Skip to content
بانگِ درا 77: نوائے غم

بانگِ درا 77: نوائے غم


”نوائے غم“ از علامہ اقبال

تعارف

نظم ”نوائے غم“ میں علامہ اقبال نے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ غمِ آشنائی یا کیفیتِ سوز و گُداز بلندیِ فطرت کی دلیل ہے۔ یہ غمِ آشنائی اقبالؔ کے کلام میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ جیسا کہ شعر کی شرح میں بیان کر چُکا ہوں:-

؎ پیرِ مغاں! فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر
اس میں وہ کیفِ غم نہیں، مجھ کو تو خانہ ساز دے
(حوالہ: بانگِ درا: پیام)

یہاں ”کیفِ غم“ سے وہی ”نوائے غم مراد“ ہے جو اِس نظم کا عنوان ہے۔ یہ غمِ آشنائی عاشق کی خصوصیت ہوتی ہے کیونکہ عشق انسان کے اندر سوز و گداز کی صِفت پیدا کر دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان دنیا میں ہر غم زدہ کے غم میں شریک ہوتا ہے اور بہ الفاظِ دِیگر (دوسرے لفظوں میں / وہی بات دوسرے طریقے سے) ہر وقت کسی نہ کسی کے غم میں مُبتلا رہتا ہے۔ یہی کیفیّت انسان کا معیار ہے کیونکہ جو شخص کسی غم زدہ کے ساتھ غم گُساری نہیں کر سکتا، اُس میں اور حیوانات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ انسانی فطرت کی بلندی غمِ آشنائی پر موقوف ہے۔ جو انسان غم سے آشنا نہیں ہے وہ زندگی کی حقیقت سے آشنا نہیں ہے۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ دُنیا بظاہر بہت حسین اور دِلچسپ ہے، لیکن در اصل یہاں ہر راحت میں رنج اور ہر شادنی میں غم کا پہلو پوشیدہ ہے۔ اس لیے جو شخص غم آشنا نہ ہو، رنج کا خُوگر نہ ہو، وہ نہ اِس دُنیا سے واقف ہو سکتا ہے اور نہ اپنی فطرت کی تکمیل کر سکتا ہے۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

YouTube video
بانگِ درا 77: نوائے غم از علامہ اقبال

نظم ”نوائے غم“ کی تشریح

تشریح: بند نمبر 1

زندگانی ہے مری مثلِ ربابِ خاموش
جس کی ہر رنگ کے نغموں سے ہے لبریز آغوش

حلِ لغات:

الفاظمعانی
نوائے غمغم کی صدا / آواز
ربابِ خاموشوہ ساز جس میں آواز نہ ہو
لبریزبھری ہوئی
(بانگِ درا 77: نوائے غم از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

میری زندگی ایک خاموش سارنگی کی مانند ہے جس کی گود ہر طرح کے نغموں سے بھری پڑی ہے۔ یعنی مجھ میں نغمگی کی صلاحیت تو ہے (یا مجھ میں مختلف صلاحیتیں ہیں یا بہت سے تخیلات ہیں) لیکن اسے (انہیں) ظاہر میں نہیں لاتا۔ خاموش رباب یعنی وہ ساز جس میں ہر قسم کے نغمے تو موجود ہوں لیکن اسے بجایا نہ گیا ہو (ساز کو جب تک بجایا نہ جائے تب تک اُس میں سُر تال پیدا نہیں ہوتے)۔


بربطِ کون و مکاں جس کی خموشی پہ نثار
جس کے ہر تار میں ہیں سینکڑوں نغموں کے مزار


حلِ لغات:

الفاظمعانی
بربطایک ساز کا نام
کون و مکاںجہان، دُنیا، کائنات
(بانگِ درا 77: نوائے غم از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

میں ایسا ساز ہوں جو اگرچہ خاموش ہے، لیکن اُس کی خاموشی پر ساری دُنیا کے نظام کا وہ ساز کہ جس کا ہر سُر دِل بستگی کا آئینہ دار ہے، بھی قربان جاتا ہے۔ میں وہ خاموش ساز ہوں جس کے ہر تار میں سینکڑوں ہزاروں نغمے دفن ہیں۔ (پہلے شعر کے خیال ہی کو دہرایا گیا ہے)


محشرستانِ نوا کا ہے امیں جس کا سکُوت
اور منّت کشِ ہنگامہ نہیں جس کا سکُوت


حلِ لغات:

الفاظمعانی
محشرستانقیامت کا میدان، قیامت گاہ، جائے غشر، وہ جگہ جہاں زبردست ہنگامہ بپا ہو
نواصدا، آواز
امینامانت رکھنے والا، محفوظ رکھنے والا
سکُوتخاموشی
منت کشِ ہنگامہشور و غُل کا احسان اُٹھانے والا، ممنونِ احسان، ہنگامہ کا ممنونِ کرم
(بانگِ درا 77: نوائے غم از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

میں جانتا ہوں کہ اس ساز کی (یعنی میری) چُپ میں بھی  قیامت کا راگ چھُپا ہوا ہے۔ یہ خاموش ساز ایسی نواؤں کا مظہر ہے جو اہلِ دل کے سینے میں حشر برپا کر دیتی ہیں اور اُس کی اِس چُپ نے کبھی شور و غُل یا ہنگامے کا احسان نہین اُٹھایا۔


آہ! اُمیّد محبت کی بر آئی نہ کبھی
چوٹ مضراب کی اس ساز نے کھائی نہ کبھی

حلِ لغات:

الفاظمعانی
اُمّید بر آناخواہش / آرزو پوری ہونا
مضرابوہ آلہ جس سے ساز کو بجایا جاتا ہے
(بانگِ درا 77: نوائے غم از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

افسوس کہ محبت کی امید کبھی پوری نہ ہوئی اور میرے اس ساز (زندگی) نے کبھی مضراب کی چوٹ نہ کھائی، یعنی محبت میں کامیابی حاصل نہ ہونے کے باعث میری خاموشی کبھی گویائی میں تبدیل نہ ہوئی۔

تشریح: بند نمبر 2

مگر آتی ہے نسیمِ چمنِ طُور کبھی
سمتِ گردُوں سے ہوائے نفَسِ حُور کبھی

حلِ لغات:

الفاظمعانی
نسیمصبح کی خوشگوار اور نرم و لطیف ہوا
چمنِ طُورکوہِ طُور کا باغ جہاں موسیؑ نے اللہ تعالی کا جلوہ دیکھا
سمتِ گردُوں سےآسمان کی جانب سے
ہوائے نفسِ حُورحُور کے سانس کی ہوا
(بانگِ درا 77: نوائے غم از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اگرچہ محبت کی میری اُمید کبھی شرمندہ تکمیل نہ ہوئی، لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ طُورِ سینا سے عشقِ حقیقی کی ایک لہر میرے دِل کے دروازے تک پہنچ جاتی ہے اور کبھی حور کی سانس کی  معطر ہوا کی مجھ تک رسائی ہو جاتی ہے۔ (طُورِ سینا: وہ پہاڑ جس پر حضرت موسیؑ اللہ تعالی سے ہم کلام ہوئے)


چھیڑ آہستہ سے دیتی ہے مرا تارِ حیات
جس سے ہوتی ہے رِہا رُوحِ گرفتارِ حیات

حلِ لغات:

الفاظمعانی
تار چھیڑناساز بجانا
حیاتزندگی
رہا ہوناآزاد ہونا
گرفتارِ حیاتزندگی کی قید میں گرفتار
(بانگِ درا 77: نوائے غم از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

یہ سب مل کر قدرے آہستگی سے میری زندگی کے ساز کے تار چھیڑ دیتی ہیں (گویا یہ ہوائیں مضراب کا کام دیتی ہیں)، یوں میرے ساز سے نغمے نکلنے لگتے ہیں اور زندگی کے دام میں گرفتار روح ہر طرح کی بندِشوں سے آزاد ہو جاتی ہے۔


نغمۂ یاس کی دھیمی سی صدا اُٹھتی ہے
اشک کے قافلے کو بانگِ درا اُٹھتی ہے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
نغمۂ یاسنا اُمیدی، محرومی کا راگ
صداآواز
اشکآنسو
بانگِ دراقافلے کو جگانے والی گھنٹی کی آواز، جو قافلے کے روانہ ہونے کا پیغام دیتی ہے
(بانگِ درا 77: نوائے غم از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

لیکن میری یہ کیفیت زیادہ دیر تک نہیں رہتی اور غم و اندوہ (یاس) میں ڈوبی ہوئی ایک دھیمی سی آواز میرے کانوں سے ٹکراتی ہے۔ یہ آواز میرے آنسوؤں کے قافلے کے لیے گویا گھنٹی کی آواز (بانگِ درا) کا کام کرتی ہے، کہ جس کے بجتے ہی میری آنکھوں سے اشکوں کا قافلہ رواں ہو جاتا ہے۔ اس شعر کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگرچہ محبوب کی کُوچے کی طرف سے آنے والی ہوا وقتی طور پر خوشی دیتی ہے، لیکن محبوب سے جُدائی اور محرومی کا خیال اس خوشی کو غم میں تبدیل کر دیتا ہے اور میں پھر سے غمگین ہو جاتا ہوں۔

واضح ہو کہ افکارِ اقبالؔ میں خوشی سے زیادہ غم کو، اور وصل (محبوب کو حاصل کر لینا) سے زیادہ فراق (جُدائی) کو اہمیت حاصل ہے۔ بالِ جبریل میں فرماتے ہیں:-

؎ عالمِ سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق
وصل میں مرگِ آرزو، ہجر میں لذّتِ طلب
(حوالہ: بالِ جبریل: ذوق و شوق)

یعنی عشق کی دُنیا میں جُدائی کو وصل پر فوقیت حاصل ہے۔ وصل آرزو کی موت ہے کیونکہ وصل میں آرزو کی تکمیل ہو جاتی ہے اور جس آرزو کی تکمیل ہو جائے وہ باقی نہیں رہتی، لیکن جُدائی میں طلب کی لذت حاصل رہتی ہے اور عاشق کے لیے محبوب کی لذتِ طلب سے بڑھ کر زندگی کی کوئی لذت نہیں ہے۔

؎ گرمیِ آرزو فراق، شورشِ ہاے و ہُو فراق
مَوج کی جُستجو فراق، قطرے کی آبرو فراق!
(حوالہ: بالِ جبریل: ذوق و شوق)

یعنی آرزو کی گرمی جدائی ہی کی بدولت قائم رہتی ہے اور جدائی ہی نالہ و فریاد کا باعث ہے۔ دیکھو موج ہر وقت بے قرار رہتی ہے اور قطرے کی آبرُو بھی جُدائی کے سِوا کُچھ نہیں۔ کیونکہ جب تک موج اور قطرہ دریا سے الگ رہیں، اُن دونوں کی ہستی قائم رہتی ہے۔


جس طرح رفعتِ شبنم ہے مذاقِ رم سے
میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے

حلِ لغات:

الفاظمعانی
رِفعتبلندی، بڑائی، اوج
مذاقِ رمبھاگنے / حرکت میں رہنے کی لذّت
فطرتسرِشت، طبیعت
نوائے غمغم کی صدا / آواز
(بانگِ درا 77: نوائے غم از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اس طرح دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ جس طرح شبنم اُڑ جانے (یعنی چلنے اور سفر کرنے) کے ذوق کی بدولت زمین کی پستیوں سے نِکل کر آسمان کی بلندیوں تک جا پہنچتی ہے، اُسی طرح غم و اندوہ اور ناکامی و نامرادی کے گیت کے باعث انسان کی فطرت میں بلندی پیدا ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کی بلندی کا راز سوز و گُداز میں ہے۔ اُسے چاہیے کہ اپنے ہم جنسوں سے گھُل گھُل کر درد بھرے ترانے گاتا رہے۔ بانگِ درا میں فرماتے ہیں:-

؎ حادثاتِ غم سے ہے انساں کی فطرت کو کمال
غازہ ہے آئینۂ دل کے لیے گردِ ملال
(حوالہ: بانگِ درا: فلسفۂ غم)

غم سے متعلق یہ اشعار بھی ملاحظہ ہوں:-

غالبؔ:

؎ شادی سے گزر کہ غم نہ ہووے
اُردی جو نہ ہو تو دَے نہیں ہے
(شادی: خوشی، اُردی: موسمِ بہار، دَے: خزاں)

فانی بدیوانیؔ:

؎ غم بھی گذشتنی ہے، خوشی بھی گذشتنی
کر غم کو اختیار کہ گزرے تو غم نہ ہو
(گذشتنی: گزر جانے والا / عارضی)

حافظؔ:

؎ چہ شکر گویمت اے خیلِ غم عفاک اللہ
کہ روزِ بیکسی آخر نمی روی ز سرم

داغؔ:

؎ گئے ہیں رنج و غم اے داغ بعدِ مرگ ساتھ اپنے​
اگر نکلے تو یہ اپنے رفیقانِ عدم نکلے​

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments