Skip to content
ضربِ کلیم 84: حکومت

ضربِ کلیم 84: حکومت


نظم ”حکومت“ از علامہ اقبال

تعارف

نظم ”حکومت“ میں علامہ اقبال نے استعارے اور مجاز کے رنگ میں اور اپنے مخصوص انداز میں حکومت کے حصول کا طریقہ بتایا ہے۔

YouTube video

نظم ”حکومت“ کی تشریح

ہے مُریدوں کو تو حق بات گوارا لیکن
شیخ و مُلّا کو بُری لگتی ہے درویش کی بات

حلِ لغات:

الفاظمعنی
حقسچی
گواراپسند
شیخ و مُلّامذہبی عُلماء اور راہنما
درویشفقیر، ولی۔ مراد علامہ اقبال
(ضربِ کلیم 84: حکومت از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

مردِ خدا کی بات جوانانِ مِلّت تو سُن لیتے ہیں لیکن پیشہ ور اور دین فروش شیخ و مُلّا گوارا نہیں کرتا کیونکہ اُسے مردِ قلندر کی تقلید میں اپنی موت نظر آتی ہے (کیونکہ آج کا صوفی و مُلّا تو تن آسانی کی زندگی پسند کرتا ہے)۔

واضح ہو کہ یہاں صوفی سے مراد ہے وہ شخص جو غیر اسلامی تصوّف کی تعلیم دیتا ہے اور غیر اسلامی تصوّف سے میری مراد ہر وہ تعلیم ہے جس مسلمان کو عمل سے بیگانہ بنا دے، یا اس کی قوتِ عمل کمزور کر دے۔

اسی طرح مُلّا سے مراد ہے وہ تنگ نظر، قدامت پسند اور مقلدِ کور (اندھی تقلید کرنے والا) مذہبی پیشوا جو اپنے ماحول اور حالاتِ حاظرہ سے بے خبر، حجرہ میں بیٹھا ہوا، مسلمانوں کے اندر فروعی اختلافات کو تقویّت دیتا رہتا ہے۔ دُنیا کہیں سے کہیں چلی گئی، لیکن وہ ابھی تک اس بحث میں اُلجھا ہوا ہے کہ ”آمین“ زور سے کہی جائے یا آہستہ؟

اقبالؔ کی رائے میں مسلمانوں کی پستی اور خواری کے ذمہ دار تین گروہ ہیں:-

  • اوّل: وہ امراء جو عیاشی اور بدکاری میں مصروف رہتے ہیں۔ اور قوم کے سامنے برا نمونہ پیش کرتے ہیں۔
  • دوم: وہ صوفی جو خانقاہوں میں مسلمانوں کو اللہ کی اطاعت کی بجائے اپنی اطاعت کا سبق دیتے ہیں اور ان میں غیر اسلامی خیالات پیدا کرتے ہیں، جن کا لازمہ نتیجہ کاہلی، بے عملی اور جہاد سے گریز ہے۔
  • سوم: وہ علماء جو مدرسوں میں مسلمانوں کو غیر ضروری یا فروعی مسائل میں اُلجھا کر ایک طرف مقصدِ حیات سے غافل کرتے ہیں اور دوسری طرف ان میں اختلاف و افتراق پیدا کرتے ہیں۔

اقبالؔ نے یہ کوئی نئی تشخیص نہیں کی ہے۔ آپؒ سے مدتوں بلکہ صدیوں پہلے ایک شاعر نے صرف ایک شعر میں مسلمانوں کے مرض کی یہی تشخیص واضح طور پر بیان کر دی تھی۔

؎ وهل أفسد الدين إلا الملوك
و أحـبار سـوء و رهبانها

اور دین اسلام کی تحریب نہیں کی، مگر ان تین گروہوں نے: ملوک، علمائے سو اور رہبان یا صوفیاء۔

تاریخ شاہد ہے کہ ان تینوں طبقات نے مل کر دین اسلام کو بالکل مسخ کر دیا۔


قوم کے ہاتھ سے جاتا ہے متاعِ کردار
بحث میں آتا ہے جب فلسفۂ ذات و صفات

حلِ لغات:

الفاظمعنی
متاعِ کردارعمل کی دولت
فلسفۂ ذات و صفاتاللہ تعالی کی ذات و صفات کے متعلق فلسفہ
(ضربِ کلیم 84: حکومت از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اب علامہ اقبال صوفی و مُلّا سے ناراضگی کی وجہ بیان کرتے ہی، یعنی وہ جو اِن دونوں سے ناراض ہیں، تو کیوں! اس کی وجہ یہ ہے کہ جاہل صوفی اور تنگ نظر مُلّا، دونوں ایک ہزار سال سے مسلمانوں کو ذات و صفاتِ باری تعالی کے پیچیدہ اور لاینحل (حل نہ ہو سکنے والے) مسائل میں اُلجھائے ہوئے ہیں اور اس غلط بلکہ گمراہ روِش کا نتیجہ یہ ہے کہ قوم، کردار یعنی عمل اور جہاد سے بیگانہ ہو گئی اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو قوم بھی ذات و صفات کی بحث میں گرفتار ہو جائے گی، وہ عملِ صالح اور جد و جہد سے بیگانہ ہو جائے گی۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی تاریخِ عالم سے چند مثالیں پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-

  1. جب  اہلِ یونان، ذات و صفات کی بحثوں میں مبتلا ہوئے تو رومیوں کے غلام بن گئے۔ 529ء
  2. جب اہلِ ایران، ان مباحث میں گرفتار ہوئے تو عربوں کے غلام بن گئی۔ 648ء
  3. جب اہلِ ہند، ان بحثوں میں منہمک ہوئے تو ترکوں کے غلام بن گئے۔ 1206ء
  4. جب رومی عیسائی، ان مسائل میں الجھے تو مسلمانوں کے غلام بن گئے۔ 1453ء
  5. جب مسلمان ان مسائل میں گرفتار ہوئے تو انگریزوں کے غلام بن گئے۔ 1803ء

اسی حقیقت، بلکہ قانونِ قدرت کو پیشِ نظر رکھ کر حضورِ اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو وصیت فرمائی تھی کہ دیکھو! میں تمہیں متنبہ کیے دیتا ہوں، تم ہرگز اللہ کی ذات و صفات میں بحث نہ کرتا، تم سے پہلی قومیں اس بحث میں منہمک ہوجانے کی بدولت ہلاک ہوئیں (یعنی دوسروں کی غلام ہو گئیں)۔ (یہ حدیث پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے اس نظم کی شرح میں بیان فرمائی ہے، تاہم حوالہ نہیں مِل سکا۔ قارئین کے پاس اگر حوالہ موجود ہو تو ضرور مطلع فرمائیں۔ شکریہ)۔ ذات و صفات میں انہماک یقیناً بربادی کا پیغام ہے۔ کیونکہ انسان ان مسائل کو عقل کے ذریعہ سلجھا ہی نہیں سکتا۔ اِس نکتہ کو اکبر الہ آبادی نے یوں بیان کیا ہے:-

؎ فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سُلجھا رہا ہے پر سِرا ملتا نہیں
(شاعر: اکبر الہ آبادی)

پس تم اللہ کی ذات و صفات میں غور مت کرو۔ اللہ، ذکر کے لیے ہے، اور کائنات فکر کے لیے ہے۔ اللہ کا ذکر کرو اور کائنات میں غور و فکر کرو۔ یہی طریقہ تمہیں کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ (اقوام مغرب ذکر تو نہیں کرتیں لیکن فکر ضرور کرتی ہیں۔ اس کے برعکس ہم مسلمانوں کی صورتِ حال یہ ہے کہ ہم نہ ذکر1 کرتے ہیں، نہ فکر)

1 ذکر کے تین معنی ہیں:-
زبان سے ذکر کرنا
دِل میں دھیان کرنا
اطاعت کرنا

مسلمانوں کی مِلّی تاریخ گواہ ہے کہ جس دن اُنہوں نے آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی کو پسِ پُشت ڈالا، اُن کا زوال شروع ہو گیا۔ واضح ہو کہ ذات و صفات کے فلسفہ میں اِن مسائل پر بحث کی جاتی ہے:-

  1. ذاتِ باری تعالیٰ کی کیا حقیقت ہے؟
  2. ذات، ماہیت، حقیقت اور وجود باری میں کیا فرق ہے؟
  3. ذاتِ باری تعالیٰ کا صفات سے کیا علاقہ ہے؟ آیا وہ صفات و ذات سے جدا ہیں، یا عین ذات ہیں۔
  4. صفات کل کتنی ہیں؟ ان میں سے اصلی کون سی ہیں؟ اور فروعی کون سی ہیں؟
  5. صفات اگر غیر ذات ہیں تو خدا مرکب ہو جائے گا، اور اگر عین ذات ہیں تو صفات کا وجود کالعدم ہو جائے گا
  6. خدا نے کائنات کو ذات سے پیدا کیا، یا صفات کے وسیلہ سے؟ اگر بذریعۂ ذات پیدا کیا تو صفات بیکار ہو گئیں اور اگر بواسطۂ صفات پیدا کیا تو یہ واسطہ کس قسم کا ہے؟ واسطہ فی الثبوت ہے یا واسطۂ فی الاثبات؟

مذکورہ بالا تمام مسائل ابلیس کے ایجاد کردہ ہیں، چنانچہ ارمغانِ حجاز میں ابلیس اپنے مشیروں کو حکم دیتا ہے کہ مسلمانوں کو ہر وقت ان مسائل میں الجھائے رکھو:-

؎ ابنِ مریم مر گیا یا زندۂ جاوید ہے
ہیں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جُدا یا عینِ ذات
(ارمغانِ حجاز: ابلیس کی مجلسِ شوریٰ)

مسائل تو بہت ہیں، لیکن یہاں نمونے کے طور پر صرف چھ مسائل لکھ دیے گئے ہیں اور لکھنے سے مقصد یہ ہے کہ کوئی انسان عقل کی مدد سے ان کا جواب نہیں دے سکتا اور اسی لیے آنحضرت ﷺ نے ان میں غور کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ دیکھ لیجیے ہم مسلمان ہو کر حضور انور ﷺ کے ارشاد سے سرتابی کر رہے ہیں اور اقوامِ مغرب کافر ہو کر حضور اکرم ﷺ کے ارشاد پر عمل کر رہی ہیں۔

آج یورپ اور امریکہ کے علماء اور حکماء اس مسئلہ میں بحث نہیں کر رہے کہ ذات و صفاتِ باری میں باہمی کیا علاقہ ہے؟ بلکہ وہ فطرت کے رازوں سے پردہ اُٹھا رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ترکی، مصر، طرابلس، مراکو، حجاز، فلسطین، یمن، شام، لبنان، عراق، ایران، افغانستان اور ہندوستان کے مسلمانوں نے گذشتہ تین سو سال میں کوئی چیز کیوں نہیں ایجاد کی؟ کوئی مشین کیوں نہیں بنائی؟ کوئی جزیرہ کیوں نہیں دریافت کیا؟ کوئی آلہ کیوں نہیں بنایا؟ کوئی عنصر کیوں نہیں دریافت کیا؟ کوئی علمی انکشاف کیوں نہیں کیا؟ کوئی سائینٹیفک تحقیق کیوں نہیں کی؟ الغرض مادی اعتبار سے تمدّن کی ترقی میں کوئی حصہ کیوں نہیں لیا؟ ان سوالات کا جواب ناظرین پر چھوڑا جاتا ہے کیونکہ وہ بہتر جانتے ہیں۔


گرچہ اس دَیرِ کُہن کا ہے یہ دستورِ قدیم
کہ نہیں مے کدہ و ساقی و مِینا کو ثبات

حلِ لغات:

الفاظمعنی
دیرِ کُہنلفظی معنی: پُرانا مندِر — مُراد: پُرانا جہاں، دُنیا
مے کدہشراب خانہ
ساقیشراب کا جام بھر کر دینے والا
میناوہ صراحی جس میں شراب ڈالتے ہیں
ثباتبرقرار رہنا، ہمیشہ رہنا
(ضربِ کلیم 84: حکومت از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اگرچہ دُنیا کا دستور قدیم سے چلا آتا ہے کہ یہاں شراب خانہ ہو، شراب پلانے والا یا شراب کی صراحی، کوئی بھی چیز قائم رہنے والی نہیں۔ یہ مے خانہ بدلتا رہتا ہے۔ ساقی ایک کے بعد ایک نیا آتا رہتا ہے، صراحیاں اور پیالے ٹوٹتے رہتے ہیں اور ان کی جگہ نئے برتن آتے رہتے ہیں۔ مراد ہے کہ جہاں انقلابات اور تغیّرات (تبدیلیاں) سے دوچار رہتا ہے اور یہاں کسی حکمران، خاندان یا سلطنت، یا کسی فرد کی حکومت کو ثبات نہیں ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:-

؎ ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شے کو قرار
ذوقِ جدّت سے ہے ترکیبِ مزاجِ روزگار
(بانگِ درا: گورستانِ شاہی)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:-

سکُوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں
(بانگِ درا: ستارہ)


قسمتِ بادہ مگر حق ہے اُسی ملّت کا
انگبیں جس کے جوانوں کو ہے تلخابِ حیات!

حلِ لغات:

الفاظمعنی
قسمتِ بادہشراب کی تقسیم، شراب بانٹنا
انگبیںشہد
تلخابِ حیاتزندگی کا زہر، زندگی کی سختیاں
(ضربِ کلیم 84: حکومت از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اگرچہ مے خانۂ جہاں کو ثبات نہیں ہے لیکن اس مے خانہ سے شراب لینے اور شراب پینے کا حق صرف اسی قوم کو ہے جس کے جوان زندگی کی جدوجہد میں شریک ہوتے ہوں  اور اس کے زہر اور سختیوں کو شہد اور آسانیاں سمجھ لیں، یعنی جتنی تلخیاں، پریشانیاں، مصیبتیں اور آفتیں انہیں پیش آئیں، وہ سب خوشی خوشی جھیل لی جائیں، لیکن اعلی مقاصد سے منہ نہ موڑا جائے۔ علامہ اقبال اپنی ڈائری Stray Reflections میں فرماتے ہیں:-

The fate of the world has been principally decided by minorities. The history of Europe bears ample testimony to the truth of this proposition. It seems to me that there is a psychological reason why minorities should have been a powerful factor in the history of mankind. Character is the invisible force which determines the destinies of nations, and an intense character is not possible in a majority. It is a force; the more it is distributed the weaker it becomes.

Allama Iqbal, Stray Reflections

ترجمہ: دنیا کے مقدر کا فیصلہ اصولی طور پر اقلیتوں ہی سے ہوا ہے۔ یورپ کی تاریخ اس دعوے کی صداقت پر کافی شہادت بہم پہنچاتی ہے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس امر کی ایک سیاسی وجہ ہے کہ بنی نوع انسان کی تخلیق میں اقلیّتیں کیونکر ایک طاقتور عنصر بنی ہیں۔ کردار ہی وہ غیر مرئی طاقت ہے جو اقوام کے مقدر (تقدیر) کا تعین کرتا ہے اور ایک مؤثر کردار محض اکثریت میں ہی ممکن نہیں۔ یہ تو ایک قوت ہے،  جتنا ہی اسے تقسیم کیا جائے، اسی قدر یہ کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔
(”منتشر خیالاتِ اقبالؔ“ از علامہ محمد اقبال)
(مترجم: میاں ساجد علی)

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments