Skip to content
بانگِ درا 81: ایک شام

بانگِ درا 81: ایک شام


”ایک شام“ از علامہ اقبال

علامہ اقبال اپنے ساتھی رہائشیوں اور مکان مالکِن کے ہمراہ ـــــــــــ مقام: ہائڈلبرگ، جرمنی (1907ء)

تعارف

نظم ایک شام اگست 1907ء میں لِکھی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب علامہ اقبال جرمنی کے شہر میونخ (Munich) میں واقع لَڈوِگ میکسِمِلیَّن یونیورسٹی (Ludwig Maximilian University of Munich) سے Ph.D کی ڈگری حاصل کرنے گئے اور اِس دوران اگست 1907ء میں ہائڈلبرگ یونیورسٹی (Heidelberg University) کی لائبریری سے اِستعفادہ کے لیے میونخ (Munich) سے ہائڈلبرگ (Heidelberg) تشریف لے گئے۔ جرمنی کا شہر ہائڈلبرگ (Heidelberg) دریائے نیکر (Neckar) کے کنارے آباد ہے۔ اقبالؔ نے یہ خوبصورت نظم اِسی دریا کے کنارے بیٹھ کر کہی۔

واضح ہو کہ یہ نظم بانگِ درا کے دوسرے حصے میں شامل ہے جس میں اقبالؔ کے قیامِ یورپ کے دوران لکھی گئی دُوسری نظمیں بھی موجود ہیں۔

YouTube video

نظم ”ایک شام“ کی تشریح و تبصرہ

خاموش ہے چاندنی قَمَر کی
شاخیں ہیں خموش ہر شَجَر کی

حلِ لغات:

قَمَرچاند
شَجَردرخت
حلِ لغات (بانگِ درا 81: ایک شام)

تشریح:

چاند کی چاندنی خاموش ہے اور ہر درخت کی شاخیں خاموش ہیں۔ شام کی وجہ سے ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے۔

تبصرہ:

نظم کے پہلے شعر سے ہی اعصاب پر سکون طاری ہونے لگتا ہے۔ یہ سکُون اقبالؔ نے ایسے اصوَات (صوت کی جمع، مُراد ہے آوازیں) کے انتخاب سے حاصل کیا ہے جن پر مدارِ موسیقی ہے، لہذا پڑھنے والے کو محسوس ہوتا ہے کہ موضوع الفاظ کے ساتھ ایک مطابقت رکھتا ہے۔ نیز اِس شعر کے ہم قافیہ مصرعے بھی اِس سکُوت میں اضافہ کرتے ہیں۔


وادی کے نوَا فروش خاموش
کُہسار کے سبز پوش خاموش

حلِ لغات:

نوَا فروشنوَا سے مُراد ہے نغمہ، صدا، آواز ـــ نوَا فروش یعنی نغمے بیچنے والے، مُراد ہے گانے یا چہچہانے والے
کُہسارپہاڑ
سبز پوشجو سبز لباس پہنے ہوئے ہو یا سبزے سے ڈھکا ہوا ہو
حلِ لغات (بانگِ درا 81: ایک شام)

تشریح:

اِس وادی کے نوَا فروش، یعنی وہ چہچہانے والے، خوبصورت نغمے گانے والے، جن کی خوبصورت اور میٹھی آوازیں تمام دِن فضا میں گُونجتی رہتی ہیں۔۔ شام کے اِس وقت وہ سب خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

پہاڑوں کو دُور سے دیکھیں تو اُن پر موجود سبزہ یوں نظر آتا ہے جیسے پہاڑوں نے سبز رنگ کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ اِس سبز چادرتلے رہنے والے بھی شام کے اِس وقت خاموش ہو چُکے ہیں۔ مُراد ہے جن لوگوں کو سبز لباس سے نسبت دی جاتی ہے وہ بھی سکُوت کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں اور اُن میں کسی بھی قسم کی جنبش نہیں ہے۔

تبصرہ:

نظم کے دوسرے شعر میں بھی حرف ش کی تکرار سے  پیدا ہونے والی تجنیس نے نہ صرف نغمگیّت کا تسلسل قائم رکھا بلکہ اُس میں اضافہ کر دیا۔ واضح ہو کہ تجنیس سے مُراد ہے ﺩﻭ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﻠﻔﻆ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﺎﺑﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮨﻮﻧﺎ۔

وادی اور کہسار کے الفاظ کو ایک دوسرے کے مدِ مقابل استعمال کرنا بھی کمال لُطف پیدا کرتا ہے، کیونکہ اِس طرح زمین کی تہہ سے لے کر اُس کی تمام تر بلندیوں کا ذکر بیچ میں آ جاتا ہے۔

اِس شعر میں بھی الفاظ کا چُناؤ سادہ اور معنی آسان معلوم ہوتے ہیں۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی بجا اِس کلام کا موازنہ انگریزی کے مشہور رومانوَی شاعر (Romantic Poet) ورڈزورتھ (William Wordsworth) کے طرز سے کرتے ہیں۔

ظاہراً سادہ نظر آنے والے اِس شعر پراگر صنعتِ ادماج کا اطلاق کیا جائے تو شعر مزید معنی خیز ہو سکتا ہے۔ صنعتِ ادماج میں شاعر ایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے جس سے دو معنی و مفہوم پیدا ہوتے ہیں اور دونوں ہی قرین قیاس ہوتے ہیں، مثلاً:-

  • لفظ نوَا فروش ایسا ہی ایک لفظ ہے۔ اس کا سب سے نمایاں معنی تو گانے والا ہے جس سے شارح نے مراد پرندے لی ہے۔ اب چونکہ ذکر قدرت کا ہو رہا ہے تو اس معنی کا اخذ کرنا بجا ہے۔ البتہ نوَا کے معنوں میں خوشحالی، بیٹا، ساز و سامان اور لشکر وغیرہ بھی شامل ہیں۔ چنانچہ اِس سے مُراد لی جا سکتی ہے کہ معاشرے میں حرکت و تغیّر پیدا کرنے والے تمام تر عناصر خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں اور دُور دُور تک کسی آواز، آہٹ یا انقلاب  کا نام و نشان تک نہیں۔
  • اسی طرح لفظ سبز پوش بھی دو معنی پیدا کرتا ہے۔ ایک تو سبزہ زار اور دوسرا وہ لوگ جو سبز لباس پہنے ہوئے ہیں یا سبز لباس سے نسبت رکھتے ہیں۔ سبز رنگ عموماً اسلام کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے، جھنڈوں پر بھی مسلمانوں کی نمائندگی سبز رنگ سے کی جاتی ہے۔ صوفی و درویش بھی اِس رنگ کو قدرت اور زندگی کا رنگ جانتے ہیں۔

خلاصۂ کلام یہ کہ شام کے دوران دریائے نیکر کی وادی کے تمام سبز پوش خاموش ہیں۔


فِطرَت بے ہوش ہو گئی ہے
آغوش میں شب کے سو گئی ہے

حلِ لغات:

آغوشگود
شبرات
حلِ لغات (بانگِ درا 81: ایک شام)

تشریح:

یوں معلوم ہوتا ہے جیسے فِطرَت بے ہوش ہو کر رات کی گود میں سو گئی ہے۔ اقبالؔ نے یہاں خاموشی اور سکُوت کو فطرت کی بے ہوشی سے تعبیر کیا ہے-

تبصرہ:

اس شعر میں لفظ قُدرَت کی بجائے، لفظ فِطرَت کا استعمال اُس ذو معنیت کی طرف اشارہ کرتا ہے  جس کا پہلے ذکر آیا ہے۔

خاموشی سے ایک قدم آگے بڑھ کر علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ جاندار و بے جان چیزیں سب اپنے ہوش و حوَاس کھو بیٹھی ہیں یعنی بے ہوش ہو گئی ہیں۔ رات اِس قدر تاریک ہے کہ نیند تمام مناظرِ فطرت پر غالب آ چُکی ہے۔ پچھلے دو اشعار میں جو سما باندھا گیا، اِس شعر میں وہ لسانی و معنوی اعتبار سے اپنی اِنتہا کو پہنچ گیا۔ جو فطرت پہلے خاموش تھی اب وہ بے ہوش ہو چُکی ہے، لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ موضوع کو تمام کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ اِس سے اگلے شعر میں ش کی تکرار کو علامہ اقبال مکمل طور پر ترک کردیتے ہیں۔


کچھ ایسا سُکُوت کا فُسُوں ہے
نیکر کا خِرام بھی سُکُوں ہے

حلِ لغات:

سُکُوتچُپ رہنا، خاموشی
فُسُوںجادو
نیکرجرمنی کا وہ دریا جس کے کنارے ہائڈلبرگ (Heidelberg) آباد ہے۔
خِراماٹھلا اٹھلا کر چلنا، ناز و انداز کی چال
حلِ لغات (بانگِ درا 81: ایک شام)

تشریح:

خاموشی کا کچھ ایسا جادُو طاری ہے کہ سارا دِن اٹھلا اٹھلا کر چلتا (بہتا) ہوا معلوم ہونے والا دریائے نیکر بھی اب سُکُون سے بہہ رہا ہے۔

تبصرہ:

اس شعر میں اقبالؔ نے ش کی تکرارکو س سے بدل دیا ہے۔ یہاں س کے استعمال سے پیدا ہونے والی تجنیس نظم کی روانی اور نغمگیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔

اقبالؔ فرماتے ہیں کہ اِردگرد کے ماحول کی خاموشی نے ایسا سحر تاری کیا ہے، ایسا جادو کیا ہے کہ اس کا اثر اب ایسی چیزوں پر بھی ہورہا ہے جو اپنی آواز سے اپنی موجودگی کا احساس دِلاتی ہیں۔ دریا بھی ایسی اُن چیزوں میں سے ایک ہے۔ دریا کے بہنے سے عموماً کافی شور پیدا ہوتا ہے لیکن غالباً یہ اُس دریا کے اِردگرد کی خاموشی کا جادو ہے جس نے اُس (دریا) کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور خاموش رہنے پہ مجبور کردیا ہے جبکہ اُس (دریا) کی فطرت اِس کے برعکس ہے۔

ڈاکٹر معین نظامی یہاں متناقض نمائی (Paradoxical statement) کی نشاندہی کرتے ہیں۔ رفتار کبھی ٹھہری ہوئی نہیں ہوسکتی، نہ ہی ایسی شے عملاً زندگی میں ممکن ہے۔ یہ دونوں متضاد چیزیں ہیں مگر اِن کو اقبالؔ نے یہاں جوڑ دیا ہے-

یہاں لفظ خِرام کا استعمال ہوا ہے۔ یہ اردو میں آہستہ آہستہ چلنے کے معنوں میں بھی لیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر معین نظامی کہتے ہیں کہ اِس بات پر تنقید کے جواب میں علامہ اقبال نے وضاحت فرمائی ہے کہ اُنہوں نے اپنی شاعری میں جب بھی لفظ خِرام کا استعمال کیا ہے تو صرف چلنے کے معنوں میں ہی کِیا ہے اور اِس کی دلیل وہ (اقبالؔ) کئی فارسی شُعَرا کے اِس لفظ کے اسی طرح استعمال سے دیتے ہیں۔

دریائے نیکر، ہائڈلبرگ، جرمنی

تاروں کا خموش کارواں ہے
یہ قافلہ بے درا رواں ہے

حلِ لغات:

دراقافلے میں اعلان کے لیے استعمال ہونے والی گھنٹی
رواں ہوناچلنا
حلِ لغات (بانگِ درا 81: ایک شام)

تشریح:

ستاروں کا قافلہ خاموشی میں ڈوبا ہوا ہے اور یہ خاموش کارواں کُوچ کی گھنٹی کی آواز کے بغیر ہی چل رہا ہے۔

تبصرہ:

ڈاکٹر معین نظامی یہاں بھی صنعتِ تضاد کے استعمال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ قافلہ کبھی خاموشی سے رواں نہیں ہوتا۔ اس کی موجودگی کا احساس دور تک نظر آتا ہے خواہ وہ اس کے شور سے ہو یا گرد کے اُٹھنے سے۔

یہاں لفظ درا کے استعمال سے اقبال صنعتِ ایہام کا استعمال کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ صنعتِ ایہام میں شاعر ایسا لفظ استعمال کرتا ہے جس کا ایک مفہوم قریب ہو اور ایک مفہوم بعید (دُور) ہو۔

شعر میں لفظ درا کا استعمال ہمیں بانگِ درا کی طرف لے جاتا ہے۔ درا وہ نقّارہ یا گھنٹی ہے جو پرانے دور میں قافلے کو جگانے، روانگی کے اعلان، صبح کے پیغام یا نئے رستے پر چلنے کی خبر دینے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ نیز بانگ اُس درا میں سے نکلنے والی آواز کو کہا جاتا ہے۔ مُراد یہ لی جا سکتی ہے کہ اس خوابیدہ فطرت کو جگانے والا کوئی نہیں۔


خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا
قُدرت ہے مُراقبے میں گویا

حلِ لغات:

کوہپہاڑ
دشتجنگل
مُراقبہدھیان، گیان، تصوّر، سوچ بچار، گردن جھکا کر فکر کرنا، اللہ کے ماسوا کو چھوڑ کر محض اللہ کی طرف دِل لگانا، Meditation
حلِ لغات (بانگِ درا 81: ایک شام)

تشریح:

پہاڑ اور جنگل ــ دریا اور صحرا ــ سب خاموش ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے تمام تر قدرت مُراقبے میں غرق ہے۔

تبصرہ:

اِس شعر میں لفظ مُراقبہ اہم ہے۔ یہ صوفی اصطلاح (Term) ہے۔ مراقبہ کے لغوی معنی نگرانی کرنا، نظر رکھنا، دیکھ بھال کرنا کے ہیں۔

اِس کا ذکر حدیث میں ہمیں تب ملتا ہے جب جبریل نبی پاک ﷺ سے احسان کے متعلق دریافت فرماتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ جواباً فرماتے ہیں کہ:-

أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ

احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ سمجھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔

(حوالہ: صحیح البُخاری: کتاب الایمان: حدیث نمبر 50)

واضح ہو کہ مراقبہ اسلامی تصّور میں Meditation کا متبادِل ہے۔


اے دِل! تُو بھی خموش ہو جا
آغوش میں غم کو لے کے سو جا

حلِ لغات:

آغوشگود
حلِ لغات (بانگِ درا 81: ایک شام)

تشریح:

اب جب صورتِ حال یہ ہے کہ ہر سُو خاموشی چھائی ہوئی ہے تو ایسے میں اے میرے مُضطرِب و بے چین دِل! تجھے بھی چاہیے کہ خاموش ہو جائے اور غم کو گود میں لے کر نیند کی آغوش میں چلا جائے۔

تبصرہ:

اِس شعر میں فعلِ امر کا استعمال کِیا گیا ہے یعنی حکم و تاکید کی جا رہی ہے کہ جس راہ پر سب فطرت چل رہی ہے، تُو بھی اُسی راہ سے مطابقت اختیار کر لے۔

یہاں دِل تمام فطرت کے بالمقابل ہے۔ پوری کائنات کے منظر نامے سے ہٹ کر ایک چیز ایسی ہے جو مضطرب و بے قرار ہے، جس کا سکون اور چین سے کوئی ناطہ نہیں۔ مگر جیسے دریائے نیکر اپنے اردگرد کی خاموشی کے فُسُوں میں پُر سکون ہوگیا ہے، وہی ترغیب اب اِس بے چین دِل کو دی جا رہی ہے جس کے اردگرد کے لوگ اتنے ہی سکون میں ہیں اور اُن میں اضطرابی و بے قراری کا کوئی عنصر نہیں۔ دِل کو یہ تاکید کمزور پل میں کی جا رہی ہے۔ یہ اُس دِل کی بے چینی ہے جس سے پھر لمحہِ عظم جنم لیتا ہے۔

پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے ایک شام کے اِس شعر کو تمام تر نظم کی جان قرار دیا ہے۔

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments