Skip to content
ضربِ کلیم 8: ایک فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام

ضربِ کلیم 8: ایک فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام


”ایک فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام“ از علامہ اقبال

فہرست

نظم ”ایک فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام“ کا تعارف

ضربِ کلیم میں شامل یہ نظم اگرچہ علامہ اقبال نے ایک فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام اُس کے خیالات کی اصلاح کے لیے لکھی تھی، لیکن اس زمانہ کے بہت سے فلسفہ زدہ مسلمان اس سے سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ فلسفہ زدہ اُس شخص کو کہتے ہیں جو وحی کے مقابلہ میں عقلِ انسانی کی برتری کا قائل ہو۔

(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

YouTube video

نظم ”ایک فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام“ کی تشریح

تُو اپنی خودی اگر نہ کھوتا
زُناّریِ برگساں نہ ہوتا

حلِ لغات:

زُنّاریِ برگساںزُناّر پہننے والا۔ زُناّر وہ دھاگہ ہوتا ہے جو ہندو، پُجاری یا برہمن اپنے کندھے کے گرد ڈالتے ہیں۔ اس دھاگے کو جینو کہتے ہیں۔ زُناّریِ برگساں یعنی برگساں کے عقائد کی پیروی کرنے والا

تشریح:

اے نوجوان! تُو اپنے دین (اسلام) سے بیگانگی کے باعث اہنی خودی کو تباہ نہ کردیتا تو کبھی برگساںؔ جیسے حکمائے مغرب کے خیالاتِ باطلہ کا پیرو نہ ہوتا۔ تُو اپنی معرفت سے دُور رہا جس کے باعث فلسفہ دانوں کو اپنا رہنما سمجھتے ہوئے حق سے بھی اور اپنی اصلی حیثیت سے بھی دُور ہوگیا۔ یہاں خودی سے اسلامی زندگی  مراد ہے اور برگساں سے مغربی حکماء کی جماعت مراد ہے۔

برگساں (Henry Bergson)  مشہور فرانسیسی فلسفی ہے جو 1859ء میں پیدا ہوا اور اُس زمانہ میں عقلیت کے خلاف تحریک (Anti-rationalist movement) کا علمبردار تھا۔ اس کے فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ عقل (Intellect) ادراکِ حقائق نہیں کرسکتی، اس لیے ہمیں وجدانؔ (Intuition) کو اپنا رہنما بنانا چاہیے۔ اقبالؔ اور برگساںؔ میں یہی ایک نقطۂ اتصال (مشابہت) ہے۔

(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)


ہیگل کا صَدَف گُہر سے خالی
ہے اُس کا طلِسم سب خیالی

حلِ لغات:

صدفایک قسم کا چھوٹا سمندری جانور جس کے جسم پر ایک سخت خول ہوتا ہے جس کے اندر کی تہہ کا مادہ جم کر موتی بن جاتا ہے
گوہرموتی
طلِسمجادُو، سحر، شعبدہ گری

تشریح:

جس فلسفی (ہیگلؔ) کا تُو پیروکار ہے اُس کی سیپی میں کوئی موتی نہیں، اس کے فلسفے کا تمام جادو خیال پر مبنی ہے۔ حقائق سے کوئی رشتہ نہیں رکھتا۔ اس نے جو خیالات ظاہر کیے ہیں اُن کی حقیقت طلسم سے زیادہ نہیں۔ اس کا فلسفہ بظاہر بہت عظیم الشان نظر آتا ہے لیکن جب اس کے خیالات کا تجزیہ کرتے ہیں تو کچھ پلے نہیں پڑتا۔ گویا کیا برگساںؔ اور کیا ہیگلؔ، بڑے بڑے فلسفہ دانوں نے جو کچھ انسانیت کے لیے کیا ہے، وہ محض بے فائدہ اور بیکار ہے۔ اُنہوں نے انسانوں کو حق کی طرف لانے اور اُن کی بقا کا سامان کرنے کی بجائے مادیات ہی کی طرف متوجہ رکھا، لہذا اُن کی تصانیف میں دلچسپی لینا اپنی حقیقت و حیثیت سے ہاتھ دھونا ہے۔

ہیگلؔ (Goerg Hegel) انیسویں صدی عیسوی کا نہایت مشہور جرمن فلسفی گذرا ہے۔ 1771ء میں پیدا ہوا، 1831ء میں وفات پائی۔ اس کا فلسفہ ایک خاص قسم کی تصوّریت ہے جسے ہیگل کی تصوّریت (Hegelian Idealism) کہتے ہیں اور بعض باتوں میں افلاطون کے مشابہ ہے۔

(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)


محکم کیسے ہو زندگانی
کس طرح خودی ہو لازمانی!

حلِ لغات:

محکممضبوط
زندگانیزندگی، حیات
لا زمانیزمان و مکان کی قید سے آزاد، وقت سے آزاد

تشریح:

ہیگلؔ، برگسانؔ اور دوسرے فلسفی زور ازکار باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب ہے نہ حل کہ زندگی کس طرح مستحکم ہوسکتی ہے۔

مثلاً کانٹ کہتا ہے کہ کائنات کا وجود حقیقی ہے۔۔ اس کے مقابلہ میں ہیگلؔ کہتا ہے کہ غیر حقیقی ہے۔ یہ اور اسی قسم کے صدہا فلسفیانہ مسائل ذہنی دلچسپی کا سامان تو بہم پہنچا سکتے ہیں لیکن ان مسائل سے حیاتِ انسانی مستحکم نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے اسلام نے ہمیں ان مسائل میں الجھانے کی بجائے زندگی کو محکم کرنے کے طریقے بتائے ہیں۔

اقبالؔ کہتے ہیں کہ انسان کو جن مسائل سے فائدہ پہنچ سکتا ہے وہ وہ نہیں جن میں فلاسفہ اُلجھے ہوئے ہیں بلکہ وہ یہ ہیں:-

ا۔ زندگی کیسے محکم ہوسکتی ہے؟

ب۔ خودی کیسے زمان و مکان (Time and Space) کی قیود سے بالاتر ہوسکتی ہے؟


آدم کو ثَبات کی طلب ہے
دستورِ حیات کی طلب ہے

حلِ لغات:

ثَباتبقا، اِستحکام، برقراری
دستُورِ حیاتزندگی کا قانون اور منشاء

تشریح:

انسان کو جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اسے اثبات کسیے حاصل ہو نیز وہ زندگی بسر کرنے کا بہترین نظام چاہتا ہے۔ جن مسائل میں حکماء منہمک رہتے ہیں۔ مثلاً زمانہ موجود ہے یا معدوم ہے؟ اور حقیقی ہے یا غیر حقیقی ہے؟ ان سے ہمارے تمدنی، اقتصادی، معاشی، سیاسی، عمرانی مسائل نہیں ہوسکتے۔

اس کی مثال یوں سمجھیے کہ ایک شخص بھوکا ہے۔ وہ آپ کے پاس آکر روٹی کا طالب ہوا۔ آپ نے اس سے کہا کہ تو صرف روٹی کے طالب ہو۔ میں تم کو یہ بتا سکتا ہوں کہ گیہوں کے عناصرِ ترکیبی کیا ہیں۔ چنانچہ آپ نے پہلے گیہوں کے اجزاء کی تشریح کی۔ پھر علمِ نباتات پر لیکچر دیا۔ اور اس کے بعد یہ بتایا کہ روٹی جب معدہ میں جاتی ہے تو اس کا نشاستہ مٹھاس میں کس طرح تبدیل ہوجاتا ہے اور جگر کیا فعل کرتا ہے۔ پھر اس سے اخلاطِ اربعہ بنتے ہیں و غیر ذالک۔

تو سوال یہ ہے کہ کیا آپ کی تقریر سے اس کی بھوک کا مسئلہ حل ہوگیا؟ کیا اس کا خالی پیٹ بھر گیاَ؟ اب پڑھیے اس شعر کو:-

؎ آدم کو ثبات کی طلب ہے
دستُورِ حیات کی طلب ہے


دُنیا کی عشاء ہو جس سے اِشراق
مومن کی اذاں نِدائے آفاق

حلِ لغات:

عشاءرات، تاریکی
اشراقچمکنا، سورج طلوع ہونا
نِدائے آفاقدُنیا یا کائنات میں گونجنے والی آواز

تشریح:

اے نوجوان! جس بات سے دنیا کی تاریکی دور ہوسکتی ہے یعنی انسانی مشکلات کا خاتمہ ہوسکتا ہے وہ فلسفہ نہیں ہے (کہ وہ محض ظن و تخمین کا نام ہے) بلکہ مومن کی اذان یعنی نکتۂ توحید ہے یعنی ایسا دستورِ حیات جس سے دُنیا کی تاریکی اُجالے میں بدل جائے اور وہ صرف مومن کی پکار میں مضمر ہے، وہ پکار جو ساری دنیا کی آواز بن جائے یعنی جسے کائنات تسلیم کرلے۔


مَیں اصل کا خاص سومناتی
آباء مرے لاتی و مناتی

حلِ لغات:

اصل کاپیدائشی طور پر یا آباء و اجداد کے لحاظ سے
سومناتیجس کا تعلق سومنات سے ہو، مراد ہے ہندو یا برہمن
لاتی و مناتیلات و منات زمانۂ جاہلیت کے عربوں کے دو بُتوں کے نام تھے، لاتی و مناتی سے مُراد ہے بُتوں کا پُجاری

تشریح:

میں (اقبالؔ) اپنی اصل و نسل کے لحاظ سے سومناتی ہوں اور میرے آباء و اجداد بُت پرست تھے (چونکہ سیّد زادے سے اس نظم کو خطاب کیا ہے، اس لیے اب علامہ اپنا اور اُس کا موازنہ کرتے ہیں)


تو سیّدِ ہاشمی کی اولاد
میری کفِ خاک برہمن زاد

حلِ لغات:

کفِ خاکمُٹھی بھر خاک
برہمن زادبرہمن کے گھر پیدا ہونے والا، علامہ اقبال کے آباء و اجداد برہمن تھے

تشریح:

تُو سیّدِ ہاشمی کی اولاد ہے جبکہ میرا جسم برہمنوں کے گھرانے میں وجود پذیر ہوا (اقبالؔ کے آباء و اجداد کشمیری برہمن تھے)


ہے فلسفہ میرے آب و گِل میں
پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں

حلِ لغات:

آب و گِلپانی و مٹّی، مُراد ہے فطرت
پوشیدہچھُپا ہوا
ریشہ ہائے دِلدِل کی رگیں

تشریح:

اگر میں فلسفوں میں گم ہوجاؤں تو بعید نہیں کیونکہ میرے تُخم میں زندگی سے گریز اور فلسفۂ زندگی سے پیار داخل ہے، میرے قلب و نگاہ میں فلسفہ کی چاشنی ہے

فلسفہ میرے خمیر میں ہے اور میری رگ رگ میں پوشیدہ یعنی سمایا ہوا ہے۔ (کیونکہ برہمنوں کا مشغلۂ حیات فلسفہ ہی ہے)


اقبالؔ اگرچہ بے ہُنر ہے
اس کی رگ رگ سے باخبر ہے

حلِ لغات:

رگ رگ سےایک ایک بات، ایک ایک مسئلہ سے
با خبرواقف، آگاہ، جاننے والا

تشریح:

یہ تسلیم کہ میں بے ہنر ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس فلسفے میں تُو الجھا ہوا ہے، میں اُس کی رگ رگ سے آشنا ہوں


شُعلہ ہے ترے جُنوں کا بے سوز
سُن مجھ سے یہ نکتۂ دل افروز

حلِ لغات:

جنوںدیوانگی، عشق
بے سوزجس میں کوئی تپش و حرارت نہ ہو
نُکتۂ دِل افروزدِل کو روشن کرنے والی گہری و باریک بات

تشریح:

تیرے اس جنون میں کوئی لگن اور تڑپ نہیں ہے۔ یہ بس ایک عارضی شوق ہے۔ میں اپنی ساری عمر کے تجربہ کا خلاصہ تجھ سے بیان کرتا ہوں، چنانچہ اب مجھ سے دِل کو روشنی بخشنے والا نکتہ سُن لے


انجامِ خِرد ہے بے حضوری
ہے فلسفہ زندگی سے دُوری

حلِ لغات:

انجامِ خِردعقل کا انجام
بے حضوریحاضر یا موجود نہ ہونا، مراد ہے مناظرِ قدرت میں موجود خدا کی تجلّی سے بیگانہ رہنا
زندگی سے دُوریزندگی کی جد و جہد سے دُور رہنا

تشریح:

انجامِ خِرد ہے بے حضوری؟ یعنی عقل کی بھاگ دوڑ خدا کی بارگاہ تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی۔ اللہ کے علوم جاننے کے لیے قلب کی بیداری شرط ہے۔ کیونکہ فلسفہ انسان کو زندگی سے دُور لے جاتا ہے۔۔ فلسفے کا تعلق صرف عقل سے ہے، دِل سے نہیں۔۔ جبکہ دِل عقل پر غالب ہے۔ دِل کی منزل تک عقل نہیں پہنچ سکتی، وہ تو چار قدم تھک کر بیٹھ جاتی ہے۔ عقل میں کھوئے ہوئے انسان ایمان و یقین کی دولت سے محروم رہتے ہیں اور فلسفیوں کی مختلف مسائل سے متعلق بحثیں زندگی کی حقیقتوں سے بہت دور اور بے جا قسم کی ہوتی ہیں۔

آدمی کتنا ہی بڑا فلسفی کیوں نہ ہو، محض فلسفہ سے زندگی کے پیچیدہ مسائل حل نہیں کرسکتا۔ زندگی سے دوری کے معنی یہ ہیں کہ فلسفی یہ تو بتا سکتا ہے کہ علم اور عالم اور معلوم میں کیا نسبت ہے یا علمِ حاضر عندالمدرک کو کہتے ہیں یا ما بہ الانکشاف کو۔ لیکن وہ زندگی کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تمدنی مسائل کا حل نہیں کرسکتا۔


افکار کے نغمہ ہائے بے صوت
ہیں ذوقِ عمل کے واسطے موت

حلِ لغات:

افکارفکر کی جمع، فلسفہ کی باتیں
نغمہ ہائے بے صوتبے آواز نغمے یا ترانے
ذوقِ عملعمل کا ذوق، جد و جہد کا شوق
موتفنا

تشریح:

عقل اور اس کی تمام تر فکر ایک ایسے نغمہ کی مثال ہے جو آواز نہ رکھتا ہو۔ عقل کے فیصلے ذوقِ عمل کے واسطے موت ہیں۔ عقل عمل کی راہوں کو محدود و مسدود کردیتی ہے۔ تنہا عقل خود اپنے فیصلوں میں الجھ کر رہ جاتی ہے (عقل کے ساتھ ساتھ بصیرت کا ہونا ضروری ہے)۔ فلسفہ میں انہماک انسان کی قوتِ عمل کو مردہ کردیتا ہے اور فلسفی آدمی حجرہ میں بیٹھ کر غور و فکر تو کرسکتا ہے لیکن نہ تزکیۂ نفس کرسکتا ہے، نہ اس میں جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ پیدا ہوسکتا ہے اور نہ وہ جہد و عمل کی طرف آسکتا ہے۔۔۔ اپنی بقا کا سامان نہ کرنے کے باعث محض ایک چلتی پھرتی لاش بن کر رہ جاتا ہے۔


دیں مسلکِ زندگی کی تقویم
دیں سِرِّ محمدؐ و براہیمؑ

حلِ لغات:

مسلکِ زندگیزندگی کا راستہ
تقوَیمکیلنڈر، جنتری، دستُور العمل
سِرِّ محمدؐ و براہیمؑمحمد ﷺ اور ابراہیم علیہ السلام کا راز

تشریح:

لیکن فلسفہ کے مقابل دین ایک حقیقتِ ثابتہ ہے۔ دین یعنی اسلام فلسفہ کی طرح چند نظریات یا قیاسات یا تخمین و ظن کا نام نہیں بلکہ وہ مسلکِ زندگی کی تقویم ہے یعنی زندگی بسر کرنے کا دستورالعمل ہے اور حیاتِ انسانی کے لیے مکمل ضابطہ ہے۔

دینِ اسلام، جسے خدا نے الدّین کہا ہے، زندگی کی راہوں کو سیدھا کرتا ہے، اور یہی دین انسان کو محمد ﷺ اور ابراہیمؑ بنا دیتا ہے۔ یہ حضور اکرم ﷺ اور حضرت ابراہیمؑ کا راز ہے، یہ آنحضور ﷺ اور حضرت ابراہیمؑ  کے روحانی کمالات کا آئینہ ہے۔ اس دین میں ان قدسی نفوس کی عظمت پوشیدہ ہے۔ اگر کسی کو مثلاً آنحضرت ﷺ کے مقام سے آگاہی مقصود ہو تو دینِ اسلام اور اس کے اصول و فروع کا مطالعہ کرے۔


”دل در سُخنِ محمدیؐ بند
اے پورِ علیؓ ز بُوعلی چند!

حلِ لغات:

درچوکھٹ، دروازہ، پر
سُخنِ محمدیؐمحمد ﷺ کی باتیں، آپ ﷺ کا اسوۂ حسنہ
پُورِ علیؓعلیؓ کا بیٹا، مراد ہے سیّد زادہ
بُو علیبو علی سینا؛ مشہور فلسفی

تشریح:

دِل محمد ﷺ کے ارشادِ گرامی میں بند ہے۔ یعنی دِل زندگی کی اُن راہوں کو تسلیم کرتا ہے جو حضرت محمد ﷺ نے انسانیت کے لیے کھول دی ہیں۔ اے حضرت علیؑ کے بیٹے! بُو علی سینا جیسے حکماء اور فلاسفہ کی پیروی مت کر!

پس اے مسلمان نوجوان! ہیگلؔ اور برگسانؔ یعنی فلسفۂ مغرب سے قطع تعلق کرکے سرکارِ دوعالم ﷺ کے ارشاداتِ گرامی یعنی حدیث شریف کا مطالعہ کر۔ یہ مت دیکھ کہ حکمائے مغرب کیا کہتے ہیں کیونکہ وہ خود اندھے ہیں اور اندھا دوسروں کو راستہ نہیں دکھا سکتا بلکہ یہ دیکھ کہ فلاں مسئلہ میں سرکارِ دوعالم ﷺ کیا فرماتے ہیں۔

نوٹ: بو علی سینا دسویں صدی عیسوی میں دنیائے اسلام کا نامور حکیم اور فلسفی گذرا ہے۔ منطق، فلسفہ اور طب میں یدِ طولیٰ رکھتا تھا۔ اس نے ارسطو کے فلسفہ کی شرح لکھی ہے۔ اس کی دو کتابیں اشارات اور شفاء، بہت مشہور ہیں۔ محقق طوسی نے اشارات کی شرح لکھی ہے اور یہ کتاب عام طور پر ہمارے عربی مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔


چوں دیدۂ راہ بیں نداری
قاید قرشی بہ از بخاری٭“

حلِ لغات:

چُوںکیونکہ
دیدۂ راہ بیںراستہ دیکھنے والی آنکھ، راستہ پہچاننے والی آنکھ
نداریکوئی چیز پاس نہ رکھنے والا، جس کے پاس کُچھ نہ ہو
قایدرہنما
قرشیقبیلۂ قریش سے تعلق رکھنے والا
بخاریبُخارا کا رہنے والا

تشریح:

اگر کوئی راستہ  دیکھنے والی آنکھ نہیں رکھتا تو قریشی خاندان کا راہبر بہتر ہے بخارا کے باشندے سے۔

آخر میں علامہ اس نوجوان کو واسطے سے مسلمان نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ اگر “دیدۂ راہ بیں” حاصل نہ ہو یعنی اگر تمہیں اسلامی علوم سے آگاہی نہ ہو تو پھر تمہارے لیے محفوظ راستہ یہ ہے کہ تم بخاری کی بجائے قرشی کو اپنا رہنما بناؤ۔ بخاری کے لغوی معنی ہیں بخارا کا رہنے والا، مرادی معنی ہیں بو علی بن سینا کیونکہ وہ مدتوں امیرِ بخارا کا طبیب رہا ۔ قرشی کے لغوی معنی ہیں قبیلہ قریش سے تعلق رکھنے والا، مرادی معنی ہیں دینِ اسلام کا جاننے والا۔۔

یعنی جب تُو راستہ دیکھنے والی آنکھ سے محروم ہے تو اس صورت میں تیرے لیے یہی بہتر ہے کہ تُو بو علی سینا کی بجائے حضور اکرم ﷺ کو اپنا رہنما بنا لے تاکہ تُو صحیح معنوں میں ایک مردِ مومن بن سکے۔

(٭فارسی اشعار حکیم خاقانیؔ کے ”تحفۃ العراقین“ میں سے ہیں)

تبصرہ

یہ بڑی سبق آموز نظم ہے اور اس میں اقبالؔ نے دین اور فلسفہ دونوں کا بہت عمدگی کے ساتھ موازنہ کیا ہے اور اس ضمن میں اپنا زاویہ نگاہ بھی واضح کردیا ہے یعنی اقبالؔ فہمی کے لیے یہ نظم بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے، اس لیے غور سے مطالعہ کرنا چاہیے۔

(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments