”تقدیر“ از علامہ اقبال
فہرست
دنیا کے مقدر کا فیصلہ اصولی طور پر اقلیتوں ہی سے ہوا ہے۔ یورپ کی تاریخ اس دعوے کی صداقت پر کافی شہادت بہم پہنچاتی ہے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس امر کی ایک سیاسی وجہ ہے کہ بنی نوع انسان کی تخلیق میں اقلیّتیں کیونکر ایک طاقتور عنصر بنی ہیں۔ کردار ہی وہ غیر مرئی طاقت ہے جو اقوام کے مقدر (تقدیر) کا تعین کرتا ہے اور ایک مؤثر کردار محض اکثریت میں ہی ممکن نہیں۔ یہ تو ایک قوت ہے، جتنا ہی اسے تقسیم کیا جائے، اسی قدر یہ کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔
(”منتشر خیالاتِ اقبال“ از علامہ محمد اقبال)
(مترجم: میاں ساجد علی)
نظم ”تقدیر“ کی تشریح
نااہل کو حاصل ہے کبھی قُوّت و جبروت
ہے خوار زمانے میں کبھی جوہرِ ذاتی
حلِ لغات:
نا اہل | وہ (شخص) جو کوئی کام کرنے کی اہلیّت نہ رکھتا ہو، ناقابل، ناموزوں، نامناسب (کسی کام کے لیے) |
قوّت | طاقت |
جبرُوت | عظمت، بڑائی، جلال، بزرگی |
خوار | ذلیل، رُسوا، بے عزت |
جوہرِ ذاتی | ذاتی قابلیّت اور صلاحیت |
تشریح:
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے انسان جو نالائق، نا فہم، ناعقل ہوتے ہیں اور جو کوئی ذاتی صلاحیت نہیں رکھتے وہ طاقت، عظمت اور ہیبت کے مالک بن جاتے ہیں اور حکومت کے عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ لوگ، جنہیں اللہ نے ذاتی صلاحیتیں عطا فرمائی ہوئی ہوتی ہیں، وہ زمانے میں ذلیل اور خوار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تقدیر کے متعلق ایک عام نقطۂ نظر ہے جو علامہ نے اس شعر میں پیش کیا ہے۔ بقول حافظ شیرازیؔ:-
؎ اسپِ تازی مجروح شدہ است بزیرِ پالاں
طوقِ زریں ہمہ در گردنِ خرمی بینم
’’بہترین عربی گھوڑا تو پالان کے نیچے زخمی حالت میں کراہ رہا ہے، جبکہ مجھے گدھوں کی گردنوں میں سونے کے ہار نظر آرہے ہیں‘‘ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ باصلاحیت افراد تو انتہائی نامساعد حالات سے دوچار ہیں جبکہ احمق، نالائق اور مسخرے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں‘‘۔
شاید کوئی منطق ہو نہاں اس کے عمل میں
تقدیر نہیں تابعِ منطق نظر آتی
حلِ لغات:
منطق | وہ علم جس میں عقلی دلیلوں سے مسئلوں پر غور کیا جائے، Logic |
نہاں | پوشیدہ، چھُپا ہوا |
تابع | پیرو، پیچھے چلنے والی، زیرِ فرمان |
تابعِ منطق | منطق (Logic) کی پیروی کرنے والی |
تشریح:
اور یہ بھی صحیح ہے کہ تقدیر، منطق کے طابع نظر نہیں آتی۔ یعنی بعض اوقات ہماری عقل کا تقاضہ کچھ ہوتا ہے اور دنیا میں جو کچھ رونما ہوتا ہے وہ اس کے بالکل خلاف ہوتا ہے۔ نا اہل کے کامیاب اور اہل کے ناکام ہونے کے پیچھے شاید کوئی علمِ معقول یا دلیل کی بات پوشیدہ ہو، لیکن میرے خیال میں تقدیر جو ہے وہ منطق (علمِ معقول) کے زیرِ فرمان نہیں ہے۔ اس کا معاملہ کچھ اور ہی ہے
ہاں، ایک حقیقت ہے کہ معلوم ہے سب کو
تاریخِ اُمَم جس کو نہیں ہم سے چھُپاتی
حلِ لغات:
حقیقت | صحیح بات، اصل بات |
اُمم | اُمّت کی جمع، قومیں |
تاریخِ اُمم | اُمّتوں یعنی قوموں کی تاریخ، تاریخی حالات |
تشریح:
اقبالؔ نے دوسرے شعر میں یہ بات بیان کی ہے کہ شاید اہل اور نا اہل کی تقدیر میں کوئی منطق چھپی ہوئی ہو، لیکن اس تیسرے شعر میں یہ فرماتے ہیں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے جو سب کو معلوم ہے اور یہ حقیقت قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ سے صاف ظاہر ہے۔ وہ حقیقت کیا ہے؟ اگلے شعر میں ملاحظہ فرمائیں
جو قومیں ہمت سے کام لیتی ہیں اور با عمل ہوتی ہیں، وہ قوت اور جبروت حاصل کر لیتی ہیں اور جو قومیں عمل سے محروم ہوتی ہیں، وہ ذلیل و خوار ہو جاتی ہیں۔ یہ بات اقوام کی تاریخ سے بالکل عیاں ہے۔
’ہر لحظہ ہے قوموں کے عمل پر نظر اس کی
بُرّاں صفَتِ تیغِ دو پیکر نظر اس کی!‘
حلِ لغات:
ہر لحظہ | ہر لمحہ، ہر پل |
بُرّاں | کاٹنے والی |
صِفت | مانند |
تیغ | تلوار |
دو پیکر | دو دھاری، جو دو طرف سے کاٹ کرے |
صِفتِ تیغِ دو پیکر | دو دھاری تلوار کی مانند کاٹنے والی |
تشریح:
اور وہ حقیقت یہ ہے کہ قوموں کے عمل پر ہر لمحہ تقدیر کی نظر رہتی ہے اور اس کی نظر دو دھاری تلوار کی طرح کاٹ دار ہے، جو اہلِ عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے اور بے عملوں کو ناکامی کا منہ دکھاتی ہے۔ گویا تقدیر قوموں کے جہد و عمل کے مطابق ان سے سلوک کرتی ہے۔ جو قومیں جدوجہد میں سرگرم رہتی ہیں، تقدیر انہیں عظمت و سربلندی سے نوازتی ہے، جو قومیں اِس صِفت سے عاری ہیں، وہ آخر ایک دِن فنا ہو جاتی ہیں۔ اقبالؔ کے نزدیک تقدیر کا وہ مفہوم جو عوام کے ذہن میں ہے کہ نااہل پھلتے پھولتے ہیں اور اہل خوار نظر آتے ہیں، بالکل غلط ہے۔ تقدیر بندوں کے اپنے اعمال کے نتیجے میں بنتی ہے۔
قومیں اپنے اجتماعی اعمال کے لحاظ سے عروج حاصل کرتی ہیں یا زوال پذیر ہوتی ہیں۔ کوئی منطق قوموں کو ذلتِ غلامی سے نکال کر عزتِ آزادی عطا نہیں کرتی اور نہ ہی عزت چھین کر ذِلّت دیتی ہے، یہ پست و بالا مقامات صرف عمل کے پیکرِ نتائج ہوتے ہیں۔
تبصرہ
تاریخ سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو قومیں فطرت کے قوانین کی پابندی کرتی ہیں، وہ ترقی کرتی ہیں اور جو قومیں نافرمانی کرتی ہیں، وہ مِٹ جاتی ہیں۔ یعنی فطرت، افراد کے گناہوں کو تو کبھی کبھی معاف بھی کر دیتی ہے، لیکن مِلّت کے گناہوں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ اسی خیال کو اقبالؔ نے یوں بیان کیا ہے:-
؎ فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں مِلّت کے گناہوں کو معاف
(حوالہ: ضربِ کلیم: دین و تعلیم)
اس کی مثال کو یوں سمجھو کہ یہ تو ممکن ہے کہ ”بچہ سقہ“ چند روز کے لیے نیرنگیٔ روزگار کی بدولت، تختِ کابل پر جلوہ گر ہو جائے۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ بچہ سقہ کے ٹائپ کے حکمرانوں کا طویل سلسلہ شروع ہو جائے۔ یا ایک قوم مسلسل بد اعمالیوں میں مبتلا رہے اور صفحۂ ہستی سے معدوم نہ ہو جائے۔ چنانچہ عاد اور ثمود کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں اور انشاءاللہ اب انگریزوں کی باری ہے۔
(شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی