”تسلیم و رضا“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
اِس نظم میں علامہ اقبال نے تسلیم و رضا کی حقیقت واضح کی ہے کہ اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ انسان عمل سے غافل ہو جائے یا کوشش سے باز آ جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ عام طور سے مسلمانوں میں تسلیم و رضا کا یہ مفہوم جا گزیں ہو گیا ہے کہ بس اللہ کی مرضی کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دو اور خود کوئی کوشش نہ کرو۔ اقبالؔ کہتے ہیں کہ تسلیم و رضا کا مفہوم یہ ہے کہ انسان ہر معاملہ میں اپنے مقدور کوشش کرے اور جب حتی الامکان کامیابی کے تمام ذخائر جمع کر لے، تو حصولِ مقصد کے لیے جد و جہد کرے اور اِس سب کے بعد نتیجہ اللہ کے ہاتھ چھوڑ دے۔ اگر ناکامی ہو تو سچّے مسلمان کی طرح مایوس یا رنجیدہ نہ ہو، بلکہ اللہ کی مشیّت کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے، یہی تسلیم و رضا ہے۔
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
تشریح
ہر شاخ سے یہ نکتۂ پیچیدہ ہے پیدا
پَودوں کو بھی احساس ہے پہنائے فضا کا
حلِ لغات:
نُکتۂ پیچیدہ | باریک بات، مُشکل اور گہری بات |
پیدا | ظاہر |
پہنائے فضا | فضا کی وسعت / پھیلاؤ |
تشریح:
پودوں کے نشو و نما پر غور کرنے سے یہ نُکتۂ پیچیدہ واضح ہو سکتا ہے کہ نباتات کو بھی احساس ہے کہ فضا بہت وسیع ہے، اِس لیے ہمیں نشو و نما کے لیے یعنی اپنے پھیلنے اورشاخوں کو بڑھانے کا موقع حاصل ہے۔ گویا یہی احساس ہے جس کے باعث وہ ہر طرف پھیلتے اور پھلتے پھُولتے نظر آتے ہیں۔
ظُلمت کدۂ خاک پہ شاکر نہیں رہتا
ہر لحظہ ہے دانے کو جُنوں نشوونَما کا
حلِ لغات:
ظُلمت کدۂ خاک | مٹی کا تاریک گھر |
شاکر | شُکر کرنے والا، مطمئن |
ہر لحظہ | ہر لمحہ، ہر پَل، ہر گھڑی |
جُنوں | سودا، جوش |
نشو و نما | بڑھنا، پھلنا پھُولنا |
تشریح:
اور یہی احساس بیج کو زمین کے اندر بے قرار رکھتا ہے اور وہ کھُلی فضا میں زندگی بسر کرنے کے لیے مضطرب و بے چین رہتا ہے۔ چنانچہ کوئی دانہ زمین کے اندر پڑے رہنے پر قناعت نہیں کرتا، بلکہ ہر دانہ میں زمین سے باہر نکلنے اور پھلنے پھولنے کا جذبہ جنون کی حد تک کار فرما ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ مٹی کے تاریک گھر میں یعنی مٹی کے نیچے دبا ہوا ہونے کے باوجود مصروفِ عمل رہتا ہے اور نشو و نما پا کر پودے یا درخت کی صورت میں باہر آ جاتا ہے اور اس طرح پودا پھلتا، پھُولتا اور پھیلتا رہتا ہے۔ یعنی کوئی دانہ یہ نہیں کہتا کہ مجھے عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر خدا کی مرضی ہوگی تو مجھے نشو و نما حاصل ہو جائے گی۔
فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہِ عمل بند
مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رِضا کا
حلِ لغات:
تقاضا | خواہش، ضرورت |
راہِ عمل | عمل کا راستہ |
مقصود | مقصد، مُدعا، مطلب، غرض |
تسلیم | سپُرد کرنا، مُراد ہے خدا کی مرضی پر سر جھُکانا |
رضا | راضی ہونا، خوشی، خدا کی مرضی پر خؤش رہنا |
تشریح:
پس اے انسان! تُو نباتات سے سبق حاصل کر اور فطرت و قدرت کے جو تقاضے ہیں، اُن کی راہِ عمل بند نہ کر، اور یہ تقاضے پُورے ہونے دے۔ تیری فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ تُو سرگرمِ عمل رہے، جہد و عمل سے کام لے اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے کوشش کرتا رہے۔ تسلیم و رضا کا مقصود یہ نہیں کہ تُو ہاتھ پاؤں توڑ کر حُجرہ میں بیٹھ جائے۔ بلکہ اس بلند روحانی اصُول کا فلسفہ یہ ہے کہ تُو ہر معاملہ میں پہلے اپنی سی کوشش کر، پھر نتیجہ خدا کے ہاتھ میں چھوڑ دے، یعنی سرِ تسلیم خم کر مگر عمل کرنے کے بعد۔
جُرأت ہو نمُو کی تو فضا تنگ نہیں ہے
اے مردِ خدا، مُلکِ خدا تنگ نہیں ہے!
حلِ لغات:
جرأت | دلیری، بے خوفی، حوصلہ |
نمُو | ظاہر ہونا، بڑھنا، پھلنا، پھولنا |
تنگ | محدود |
تشریح:
اے مردِ خدا! اگر تُجھ میں نشو و نما کی ہمّت و جرأت ہے اور اپنی صلاحیتیں اُجاگر کرنے کی تمنّا ہے تو آگے بڑھ، جہد و عمل سے کام لے اور اپنے لیے وسعت کا سامان کر۔ تُو یقین جان کہ مواقع بھی بہت ہیں۔ اگر ایک جگہ تُجھے موقع نصیب نہیں ہوتا تو دِل شکستہ نہ ہو جا، بلکہ دُوسری جگہ جا کر کوشش آزما، کیونکہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔ چنانچہ تُجھے چاہیے کہ جہد و عمل اور جوش و جذبہ سے بھرپُور کام لے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے۔ یاد رکھ! تسلیم و رضا کا اصل مفہوم تو خدا کی مرضی کے مطابق جینے کا ہے، نہ کہ بے عمل ہونے کا۔
ایک پنجابی صوفی کے بقول:-
؎ مالی دا کم پانی دینا، بھر بھر مَشکاں پاوے
مولا دا کم پھل پھُل لانا، لاوے یا نہ لاوے
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی
بہت اعلیٰ اللّٰہ تعالیٰ آپ سب سے راضی ہو
آمین۔ جزاک اللہ خیرا محترم