Skip to content
ضربِ کلیم 71: مقصود

ضربِ کلیم 71: مقصود

نظم ”مقصود“ از علامہ اقبال

تعارف

علامہ اقبال کی نظم ”مقصود“ تین اشعار پر مشتمل نظم ہے اور ہر شعر میں ایک فلسفی کے خیالات کا نچوڑ پیش کیا گیا ہے۔

YouTube video

نظم ”مقصود“ کی تشریح

(سپِنوزا)

نظر حیات پہ رکھتا ہے مردِ دانش مند
حیات کیا ہے، حضور و سُرور و نُور و وجود

حلِ لغات:

الفاظمعنی
حیاتزندگی
مردِ دانِش مندعقل مند آدمی
حضورموجودگی، مراد خدا کی حضوری ہونا
سُرُورخوشی، کیف، مسرّت
نورروشنی، جلوہ، عِشق
وجودذات کی موجودگی، ہونے کی حالت، موجود ہونا، ذات، شخصیت
(نظم ”مقصود“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

پہلے شعر میں اقبالؔ نے یہ بتایا ہے کہ سپِنوزا کی رائے میں انسان کا مقصود یا نصب العین  حیات ہے اور حیات کی اعلیٰ ترین صورت ہے خدا کی حضوری حاصل کرنا، پھر اُس کی حضوری سے لُطف و کیف اور حقیقت تک راہنمائی کی روشنی کا حاصل ہونا اور اپنے وجود کو ہستی سمجھنا کہ یہ موجود ہے۔ یہ ہے حیات!

حکیم اسپنوزا - نظم مقصود از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح
حکیم اسپنوزا (Spinoza)

حکیم اسپِنوزاؔ: یہودی الاصل تھا۔ 1632ء میں ہالینڈ (Holland) میں پیدا ہوا۔ اِبتدا میں مذہبی تعلیم حاصل کی لیکن فلسفہ کے مطالعہ کے بعد یہودی مذہب سے برگشتہ ہو گیا۔ چنانچہ 1656ء میں عُلمائے یہود نے اس کو جماعت سے خارج کر دیا۔ انجامِ کار اُس نے ہیگ (The Hague) میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور بقیہ عمر اسی شہر میں بسر کر دی۔ وہ عینکوں کے شیشے پالش کر کے اپنی روزی کماتا تھا اور خلوَت میں فلسفیانہ تصانیف میں مشغول رہتا تھا۔ اُس کی تصانیف میں علم الاخلاق (Ethics) سے سے زیادہ مشہور ہوئی۔ اِسی کتاب میں اُس نے اپنا فلسفہ مدوّن کیا ہے جو وحدۃ الوجود پر مبنی ہے۔ 1677ء میں وفات پائی۔  سپینوزا عقلیت پسند تھا۔ اس کے نزدیک خدا اور فطرت کے قوانین ایک ہی چیز ہیں۔


(فلاطُوں)

نگاہ موت پہ رکھتا ہے مردِ دانش مند
حیات ہے شبِ تاریک میں شرر کی نمود

حلِ لغات:

الفاظمعنی
نِگاہنظر
مردِ دانِش مندعقل مند آدمی
حیاتزندگی
شبِ تاریکاندھیری رات
شرر کی نمُودچنگاری کا ظاہر ہونا
(نظم ”مقصود“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

افلاطون کہتا ہے کہ ایک دانش مند ہمیشہ موت پر نظر رکھتا ہے کیونکہ حیات کی حقیقت  تو بس اتنی ہی ہے جیسے اندھیری رات میں کوئی چنگاری ایک لمحہ کے لیے چمک کر فنا ہو جائے یعنی حیات کوئی مستقل چیز نہیں ہے۔ اس لیے ”حیات“ انسان کا مقصود نہیں ہو سکتی، بلکہ دانشمند وہ ہے جو موت کو مقصود بنائے، کیونکہ موت کے بعد اِنسان اس غیر حقیقی دُنیا سے رہائی پا کر حقیقی دُنیا میں داخل ہو جائے گا۔

 افلاطون کے فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ دُنیا جو آنکھوں ستے نظر آتی ہے، غیر حقیقی (unreal) ہے، اسی لیے فانی بھی ہے اور ناقص بھی۔ اصلی یا حقیقی دُنیا نگاہوں سے مخفی ہے اور یہ دُنیا اُسی دُنیا کا ظل یا عکس ہے۔ اس بات کو افلاطون نے ایک غار اور اس میں موجود قیدیوں کی مثال سے سمجھایا ہے:-

رافیل (Raphael) کے سکول آف ایتھنز (The School of Athens) کے فریسکو (fresco) میں افلاطون (بائیں) کو بھی مرکزی شخصیت کے طور پر دکھایا گیا ہے، جس میں وہ اپنے تیمیئس (Timaeus) کو پکڑے ہوئے آسمان کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ جبکہ ارسطو (دائیں) اپنے ہاتھ میں نیکوماشین اخلاقیات (Nicomachean Ethics) کی ایک کاپی پکڑے ہوئے زمین کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

افلاطون: ملک یونان میں 427 قبلِ مسیح میں پیدا ہوا۔ پہلے مختلف اُستادوں سے فنونِ لطیفہ (شاعری، مصوّری اور موسیقی) اور فلسفہ حاصل کیا اور پھر سقراط کی شاگردی اختیار کی۔399 قبلِ مسیح میں سقراط کی وفات کے بعد مصر اور دیگر ممالک کا سفر کیا۔ اگرچہ وہ بہت بڑا فلسفی اور منطقی تھا، لیکن شاعری اور تصوّف کا بھی ذوق رکھتا تھا۔ 348 قبلِ مسیح میں وفات پائی۔ اُس کی تمام تصانیف ہم تک پہنچی ہیں۔ ان میں سے مکالمات (The Dialogues) اور جمہوریت (The Republic) بہت مشہور ہیں۔


حیات و موت نہیں التفات کے لائق
فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود

حلِ لغات:

الفاظمعنی
حیاتزندگی
اِلتفاتتوجہ، کسی چیز کو اہمیت دینا
مقصوداصلی غرض، مقصد
(نظم ”مقصود“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

علامہ اقبال اب اپنا فلسفہ بیان فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسان کا مقصود نہ زندگی ہے، نہ موت ہے۔۔ بلکہ خودی ہے۔ یعنی اللہ نے انسان کو اس غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ اطاعتِ احکامِ الہی یا اتباعِ شریعت کی بدولت اپنی خودی کی مخفی قوتوں کو بروئے کار لا کر خلافتِ الہیہ کا مستحق بن سکے۔ جو شخص ان مخفی قوتوں کو بروئے کار نہیں لاتا، وہ اپنی تخلیق کی منشاء سے بیگانگی کا ثبوت دیتا ہے۔ پس اُس کی زندگی اور موت یا اُس کا وجود اور عدم دونوں یکساں ہیں۔ اللہ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے نفس کا تزکیہ کرے، تاکہ فلاح پائے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:-

حیات، موت اور خودی کے حوالے سے علامہ اقبال اپنے خطبات میں فرماتے ہیں:-

سیّد نذیر نیازی ”تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ“ میں اس کا اردو ترجمہ درج فرماتے ہیں:-

حوالہ جات

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments