Skip to content
بانگِ درا 135: شبلیؔ و حالیؔ

بانگِ درا 135: شبلیؔ و حالیؔ

نظم ”شبلیؔ و حالیؔ“ از علامہ اقبال

تعارف

1914ء تاریخ میں بے حد اہمیت کا حامل سال گردانہ جاتا ہے کہ اسی سال جنگِ عظیم ہوئی اور مسلمانوں کے لیے بھی یہ سال خصوصیت سے یاد رکھنے کے قابل ہے کیونکہ برِصغیر کے دو عظیم مسلم دانِشوَر اور رہنما علامہ شبلیؔ نعمانی اور مولانا الطاف حسین حالیؔ علی الترتیب 18 نومبر 1914ء اور 31 دسمبر 1914ء میں اپنے معبودِ حقیقی سے جا مِلے۔ اقبالؔ کو ان زُعما (زعیم کی جمع – مراد رہنما) کی وفات سے جو گہرا رنج پہنچا، اُس کا اِظہار اُنہوں نے اِس نظم ”شبلیؔ و حالیؔ“ میں اپنے مخصوص انداز میں کیا ہے۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی)

نظم ”شبلیؔ و حالیؔ“ کی تشریح

مسلم سے ایک روز یہ اقبالؔ نے کہا
دیوانِ جُزو و کُل میں ہے تیرا وجود فرد

حلِ لغات:

الفاظمعنی
دیوانِ جُزو و کُلجُزوی اور کُلی تخلیقات کا مجموعہ، مراد یہ کائنات
فردبے نظیر، بے مثل، یگانہ
(نظم ”شبلیؔ و حالیؔ“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اقبالؔ نے ایک روز مسلم (اپنی قوم) سے یہ کہا کہ دیوانِ جُزو و کُل (جُزوی اور کُلی تخلیقات کا مجموعہ – کائنات) میں تیرا وجود بڑی اِنفرادیّت کا حامل ہے۔

واضح ہو کہ ”تیرا وجود فرد“ کی اصطلاح اس کائنات میں ایک مسلمان کی منفرِد شناخت اور قدر و قیمت کو اُجاگر کرتی ہے۔ وجود کے ”فرد“ ہونے سے مراد یہ ہے کہ ایک مسلِم اپنی ذات میں ایک بے نظیر مقام رکھتا ہے، جس کی مثال اس کائنات میں اور کہیں نہیں مِلتی۔


تیرے سرودِ رفتہ کے نغمے علومِ نَو
تہذیب تیرے قافلہ ہائے کُہن کی گرد

بانگِ درا 135شبلیؔ و حالیؔ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
سُرودِ رفتہگزرا ہوا دور
علومِ نوجدید علوم
قافلے ہائے کُہنپُرانہ قافلہ، مراد مسلمانوں کا دورِ عروج
گردغُبار
(نظم ”شبلیؔ و حالیؔ“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اقبالؔ یہاں مسلمانوں کے ماضی کی عظمت کی بات کر رہے ہیں۔ ماضی میں مسلمانوں نے علم، حکمت، سائنس اور فلسفے کے میدان میں بے شمار کارنامے انجام دیے۔ جو جدید علوم اور فلسفہ ہم آج جانتے ہیں، وہ دراصل مسلمانوں کے ماضی کے کارناموں کی پیداوار ہیں۔ ان کے سُرودِ رفتہ (ماضی کی کامیابیاں) آج کے نئے علوم کے طور پر زندہ ہیں۔

آج کی دُنیا میں جو کچھ بھی تہذیب کہلاتا ہے، وہ دراصل ماضی کی مسلمانوں کی تہذیب کا گرد و غبار ہے۔ یعنی جو تہذیب اور ترقی آج دنیا میں موجود ہے، اس کی جڑیں مسلمانوں کے پرانے قافلے (ماضی کی مسلمانوں کی علم و ثقافت) میں ہیں۔


پتھّر ہے اس کے واسطے موجِ نسیم بھی
نازک بہت ہے آئنۂ آبرُوئے مرد

حلِ لغات:

الفاظمعنی
موجِ نسیمخنک اور آہستہ چلنے والی ہوا
آبرُوعزت، عفت، عصمت، شان و شوکت، حیثیت
(نظم ”شبلیؔ و حالیؔ“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

لیکن تُو جانتا ہے کہ مرد کی عزت و آبرو ایک نازک آئینے کی مانند ہے، جو انتہائی حساس اور محافظت طلب ہے (یہاں ”آئینہ“ انسانی کردار، غیرت اور وقار کی علامت ہے)۔

اقبالؔ کا مطلب یہ ہے کہ ایک حقیقی انسان (بالخصوص مسلمان) کی عزت و وقار اتنی نازک اور حساس ہے کہ اگر اُس کی حفاظت نہ کی جائے تو معمولی سی کوتاہی یا غفلت بھی اسے نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو اپنے کردار، ایمان، اور خودداری کو ہر حال میں مضبوط رکھنا چاہیے تاکہ اس کی عزت پر کوئی آنچ نہ آئے۔


مردانِ کار، ڈھُونڈ کے اسبابِ حادثات
کرتے ہیں چارۂ ستَمِ چرخِ لاجورد

حلِ لغات:

الفاظمعنی
مردانِ کاروہ لوگ جو مشکل کاموں پر غالب آنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؛ (مجازاً) بہادر لوگ
اسبابسبب کی جمع۔ وجوہات
چرخِ لاجوَردنیلا آسمان
(نظم ”شبلیؔ و حالیؔ“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اس لیے جن عقلمندوں اور دِلیروں میں قوتِ عمل ہوتی ہے وہ یہ معلوم کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ قوم کیوں زوال پذیر ہے؟ وہ موجودہ حالات اور حادثات کا تجزیہ کرتے ہیں، اُن کے اسباب کو سمجھتے ہیں اور پھر اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ بقول علامہ:

؎ صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
(حوالہ: بالِ جبریل: مسجدِ قرطبہ)


پُوچھ اُن سے جو چمن کے ہیں دیرینہ رازدار
کیونکر ہوئی خزاں ترے گُلشن سے ہم نبرد

حلِ لغات:

الفاظمعنی
دیرینہپُرانے
ہم نبردجنگ آزما، مقابل، حریف
(نظم ”شبلیؔ و حالیؔ“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اے مسلمان! تُو اپنی قوم کے اُن اہلِ فکر و دانش سے پوچھ کہ تیرے عظیم ماضی کے وہ کارنامے اور عزت کیوں چھن گئی؟ علم و حکمت، سائنس اور تہذیب میں تیری قیادت کیوں ختم ہوگئی؟ کس وجہ سے تیری قوم کا باغ خزاں کا شکار ہوا اور وہ ترقی و عروج، جو کبھی تیرا خاصہ تھا، زوال اور پستی میں بدل گئی؟ کیا یہ اپنی تعلیمات سے غفلت، اتحاد کے فقدان، یا عملی زندگی میں کمزوری کا نتیجہ تھا؟ تُو اِن اسباب کو جان کر اپنی ذات اور قوم کی اصلاح کا بیڑا اُٹھا۔


مسلم مرے کلام سے بے تاب ہوگیا
غمّاز ہوگئی غمِ پنہاں کی آہِ سرد

بانگِ درا 135شبلیؔ و حالیؔ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
غمّازچُغلخور یا راز فاش کرنے والا
پنہاںچھُپا ہوا
(نظم ”شبلیؔ و حالیؔ“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اقبالؔ بیان کرتے ہیں کہ جب اُنہوں نے مسلمانوں کی حالتِ زار پر بات کی اور اُن کی عظمتِ رفتہ کو یاد دلایا، تو مُسلِم اُن کی باتوں سے بے چین اور بے قرار ہوگیا اور اقبالؔ کی بات کا جواب دیتے ہوئے اُس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری جس نے اُس کے دِل میں چھُپے ہوئے غم و دُکھ کو عیاں کر دیا۔


کہنے لگا کہ دیکھ تو کیفیّتِ خزاں
اوراق ہو گئے شجَرِ زندگی کے زرد

بانگِ درا 135شبلیؔ و حالیؔ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
کیفیّتحالت، احوال
اوراقورق کی جمع۔ صفحہ
شجردرخت
زردپیلا
(نظم ”شبلیؔ و حالیؔ“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

وہ مجھ سے کہنے لگا کہ اے اقبالؔ! تُو نے جو اُمّت کے زوال کا ذکر کیا ہے تو وہ کیفیت بھی دیکھ لے جس سے مسلمان دوچار ہیں۔ زندگی کو اگر ایک شجر سے تعبیر کر لیا جائے تو اُس درخت کے پتے مُرجھا کر سُوکھ چُکے ہیں (وہ لوگ جو قوم کے زوال کی وجوہات کے اسباب سمجھتے تھے، اب دُنیا سے رُخصت ہوتے جارہے ہیں)۔


خاموش ہو گئے چمَنِستاں کے رازدار
سرمایۂ گداز تھی جن کی نوائے درد

بانگِ درا 135شبلیؔ و حالیؔ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
چمنِستاںپھولوں کا باغ
گُداز کرنانرم کر دینا، پِگھلا دینا
نوائے درددرد انگیز کلام
(نظم ”شبلیؔ و حالیؔ“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

وہ لوگ جو  اِس چمن کے رازدار تھے، جنہیں مِلّت کے حقیقی مسائل اور اُن کے حل کی گہری سمجھ تھی، جن کے کلام کی تاثیر دِلوں کو نرم کرنے اور ملت کی بیداری کا باعث بنتی تھی اور جن کی نوائے درد نہ صرف دلوں کو متاثر کرتی بلکہ قوم کو اپنی حالت پر غور کرنے اور سُدھار کا راستہ اختیار کرنے پر بھی آمادہ کرتی تھی، وہ اب ایک ایک کر کے دُنیا سے رُخصت ہو رہے ہیں۔


شبلیؔ کو رو رہے تھے ابھی اہلِ گلستاں
حالیؔ بھی ہوگیا سوئے فردوس رہ نورد

بانگِ درا 135شبلیؔ و حالیؔ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
سوئے فردوسجنت کی طرف
رہ نوَردمسافر
(نظم ”شبلیؔ و حالیؔ“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

مولانا شبلیؔ کی وفات نے ہمارے دِلوں کو ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا۔ ابھی ہم اِس المیے پر آنسو بہا رہے تھے کہ مولانا حالیؔ بھی اس دُنیا سے کُوچ کر کے جنت سُدھار گئے۔


”اکنوں کرا دماغ کہ پُرسد زباغباں
بُلبل چہ گفت و گُل چہ شنید و صبا چہ کرد“

تشریح:

اب اِن دونوں مرحومین کے غمِ مفارقت / جُدائی میں کس کو اتنا ہوش ہے کہ وہ باغبان سے پوچھے کہ بُلبُل نے کیا کہا، پھول نے کیا سُنا اور صبا نے کیا کِیا؟ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ قوم کے امراض کا علاج کر سکتے تھے وہ تو رُخصت ہو گئے تو اب اِصلاح کون کرے گا؟ علاوہ بریں جو لو گ باقی رہ گئے ہیں وہ اِس وقت اُن کی وفات کے رنج میں اِس قدر مُبتلا ہیں کہ اِصلاح کی طرف توجہ نہیں کر سکتے۔

نظم شبلیؔ و حالیؔ پر تبصرہ

اِس نظم میں علامہ اقبال نے مولانا شبلیؔ نعمانی اور مولانا الطاف حسین حالیؔ پانی پتی کی وفات پر اپنے رنج و الم کا اِظہار کیا ہے۔ اِن دونوں بزرگوں کی وفات میں صرف ڈیڑھ ماہ کا فرق ہوا۔

مولانا شبلیؔ مرحوم‘ بلاشبہ ایک جامع حیثیات شخص گذرے ہیں؛ وہ بیک وقت منطقی، فلسفی، متکلم، مورخ، ادیب، نقاد، شاعر، انشا پرداز، مصنف، لیکچرار، استاد، منتظم، مدبّر، سیاست دان اور عالمِ دین تھے۔ میری نگاہ میں تو اُن کے یہی کارنامے اُن کی بزرگی اور عظمت کے ثبوت کے لیے کافی ہیں:

  • ایک تو یہ کہ اُن کے گوہر بار قلم سے سیرت النبی ﷺ جیسی محققانہ (تحقیق پر مبنی) کتاب عالمِ وجود میں آئی۔
  • دوسرا یہ کہ اُنہوں نے حضرت سید سلیمان صاحب ندوی مدظلہ کو قوم کی خدمت کے لیے تیار کر دیا۔
بانگِ درا 135شبلیؔ و حالیؔ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح
سید سلیمان ندوی
  • اُن کا تیسرا کارنامہ ندوۃ العلماء کا قیام ہے‘ جو اُن کی عملی قوّت اور علم دوستی کا ایک پائیدار نشان ہے۔ 18 نومبر 1914ء کو 57 برس کی عمر میں وفات پائی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے حیاتِ شِبلی، مولفہ مولانا سید سلیمان ندوی)

مولانا حالی (خواجہ الطاف حسین شمس العلماء) 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے تھے۔ غالبؔ کی صحبت میں رہ کر ادب اور شاعری کے ذوق کی تکمیل کی۔ نہایت مخلص اور دردمند مسلمان تھے۔ سرسیّد کی فرمائش پر 1879ء میں مسدّس لِکھا جس کی بدولت اُن کا نام سارے ہندوستان میں مشہور ہو گیا۔ جس طرح ”سر“ سید احمد خاں کے نام کا جزو بن گیا ہے‘ اُسی طرح ”مسدّس“ حالیؔ کے نام سے وابستہ ہو گیا ہے۔ مرحوم‘ نے ساری زندگی قوم کی خدمت میں بسر کی۔ اِس  دور میں حالیؔ، اکبرؔ اور اقبالؔ ہمارے تین بہترین قومی شاعر گذرے ہیں۔ اُنہوں نے 30 دسمبر 1914ء کو وفات پائی۔ اُن کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُنہوں نے اُردو شاعری میں اِنقلاب برپا کر دیا۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

حوالہ جات

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments