Skip to content
ضربِ کلیم 131: رومیؔ

ضربِ کلیم 131: رومیؔ


”رومیؔ“ از علامہ اقبال

تعارف

نظم ”رومیؔ“ میں ہم کو علامہ اقبال نے مولانا جلال الدین رومیؒ کے مرتبہ اور مقام سے آگاہ کیا ہے۔ اگرچہ وہ لوگ جنہوں نے کلامِ اقبالؔ کا بالاستعیاب (تحقیقی) مطالعہ کیا ہے رومیؒ کے مقام سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے اس نظم کے محتاج نہیں ہوسکتے۔ لیکن اقبالؔ نے یہ خراج رومی کی بارگاہ میں اپنی بے پناہ عقیدت کی بناء پر پیش کیا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی لِکھ چُکا ہوں کہ کلامِ اللہ شریف (قرآنِ کریم) اور حدیث رسول اللہ ﷺ کے بعد مثنوی مولانا روم (مولانا جلال الدین رومیؒ کی شہرۂ آفاق تصنیف) سے اقبال نے سب سے زیادہ استعفادہ کیا ہے اور ان کی عقیدت کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے وہی مسلک اختیار  کرلیا جو مولانا روم کا تھا یعنی عقل پر عشق کی برتری فرماتے ہیں۔

(شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

YouTube video

نظم ”رومیؔ“ کی تشریح

غلَط نِگر ہے تری چشمِ نیم باز اب تک
ترا وجُود ترے واسطے ہے راز اب تک

حلِ لغات:

غلط نِگرغلط دیکھنے والی
چشمِ نیم بازادھ کھُلی آنکھ
وجودہستی
رازبھید
حلِ لغات (ضربِ کلیم 131: رومیؔ)

تشریح:

حضرت علامہ اقبال مولانا رومیؒ کے نظریات و خیالات کے بارے میں درس دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ

اے دورِ حاضر کے مکتب کے طالب عِلم! تُو کائنات کی حقیقت سے واقف نہیں! تیری آنکھیں غلط دیکھتی (غلط نِگر) ہیں۔۔ اگر تیری آنکھیں پوری طرح کھُلی ہوئی ہوں اور حقیقت کو دیکھنے کی اہل ہوں تو تجھ پر سب بھید ظاہر ہوسکتے ہیں۔۔ لیکن تیری آنکھیں ادھ کھُلی ہونے کی وجہ سے اشیاء کو غلط زاویے سے دیکھتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ تجھے اب تک کسی چیز کی حقیقت معلوم نہیں ہوسکی۔ یہاں تک کہ تجھ پر یہ بھی منکشف نہیں ہوکسا کہ تیری اپنی ہستی کیا ہے؟! اب جب صورتِ حال تو یہ  ہے کہ  تیرا  اپنا وجود ہی تیرے لیے اب تک ایک راز بنا ہوا ہے۔ تُو اس گُتھی کو نہیں سُلجھا سکا، اپنی “میں” کو نہیں پہچان سکا۔۔ ایسے میں جس شخص کے لیے اُس کی اپنی ہستی ایک راز بنی ہوئی ہو وہ دوسری اشیاء کی حیقیقت کیسے جان سکتا ہے!


ترا نیاز نہیں آشنائے ناز اب تک
کہ ہے قیام سے خالی تری نماز اب تک

حلِ لغات:

نیازعاجزی، انکساری
آشناواقف، جاننے والا
نازفخر
قیامنماز میں کھڑے ہونے کی حالت
حلِ لغات (ضربِ کلیم 131: رومیؔ)

تشریح:

اے مسلمان! تیرا مشاہدہ ابھی تک کسی راز سے روشناس نہیں ہوسکا۔ تیرے اندر نیاز، احتیاج اور محکومی کی شان تو موجود ہے لیکن تیرے اندر ناز، استغناء اور حکومت کی شان پیدا نہیں ہوئی۔ تُو خود بادشاہوں کے دروازوں پر جاتا ہے لیکن کوئی بادشاہ تیرے دروازے پر نہیں آتا۔ تُو نے غیرِ خدا کے آگے یا طاغوتی قوتوں کے آگے جھُکنا سیکھا ہے، اُن کے آگے سینہ تان کر کھڑے ہونے کا سبق حاصل نہیں کیا۔ تیری نماز، قیام سے خالی ہے یعنی تُو اللہ کے سامنے باندھ  کر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ اربابِ حکومت کی چوکھٹ پر مسلسل سجدے کرتا رہتا ہے۔ گویا تجھ میں انکساری و غلامی کی بات تو نظر آتی ہے لیکن بے نیازی و حکمرانی کے جذبوں سے تُو محروم ہے۔


گُسَستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک
کہ تُو ہے نغمۂ رومیؔ سے بے نیاز اب تک!

حلِ لغات:

گُسستہ تارٹوٹے ہوئے تار
بے نیازبے پروا
حلِ لغات (ضربِ کلیم 131: رومیؔ)

تشریح:

اے مخاطب! تیری خودی کی مثال ایک ایسے ساز کی ہے، جس کے تار ٹوٹے ہوئے ہیں، اس لیے اس ساز میں سے کوئی نغمہ نکل نہیں سکتا۔ مُراد یہ ہے کہ تُو خودی سے بالکل بیگانہ ہے اور اس کی وجہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ تُو مولانا رومؒ کی شاعری اور افکار سے بے پروا ہے۔ اگر تُو نے مولانا کی عظیم مثنوی کا مطالعہ کیا ہوتا اور اس کے اثرات قبول کیے ہوتے تو کبھی بھی اپنی خودی سے ناآشنا نہ ہوتا۔

تیری خودی کے ساز کے تار ابھی تک ٹوٹے ہوئے ہیں، اس لیے کہ تُو مولانا رومی ؒ کے نغموں سے بے پروا ہے۔ مولانا رومؒ نے اپنی عظیم مثنوی (مثنوی معنوی) میں حکمت و حقیقی زندگی سے متعلق جن بلند خیالات کا اظہار فرمایا ہے، تُو ان سے بالکل بے خبر ہے۔

مختصر یہ کہ تیری خودی کے ساز کے سب کے سب تار ٹوٹے ہوئی ہیں (اور یہ بات یقینی ہے کہ جس ساز کے تار ٹوٹ جائیں، اس میں سے کوئی سُر پیدا نہیں ہوسکتا) یعنی تیری خودی  بے کار ہوچکی ہے۔ دنیا میں اس کی کوئی قیمت نہیں۔ کیا تُو جانتا ہے کہ ان سب امراض کی وجہ کیا ہے؟ ان کی وجہ یہ ہے کہ تُو نے ابھی تک مثنوی مولانا رومؒ کا مطالعہ کر کے اس کی تعلیم پر عمل نہیں کیا اور مثنوی کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور سرورِ کائنات ﷺ اطاعت کرو اور چونکہ اطاعت کے لیے محبت لازمی ہے اس لیے حضور اکرم ﷺ کی ذات سے عشق پیدا کرو۔ الغرض عشقِ رسول ﷺ تمام بیماریوں کا علاج ہے۔ چنانچہ مولانا رومؒ خود فرماتے ہیں کہ:

شاد باش اے عشق خوش سودائے ما
دے طبیبِ جملہ علتہائے ما
اے دوائے نخوت و ناموشِ ما
اے تو افلاطون و جالینوس ما

اے ہمارے اچھے جنون والے عشق! شاد رہ آباد رہ،
کہ تُو ہی ہماری تمام علتّوں اور بیماریوں کا طبیب ہے۔
اے عشق! تُو ہی ہماری نخوت و تکبر اور نام و ناموس طلبی کی دوا ہے،
تُو ہی ہمارا افلاطون ہے، تُو ہی ہمارا جالینوس ہے۔

مولانا ایک رباعی میں کہتے ہیں کہ اگر تُو چاہتا ہے کہ ہمیشہ خوش و خرم رہے اور جہاں کہیں جائے تیری عزت اور تیرا احترام ہو تو اپنا باطن پاک رکھ، سیدھی راہ (راہِ ہدایت) پر چل اور علم حاصل کر تاکہ تُو بنی نوع انسان کے سر کا تاج بن سکے:-

خواہی کہ ہمیشہ شاد و خرم باشی
ہر جاکہ روی عزیز و محترم باشی
پاکیزہ شو و راست بزی علم آموز
تاتاجِ نبیرگانِ آدم باشی

(شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments