”دُعا“ از علامہ اقبال
فہرست
فلسفۂ دُعا از علامہ اقبال
تعارف
تشریح
ہے یہی میری نماز، ہے یہی میرا وضو
میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہُو
اے مولا کریم! میں جو نغمے آلاپ رہا ہوں (فریاد کر رہا ہوں) وہ محض آواز نہیں ہے، ان میں میرے جگر کا لہو شامل ہے اور یہی میرا وضو ہے اور یہی میری نماز ہے۔ یعنی میں جو کچھ عرض کر رہا ہوں وہ سراسر تیرے عشق میں ڈوب کر کررہا ہوں۔ محض شاعرانہ خیال آرائی نہیں کر رہا۔ علامہ نے اپنی اس حالت و کیفیت کو نماز و وضو قرار دیا ہے۔ نماز بروئے شریعت سب سے بڑی عبادت ہے اور عبادت کا مغز دعا ہے، لیکن دعا کی شرط یہ ہے کہ اس میں خلوص کا رنگ ہو یعنی دِل کی گہرائیوں سے نکلے۔ اس طرح کہ اس میں دعا کرنے والے کے جگر کا خون یعنی عشق کا رنگ منعکس ہو۔
اقبالؔ کہتے ہیں کہ عشقِ حقیقی جب اپنی انتہا پر پہنچتا ہے تو جگر کا لہو بھی آہ و فریاد میں ڈھل جاتا ہے۔ یہی آہ و فریاد میری نماز اور وضو کا روپ دھار گئی ہے۔
”خونِ جگر“ اقبالؔ کی خاص اصطلاح ہے اور اس سے ان کی مراد عشق یا ”خلوصِ قلب“ ہوتی ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں:-
؎ یا مُردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے
(حوالہ: ضربِ کلیم: فلسفہ)
؎ رنگ ہو یا خِشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
(حوالہ: بالِ جبریل: مسجدِ قرطبہ)
؎ خُونِ دل و جگر سے ہے میری نَوا کی پرورش
ہے رگِ ساز میں رواں صاحبِ ساز کا لہُو
(حوالہ: بالِ جبریل: ذوق و شوق)
صُحبتِ اہلِ صفا، نُور و حضور و سُرور
سر خوش و پُرسوز ہے لالہ لبِ آبُجو
لیکن یہ خلوص، یہ رنگِ فدویت، یہ خشوع و خضوع اہلِ صفا یعنی عشاق کی صحبت سے پیدا ہو سکتا ہے۔ صحبتِ مرشد کے بغیر انسان اللہیت اور خلوص کی نعمت سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا۔ جن لوگوں کے دِل و باطن صاف اور طرح کی آلودگیوں سے پاک ہیں، ان کی صحبت میں بیٹھنا دِل کو منور کرتا ہے، محبوب کی حضوری بھی میسر آتی ہے اور یوں کیف و سرور کی لذت حاصل ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح لالہ کا پھول ندی کے کنارے تر و تازہ اور شگفتہ رہتا ہو اور اس میں سرخی بھی خوب رہتی ہے، ندی کی لہریں اس کو ہمیشہ تازگی، سرخوشی اور سوز بخشتی رہتی ہے۔ گویا ندی استعارہ ہے اہلِ صفا کا اور لالہ اہلِ صفا کی صحبت میں بیٹھنے والے۔ جس طرح پانی پھولوں کی آبیاری کرتا ہے، اسی طرح مرشد کی نگاہ دِل کو تر و تازہ کرتی ہے۔ انسان میں سرخوشی اور گداز اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ مرشد کی صحبت اختیار کرتا ہے۔
؎ خِرد کے پاس خبر کے سِوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سِوا کچھ اور نہیں
(حوالہ: بالِ جبریل)
؎ خدا سے پھر وہی قلب و نظر مانگ
نہیں ممکن امیری بے فقیری
(حوالہ: بالِ جبریل)
؎ حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
(ارمغانِ حجاز: بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو)
؎ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
(بانگِ درا: طلوعِ اسلام)
؎ فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
(حوالہ: بالِ جبریل)
راہِ محبّت میں ہے کون کسی کا رفیق
ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو
پس دعا میں اس وقت خلوص پیدا ہو سکتا ہے جب انسان اللہ کے عشق میں فنا ہو جائے لیکن اس راستہ میں نہ دوست کام آ سکتا ہے، نہ کوئی عزیز مدد کر سکتا ہے، عاشق کو یہ راہ اپنی ذاتی کوشش اور ہمّت سے طے کرنی پڑتی ہے۔ ہاں! اس راہ میں اگر کوئی رفیق ہو سکتا ہے تو وہ عاشق کا جذبۂ عشق ہی ہے، جو آخر تک ساتھ دے سکتا ہے، اسی جذبۂ عشق کو اقبالؔ نے آرزو سے تعبیر کیا ہے۔ یہ جذبۂ عشق ہی ہے جو آرزو میں ڈھل کر انسان کو آگے لیے جاتا ہے اور محبوبِ حقیقی تک رسائی کا باعث بنتا ہے۔
اقبالؔ کے کلام میں ”آرزو“ کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اسرارِ خودی میں فرماتے ہیں:-
ترجمہ: جستجو ہی زندگی کا راز ہے؛ آرزو کے اندر ہی زندگی کی اصلیّت پوشیدہ ہے۔ اس لیے تُو اپنے اندر آرزو کو آباد رکھ؛ تاکہ تیرا بدن قبر نہ بن جائے۔ آرزو خاکی انسان کو اُڑنے کی طاقت عطا کرتی ہے؛ ہماری ادراک کے لیے آرزو اسی طرح راہبر ہے جس طرح موسی علیہ السلام کے لیے خضر علیہ السلام راہبر بنے۔
(حوالہ: اسرارِ خودی: در بیان اینکہ حیاتِ خودی از تخلیق و تولید مقاصد است)
میرا نشیمن نہیں درگہِ میر و وزیر
میرا نشیمن بھی تُو، شاخِ نشیمن بھی تُو
دعا کی حقیقت واضح کرنے کے بعد اب اقبالؔ اللہ سے خطاب کرتے ہیں کہ اے ربِ کریم! میں تیرا ایک عاجز بندہ ہوں اور دنیا میں تیرے سوا کسی کو اپنا دست گیر اور حاجت روا نہیں سمجھتا۔ میرے مولا کریم! میں نہ تو امیروں کے در کو اپنا ٹھکانا بنایا ہے اور نہ وزیروں کی بارگاہ کو ٹھکانا بنایا ہے، میں ان سب سے بے نیاز ہوں، کسی بھی دنیاوی دولت و مرتبہ کے حامل آدمی کو اس لائق نہیں سمجھتا۔ میرا نشیمن بھی تُو ہی اور اور شاخِ نشیمن بھی تُو ہی ہے۔ یعنی میں صرف تجھ ہی پر تکیہ کرتا ہوں اور اس تکیہ کی توفیق بھی تجھی سے طلب کرتا ہوں۔ ۔ میرے لیے تُو ہی سب کچھ ہے، منزل بھی اور راہ بھی۔ گویا یہ تیرا کرم ہے کہ مجھے تُو نے اس شعور و توفیق سے نوازا ہے کہ میرا سب کچھ تُو ہی ہے۔ میں صرف تجھی کو اپنی زندگی کا سہارا سمجھتا ہوں اور یہ سمجھ جو مجھ میں پیدا ہوئی ہے، یہ بھی تیری ہی پیدا کردہ ہے۔
تجھ سے گریباں مرا مطلعِ صُبحِ نشور
تجھ سے مرے سینے میں آتشِ ’اللہھوٗ‘
تیرے عشق ہی کی بدولت میرا گریباں صبحِ قیامت کے طلوع کی صورت اختیار کر گیا ہے اور تیرے عشق ہی کی وجہ سے میرے سینے میں ”اللہ ھو“ کی آگ روشن ہے۔ مطلب یہ کہ تیرے عشق کی بدولت میرے گریبان سے قیامت کے ہنگامے اُٹھ رہے ہیں۔ جس طرح قیامت کے روز مُردے زندہ ہو جائیں گے، اسی طرح، تیرے کرم سے، میرا جذبۂ عشقَ کامل مُردہ لوگوں میں زندگی کی روح پھونک دے گا۔
؎ نہاں تقدیرہا در پردۂ من
قیامت با بغل پر وردۂ من
میرے پردے میں مقدّر (قوموں کی تقدیریں) پوشیدہ ہیں اور قیامتیں میری آغوش میں پرورِش پا رہی ہیں۔
(حوالہ: زبورِ عجم: گلشن رازِ جدید: تمہید)
تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درد و داغ
تُو ہی مری آرزو، تُو ہی مری جُستجو
مولائے کائنات! تیرے ہی دم سے میری زندگی سوز و درد و داغ کے علاوہ روشنی کا مظہر بنی ہوئی ہے۔ میری زندگی میں تیری ہی محبت کی بدولت سوز و گداز اور سرمستی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ تُو ہی ہے جو میرے عشق میں آرزو بن کر بسا ہوا ہے اور یہی جذبہ جستجو کا حامل بن جاتا ہے۔ ۔ تُو ہی میرا مقصود اور مطلوب ہے اور تجھ کو حاصل کرنا ہی میری زندگی کا نصب العین ہے۔
پاس اگر تُو نہیں، شہر ہے ویراں تمام
تُو ہے تو آباد ہیں اُجڑے ہُوئے کاخ و کُو
اے آقا! یہ تیری یاد ہی ہے جس کے بغیر ہر سُو ویرانی ہی ویرانی نظر آتی ہے اور جب مجھے تیری قربت کا احساس ہوتا ہے تو اجڑے ہوئے محلات اور سنسان گلی کوچے بھی آباد و درخشاں نظر آتے ہیں۔ مراد یہ کہ قربِ الہی سے انسان عظمت و بلندی سے سرشار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس عشقِ الہی اور اس کی معرفت نہ ہو تو پورا ماحول اجاڑ و سنسان بن کر رہ جاتا ہے۔
پھر وہ شرابِ کُہن مجھ کو عطا کر کہ مَیں
ڈھُونڈ رہا ہوں اُسے توڑ کے جام و سُبو
اے خدا! تُو مجھے پھر وہی پرانی شراب عطا فرما، اس لیے کہ میں نئے تہذیب کے تمام جام و سبو توڑ کر اس پرانی شراب کی تلاش میں لگا ہوا ہوں۔ میں نے جدید تہذیب کے تمام لوازمات سے قطع تعلق کر لیا ہے۔ مجھے وہی جذبۂ عشق نواز دے جو میرے اسلاف کا ورثہ ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر میں تو عشقِ الہی میں جذب ہو چکا ہوں اور محض تیری ہی تلاش میں مصروف ہوں۔ الہی! قوم کو وہ پہلے مسلمانوں کے سے جذبے اور ولولے عطا کر جس سے وہ دنیا پر چھا گئے اور اپنی عظمت و سربلندی، نیز بقا کا سامان کر گئے، یعنی ہمیں عشقِ رسول اللہ ﷺ کی دولت عطا فرما دے
شرابِ کُہن پھر پِلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا!
مجھے عشق کے پَر لگا کر اُڑا
مری خاک جُگنو بنا کر اُڑا
خِرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پِیروں کا استاد کر
(حوالہ: بالِ جبریل: ساقی نامہ)
چشمِ کرم ساقیا! دیر سے ہیں منتظر
جلوَتیوں کے سُبو، خلوَتیوں کے کُدو
اے میرے مولیٰ کریم! میں اس دعا میں اپنی قوم کے تمام افراد کو شریک کرتا ہوں، وہ لوگ جو امورِ دنیاوی میں مشغول ہیں اور وہ بھی جو عزلت گزیں (علیحدگی / تنہائی اختیار کیے ہوئے ہیں)، سب تیری نگاہِ کرم کے منتظر ہیں۔
”جلوتی“ اور ”خلوَتی“: جلوتی کے لفظی معنی ہیں وہ لوگ جو جلوت (بھیڑ بھاڑ) میں رہتے ہیں اور خلوتیوں سے مراد ہے گوشہ نشین (تنہائی میں رہنے والے)۔ ان دونوں اصطلاحوں سے مختلف مفہوم مراد لیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً امیر اور فقیر، اہلِ سیاست اور اہلِ تصوّف، علماء اور اولیاء، دنیا دار اور دین دار۔ حال ہی کی مناسبت کے لیے دونوں کے لیے الگ الگ لفظ استعمال کیے۔ جلوتیوں کے لیے سبُو (وہ پیالہ جس میں شراب ڈالتے ہیں) جس سے محفل آرائی کا سر و سامان اور اہتمام ظاہر ہوتا ہے، خلوتیوں کے لیے کدُو (یعنی کاسہ) جو درویشی اور قلتِ سامان (سامان کی کمی) کی دلیل ہے۔
تیری خدائی سے ہے میرے جُنوں کو گِلہ
اپنے لیے لامکاں، میرے لیے چار سُو!
اے خدا! میں بڑے ادب کے ساتھ تیری جناب میں عرض کرتا ہوں کہ میرا جذبۂ محبت زمان و مکان کی قید کو گوارار نہیں کر سکتا، اس لیے تُو اپنے فضل و کرم سے مجھ میں بھی لا مکانی کی صفت پیدا کر دے۔
؎ سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
غلَط تھا اے جُنوں شاید ترا اندازۂ صحرا
(حوالہ: بالِ جبریل)
نوٹ: چونکہ اقبالؔ کی رائے میں خودی کا کمال یہ ہے کہ وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو جائے، اس لیے انہوں نے ہر کتاب میں مسلمانوں کو اسی نصب العین کے حصول کی تلقین کی ہے اور خود بھی اس نظم میں اللہ سے اسی دولتِ عظمیٰ کے حصول کی دعا کی ہے۔ چنانچہ وہ اپنے مشہور خطبات میں لکھتے ہیں:
”ثقافتِ اسلامیہ کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہو سکتی ہے کہ عقلیاتِ خالص اور نفسیاتِ مذہبی تصوف دونوں غیر محدود کے حصول کو مسلمانوں کا نصب العین قرار دیا گیا ہے اور اربابِ علم سے یہ حقیقت مخفی نہیں ہے کہ ایسی ثقافت میں زمان و مکان کا مسئلہ قوم کے حق میں زندگی اور موت کا حکم رکھتا ہے۔“
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرفِ تمنّا، جسے کہہ نہ سکیں رُو بُرو
فلسفہ اور شعر کی حقیقت اور اس کے سوا کیا ہے کہ یہ حرفِ آرزو بیان کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ایسی آرزو بیان کرنے کا ذریعہ جو محبوب کے سامنے واضح طور پر بیان نہ کیا جا سکے۔ گویا شعر اور فلسفہ میں دِل کی باتیں استعاروں، کنایوں، اشاروں اور رمزوں ہی میں بیان کی جاسکتی ہیں۔ یعنی فلسفہ اور شعر کی تعریف مختصراً اتنی ہی ہے کہ ان کی وساطت سے اپنی دِلی تمنا کا اظہار کھُل کر نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہاں بھی علامتوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
نوٹ
آخری شعر میں اقبالؔ نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ میں نے اللہ سے جو دعا کی ہے۔ اس میں اپنے جذباتِ قلبی کی عکاسی مکمل طور سے نہیں کی ہے کیونکہ میں نے یہ دعا نثر میں نہیں کی ہے بلکہ شعر کی صورت میں کی ہے اور شاعری اور فلسفہ کی حقیقت یہ ہے کہ شاعر و فلسفی اپنے خیالات کو واشگاف بیان نہیں کرتا، محض اس لیے کہ وہ ایسا کر نہیں سکتا یعنی فلسفہ اور شعر کی خوبی رمز و ایماء میں مضمر ہے۔ چنانچہ دنیا کے تمام بڑے بڑے شعراء نے اسی صفت کی بدولت اپنی شاعری میں دلکشی کا رنگ پیدا کیا ہے۔ جن لوگوں نے کلامِ اقبالؔ کیا ہے وہ بخوبی واقف ہیں کہ ان میں یہ صفت سب سے زیادہ نمایاں ہے، چنانچہ خود اقبالؔ نے اس شعر میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے:-
؎ برہنہ حرف نگفتن کمالِ گویائی است
حدیث خلوتیاں جز بہ رمز و ایماء نیست
یعنی شاعر کا کمالِ فن یہ ہے کہ وہ اپنے مفہوم کو واضح طور پر بیان نہ کرے بلکہ رمز و ایماء (اشارہ و کنایہ) سے کام لے کر پڑھنے والوں کی جولانیٔ طبع کے لیے ایک وسیع میدان مہیا کر دے۔
اسی حقیقت کو مرشدِ رومیؒ نے، جو اس انداز یا اسلوب کے سب سے بڑے علمبردار ہیں، یوں واضح کیا ہے:-
؎ خوشتر آں باشد کہ سِرِّ دلبراں
گفتہ آید در حدیثِ دیگراں
بہتر یہی ہوتا ہے کہ دِلبروں کا راز (معرفت) لوگوں کے قصے (لباس) میں (کنایہً) سُنا دیا جائے (یعنی اسرارِ حقیقت کو تمثیلی حکایات کے ضمن میں بیان کرنا ہی زیادہ بہتر ہے)۔
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
حوالہ جات
- شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بالِ جبریل از اسرار زیدی
- شرح بالِ جبریل از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی