Skip to content
بانگِ درا 140: شعاعِ آفتاب

بانگِ درا 140: شعاعِ آفتاب


نظم ”شعاعِ آفتاب“ از علامہ اقبال

تعارف

علامہ اقبال نے نظم ”شعاعِ آفتاب“ 15 دسمبر 1918ء کو ایک مشاعرے میں پڑھی جو گورنر پنجاب سر مائیکل اوڈوائیر کے حکم پر جنگِ عظیم اوّل میں اِتّحادیوں کی فتح کے سلسلے میں منعقد ہوا تھا۔ یہ نظم پہلی مرتبہ 1919ء کو اخبار ”حق“ میں شائع ہوئی۔ نظر ثانی میں فرہنگ اقبالؔ اور باقیاتِ اقبالؔ کے مطابق اِس نظم کا صرف آخری شعر بدلا گیا، جب کہ مولانا مہر کے مطابق ساتویں شعر کے پہلے مصرع میں بھی جزوی ترمیم ہوئی۔ سرودِ رفتہ میں یہ مصرع اور متروک شعر دونوں کا متن درج ہے۔

مولانا غلام رسول مہر کے مطابق اِس نظم میں کی گئیں ترامیم:-

1- ساتویں شعر کے پہلے مصرع کا ابتدائی ٹکڑا بدل دیا گیا۔

2- نظم کا آخری شعر ابتدا میں یوں تھا:-

؎ کُند تلواریں ہوئیں عہدِ زرہ پوشی گیا
جاگ اُٹھا تُو بھی کہ دورِ خود فراموشی گیا

(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد، مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)

YouTube video

بند نمبر 1

صبح جب میری نگہ سودائیِ نظّارہ تھی
آسماں پر اک شُعاعِ آفتاب آوارہ تھی

بانگِ درا 140: شعاعِ آفتاب از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
شعاعکِرن
آفتابسورج
سودائیِ نظّارہنظّارے کا مُشتاق
آوارہگھومنے پھرنے والا / والی
حلِ لغات (بانگِ درا 140: شعاعِ آفتاب)

تشریح:

علامہ اقطال کی یہ نظم بھی ”بانگِ درا“ کی دوسری بعض نظموں کی طرح مناظرِ فطرت کے حوالے سے تخلیق کی گئی ہے۔ اِس نظم میں آفتاب کی ایک شعاع کو اُنہوں نے اظہار کا موضوع بنایا ہے۔ نو اشعار کی یہ نظم دو حصوں پر مشتمل ہے۔ فرماتے ہیں کہ صبح کے لمحات میں جب میری نگاہیں مناظرِ فطرت کا جائزہ لینے کے لیے بے تاب ہو رہی تھیں تو میں نے آسمان پر آفتاب کی ایک کرن کو بے چینی و بے قراری کے عالم میں اِدھر اُدھر سر گرداں پایا۔


مَیں نے پُوچھا اُس کرن سے ”اے سراپا اضطراب!
تیری جانِ ناشکیبا میں ہے کیسا اضطراب

بانگِ درا 140: شعاعِ آفتاب از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
سراپا اِضطراببہت بے چین، بے قرار
نا شکیبابے صبر، بے قرار
حلِ لغات (بانگِ درا 140: شعاعِ آفتاب)

تشریح:

میں نے اُس سے سوال کیا کہ تُو جو سر سے پاؤں تک یعنی مکمل طور پر بے قراری ہی بے قراری ہے، تیری بے صبر جان میں یہ بے تابی اور بے چینی کیسی ہے ؟ آخر تُو اس قدر کیوں تڑپ رہی ہے اور تیری جان کو قرار کیوں نہیں آتا؟


تُو کوئی چھوٹی سی بجلی ہے کہ جس کو آسماں
کر رہا ہے خرمنِ اقوام کی خاطر جواں

بانگِ درا 140: شعاعِ آفتاب از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
خرمنِ اقوامقوموں کا ڈھیر۔ مراد قومیں
خاطِرواسطے، لیے
حلِ لغات (بانگِ درا 140: شعاعِ آفتاب)

تشریح:

کیا تُو کوئی چھوٹی سی بجلی ہے، جسے آسمان قوموں کے کھلیانوں کو خاکستر کر دینے کے لیے پال کر جوان کر رہا ہے؟ یعنی کیا تُو وہ بجلی تو نہیں جو اُن اقوام پر گرتی ہے جو اللہ تعالی کے قوانین پر عمل نہیں کرتیں اور بالآخر ذِلّت اور تباہی اُن کا مقدّر بن جاتی ہے۔


یہ تڑپ ہے یا ازل سے تیری خُو ہے، کیا ہے یہ
رقص ہے، آوارگی ہے، جُستجو ہے، کیا ہے یہ؟“

حلِ لغات:

الفاظمعنی
ازلآغازِ آفرینش، اِبتدائے زمانہ، مُدّت جس کی ابتدا نہ ہو، ہمیشگی
خُوعادت
رقصناچ
آوارگییونہی چلنا پھِرنا
جُستجُوتلاش
حلِ لغات (بانگِ درا 140: شعاعِ آفتاب)

تشریح:

علامہ اقبال کِرن سے استفسار جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں ہیں کہ اے کِرن! تیرا اِدھر اُدھر گھومنا، تیری تڑپ اور بے تابی کی وجہ سے یہ یا ازل سے اللہ نے اسے تیری عادت بنا دیا ہے۔ اسے تیرا ناچ اور آوارگی کہنا چاہیے یا تجھے کسی چیز کی تلاش ہے جس کی وجہ سے تُو اِدھر اُدھر گھومتی پھرتی ہے۔

بند نمبر 2

”خُفتہ ہنگامے ہیں میری ہستیِ خاموش میں
پرورش پائی ہے مَیں نے صُبح کی آغوش میں

حلِ لغات:

الفاظمعنی
خُفتہسویا ہوا
ہستیوجود، زندگی
آغوشگود
حلِ لغات (بانگِ درا 140: شعاعِ آفتاب)

تشریح:

(علامہ اقبال کے اس سوال پر کرن بولی کہ) میرے خاموش وجود میں کئی ہنگامے سوئے پڑے ہیں کیونکہ میں نے صبح کی گود میں پرورش پائی ہے۔ (سورج طلوع ہونے پر دن چڑھتا ہے اور انسان کاروبار میں لگ جاتے ہیں جو گویا ہنگامے کی صورت ہیں۔)


مُضطرب ہر دَم مری تقدیر رکھتی ہے مجھے
جُستجو میں لذّتِ تنویر رکھتی ہے مجھے

حلِ لغات:

الفاظمعنی
مضطرببے چین، بے تاب، بے قرار
جُستجُوتلاش
لذّتِ تنویرروشنی کی لذّت، نور حاصل کرنے کی خواہش
حلِ لغات (بانگِ درا 140: شعاعِ آفتاب)

تشریح:

یہ اضطراب و بے چینی میری فطرت ہی میں داخل ہے (میری قسمت ہی مجھے بے چین رکھتی ہے) اور روشنی کی لذت ہی مجھے تلاش و جستجو اور لگن میں رکھتی ہے (میں نور حاصل کرنے کی جستجو میں بے تاب رہتی ہوں)


برقِ آتش خُو نہیں، فطرت میں گو ناری ہوں مَیں
مہرِ عالم تاب کا پیغامِ بیداری ہوں مَیں

حلِ لغات:

الفاظمعنی
برقِ آتش خُوآگ کا مزاج رکھنے والی بجلی
فطرتسرِشت
گواگرچہ
ناریآگ کی بنی ہوئی
مہرِ عالم تابجہان کو روشن کرنے والا سورج
بیداریجاگنا
حلِ لغات (بانگِ درا 140: شعاعِ آفتاب)

تشریح:

یہ درست ہے کہ اپنی فطرت کے اعتبار سے میں آگ کی پیداوار ہوں، اس کے باوجود میری عادتوں میں برق جیسا رویّہ موجود نہیں ہے یعنی بجلی اور آگ کی طرح کسی شے کو جلا کر خاکستر میں تبدیل کرنے کی قائل نہیں البتّہ یہ ضرور ہے کہ سورج جو طلوع کے بعد ساری دنیا کو اپنے احاطے میں لے لیتا ہے، اس کی جانب سے کائنات کے لیے بیداری کا پیغام ہوں۔ یعنی میرا کام دوسروں کو جلانا نہیں بلکہ بیدار کرنا ہے۔


سُرمہ بن کر چشمِ انساں میں سما جاؤں گی مَیں
رات نے جو کچھ چھُپا رکھّا تھا، دِکھلاؤں گی مَیں

حلِ لغات:

الفاظمعنی
چشمِ اِنساںاِنسان کی آنکھ / آنکھیں
سما جاناداخل ہو جانا، جگہ پا لینا
حلِ لغات (بانگِ درا 140: شعاعِ آفتاب)

تشریح:

میں سُرمہ بن کر انسان کی آنکھوں میں سما جاؤں گی اور رات کی تاریکی نے جو کُچھ چھُپا رکھا تھا وہ دکھلا دوں گی۔ دِن چڑھنے پر ہر چیز صاف نظر آنے لگتی ہے یہ گویا انسان کی آنکھوں میں سُرمہ ڈالنا ہے جس سے نظر تیز ہو جاتی ہے۔


تیرے مستوں میں کوئی جویائے ہشیاری بھی ہے
سونے والوں میں کسی کو ذوقِ بیداری بھی ہے؟“

حلِ لغات:

الفاظمعنی
جُویائے ہشیاریہوش کو تلاش کرنے والا، ہوش کا متلاشی
ذوقشوق
ذوقِ بیداریجاگنے کا شوق
حلِ لغات (بانگِ درا 140: شعاعِ آفتاب)

تشریح:

اِس لیے تجھ سے یہ دریافت کرتی ہوں کہ تیری بے خبر اور سوئی ہوئی قوم میں کوئی شخص ہوشیاری اور بیداری کا بھی ذوق رکھتا ہے اور کیا وہ اسرارِ کائنات کو سمجھنے اور فطرت کا مطالعہ کرنے کا آرزو مند ہے تاکہ میں اُس کی آنکھوں میں بھی سُرمہ بن کر سما جاؤں؟ یہ نظم مسلمانوں کے لیے بیداری کا پیغام ہے اور علامہ اقبال کا طریقہ یہی تھا کہ وہ جس قدرتی منظر کو دیکھتے تھے، اُس کا سماں پیش کرتے ہوئے اپنے اصل پیغام کے لیے ایک موقع پیدا کر لیتے تھے۔

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments