نظم ”اہلِ مصر سے“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”اہلِ مصر سے“ میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کو یہ بتایا ہے کہ کسی نظامِ زندگی کو رائج کرنے کے لیے محض عقل کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ قوّت بھی ضروری ہے۔ اگر قوّت نہ ہو تو دستورالعمل یا معاہدہ یا آئین کی قیمت ردّی کے کاغذ کے پُرزہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔
(شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
نظم ”اہلِ مصر سے“ کی تشریح
خود ابوالہول نے یہ نکتہ سِکھایا مجھ کو
وہ ابوالہول کہ ہے صاحبِ اَسرارِ قدیم
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
ابو الہول | قدیم مصری زمانے کا ایک بُت جسے پہاڑ کاٹ کر بنایا گیا۔ یہ 80 فُٹ اونچا اور بڑا ہی ڈراؤنا ہے۔ اس کا جسم شیر کا اور چہرہ انسان کا ہے۔ اس کو عربی میں ابو الہول کہتے ہیں۔ |
نُکتہ | باریک بات |
صاحبِ اسرارِ قدیم | پُرانے بھید جاننے والا / قدیم اسرار و رموز کا مالک |
تشریح:
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ خود ابوالہول نے، جو کائنات کے قدیم اسرار و رموز سے واقف ہے، یہ نکتہ مجھے سمجھایا ہے۔
ابو الہول مصر میں واقع ایک 4500 سال قدیم مجسمہ ہے جس کا جسم تو شیر کا ہے مگر سر انسان کا۔ اس کی لمبائی 189 فٹ، اور اونچائی 65 فٹ کے قریب ہے۔ دور سے دیکھیں تو پہاڑ سا نظر آتا ہے۔ یہ مجسمہ تقریباً تین ہزار سال قبل مسیح ایک بڑی چٹان کو تراش کر بنایا گیا تھا۔ اس کے پنجے اور دھڑ شیر کے ہیں اور سر انسان کا۔ امتدادِ زمانہ سے اس کی صورت بگڑ گئی ہے۔ ڈاڑھی اور ناک ٹوٹ چکی ہے اور اس کا وہ پروقار تبسم جس کا ذکر قدیم سیاحوں نے کیا ہے، ناپید ہوچکا ہے۔ اب یہ ایک ہیبت ناک منظر پیش کرتا ہے۔ اسی وجہ سے عربوں نے اس کا نام ابوالہول یعنی (خوف کا باپ) رکھ دیا ہے۔
اہرامِ مصر، جن کی تعمیر ماہرین کے لیے آج بھی ایک مُعَمّا بنی ہوئی ہے، کہا جاتا ہے یہ مجسمہ اُن سے بھی پہلے کا ہے۔ گویا یہ مجسمہ ہزاروں سال سے قوموں کے عروج و زوال کا نظارہ کرتا آ رہا ہے، اور اس سے متعلق ایک باریک بات اِس نظم میں اقبالؔ پر منکشف کر رہا ہے۔
ابوالہول (Great Sphinx of Giza) میں انسان اور شیر کی خصوصیات کا امتزاج انسانی فطرت کے دوہرے پن کی علامت ہے۔ یہ مجسمہ ممکنہ طور پر مصر کے حاکمِ (فرعون) کی نمائندگی کرتا ہے۔ اِس کا انسانی چہرہ فرعون کی حکمت، اختیار اور قیادت کو مجسّم کرتا ہے۔ شیر کا جسم فرعون کی طاقت، عظمت اور بہادری کا اظہار کرتا ہے اور ایک طاقت ور اور دِلیر رہنما کے طور پر فرعون کے کردار کو اُجاگر کرتا ہے۔
دفعۃً جس سے بدل جاتی ہے تقدیرِ اُمم
ہے وہ قوّت کہ حریف اس کی نہیں عقلِ حکیم
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
دفعۃً | اچانک |
تقدیرِ اُمم | قوموں کی قسمت |
حریف | مقابلہ کرنے والی، مدِ مقابل |
عقلِ حکیم | دانا فلسفی کی فکر |
تشریح:
جس چیز سے قوموں کی تقدیر دفعتاً بدل جاتی ہے وہ بے بہا چیز، قوت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور یہ قوّت وہ چیز ہے کہ حکماء کی عقل بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ بقول ایک شاعر کے:-
؏ بیکار ہے سب فسلفہ بندوق کے آگے
علامہ اقبال ”قوّت“ کے متعلق فرماتے ہیں:–
؎ اس سیلِ سبک سیر و زمیں گیر کے آگے
عقل و نظَر و عِلم و ہُنر ہیں خس و خاشاک
(ضربِ کلیم: قوّت اور دین)
نظم ”نبوّت“ میں فرماتے ہیں:–
؎ ”وہ نبوّت ہے مسلماں کے لیے برگِ حِشیش
جس نبوّت میں نہیں قُوّت و شوکت کا پیام“
(ضربِ کلیم: نبوّت)
اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں:–
نہ ہو جلال تو حُسن و جمال بے تاثیر
نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک
(ضربِ کلیم: جلال و جمال)
ہر زمانے میں دِگر گُوں ہے طبیعت اس کی
کبھی شمشیرِ محمدؐ ہے، کبھی چوبِ کِلیمؑ!
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
دِگرگُوں | مختلف، اُلٹ پلٹ |
شمشیرِ محمد ﷺ | حضور اکرم ﷺ کی تلوار، مراد حضور اکرم ﷺ کا لایا ہوا اسلام انقلاب |
چوبِ کلیمؑ | حضرت موسی علیہ السلام کا عصا |
تشریح:
اگرچہ قوّت کی صورت اور نوعیّت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں ہو سکتا کہ قوت کی ضرورت ہر زمانہ میں رہی ہے اور رہے گی۔ یہی قوت کبھی حضرت موسیؑ کے عصا کی شکل میں نمودار ہوتی ہے اور کبھی سرکارِ دو عالم ﷺ کی تلوار کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے۔
تبصرہ
واضح ہو کہ قوت کے بغیر آپ بہتر سے بہتر نظامِ حیات کو بھی دنیا میں نافذ نہیں کر سکتے ۔ اسی لیے قرآن مجید نے جہاں مومنوں کو بہترین اُمت قرار دیا ہے، وہاں اُن کی ایک صفت یہ بھی بیان کی ہے کہ اُن میں نیکی کا حکم دینے کی طاقت ہو گی، اگر یہ طاقت نہ ہو تو پھر مومن، مومن نہیں رہتا بلکہ راہب بن جاتا ہے۔
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ
اے مسلمانو! تم بہترین قو م ہو جو انسانوں کی بھلائی کے لیے پیدا کی گئی ہے اور تمہاری خصوصیّت یہ ہے کہ تم بھلائی اور نیکی کا حکم کرتے ہو۔
(القرآن: سورۃ آل عمران: آیت 110)
اب یہ بات ایک معولی آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ نیکی کا حکم وہی شخص دے سکتا ہے جس میں حکم دینے کی قوّت ہو۔ حضرت اکبر الہ آبادی نے اسی نکتہ کو اس شعر میں بیان کیا ہے:-
؎ نہ ہو مذہب میں گر زورِ حکومت
تو وہ کیا ہے، نِرا اک فلسفہ ہے
میں نے اس کا ”فارمولا“ بنایا ہے، جو حسب ذیل ہے:-
حق مع القوۃ: دین
حق بغیر القوۃ: فلسفہ یا تصوّف
Truth + Power = Religion
Truth – Power = Philosophy
پاکستان کا مطالبہ، اقبالؔ نے سب سے پہلے اور مسلمانانِ ہند نے اُن کی تعلیم سے متاثر ہونے کے بعد 1940ء میں اسی بنیاد اور اسی نُکتہ پر کیا تھا کہ غیر منقسم ہندوستان میں، شرعی نظامِ حیات کے نفاذ کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے طاقت یا قوت کی ضرورت ہے اور قوت تمام تر اکثریّت کے قبضہ میں ہو گی۔ ”کافر“ جناح اِس نُکتہ کو سمجھ گیا ”مومن“ حسین احمد نہ سمجھ سکا۔ شاید اقبالؔ نے اسی بات کو مدِّ نظر رکھ کر یہ کہا تھا:-
؎ حقیقت را بہ رندی فاش کردند
کہ مُلّا کم شناسد رمزِ دیں را!(اس دور میں) مجھ جیسے رِند پر یہ حقیقت فاش کی گئی ہے،
حوالہ: ارمغانِ حجاز (فارسی): حضورِ مِلّت:
کیونکہ مُلّا رازِ دیں سمجھنے سے قاصر ہے۔
بہ منزل کوش مانندِ مہِ نو — بحق دِل بند و راہِ مصطفی رو
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی