نظم ”نیا شِوالہ“ از علامہ اقبال
فہرست
نظم ”نیا شِوالہ“ کا تعارف
بانگِ درا کی نظم نیا شِوالہ ١٩٠۵ءکے رسالۂ مخزن میں چھاپی گئی۔ یہ نظم علامہ اقبال کے وطن پرستی کے دور میں لکھی گئی۔
یوسف سلیم چشتی فرماتے ہیں کہ:-
”یہ نظم اقبالؔ کے دورِ وطن پرستی کا بہترین نمونہ ہے۔ شاعر نے وطن کی عظمت کا نقش دِلوں پر قائم کرنے کے لیے اپنی تمام شاعرانہ قوّتوں کو صرف کر دیا ہے۔ اکثر ناقدینِ اقبالؔ کا خیال ہے کہ ہندو مسلم اتحاد پر یہ اقبالؔ کی بہترین نظم ہے۔“[۱]
[۱] شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی، صفحہ: ۱۳۹،۱۳۸
پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی لِکھتے ہیں:-
”یہ نظم پہلی بار مارچ ١٩٠۵ءکے مخزّن میں شائع ہوئی تھی۔ اُس وقت اِس میں اُنّیس اشعار تھے۔ نظرثانی میں دس اشعار قلمزَد کر دیے گئے۔ ایک شعر پہلے بند سے خارج کیا گیا اور نو اشعار دوسرے بند سے۔ یہ نظم بھی شاعر کے عہدِ وطن پرستی کی یادگار ہے۔ اِس میں متّحدہ قومیّت کا درس دیا گیا ہے۔ علامہ اقبال مغفور چاہتے تھے کہ ہندوستان کے سب لوگ مذہبی اِختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک قوم میں مدغم ہوجائیں۔ نہ کوئی ہندو رہے نہ مسلمان نہ سِکھ، بلکہ سب کے سب ہندوستانی ہوں۔ اِس مفہوم کو ایک نہایت دِلکش اور اچھُوتے پیرایہ میں ادا کیا گیا ہے۔“
[٨] شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی، صفحہ: ١۵١
بند نمبر ۱
سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے
اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا
جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے
تنگ آ کے میں نے آخر دیر و حرم کو چھوڑا
واعظ کا وعظ چھوڑا چھوڑے ترے فسانے
پتھر کی مُورتوں میں سمجھا ہے تُو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
برہمن | ہندو مذہبی رہنما |
صنم کدہ | بُت خانہ |
بیر | دُشمنی، عداوت، کینہ، مخالفت، نفرت |
جنگ و جَدَل | لڑائی، جھگڑا، فساد |
واعِظ | وعظ یا نصیحت کرنے والا، مراد مسلمانوں کے مذہبی رہنما |
دَیر و حرم | بُت خانہ و کعبہ |
مُورَت | مُجَسمہ، صورت |
خاکِ وطن | وطن کی مٹّی / سرزمین |
دیوتا | کوئی ایسی زمینی چیز جس کو مقدّس بنا کر خدا کا درجہ دے دیا جائے، خدا کا اوتار |
تبصرہ:
اِس بند میں ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ اقبال پر وہی مغربی وطنیّت کے تصور کا رنگ غالب ہے، جس میں وہ مذہب اور ریاست کو جُدا جُدا دیکھتے ہیں۔ جیسے مغربی ممالک نے چرچ اور سٹیٹ (Church and State) کو الگ رکھ کر ترقی کی، وہی حل ہندوستان کے لیے دیکھتے ہیں۔ وہ ہندو اور مسلمان کی مذہبی اِنتہا پسندی سے بیزار نظرآتے ہیں۔ یہ اپنی مذہبی انتہا پسندی ہی کی وجہ سے نا اتفاقی کا شکار ہیں۔
اِس صورتِ حال سے نجات کا جو راستہ اقبالؔ دیکھتے ہیں وہ ایک الحاد کی بنیاد پر قائم کردہ وطن ہے جس میں ہندو اور مسلم، دونوں اقوام اِکٹھے رہیں۔ اُن دونوں کا ایک ہی قبلہ ہو، اور وہ اپنے وطن کی خاک کو اپنا دیوتا بنا لیں۔ یعنی جو مذہب کی وجہ سے مُتّحد نہیں ہو سکتے، اس خاکِ وطن کی خاطر ہو جائیں۔ مگر خاکِ وطن کے اس دیوتا کو ارتقاءِ فکر کے بعد اقبالؔ نے خود توڑ دیا:-
؎ اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اِس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے
(حوالہ: بانگِ درا: وطنیّت)
علامہ اقبال یہ پہچان گئے تھے کہ مذہب کو ترک کرنے میں دونوں اقوام میں سے کسی کا فائدہ نہیں۔
بند نمبر ۲
آ، غیریّت کے پردے اِک بار پھر اُٹھا دیں
بِچھڑوں کو پھر ملا دیں نقش دوئی مٹا دیں
سُونی پڑی ہوئی ہے مُدّت سے دِل کی بستی
آ، اِک نیا شِوالہ اِس دیس میں بنا دیں
دُنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ
دامانِ آسماں سے اِس کا کلس ملا دیں
ہر صبح اٹھ کے گائیں منتر وہ میٹھے میٹھے
سارے پجاریوں کو مے پِیت کی پلا دیں
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مُکتی پرِیت میں ہے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
غیریّت | غیر ہونا، پرایا ہونا |
پردے اُٹھانا | رُکاوٹیں ہٹانا / ختم کرنا |
نقشِ دوئی | دو ہونے کا نشان، مراد ہندو اور مسلمانوں کو الگ الگ سمجھنا، جُدائی اور بیگانگی کا نقش |
سُونی | اُداس / ویران / بے رونق |
شِوالا | مہا دیو کا مندر، ایک بڑے دیوتا کا عبادت خانہ |
تیرتھ | ہندوؤں کی مقدّس عبادت گاہ |
دامانِ آسماں | آسمان کا دامن / پلُّو |
کَلَس | مسجد کے گنبد / مینار کا سب سے اوپری حصہ |
منتر | دیوتاؤں کی تعریف میں کہے گئے کلمات |
مے | شراب |
پیت | پیار، محبّت |
شکتی | طاقت، زور، قوّت |
شانتی | امن، سکون، آرام، سُکھ، تسلّی |
بھَگَت | پُجاری، مذہبی لوگ، دُنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے، نیکو کار |
دھرتی | زمین، دُنیا |
باسیوں | باسی کی جمع۔ باشندے، رہنے والے |
مُکتی | نجات / چھُٹکارا، رہائی، آزادی، مغفرت۔ ہندو مذہب میں کسی گناہ جرم یا قصور سے آزاد ہوجانے، چھُوٹ جانے، بخشے جانے یا برائیوں سے چھٹکارا مل جانے کی حالت |
پرِیت | پیار و محبّت، اُلفت، بھائی چارہ |
تشریح:
مفاہمت کا وہی ذائقہ اِس بند میں ہمیں ملتا ہے جس کو پانے کیلئے شہنشاہ اکبر نے دینِ الہی بنا دیا۔ ایک نیا شِوالہ، ایک ایسا گوشۂ عافیّت مُلک کی صورت میں بنا لیں جو سب سے اونچا ہو، مندر و مسجد سے بلند تر ہو۔ جس میں صرف پیار و محبّت کے گیت سُنائے جائیں۔ اُسی سے اِس زمین کے رہنے والوں کو مُکتی ملے گی اور وہ ترقی کی جانب گامزن ہونگے۔
تبصرہ:
خلیفہ عبدالحکیم اپنی کتاب فکرِ اقبالؔ میں اُس وقت کے سیاسی و سماجی پس منظر میں اقبالؔ کے ابتدئی نظریے کی بخوبی وضاحت کرتے ہیں:-
”آزادی طلب نوجوانوں کی سمجھ میں پہلے یہ بات آئی کہ ہم بھی انگریزوں کی طرح ایک قوم بن جائیں اور تمام ملک کو اپنا وطن قرار دے کر اِس کے متعلق جذبۂ وطنیّت کو اُبھاریں۔ مذہبی اختلافات کو غیر اصل قرار دیا جائے اور وطن کی عظمت کے گیت گائے جائیں تاکہ غیر ملکی حکومت نے جو احساسِ کمتری پیدا کر دیا ہے، اُس کے خلاف ایک زبردست ردِ عمل ہو۔ پُرانے دیوتاؤں کی پوجا کو باطل قرار دے کر وطن کے بڑے بُت کی پوجا کی جائے۔ اِسی حال، اِسی جذبے کے تحت نوجوان اقبالؔ کا احساسِ قلب وطن کے ترانے گانے لگا۔“
[۶] فکرِ اقبالؔ از ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، صفحہ: ۳۶-۳۸
ارتقاءِ فکر کے بعد البتّہ اقبالؔ کا یہ نظریہ بالکل تبدیل ہوگیا۔ ایک شعر میں ہندوؤں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:-
؎ ماندہ ایم از جادۂ تسلیم دور
تُو ز آزر من ز ابراہیم دور
ہم دونوں ہی اپنے رستے کی پیروی سے دُور ہیں، تُو آزر (مُراد: بُت تراشنے کی روایت، آزر ابراھیم علیہ السلام کے والد) سے دُور ہے، میں ابراھیم (وحدانیّت کی روایت) سے دُور ہوں۔ (وفا داری بشرطِ استواری اصل ایمان ہے۔ غالبؔ)
(حوالہ: اسرارِ خودی: حکایتِ شیخ و برہمن و مکالمۂ گنگ و ہمالہ)
مفہوم:
خلیفہ عبدالحکیم علامہ اقبال کے ابتدائیہ کلام کے بارے میں فرماتے ہیں:-
”ہندوستان میں وطنیّت کے جذبہ کو جس شاعر نے پہلے گرمایا وہ اقبالِؔ با کمال تھا۔ اگر ہندوستان ایک وطن اور ایک قوم بن سکتا تو اقبالؔ کا وطنیّت کا کلام اُس کے لیے الہامی صحیفہ ہوتا۔“ [۶]
[۶] فکرِ اقبالؔ، از: ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، صفحہ: ۳۶-۳۸
ہمیں یہ باور کرنا ہوگا کہ بھارت کے ۲۱ کروڑ مسلمانوں کی اب بھی یہی حقیقت ہے اور اقبالؔ کا اوّل دور کا کلام اُن کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ایک ایسا مُلک جہاں ہندوؤں اور مُسلمانوں سمیت کئی مذاہب کے لوگوں کو باہم زندگی بسر کرنی ہے، وہاں عدم برداشت کے رویّے اس کو ناممکن بنا دینگے اور مذہبی رواداری قائم کرنا لازم و ملزوم ہوگی۔ البتّہ ترکِ مذہب اِس مفاہمت کی قیمت نہیں ہونی چاہیے۔
اِس نظم کی زبان بھی قابلِ غور ہے۔ سنسکرت کے الفاظ کا استعمال اور ہندو مذہب و روایت کے استعارے بدرجۂ اُتّم نظر آتے ہیں۔ ایک موقع پر گاندھی جی نے اُردو ہندی کے تنازع کے سلسلے میں نظم ترانۂ ہندی میں استعمال کردہ زبان کے بارے میں یوں اظہارِ رائے کرتے ہیں:-
”کون ایسا ہندوستانی دل ہے جو اقبالؔ کا ‘ہندوستاں ہمارا’ سُن کر دھڑکنے نہیں لگتا۔۔۔ اقبالؔ کے اس ترانے کی زبان ہندی ہے یا ہندوستانی ہے؟ یا اردو ہے؟ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ہندوستان کی قومی زبان نہیں ہے۔“ [۷]
[۷] فکرِ اقبالؔ، از: ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، صفحہ: ۳۶-۳۸
ویسی ہی زبان اس نظم میں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ یہ زبان اس نظم کے موضوع سے مطابقت رکھتی ہے۔
حوالہ جات
- [۱] شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی، صفحہ: ۱۳۹،۱۳۸
- [۲] شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی، صفحہ: ۱۴۳-۱۴۵
- [۳] شرح بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر، صفحہ: ۹۶،۹۵
- [۴] آوازِ اقبالؔ از نریش کمار شاد، صفحہ: ۱۱۲،۱۱۱
- [۵] شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد، صفحہ: ۱۰۸-۱۰۷
- [۶]فکرِ اقبالؔ از ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، صفحہ: ۳۶-۳۸
- [۷] ایضاً، صفحہ: ۲۷
- [٨] شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی، صفحہ: ١۵١