نظم ”خفتگانِ خاک سے استفسار“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
علامہ اقبال کی نظم ”خفتگانِ خاک سے استفسار“ پہلی مرتبہ فروری ۱۹۰۲ء کے مخزن میں شائع کی گئی۔ مولانا غلام رسول مہر لِکھتے ہیں کہ شروع میں یہ نظم 40 اشعار پر مشتمل تھی، بانگِ درا کی اشاعت کے وقت نظرِ ثانی کی گئی اور صرف 26 اشعار باقی رکھے گئے۔ ڈاکٹر شفیق احمد کے مطابق مخزن میں اشاعت کے وقت بھی اس نظم کے تین ہی بند تھے، البتہ نظرِ ثانی میں جُزوی ترامیم کے علاوہ کُچھ نئے اشعار کا اضافہ بھی کیا گیا۔
اس نظم کا تعلق اقبالؔ کے فکر و فن کے اُس دور سے ہے جہاں وہ تلاش و تشکیک میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اُن کی روح بے چین، فرسودہ اور مضطرب دکھائی دیتی ہے اور وہ مظاہرِ فطرت سے ہم آہنگی کے خواہش مند ہیں۔ اسی سلسے میں نظامِ فطرت کے ساتھ کبھی راز داری بر قرار رکھتے ہیں اور کبھی براہِ راست اس سے ہم کلام نظر آتے ہیں۔
اِس نظم میں اقبالؔ نے اچھُوتے انداز میں حالات بعد الموت کے متعلق کُچھ سوالات اُن لوگوں سے کیے ہیں جو موت کی منزل سے گزر چُکے ہیں۔ درحقیقت یہ نظم اُن افکار و احساسات کا ایک جامع مرقع (منظر کشی) ہے جو زندگی کے مسائل پر غور و فکر کرنے والے بالغ نظر انسان کے قلب و دِماغ میں اوّل اوّل پیدا ہوتے ہیں۔ اِس نظم کی خوبی یہ ہے کہ دُنیا میں جتنے مسائل ایک سلیم الفطرت انسان کے لیے دُکھ اور تکلیف کا باعث ہیں، وہ سب پیش کر کے خاک میں سونے والوں سے پوچھا ہے کہ آیا موت کے بعد کی زندگی میں بھی وہ موجود ہیں یا نہیں؟
مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر
نظم ”خفتگانِ خاک سے استفسار“ کی تشریح
بند نمبر ۱
یہ بند 6 اشعار پر مشتمل ہے۔
مہرِ روشن چھُپ گیا، اُٹھّی نقابِ رُوئے شام
شانۂ ہستی پہ ہے بکھرا ہُوا گیسُوئے شام
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
مہر | سورج |
شانہ | کندھا |
ہستی | دنیا |
گیسو | بال |
خفتگانِ خاک | مٹی میں سوئے ہوئے لوگ، وہ لوگ جو اِس دُنیا سے رُخصت ہو چُکے ہوں |
استفسار | پوچھ گچھ، سوال |
تشریح:
علامہ اقبال رات کی تصویر کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں کہ روشنی پیدا کرنے والا سورج چُھپ گیا اور شام کے چہرے سے نقاب اُٹھ گیا ہے۔ تاریکی کے چھا جانے کے باعث یوں لگتا ہے جیسے شام نے زندگی کے کندھوں پر اپنے بال بِکھیر دیے ہوں (شام کو اُس کی سیاہی کے باعث گیسُو سے تعبیر کیا گیا ہے)۔
یہ سیَہ پوشی کی تیّاری کس کے غم میں ہے
محفلِ قُدرت مگر خورشید کے ماتم میں ہے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
سیہ پوشی | کالا لباس پہننا |
خورشید | سورج |
ماتم | رونا پیٹنا |
تشریح:
رات کے آغاز کی خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے۔ اقبالؔ نے رات کے سیاہ ہونے کو سیاہ پوشی یعنی کالا لباس پہننے سے تعبیر کیا ہے۔ پوچھتے ہیں کہ یہ سیاہ پوشی کس کے غم میں ہے آخر؟ در اصل اس کی وجہ سورج کے ڈھل جانے، گویا اُس کے مر جانے کے ماتم میں ہے۔ یہاں صنعتِ حُسنِ تعلیل کی بہترین مثال ملتی ہے۔
صنعتِ حُسنِ تعلیل: کسی چیز کی حقیقی وجہ سے ہٹ کر کوئی اور وجہ بیان کی جائے اور اس میں کوئی شاعرانہ خوبصورتی یا نزاکت ہو۔
کر رہا ہے آسماں جادُو لبِ گُفتار پر
ساحرِ شب کی نظر ہے دیدۂ بیدار پر
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
لبِ گفتار | بولنے والا ہونٹ |
ساحرِ شب | رات کا جادوگر |
دیدہ بیدار | جاگتی ہوئی آنکھیں |
تشریح:
آسمان بولنے والے ہونٹوں پر جادو کر رہا ہے۔ یعنی وہ نیند کی وجہ سے خاموشی اختیار کر رہے ہیں، کیونکہ رات اور خاموشی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ شب کو جادوگر کہا گیا ہے جو جاگنے والی آنکھ پر جادو کر رہی ہے اور اس وجہ سے لوگ سونے پر آمادہ ہو رہے ہیں۔
غوطہ زن دریائے خاموشی میں ہے موجِ ہوا
ہاں، مگر اک دُور سے آتی ہے آوازِ درا
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
غوطہ زن | ڈبکی لگانے والا |
آوازِ درا | گھنٹی کی آواز |
تشریح:
ہوا بھی خاموشی کے دریا میں غوطہ لگائے ہوئے ہے، یعنی انسانوں کے ساتھ ساتھ ماحول میں بھی بالکل سکُوت کا عالَم ہے۔ لیکن اس سکُوت کو توڑتی ہوئی ایک گھنٹی کی آواز دُور سے سُنائی دے رہی ہے۔
دل کہ ہے بے تابیِ اُلفت میں دنیا سے نفُور
کھینچ لایا ہے مجھے ہنگامۂ عالم سے دُور
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
بے تابیِ الفت | محبت کے باعث ہونے والی بے چینی |
نفور | نفرت کرنے والا |
ہنگامہِ عالَم | دنیا کی شورش، غُل |
تشریح:
اُلفت و محبّت سے بےقرار میرا یہ دِل، مجھے دنیا سے نفر ت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس لیے یہ مجھے دُنیا اور اُس کے شور سے دور لے آیا ہے۔
منظرِ حرماں نصیبی کا تماشائی ہوں میں
ہم نشینِ خُفتگان کُنجِ تنہائی ہوں میں
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
حرماں نصیبی | نامراد اور ناکام قسمت |
کنج تنہائی | الگ تھلگ رہنے کے لیے کونا |
خفتگانِ کنج تنہائی | تنہائی کے ایگ گوشے میں سونے والا |
ہم نشیشن | ساتھ بیٹھا ہونا |
تشریح:
میں نامرادی اور بُری قسمت کا نظارہ کر رہا ہوں۔ جو اِس تنہا کونے میں سو رہے ہیں، اُن کے ساتھ بیٹھا ہوں (اقبالؔ اب قبرستان میں قبروں کے پاس بیٹھے ہیں)۔
خلاصہ: سورج ڈھل رہا ہے اور رات چھا رہی ہے۔ لوگ سونے کی تیاریاں کر رہے ہیں ایسے میں شاعر کا نفرت اور بے چینی سے بھرا دل اس کو لوگوں سے دور قبرستان میں جا بیٹھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
بند نمبر ۲
یہ بند ۱۲ اشعار پر مشتمل ہے۔
تھم ذرا بے تابیِ دل! بیٹھ جانے دے مجھے
اور اس بستی پہ چار آنسو گرانے دے مجھے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
تھم | رُک |
بے تابیِ دل | دل کی بے چینی |
تشریح:
دِل بے تاب ہے کہ خفتگانِ خاک (مٹی میں سوئے ہوئے لوگ) سے وہ تمام سوال کر ڈالے جو اُسے بے چین و بے قرار کیے ہوئے ہیں۔ مگر اقبالؔ اُس کو روک کر کہتے ہیں کہ پہلے ذرا مجھے رو تو لینے دو۔ اس قبرستان کی بستی پر چند آنسوؤں کا نذرانہ تو پیش کرنے دو۔
اے مئے غفلت کے سر مستو! کہاں رہتے ہو تم؟
کُچھ کہو اُس دیس کی آخر، جہاں رہتے ہو تم
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
مے غفلت | بیہوشی کی شراب، مراد موت |
سر مست | شرابی |
تشریح:
مُردوں کو مئے غفلت کا سرمست کہہ کر پُکارتے ہیں، جو دنیا و مافیا کی فکر چھوڑ کر، اپنے فرائض، ذمہ داریوں اور واجبات سے بیگانے ہو کر یہاں دوسرے جہان میں آ گئے ہیں۔ اقبالؔ سوالات کا سلسلہ شروع فرماتے ہیں اور اُن کی دُنیا کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ مجھے اُس دیس کا حال بھی سُناؤ کہ جہاں تم رہتے ہو۔
وہ بھی حیرت خانۂ امروز و فردا ہے کوئی؟
اور پیکارِ عناصِر کا تماشا ہے کوئی؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
حیرت خانہ | حیرتوں کا گھر |
امروز و فردا | آج اور کل، مراد جہاں میں وقت کا بدلنا اور انقلابوں کا آنا |
عناصر | آگ، پانی، ہوا اور مٹی (elements) |
پیکارِ عناصر | عناصر کی آپس میں لڑائی، تعامل، ری-ایکشن (reaction) |
تشریح:
اس شعر میں اقبالؔ خفتگان سے وہاں کے زمان و مکان کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں کہ کیا وہاں بھی وقت کا تعین کرنے کے لیے دن اور رات جیسی کوئی چیز ہے (اِمروز و فردا سے وقت یا زمانہ کی طرف اشارہ ہے)۔ کیا وہاں کے اردگرد کا ماحول بھی یہاں کی طرح مادے (Matter) سے ہی مل کر بنا ہے اور عناصر (آگ، پانی، ہوا اور مٹی) میں لڑائی ہوتی رہتی ہے؟
’پیکارِ عناصر‘ سے مراد ہے اُن کے درمیان باہمی تعامل (reaction)، جس کے نتیجے میں نظامِ زندگی وجود میں آتا ہے۔ بقول اقبالؔ:-
دما دم رواں ہے یمِ زندگی
ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی
اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود
کہ شُعلے میں پوشیدہ ہے موجِ دُود
گراں گرچہ ہے صُحبتِ آب و گِل
خوش آئی اسے محنتِ آب و گِل
(حوالہ: بالِ جبریل: ساقی نامہ)
آدمی واں بھی حصارِ غم میں ہے محصُور کیا؟
اُس ولایت میں بھی ہے انساں کا دل مجبُور کیا؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
حصارِ غم | غم کی لپیٹ میں |
محصور | گھِرا ہوا، قید |
ولایت | بیرونی ملک |
تشریح:
کیا انسان وہاں بھی غم کے قلعے میں قید رہتا ہے (کیا وہاں بھی اُسے غم برداشت کرنا پڑتا ہے) اور کیا اُس مُلک میں بھی انسان مجبور ہے؟
واضح ہو کہ غم ایک ایسی شے ہے جو اس دُنیا کا خاصا ہے۔ کوئی ذی روح اپنے آپ کو غم سے آزاد نہیں پاتا۔ کبھی غمِ عاشقی، کبھی غمِ روزگار اور ہزار طرح کے غموں میں اپنے آپ کو قید پاتا ہے۔ زمان و مکاں کی قید کی طرح یہ قید بھی اتنی ہی اصل اور حقیقی ہے، جس نے انسان کو مجبور کر رکھا ہے۔
واں بھی جل مرتا ہے سوزِ شمع پر پروانہ کیا؟
اُس چمن میں بھی گُل و بُلبل کا ہے افسانہ کیا؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
سوزِ شمع | شمع کا جلنا |
پروانہ | وہ کیڑا جو روشنی پر منڈلاتا ہے اور آخر اس کی حرارت یا آگ سے جل جاتا ہے۔ |
تشریح:
کیا وہاں بھی شمع کی آگ پر پروانہ اپنے آپ کو قربان کر دیتا ہے؟ کیا اُس باغ میں بھی گُل و بُلبُل کی کہانی سُنی جاتی ہے؟
شمع و پروانہ اور گُل و بُلبُل، اردو اور فارسی شاعری میں عشق کے دو استعارے ہیں۔ جیسے پروانہ شمع پر مر مِٹنے کو تیار ہوتا ہے، بلبل بھی پھول کے حُسن پر عاشق ہو کر اُس کے گُن گاتی رہتی ہے اور یہ اُس کا نغمہ ہوتا ہے۔
گویا اقبالؔ دریافت کرتے ہیں کہ اُس جہان میں بھی عشق کا وجود ہے؟
یاں تو اک مصرع میں پہلو سے نکل جاتا ہے دل
شعر کی گرمی سے کیا واں بھی پگھل جاتا ہے دل؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
شعر کی گرمی | مراد شعر کا اثر |
تشریح:
اب اقبالؔ انسان کی قوّتِ گفتار کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ جس کا اس جہان میں تو یہ حال ہے کہ شعر کے ایک مصرع کا بھی دل پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ انسان وہ واحد مخلوق ہے جس پر الفاظ کا اس قدر اثر ہے کہ وہ الفاظ پر یقین رکھتا ہے، ان کے بولنے سے ہی سچا اور جھوٹا پہچانا جاتا ہے، ان سے ہی شکر و کفر کا مرتکب ہوتا ہے اور اُنہیں کے باعث اسکی برتری ہے۔
”وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا“
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام (ان کی تعاریف کے ساتھ) سکھا دیے
حوالہ: القرآن: سورۃ البقرۃ: آیت نمبر 31
شعر بھی الفاظ ہی کے ہیر پھیر سے پیدا کیا ہوا ایک فن ہے۔ اس کی اہمیت کے پیشِ نظر اقبالؔ دریافت کرتے ہیں کہ کیا وہاں بھی ایسا کُچھ ہے؟
رشتہ و پیوند یاں کے جان کا آزار ہیں
اُس گُلستاں میں بھی کیا ایسے نُکیلے خار ہیں؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
رشتہ و پیوندیاں | رشتے داریاں اور آپس کے تعلقات |
آزار | تکلیف |
نُکیلے خار | تیز کانٹے |
تشریح:
اِس دُنیا میں تو تعلقات (قرابت داری اور تعلقاتِ دوستی وغیرہ) جان کے لیے تکلیف دہ ہیں۔کیا اُس باغ میں بھی اِس طرح کے نوک دار کانٹے ہیں یا وہ عالم ان سب سے پاک ہے؟
سماجی تعلقات اس دنیا کی زندگی کا ایک بہت اہم حصہ ہیں۔ ان کی موجودگی ناگزیر ہے، لیکن ان میں استحصال اور مفاد پرستی بھی پائی جاتی ہے اور بہر حال انسان کی تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ مگر کیا وہ باغ، جس میں خُفتگان ہیں، اُس میں بھی رشتہ داریوں اور باقی تعلقات جیسے کانٹے موجود ہیں؟
اس جہاں میں اک معیشت اور سَو اُفتاد ہے
رُوح کیا اُس دیس میں اس فکر سے آزاد ہے؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
معیشت | economy، مراد روزگار کی فکر |
سو اُفتاد | کئی مصیبتیں |
تشریح:
اِس جہان میں زندگی گزارنے اور وجہ معاش حاصل کرنے کے لیے سیکڑوں مصیبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں، کیا اُس دیس میں روح اِس قسم کی فکر سے آزاد ہے؟
اس دنیا میں معیشت زندگی کا ایک بہت اہم حصہ ہے اور اس سے جُڑے ہوئے سو اور مسائل ہیں (حتیٰ کہ زندگی کا بیشتر حصہ اسی کے حصول میں صَرف ہوجاتا ہے)۔
اقبالؔ دریافت کرتے ہیں کہ کیا اُس جہان میں کم از کم روح اِس فکر سے آزاد ہے؟ حالانکہ روح کا اس فکر سے کوئی واسطہ نہیں، یہ تو محض مادی جسم کی ضروریات کا نتیجہ ہے۔ لیکن پھر بھی روح اس کے بوجھ تلے دو طریقوں سے دب جاتی ہے:-
- ایک تو اس کی ہوس میں وہ طاقت ہے کہ انسان کو روح کی غذا کا احتمام بُھلا دے۔
- دوسرا، اس معیشت کو چلانے کے وسائل اگر حرام ہوں تو روح پر بڑا بوجھ بن جاتے ہیں۔
کیا وہاں بجلی بھی ہے، دہقاں بھی ہے، خرمن بھی ہے؟
قافلے والے بھی ہیں، اندیشۂ رہزن بھی ہے؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
دہقاں | کسان |
خرمن | کھلیان، غلّے کا ڈھیر |
رہزن | ڈکیتی، بٹماری، قزّاقی |
تشریح:
کیا وہاں بھی بجلی، کسان اور کھیتوں کھلیانوں کے انبار ہیں؟ کیا وہاں قافلے بھی ہیں اور اُن قافلوں کو لُوٹنے والے ڈاکو بھی؟
اِس دنیا میں لوگ ہمیشہ خوف کی لپیٹ میں رہتے ہیں۔ انسان ہر وقت کسی نہ کسی ڈر سے بچاؤ کی جستجو میں لگا ہوتا ہے۔ خِرمن اور بجلیاں بھی ایک ایسے کھیل کا نام ہے۔ کسان ہر وقت اس خوف میں رہتا ہے کہ کہیں اُس کی فصل کی پیداوار کو بجلیاں جلا کر راکھ نہ کر دیں یا کوئی اور ناگہانی آفت نہ ٹوٹ پڑے۔ اسی طرح مسافر بھی اس ڈر میں رہتے ہوئے ہی سفر کرتا ہے کہ کہیں اُسے لُوٹ نہ لیا جائے۔
تِنکے چُنتے ہیں وہاں بھی آشیاں کے واسطے؟
خِشت و گِل کی فکر ہوتی ہے مکاں کے واسطے؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
آشیاں | گھونسلا |
خشت و گل | اینٹ اور مٹی جس سے عمارت بناتے ہیں |
تشریح:
کیا گھر بنانے جیسا کام جو یہاں چرند پرند اور انسان، سبھی کرتے ہیں، وہاں بھی یہ نظام ہے اور اس طرح کی مادی ضروریات ہیں؟ کیا وہاں بھی مکان کے واسطے اینٹ اور مٹی کی فکر ہوتی ہے؟
واں بھی انساں اپنی اصلیّت سے بیگانے ہیں کیا؟
امتیازِ ملّت و آئِیں کے دیوانے ہیں کیا؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
بیگانے | غافل، بھولے ہوئے |
امتیازِ ملت | اپنی قوم کو باقیوں سے بہتر سمجھنا |
تشریح:
کیا انسان وہاں بھی اپنی اصلیّت سے بے خبر ہیں اور کیا وہاں بھی لوگ امتیازِ ملّت و آئین کے دیوانے ہیں؟
اب اقبالؔ اس دنیا کی مادی ضروریات سے ہٹ کر اِس دنیا میں انسان کے نظریاتی پہلو کے متعلق سوال اُٹھاتے ہیں۔ مادیات کا کھیل اور اس دنیا کا جادو ہی ایسا ہے کہ اس میں تو انسان اپنی اصل سے بے خبر رہنے کا عادی ہے، کیونکہ اپنی اصل کو پہچانتا نہیں اس لیے شناخت کے لیے مزید کئی پیرائے بنا لیتا ہے۔
یہ پیرائے کبھی رنگ و نسل کے ہوتے ہیں، کبھی خاندان یا قبیلے کے، یا ذات پات کے۔ یا انسان کبھی زمین (یعنی مُلک) اور کبھی روزگار (یعنی پیشہ) سے اپنی شناخت بنا لیتا ہے۔ پھر اسی کو اپنی قوم سمجھنے لگتا ہے اور اس کی بنیاد پر دوسروں پر امتیاز اور غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح اپنے نظریے کی بنیاد پر کچھ آئین اور دستور بنا لیتا ہے، پھر اُن کی بالا دستی چاہتا ہے۔
کیا یہ اِسی جہاں کا خاصا ہے؟ کیا وہ جہان اس سے کُچھ مختلف ہے؟
واں بھی کیا فریادِ بُلبل پر چمن روتا نہیں؟
اِس جہاں کی طرح واں بھی دردِ دل ہوتا نہیں؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
فریادِ بلبل | بُلبُل کی پُکار / آہ و زاری |
تشریح:
کیا وہاں بھی باغ بُلبُل کی فریاد پر نہیں روتا؟ کیا وہاں بھی اِس جہاں کی طرح بے درد لوگ بستے ہیں؟ کیا وہاں اس صورتِ حال کے برعکس باہم ہمدردی کا مادہ موجود ہے؟
چمن کا رونا احساسِ ہمدردی ہے۔ دوسرے کے لیے دردِ دل رکھنا اور اُس کی پریشانیوں میں شریک ہونا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مگر اس دنیا کا ایک تاریک پہلو یہ ہے کہ انسان اس کی کم ہی پرواہ کرتا ہے اور زیادہ تر مفاد پرست اور self-centered ہی رہتا ہے۔ کیا وہاں بھی انسانی جذبات کا یہی حال ہے؟
خلاصہ: اقبالؔ کے دل کی بے قراری سے اُن کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ اس بےتابی کی وجہ وہ سوالات ہیں جو وہ اُن لوگوں سے کرنا چاہتے ہیں جو اِس دُنیا سے رُخصت ہو کر اگلے جہان کُوچ کر گئے ہیں۔ اس لیے وہ تمام سوال جو اس دنیا کے بارے میں اقبالؔ کو پریشان کرتے ہیں، وہ ایک ایک کر کے اُن سے پوچھتے ہیں اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا وہ جہاں، جس میں خفتگان سوئے ہوئے ہیں، وہ بھی ایسا ہی ہے یا اس سے کچھ مختلف ہے۔
بند نمبر ۳
یہ بند ۸ اشعار پر مشتمل ہے۔
باغ ہے فردوس یا اک منزلِ آرام ہے؟
یا رُخِ بے پردۂ حُسنِ ازل کا نام ہے؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
فردوس | جنت کا علیٰ ترین مقام |
رُخ | چہرہ |
حسنِ ازل | حُسنِ خداوندی، ذاتِ باری تعالیٰ |
تشریح:
یہ جو حیات بعد از موت میں ’فردوس‘ کا تصوّر ہمارے ذہن میں ہے، وہ فردوس کیا ہے؟ کیا وہ ایک خوبصورت جگہ ہے جہاں گھوما پھرا جا سکتا ہے یا وہ محض ایک آرام گاہ ہے جہاں سکون سے، بغیر کسی پریشانی اور مزید جستجو کے آرام کیا جا سکتا ہے؟ یا پھر فردوس اُس مقام کا نام ہے جہاں پر حُسنِ لامحدود و ازل (یعنی خدا) خود کو بے حجاب دکھاتا ہے اور یہی فردوس کے مقام تک پہنچنے کا انعام ہے۔
اقبالؔ خفتگان سے فردوس کے اِس تصور کی تفسیر طلب کرتے ہیں۔
کیا جہنّم معصیت سوزی کی اک ترکیب ہے؟
آگ کے شعلوں میں پنہاں مقصدِ تادیب ہے؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
معصیت سوزی | گناہ جلانے کا عمل |
پنہاں | چھپا ہوا، پوشیدہ |
تادیب | ادب سکھانا، تنبیہ کرنا |
تشریح:
پھر خفتگانِ خاک سے جنت کی طرح، جہنم کے تصّور کی بھی تفصیل مانگتے ہیں۔ پوچھتے ہیں کہ کیا دوزخ گناہوں کو جلانے کی ایک ترکیب ہے اور آگ کے شعلوں سے ادب سِکھانا مقصود ہے؟ یا دوزخ کی حقیقت بھی کُچھ اور ہے؟
واضح ہو کہ یہاں جہنم کے تصور کے متعلق دو علمی نظریات پیش کیے گئے ہیں۔
- پہلے نظریے کے مطابق کیا وہ اس لیے بنائی گئی ہے کہ انسان اُس میں ڈالے جائیں اور اس کی آگ اُن کے گناہوں کو جلائے، جب تک کہ وہ پاک نہ ہو جائیں اور جنت میں جانے کے قابل نہ ہوجائیں۔
- دوسرا نظریہ یہ ہے کہ دوزخ محض ایک deterrent ہے اور اس کے شعلوں کو بھڑکانے کے پیچھے خدا کا صرف یہ مقصد ہے کہ انسان کو تنبیہ کی جاسکے، اُسے warn کیا جا سکے اور وہ اس کے ڈر کی وجہ سے صراطِ مستقیم پر رہے۔ یعنی انسان کو اُس میں جلانا مقصود نہیں۔
کیا عوض رفتار کے اُس دیس میں پرواز ہے؟
موت کہتے ہیں جسے اہلِ زمیں، کیا راز ہے؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
رفتار | زمین پر چلنا |
پرواز | اُڑنا |
تشریح:
کیا اُس دنیا کے قدرتی اصول و قوانین یہاں سے مختلف ہیں؟ کیا وہاں ہم فِزِکل اصولوں (Laws of Physics) ، جیسے کہ کششِ ثقل (Gravity) کے پابند نہیں رہیں گے؟ اور زمین پر چلنے کے بجائے ہوا میں اُڑنے لگیں گے۔
یعنی عام طور پر انسان جب اسکا تصور کرتے ہیں تو خود کو مادی اصولوں سے ماورا پاتے ہیں لیکن موت بہر حال ہمارے لیے ایک مخفی راز ہے جس کے بارے میں ہم قیاس کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ اقبالؔ خفتگانِ خاک سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں اس راز سے آشنا کریں۔
اضطرابِ دل کا ساماں یاں کی ہست و بود ہے
علمِ انساں اُس ولایت میں بھی کیا محدود ہے؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
اضطرابِ دل | دل کی بے چینی |
ہست و بود | ہونا، رہنا سہنا |
تشریح:
اس دنیا میں انسان کا وجود بہت محدود ہے اور اُس کی ہستی کے گرد ایک حاشیہ ہے۔ اُس حاشیے سے باہر تک نہ اُس کی نگاہ جاتی ہے نہ اُسکا علم۔ وہ ہر شے کو جان نہیں سکتا اور سمجھ نہیں سکتا۔ یہی شے اُس کے دل میں بے قراری پیدا کر دیتی ہے۔
یہاں حضرت موسیٰؑ اور خضرؑ کا واقع ذہن میں رکھیے۔ خضرؑ کے اُٹھائے گئے ہر اقدام پر، موسیٰؑ مضطرب ہو جاتے اور سوال کر اُٹھتے۔ یہ اضطراب اُن کے علم کی محدودیت کی وجہ سے تھا (سورۃ الکہف: آیت نمبر 61 تا 82)۔
کیا اُس دوسری جہت (dimension) یا دنیا میں بھی علم محدود ہے جو اس اضطراب کو برقرار رکھنے کا سبب بنے گا؟
دید سے تسکین پاتا ہے دلِ مہجُور بھی؟
’لن ترانی‘ کہہ رہے ہیں یا وہاں کے طُور بھی؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
مہجور | ہجر،فراق کا شکار |
لن ترانی | اشارہ ہے اُس قرآنی واقعہ کی طرف جس میں حضرت موسیؑ نے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ اپنا جلوہ دکھائیں، جس پر اللہ تعالی نے جواب دیا ”لن ترانی“ یعنی تُو مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکتا |
طور | وادی سینا کا وہ پہاڑ جہاں حضرت موسی اللہ سے ہم کلام ہوئے |
تشریح:
کیا وہاں جُدائی کے مارے ہوئے دِل کو دیدار میسّر ہوتا ہے یا وہاں کے طُور سے بھی دیدار کی صدا بلند ہوتی ہے اور جواب ’لن ترانی‘ میں آتا ہے؟ ’لن ترانی‘ سے اشارہ قرآنِ پاک میں مذکور حضرت موسیؑ کے اس واقعہ کی طرف ہے:-
وَلَمَّا جَآءَ مُوْسٰى لِمِيْقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ اَرِنِـىٓ اَنْظُرْ اِلَيْكَ ۚ قَالَ لَنْ تَـرَانِىْ وَلٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَـرَانِىْ ۚ فَلَمَّا تَجَلّـٰى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَـهُ دَكًّا وَّخَرَّ مُوْسٰى صَعِقًا ۚ فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ اِلَيْكَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ
اور جب موسٰی ہمارے مقرر کردہ وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے رب مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں! فرمایا کہ تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا لیکن تو پہاڑ کی طرف دیکھتا رہ اگر وہ اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو تو مجھے دیکھ سکے گا، پھر جب اس کے رب نے پہاڑ کی طرف تجلی کی تو اس کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسٰی بے ہوش ہو کر گر پڑے، پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کی کہ تیری ذات پاک ہے میں تیری جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا یقین لانے والا ہوں۔
جیسے اس دنیا میں خدا نے اپنی ذات کو مخفی رکھا ہے، کیا وہاں بھی انسان خدا کے ایک جلوے کا منتظر ہے اور ہجر کا مارا ہوا ہے۔ یا وہاں اُسے خدا سے وصل حاصل ہوگیا ہے؟
جستجو میں ہے وہاں بھی رُوح کو آرام کیا؟
واں بھی انساں ہے قتیلِ ذوقِ استفہام کیا؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
قتیل | مرنے والا، جان چھڑکنے والا |
ذوقِ استفہام | سوال کرنے یعنی تلاش و جستجو کا شوق |
تشریح:
انسان کی خوشی ہمیشہ جستجو اور تلاش میں ہوتی ہے۔ جب تک وہ کسی شے کا پیچھا کرتا ہے وہ خوش رہتا ہے اور جب وہ چیز اُسے حاصل ہو جاتی ہے تو اُس سے بڑھ کر کوئی جستجو ڈھونڈ لیتا ہے۔
؎ ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
شاعر: خواجہ الطاف حسین حالیؔ
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں
اسی جستجو میں اس کی روح کو آرام ہے۔ اس بہتر سے بہتر کی تلاش میں وہ سوال پر سوال کرتا آیا ہے۔ علم و فلسفے کی بنیاد یہی سوال ہیں جس کی وجہ سے کسی بھی قسم کی ترقی آج انسان نے حاصل کی۔ کیا اُس دنیا میں اِس انسان کے سوال تھمیں گے؟ یعنی اُسے اتنا علم حاصل ہو جائے گا کہ کسی اور سوال کی کوئی گنجائش نہ رہے؟
آہ! وہ کِشور بھی تاریکی سے کیا معمُور ہے؟
یا محبّت کی تجلّی سے سراپا نُور ہے؟
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
کشور | ملک |
معمور | بھری ہوئی |
تشریح:
اِس دُنیا پر تو بُغض و عداوت کی تاریکیاں مسلّط ہیں اور خلوص و محبّت کا کہیں سُراغ نہیں مِلتا۔ کیا وہ سلطنت بھی اندھیرے سے پُر ہے یا محبّت کی چمک سے سر تا پا نُور بنی ہوئی ہے؟
’تاریکی‘ سے اشارہ ہر اُس شے کی غیر موجودگی کی طرف ہے جس سے انسان اس دُنیا میں عاری ہے اور جن کا ذکر شاعر نے اب تک کیا ہے۔ ’محبت‘ کی تجلّی سے خدا کا نور اور ہر قسم کی امیدیں (یعنی دل کا مضطرب نہ ہونا وغیرہ) مراد ہیں۔ اِس شعر میں اقبالؔ نے مذکورہ خیالات کو اکٹھا کر دیا ہے گویا۔
تم بتا دو راز جو اس گنبدِ گرداں میں ہے
موت اک چُبھتا ہُوا کانٹا دلِ انساں میں ہے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
گنبد گرداں | مراد آسمان |
تشریح:
موت، آسمان کا ایک ایسا راز ہے جس کو سمجھنے اور کھولنے کی جستجو میں انسان مسلسل لگا رہتا ہے اور یہ اُس کے دل میں ایک کانٹے کی طرح چبھتا رہتا ہے۔
اے خُفتگانِ خاک! جو اس دُنیا سے باہر ہو، یہ راز مجھ پر آشکار کر دو۔
خلاصہ: اس بند میں سوالات کی نوعیت ذرا تبدیل ہوجاتی ہے۔یہ بند انسان کے حیات بعد از موت، عقل و ذہن اور دِل کے پیدا کردہ سوالات کا احاطہ کرتا ہے۔
تبصرہ
اس نظم میں علامہ اقبال نے انسان کے اس دنیا کے مسائل اور اُس دنیا کے بارے میں سوالات کو بہت خوبصورتی اور فراست کے ساتھ پیش کیا ہے۔
نظم میں پریشانی، اُداسی اور اضطرابی و بیقراری کے جذبات واضح ہیں۔ یہ جذبات ہی ہیں جو شاعر کو استفہامی کیفیت عطا کرتے ہیں۔ پہلے ہی بند سے ’گیسُو‘، ’سیہ پوشی‘، ’ماتم‘، ’دریائے خاموشی‘، ’ساحر‘ اور ’نفور‘ جیسے الفاظ نظم کے مزاج کا تعیّن کر دیتے ہیں اور قاری کے دماغ پر سکوت اور تاریکی سی چھا جاتی ہے جو بقیہ نظم کے موضوع سے مطابقت رکھتی ہے۔
امجد اسلام امجد کی ایسے ہی مزاج کی ایک نظم کی طرف لا محالہ خیال جاتا ہے۔ اس کا کچھ حصہ عرض ہے:-
کبھی کبھی جب مری صدائیں
شاعر: امجد اسلام امجدؔ
گھروں سے بچھڑی یہ فاختائیں
جو کہکشاؤں کے رستوں میں رواں ہوئیں تھیں
مرے زمان و مکان سے آگے
مرے تخیّل اور مرے گماں سے آگے
حدودِ حدِ بیاں سے آگے کی وسعتوں سے پلٹ کے آتیں
اور میرے لہو کی وادی میں گونجتی ہیں
میں سوچتا ہوں
میں اپنے ہونے اور نہ ہونے کے مخمسے میں یہ سوچتا ہوں
کہ میرے چاروں طرف جو بکھرا ہوا خلاء ہے
میں اُس کے اندر ہوں، اُس کے باہر ہوں
اُس کا حصہ ہوں یا کہ کیا ہوں
حوالہ جات
- [۱] شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- [۲] شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- [۳] مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر
- [۴] آوازِ اقبال – بانگِ درا مع مطالب از نریش کمار شادؔ
- [۵] شرح بانگِ درا ا ڈاکٹر شفیق احمد
- [٦] شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی