”بُڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو“ از علامہ اقبال
فہرست
تمہید
نظم ”بُڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو“ میں بُڈھے بلوچ سے بلوچستان کا خانہ بدوش بوڑھا بھی مراد ہو سکتا ہے اور مثالی مسلمان بھی، کیونکہ:
(ا) خانہ بدوش صحرا نوَرد کی طرح سچا مسلمان بھی اپنے آپ کو کسی خطۂ زمین سے مستقل طور پر وابستہ نہیں کرت۔ یعنی کسی ملک کو وطن نہیں بناتا کیونکہ ساری دنیا اس کا وطن ہے۔
؎ بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے
(حوالہ: بانگِ درا: وطنیت)
(ب) بلوچ کی طرح سچا مسلمان بھی خانہ بدوش ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اِس دُنیاوی زندگی کو عارضی یقین کرتا ہے۔ وہ کہیں گھر نہیں بناتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ:-
؎ جگہ دِل (جی) لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے، تماشا نہیں ہے
سرکارِ دو عالم ﷺ کی یہ حدیث ہر وقت اُس کے پیشِ نظر رہتی ہے کہ دُنیا میں میری مثال اُس مسافر کی سی ہے، جو کسی پُل پر تھوڑی دیر کے لیے دم لینے کی غرض سے بیٹھ گیا ہو۔
(ج) بلوچ کی طرح سچا مسلمان بھی شہروں کی معصّیت آمیز زندگی سے دُور رہتا ہے۔ وہ نہ ریڈیو سنتا ہے، نہ سینما دیکھتا ہے۔ نہ ہال میں نیم برہنہ عورتوں کے ساتھ رقص کرتا ہے، نہ ریس میں جاتا ہے نہ کلب میں برج کھیلتا ہے اور نہ ہوٹلوں میں دادِ عیش دیتا ہے۔ اس لیے میں بلوچ سے ”مردِ مومن“ مُراد لیتا ہوں اور یہ مومن (بلوچ) قوم کے نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ:-
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
نظ۔م ”بُڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو“ کی تشریح
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارا
اے نوجوانو! بیابان کی ہوا اور صحرا کی فضاء شہروں کی ناپاک اور مسموم آب و ہوا سے بدرجہا بہتر ہے۔ شہروں کا حُسن پروردۂ غازہ یعنی نقلی ہوتا ہے لیکن صحرا کا حُسن پروردۂ فطرت یعنی اصلی ہوتا ہے۔ نیز بیابانی زندگی سے صحت بھی ترقی کرتی ہے اور سیرت بھی استوار ہوتی ہے اور جفاکشی کی عادت بھی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن دِلّی، لکھنو، لاہور، کراچی جیسے شہروں میں تو اکثر نوجوانوں کی زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں۔دِلّی اور بخارا سے “ترقی پسند” شہر مراد ہیں۔ خواہ وہ پاکستان میں ہوں یا ہندوستان میں یا کہیں بھی ہوں۔ دِلّی اور بخارا سے مراد ہیں وہ شہر جِن میں تہذیبِ مغرب کی لعنتِ سہ گاہی یعنی “مئے و قمار و زنانِ بازاری” کی افراط ہو
جس سمت میں چاہے صفَتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
اے نوجوان! تُو اپنے اندر سیلاب (سیل) کی صفت پیدا کر۔ جب تیرے اندر یہ شان پیدا ہوجائے گی تو تجھے معلوم ہوگا کہ کشمیر کی وادی بھی میری ہی ہے اور ترکستان و تاجکستان کا صحرا بھی میرا ہی ہے۔ مشاعروں میں شرکت مت کر۔ کیونکہ دُنیا میں کسی قوم نے شاعری کے ذریعے سے کسی دشمن پر فتح حاصل نہیں کی۔ بلکہ اپنے اندر دُنیا کو فتح کرنے یعنی “سیلِ رواں” کی صفت پیدا کر
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
یاد رکھ! دُنیا میں فتح مندی اور کامیابی اُسی قوم کو حاصل ہوسکتی ہے جس کے جوانوں میں غیرت کا مادہ پایا جاتا ہے۔ بےغیرت قوم کبھی غلامی کی زنجیروں کو نہیں توڑ سکتی۔ اور غیرت مند قوم کبھی غلام نہیں رہ سکتی۔ اور غیرت دار نوجوان کبھی اپنے مقصد میں ناکام نہیں رہ سکتا۔
کیا بابر کی مثال تیرے سامنے موجود نہیں ہے کہ اگرچہ اُسے کئی دفعہ شکست ہوئی لیکن وہ ہمت نہیں ہارا۔ بلکہ اُس نے ہر شکست کو اپنے حق میں مہمیز قرار دیا اور آخر کار ہندوستان فتح کرلیا۔
نوٹ: اقبالؔ کے نظامِ افکار میں ”غیرت“ کو جس قدر اہمیت حاصل ہے اُس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ اُن کی رائے میں:
؏ دوسرا نام اسی دین کا ہے فقرِ غیور
(حوالہ: ضربِ کلیم: اسلام)
یعنی غیرت کا جذبہ، دینِ اسلام کا جزوِ لاینفک ہے۔
اِس شعر میں غیرت سے مراد ہے نصب العین کے حصول کی خاطر مر مِٹنے کا جذبہ، یہ غیرت اتنی بڑی چیز ہے کہ:-
؏ پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
نوٹ: نصب العین سے میری مراد ہے تبلیغِ اسلام و اشاعتِ اسلام۔ اِس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ اگر مسلمان میں یہ جذبہ نہ ہو تو اقبالؔ کی رائے میں وہ مسلمان زندہ نہیں بلکہ مُردہ ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:۔
تاکجا بے غیرتِ دیں زیستن
اے مسلماں! مُردن است ایں زیستن
اے مسلمان تُو کب تک غیرتِ دین کے بغیر زندگی بسر کرے گا؟آ جان لے کہ ایسی زندگی زندگی نہیں بلکہ موت ہے۔
(حوالہ: پس چہ بائد کرد: فقر)
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہُنَر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
اے نوجوان! یہ تمام خوبیاں صرف اُس شخص میں پیدا ہوسکتی ہیں جو شیشہ کو سنگِ خارا یعنی اپنی خودی کو (جو شروع میں کانچ کی طرح نازک ہوتی ہے) پتھر کی طرح سخت بنا لے۔ لیکن یہ ہُنر کلفٹن، باغِ جناح، اوپن ایئر تھیٹر، آرٹ کاؤنسل یا راوی بوٹ کلب میں نہیں سکھایا جاتا۔ اگر تُو خودی کو مستحکم کرنا چاہتا ہے تو کسی کامل (مردِ مومن) کی صحبت اختیار کر
نوٹ: اِس شعر کا سارا لطف یا مفہوم لفظ ”پوشیدہ“ میں پوشیدہ ہے۔ یعنی خودی کو مستحکم کرنے کا ہُنر نہ کتابوں میں مرقوم ہے اور نہ اِس موضوع پر خطبات دیے جاتے ہیں نہ ”لِٹریچر“ شائع کیا جاتا ہے اور نہ قرآن کی ترجمانی کے پردہ میں اپنے لیے زمین تیار کی جاتی ہے۔ بلکہ اِس کا تعلق ہدایت اور ارشاد سے ہے یعنی مردِ کامل (مرشد) طالبِ استحکامِ خودی کو خلوت میں کچھ ہدایات دیتا ہے اور وہ اُن پر عمل کرکے اپنی خودی کو مستحکم کرلیتا ہے۔ اقبالؔ نے اسی پوشیدہ ہُنر کو ایک جگہ “افسوں” سے تعبیر کیا ہے:۔
؎ من نمی دانم چہ افسوں می کُند
رُوح را در تن دِ گرگوُں می کُند
میں نہیں جانتا وہ کیا افسُوں پھونکتا ہے جس سے بدن کے اندر جو روح ہے، کچھ اور ہو جاتی ہے۔
(حوالہ: پس چہ بائد کرد: حکمتِ کلیمی)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ شیشہ کو خارا بنانے کا ہُنر ”سالانہ“ اجتماع میں نہیں سکھایا جاتا، بلکہ یہ ہنر کسی مردِ کامل کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا
اے نوجوان! اِس حقیقت کو ذہن نشین کرلے کہ قوم کی تقدیر یعنی مستقبل میں اِس کی ترقی، تیری جد و جہد پر موقوف ہے۔ جیسے افراد ہوں گے، ویسی ہی قوم بھی ہوگی۔ اس لیے تجھے اپنی زندگی قوم کی ترقی کے لیے وقف کردینی چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر میں غفلت سے کام لوں گا تو میری قوم تباہ ہوجائے گی
محروم رہا دولتِ دریا سے وہ غوّاص
کرتا نہیں جو صُحبتِ ساحل سے کنارا
جو غوّاص (غوطہ خور) ساحل پر بیٹھا رہتا ہے وہ کبھی سینۂ دریا سے موتی نہیں نکال کر لا سکتا۔ اِس طرح جو مسلمان نوجوان اپنی زندگی ہوٹل اور کلب میں بسر کرتا ہے اور استحکامِ خودی کے لیے کوشش نہیں کرتا۔ وہ نہ خود ترقی کرسکتا ہے اور نہ اُس کے وجود سے قوم کو کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ ماسکوؔ سے کچھ وظیفہ مقرر ہو جائے۔
دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
اے نوجوان! اِس صداقت کو اپنے دِل میں جگہ دے کہ اگر تُو دِین کو قربان کر کے آزادی حاصل کرے گا تو اِس سودے میں تجھے سراسر نقصان ہوگا۔ بیشک آزادی حاصل کرنے کے لیے کوشش کر۔ لیکن دِین بیچ کر آزادی مت لے۔
نوٹ: اِس شعر میں اقبالؔ نے مسلمان نوجوانوں کو اِس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ نظریہ وطنیت قبول کرکے اگر تمہیں آزادی حاصل ہوئی تو وہ بے کار ہے کیونکہ جب تم مسلمان ہی نہ رہے تو آزاد ہو کر بھی کیا فائدہ؟ واضح ہو کہ 1938ء میں کانگریس مسلمانوں سے یہ کہتی تھی کہ تم نظریہ وطنیت قبول کرکے ہمارے ساتھ آزادی کے لیے جد و جہد کرو۔ اِس لیے اقبال نے مسلمانوں کو متنبّہ کیا ہے کہ ہرگز ایسا نہ کرنا۔۔ اِس میں سراسر خسّارہ ہے۔
دنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درِندوں کو اُبھارا
اے نوجوان! اِس وقت دنیا میں اسلام (روح) اور وطنیت (بدن) کے مابین زبردست جنگ برپا ہے۔تہذیبِ مغرب، جس کی بنیاد مادہ پرستی ہے، اِسلام کو مِٹانے پر تُلی ہوئی ہے۔
نوٹ: اقبالؔ نے اقوامِ یورپ کو ”درِندوں“ سے تعبیر کیا ہے کیونکہ اِس تہذیب کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی عادات کے اعتبار سے حیوان بن جاتا ہے، چنانچہ دوسری جنگِ عظیم نے اِس حقیقت کو واضح کردیا۔
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
اے نوجوان! اِس وقت یزدان اور اہرمن (اسلام اور کفر) میں شدید مقابلہ ہورہا ہے۔ اِبلیس یعنی یورپ کو اپنے مادی وسائل پر ناز ہے۔ اور اللہ تعالی یعنی اسلام کو مومنوں پر بھروسہ ہے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ ایمان کی قوت، ہمیشہ مادی وسائل پر غالب آجاتی ہے۔ چنانچہ اسی قوت کی بدولت 1453ء میں ترکوں نے چھ سات میل تک خشکی میں اپنی جہاز کھینچ کر قسطنطنیّہ کی بندرگاہ میں لا کر ڈال دیے تھے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ”تاریخِ دولتِ عثمانیہ“، مطبوعہ اعظم گڑھ، جِلد اوّل۔
تقدیرِ اُمَم کیا ہے، کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا
یہ سچ ہے کہ کوئی شخص قبل از وقت نہیں بتا سکتا کہ فتح کس کی ہوگی لیکن اگر تو اپنی مومنانہ فراست سے کام لے تو تجھے معلوم ہوسکتا ہے کہ آخر میں ہمیشہ حق ہی کا بول بالا ہوتا ہے۔
اخلاصِ عمل مانگ نیا گانِ کُہن سے
’شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را!‘
پس اے بیٹے! تُو اِس نازک وقت میں اپنے گُزرے ہوئے اسلاف (نیاگانِ کہن) کے طرزِ عمل کو سامنے لا اور اُن کے نقشِ قدم پر چل۔ مجھے یقین ہے کہ تُو ضرور کامیاب ہوگا۔
”شاہان“ سے یہاں بزرگانِ دین کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی اگر مسلمان، سلفِ صالحین کا اتباع کریں گے تو فضلِ ایزدی (اللہ تعالی کا فضل) ضرور اِن کے شاملِ حال ہوگا۔
؏ شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را!
ترجمہ: اگر بادشاہ بھکاری پر رحم فرما دیں تو حیرانی کی بات نہ ہوگی۔
نوٹ
آخری مصرع کے حوالے سے شارحین میں اختلاف ہے۔
‘شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را’
”یہ حافظ شیرازی کی غزل کا مشہور مصرع ہے۔“
(حوالہ: شرح ارمغانِ حجاز از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
”دوسرا مصرع ہلالیؔ کی تضمین ہے۔“
(حوالہ: شرح ارمغانِ حجاز از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)