نظم ”فلسفہ“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
ضربِ کلیم کی نظم فلسفہ میں علامہ اقبال نے فلسفہ کی حقیقت بیان کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ فلسفہ عقلی کاوِشوں یا موشگافیوں کا دوسرا نام ہے اور وہ عقلؔ صرف اربابِ جنوں یعنی عاشقانِ حق کے حلقہ میں بیٹھنے سے پیدا ہو سکتی ہے، جو حق و باطل میں اِمتیاز کر سکتی ہے۔
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
فلسفہ یونانی لفظ فلو سوفی یعنی حکمت سے محبت سے نکلا ہے۔ فلسفہ کو تعریف کے کوزے میں بند کرنا ممکن نہیں، لہذا ازمنہ قدیم سے اس کی تعریف متعین نہ ہوسکی۔
فلسفہ علم و آگہی کا علم ہے۔ ایک ہمہ گیر علم جو وجود کے اغراض اور مقاصد دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے۔ افلاطون کے مطابق فلسفہ اشیاء کی ماہیت کے لازمی اور ابدی علم کا نام ہے۔ جبکہ ارسطو کے نزدیک فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود بذات خود اپنی فطرت میں کیا ہیں۔ کانٹ اسے ادراک و تعقل کے انتقاد کا علم قرار دیتا ہے۔ فلسفہ کو ان معنوں میں ’’ام العلوم‘‘ کہہ سکتے ہیں کہ یہ موجودہ دور کے تقریباً تمام علوم کا منبع و ماخذ ہے۔ ریاضی، علم طبیعیات، علم کیمیا، علم منطق، علم نفسیات، معاشرتی علوم سب اسی فلسفہ کے عطایا ہیں۔
(حوالہ: بابِ فلسفہ از ویکی پیڈیا)
تشریح
افکار جوانوں کے خفی ہوں کہ جَلی ہوں
پوشیدہ نہیں مردِ قلندر کی نظر سے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
افکار | فکر کی جمع۔ خیالات، نظریات، دِل و دماغ کی اُلجھنیں |
خفی | چھُپے ہوئے، باریک، چھوٹے |
جلی | ظاہر، روشن، واضح، نمایاں، موٹے |
پوشیدہ | چھُپے ہوئے |
تشریح:
قوم کے جوانوں کے افکار– خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں، قلندر کی نگاہ سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
معلوم ہیں مجھ کو ترے احوال کہ مَیں بھی
مُدّت ہوئی گزرا تھا اسی راہ گزر سے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
احوال | حالتیں، کیفیتیں، واقعات، اطلاعات، صورت حال، کیفیات، اخبار، خبریں |
مُدّت | دیر، عرصۂ دراز |
تشریح:
اے کالج کے مغرب زدہ مسلمان! مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تُو کس قسم کے تشکیک آمیز اور اِلحاد انگیز خیالات میں مُبتلا ہے۔ تیرا دِماغ شکوک و شبہات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ کیونکہ میں خود جب کالج میں، انگریزوں کے مقرر کردہ نصابِ تعلیم (یہ نظام اور نصابِ تعلیم ابھی تک ہمارے سروں پر مسلّط ہے) کا مطالعہ کر رہا تھا، تو اِس قسم کے ناپاک اور غیر اسلامی خیالات کا شِکار رہتا تھا۔ کبھی میں بھی تیری طرح فلسفہ کا مارا ہوا تھا، جب اس کی حقیقت مجھ پر منکشف ہو گئی تو میں اِس سے باز آ گیا کیونکہ فلسفہ کسی چیز کا حل نہیں ہے، یہ حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔
؎ انکشافِ رازِ ہستی عقل کی حد میں نہیںؔ
فلسفی یاں کیا کرے اور سارا عالم کیا کرے
(شاعر: اکبر الہ آبادی)
الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتے نہیں دانا
غوّاص کو مطلب ہے صدَف سے کہ گُہر سے!
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
الفاظ کے پیچ | لفظوں کا ہیر پھیر / گورکھ دھندا |
اُلجھنا | پھنسنا، اٹکنا |
غوّاص | غوطہ لگانے والا |
صدف | سیپ |
گُہر | موتی |
تشریح:
جو عقل و دانِش رکھنے والے لوگ ہیں وہ الفاظ کے گورکھ دھندنے میں خود کو نہیں اُلجھاتے اور فلسفہ سوائے گورکھ دھندے میں اُلجھنے کے اور کُچھ نہیں ہے۔ علامہ یہاں سوالیہ انداز میں پوچھتے ہیں کہ دریا میں غوطہ لگانے والے کا مقصد تو موتی حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ سیپ، جبکہ اور فلسفہ کا مارا ہوا سیپ کے پیچھے پڑا رہتا ہے اور موتی اُس کے ہاتھ نہیں آتا۔
انجامِ خِرد ہے بے حضوری
ہے فلسفہ زندگی سے دُوری
افکار کے نغمہ ہائے بے صوت
ہیں ذوقِ عمل کے واسطے موت
(حوالہ: ضربِ کلیم: ایک فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام)
پیدا ہے فقط حلقۂ اربابِ جُنوں میں
وہ عقل کہ پا جاتی ہے شُعلے کو شرر سے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
حلقۂ اربابِ جنوں | جنوں (عشقِ الہی) کے مالک لوگوں کے حلقے، عاشقانِ اِلہی کے حلقے |
شرر | چِنگاری |
تشریح:
عقل بھی دو قسم کی ہے۔ ایک فلسفہ کے مارے ہوئے لوگوں کی ہے اور وہ شرر اور شعلے میں (صداقت اور کذب میں / حق اور باطل میں / حقیقت اور ظن میں) فرق نہیں کر سکتی۔ ایک عقل عاشقانِ الہی کی ہے، اہلِ عشق و جنوں کی ہے۔ یہ عقل اِس فرق کو سمجھتی ہے۔ اس لیے آدمی کو اس فلسفۂ عقل کے پیچھے لگنے کی بجائے اہلِ عشق کے پیچھے لگنا چاہیے۔ واضح ہو کہ بعض اوقات علامہ اقبال عشق سے وحیِ الہی بھی مُراد لیتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال:-
؏ علم ہے اِبن الکتاب، عشق ہے اُمّ الکتاب!
(حوالہ: ضربِ کلیم: علم و عشق)
جس معنیِ پیچیدہ کی تصدیق کرے دل
قیمت میں بہت بڑھ کے ہے تابندہ گُہر سے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
معنیِ پیچیدہ | مشکل معنی، اُلجھے ہوئے معانی |
تصدیق کرنا | کسی بات یا معاملے کے سچ حق ہونے کی گواہی دینا، شہادت |
تابِندہ گُہر | چمکتا ہوا موتی |
تشریح:
جب تجھے اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے عاشقوں کی صحبت کے طفیل میں وہ عقل حاصل ہو جائے گی (اور اُس عقل کو اِصطلاح میں نورِ قلب کہتے ہیں) تو پھر تیرا دِل جس فلسفہ کی تصدیق کرے پس وہی صحیح ہے اور موتیوں سے بھی زیادہ قیمتی ہے اور جس عقلی مسئلہ کی تصدیق نہ کرے، وہ غلط ہے۔ یعنی جس بات کی تحقیق میں دِل شریک نہیں رہا اور اُسے قرآن کی تعلیم کے مطابق دِل نے تسلیم نہیں کر لیا۔۔ یقین مانو کہ وہ علم، وہ تعلیم، وہ فلسفہ، وہ حِکمت آج نہیں تو کل ختم ہو جائے گی۔ اصل معیار عقل کی تصدیق کی بجائے دِل کی تصدیق ہے اور اسی تصدیق سے اعلی اور گھٹیا معنی و مطلب کا پتا چل سکتا ہے۔
یا مُردہ ہے یا نَزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لِکھّا نہ گیا خونِ جگر سے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
مُردہ | مرا ہوا، بے جان |
نزع کی حالت | مرنے کے قریب ہونے کی حالت |
گِرفتار | پکڑا ہوا، مُبتلا، پھنسا ہوا |
فلسفہ | حکمت، عقل سے مسائل سمجھنے اور حل کرنے کا علم۔ عقلی کاوِشیں / موشگافیاں |
خونِ جِگر سے | جگر کے خون سے، خلوصِ دِل سے، عشق کی کیفیّات میں گُم ہو کر |
تشریح:
یاد رکھ! کہ جو فلسفہ خونِ جِگر سے نہ لِکھا جائے، یعنی جس فلسفہ کو دِل کی تائید حاصل نہ ہو وہ یا تو مُردہ ہے، یا قریب الموت ہے۔ یعنی وہ کسی توجہ کا مستحق نہیں ہے۔ بالکل غلط ہے اور گمراہی کا باعث ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مومن کا دِل یا نورِ ایمانی، فلسفہ کی صحت کی کسوٹی ہے۔ صحیح فلسفہ وہ ہے جس کی صحت کی تصدیق ”دِل“ کر سکے۔ دوسرے الفاظ میں صحیح فلسفہ وہ ہے جو قرآنی تعلیمات (عشق) کی کسوٹی پر پورا اُترے۔
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی