ محور کے دو جزو ہیں) گھومتی ہے۔
حقائقِ اَبدی پر اساس ہے اس کی
یہ زندگی ہے، نہیں ہے طلسمِ افلاطوں!
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
حقائقِ ابدی | ہمیشہ کی حقیقت |
اساس | بنیاد |
طلسمِ افلاطوں | افلاطوں کا جادو – مشہور یونانی فلسفی افلاطون جو زندگی کو وہم و خیال کہتا تھا |
تشریح:
مسلمان کی زندگی کی بنیاد ہمیشہ قائم رہنے والی حقیقتوں (قرآنی تعلیمات) پر ہوتی ہے اور وہ زندگی کو حقیقی سمجھتا ہے، یعنی وہ افلاطون کی طرح زندگی اور کائنات کو غیر حقیقی (unreal) خیال نہیں کرتا۔ افلاطون کے فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ دُنیا خیالی ہے اور حقیقی دُنیا کا محض ایک پرتو یا سایہ ہے، حقیقی دُنیا کو وہ عالمِ مثال قرار دیتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہو جو شخص افلاطون کے اس باطل فلسفے کو اپنائے گا وہ اِس دُنیا سے گریز اور عملی زندگی سے نفرت کرے گا۔ اس کے برعکس جو شخص زندگی کی حقیقت کو سمجھے گا، وہ اپنے فرائض احسن طریقے سے سر انجام دے گا۔
پروفیسر یوسف سلیم چشتی افلاطون کے اس فلسفے کے بارے میں لکھتے ہیں:-
اقبالؔ نے اس شعر میں دُنیائے فلسفہ کے سب سے بڑے مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے جو یہ ہے کہ کائنات حقیقی ہے یا غیر حقیقی؟ دو ہزار سال سے اس مسئلہ پر طبع آزمائیاں ہو رہی ہیں لیکن ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ صداقت کس قول میں ہے؟ اور نہ کبھی ہو سکتا ہے، کیونکہ:-
؎ انکشافِ رازِ ہستی عقل کی حد میں نہیں
فلسفی یاں کیا کرے، اور سارا عالم کیا کرےافلاطون کا مسلک یہ ہے کہ ہماری خاری دُنیا نقل یا ظل یا پرتو ہے، اُس دنیا کی جو عالمِ مثال میں ہے۔ اصلی یا حقیقی دنیا حواس کی دسترس سے بالا تر ہے۔ ہم اس کا ذہن میں تصور کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ خارج میں موجود نہیں ہے اور جو کچھ خارج میں نظر آتا ہے یہ نقل (copy) یا ظل (shadow) یا پرتو (reflection) یا عکس (image) ہے، حقیقی دُنیا کا۔
افلاطون کہتا ہے کہ عالمِ حسّی (world of senses) کے علاوہ ایک عالم اور بھی ہے۔ جسے وہ عالمِ مثال (world of ideas) سے تعبیر کرتا ہے۔ کائنات میں جو کچھ نظر آتا ہے یہ حقیقی (real) نہیں ہے۔ اِس کی حقیقت یا اصل، اُس عالم میں ہے: مثلاً آدمی کو لے لیجیے، اصلی آدم عالمِ مثال میں ہے، یہاں اُس آدم کا ظل یا عکس ہے۔
چنانچہ ”؏ یہ زندگی ہے نہیں ہے طلسمِ افلاطوں“ میں جو طلسم کا لفظ ہے، وہ ناظرین کو سمجھ میں نہ آتا۔ چنانچہ اب وہ سمجھ سکتے ہیں کہ اقبالؔ نے افلاطون کے فلسفہ کو ”طلسم“ سے کیوں تعبیر کیا ہے۔
پس اتنا لکھنا کافی ہے کہ آگے چل کر اس افلاطونی مسلک نے تہذیب و ثقافت پر جو مضر اثرات مرتب کیے اور مسلمانوں کو اس فلسفہ سے جو نقصان پہنچا، اُسی نے اقبالؔ کو اس فلسفہ کی تردید پر آمادہ کیا۔ چنانچہ اُنہوں نے اسرارِ خودی میں پوری قوت کے ساتھ افلاطونی فلسفہ کی تردید کی ہے اور اس کے علاوہ ہر کتاب میں ضمنی طور پر، اس فلسفہ کی خرابی کو واضح کیا ہے۔
غرض اقبالؔ کہتے ہیں کہ مسلمان کی نظر میں دُنیا اور اس کی زندگی حقیقی ہے۔ یہ دھوکہ، فریب، نقل یا ”مایا“ نہیں ہے۔ یہی زندگی اصلی اور حقیقی ہے، یہی کائنات اصلی اور حقیقی ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی کائنات ایسی موجود نہیں، جس کی یہ کائنات نقل یا ظل ہو۔
قرآن مجید نے اس دنیا یا انسانی زندگی کو غیر حقیقی یعنی موہوم قرار نہیں دیا، بلکہ حقیقی قرار دیا ہے۔ میں نے اس نکتہ کی اس قدر وضاحت اس لیے کی ہے کہ میں اقبالؔ کا وکیل اور شارح ہوں اور اقبالؔ نے ساری عمر افلاطونی فلسفہ کی تردید کی کیونکہ وہ اس کو اسلامی تعلیمات کے خلاف یقین کرتے تھے اور اُن کا عقیدہ یہ تھا کہ اس فلسفہ نے مسلمانوں کی قوتِ عمل کو مفلوج کر دیا ہے۔
شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
عناصر اس کے ہیں رُوح القُدُس کا ذوقِ جمال
عجَم کا حُسنِ طبیعت، عَرب کا سوزِ دُروں!
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
عناصر | عنصر کی جمع – بمعنی مادہ یعنی آگ‘ پانی‘ ہوا اور مٹی |
روح القدس | مقدس روح – مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام |
ذوقِ جمال | حُسن و خوبی کا جذبہ / شوق – نفاست اور پاکیزگی کا ذوق |
عجم | غیر عرب – قدیم ایران کو بھی عجم کہتے ہیں۔ واضح ہو کہ عرب دوسرے ممالک کے لوگوں کو فصاحت و بلاغت میں اپنا ثانی نہیں سمجھتے تھے اس لیے غیر عرب کو عجم اور وہاں کے رہنے والے کو عجمی کہتے تھے۔ |
حُسنِ طبیعت | ذہن کا فطری حُسن کو پسند کرنے کا ذوق، طبیعت کا حُسن |
سوزِ درُوں | سوز و گُداز، عشق |
تشریح:
آخر میں اقبالؔ، مسلمانوں کی زندگی کے عناصرِ ترکیبی کا ذکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مسلمان کی زندگی میں تین چیزیں پائی جاتی ہیں:-
- روح القدس کا ذوقِ جمال
- عجم کا حُسنِ طبیعت
- عرب کا سوزِ دروں
اس کی تشریح یہ ہے کہ جس طرح روح القدس جمال یعنی نیکی، پاکیزگی اور خیر و برکت کا ذوق رکھتی ہے، اسی طرح مسلمان بھی نیکی، پاکیزگی اور اچھی بات کی طرف راغب ہوتا ہے، خلاصہ یہ کہ متقی ہوتا ہے۔ ایران (اہلِ عجم) کے لوگ جس طرح ذہنی اعتبار سے ممتاز ہوئے ہیں، اسی طرح مسلمان بھی علم و فن کا دلدادہ ہوتا ہے اور جس طرح عربوں نے سرکارِ دو عالم ﷺ سے عشق کا نمونہ دُنیا کے سامنے پیش کیا تھا، یا جس طرح عربوں میں محبت اور ایثار کا مادہ ہے، اسی طرح مسلمان کا دل بھی جذبۂ عشقِ رسول ﷺ سے سرشار ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ مسلمان وہ ہے جو مُتقی ہو، طالبِ علم ہو اور عاشقِ رسول ﷺ ہو۔
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- مطالبِ ضربِ کلیم از مولانا غلام رسول مہر