”غلاموں کی نماز“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
1935ء کے آغاز میں ترکی وفد متعلقہ ہلالِ احمر لاہور میں آیا تھا اور حضرت علامہ مرحوم سے ملاقات کے بعد اس کے ارکان نے، مرحوم سے درخواست کی کہ شاہی مسجد کے جلسہ میں، جو نماز کے بعد منعقد ہوگا، ضرور شرکت فرمائیں۔ اختتامِ جسلہ کے بعد رئیس الوفد نے مرحوم سے، امام کے طولِ قرأۃ و سجدہ پر اپنے تعجب کا اظہار کیا۔ اقبالؔ چونکہ بہت ذکی الحس تھے۔ اس لیے اُنہوں نے نظم ”غلاموں کی نماز“ کی صورت میں اپنے تاثرات کا اظہار کر دیا۔
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
ایک موقع پر ترکی سے ہلالِ احمر کا ایک وفد لاہور آیا تھا۔ اس وفد نے شاہی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی۔ معلوم ہوتا ہے امام نے سجدے طویل کیے ہوں گے۔ چنانچہ وفد کے سربراہ نے نماز کے بعد علامہ سے اس کے متعلق پوچھا۔ جواب تو معلوم نہیں، البتہ بعد میں علامہ نے یہ نظم لکھی۔
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)
نظم ”غلاموں کی نماز“ کی تشریح
کہا مجاہدِ تُرکی نے مجھ سے بعدِ نماز
طویل سجدہ ہیں کیوں اس قدر تمھارے امام
حلِ لغات:
مجاہدِ تُرکی | مراد آزاد مُلک تُرکی کا مسلمان / مومن |
طویل سجدہ | لمبا سجدہ |
تشریح:
ترکی وفد میں سے ایک ترک مجاہد نے مجھ سے بعد از نماز دریافت فرمایا کہ آپ کے ہندی امام اس قدر طویل سجدہ کیوں کرتے ہیں؟
وہ سادہ مردِ مجاہد، وہ مومنِ آزاد
خبر نہ تھی اُسے کیا چیز ہے نمازِ غلام
حلِ لغات:
نمازِ غلام | غلام کی نماز |
تشریح:
وہ سادہ طبع مجاہد انسان اور آزاد مومن اس بات سے بے خبر تھا کہ غلاموں کی نماز کیا چیز ہوتی ہے۔ اُسے معلوم نہ تھا کہ غلام قوم کے افراد کی غلامانہ ذہنیّت سے نماز میں کیا فرق آجاتا ہے۔ یعنی انہیں اور تو کوئی قومی کام نہیں ہوتا، بس ان لمبے لمبے سجدوں ہی میں وہ اپنی نجات سمجھتے ہیں۔
ہزار کام ہیں مردانِ حُر کو دُنیا میں
انھی کے ذوقِ عمل سے ہیں اُمتّوں کے نظام
حلِ لغات:
مردانِ حُر | آزاد لوگ، آزاد قومیں |
ذوقِ عمل | عمل کی لذت، عمل کرنے کا جذبہ |
تشریح:
آزاد مردوں کو دنیا میں اور بھی ہزاروں کام ہیں اور انہی کی لذتِ عمل سے قوموں کے انتظامی سلسلے برقرار و قائم رہتے ہیں۔ آزاد قوم کے باشندوں کو اتنی فرصت ہی کہاں ہوتی ہے کہ طویل سجدوں میں پڑے رہیں، کیونکہ وہ وقت کی قدر کرتے ہیں اور عبادت سے فارغ ہو کر اپنے نصب العین کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں۔گویا یہ مردانِ حُر (آزاد مرد) اپنی قوم کی ترقی اور بلند مرتبگی کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور انہی کی بدولت قوم سکون و راحت اور خوشی و خوشحالی کی زندگی بسر کرتی ہے۔ بات یہ ہے کہ قوموں کے مراتب عمل اور کام کرنے کی لذت سے حاصل ہوتے ہیں۔ رزم ہو یا بزم، امن ہو یا جنگ، ہر دور میں ان کے لیے ہزار قسم کی باتیں سوچنے اور کرنے کی ہوتی ہیں، لیکن غلام ان ذمہ داریوں سے آزاد ہوتا ہے اور آقاؤں کی مرضی پر چلتا ہے۔ خود بے حس اور بے ذوقِ عمل ہوتا ہے۔
بدن غلام کا سوزِ عمل سے ہے محروم
کہ ہے مروُر غلاموں کے روز و شب پہ حرام
حلِ لغات:
بدن | جسم |
سوزِعمل | عمل کی حرارت |
محروم | بے نصیب |
مرُور | گردِش، گزرنے کا عمل |
روز و شب | دِن اور رات |
تشریح:
؎ آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال
کس درجہ گراں سَیر ہیں محکوم کے اوقات
(حوالہ: ضربِ کلیم: ہندی مکتب)
ان مجاہدوں کے برعکس غلاموں کے جسم میں عمل کا جوش و جذبہ ہوتا ہی نہیں ہوتا۔ ایک غلام انسان اس نصب العین سے واقف ہی نہیں ہوتا، اس لیے اُس کے سامنے عملی پروگرام ہی نہیں ہوتا، چنانچہ وہ عملی زندگی میں کوئی حرارت نہیں رکھتا۔ بے عمل ہونے کی وجہ سے غلاموں کے شب و روز گردِش (مرُور) سے محروم ہوتے ہیں۔ گویا ان کے دِن رات ایک جیسے ہی رہتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ زمانے کی گردش ان کے حالات پر کوئی اثر نہیں ڈالتی اور نہ ہی اُن کی تقدیر بدلتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تقدیر ہمارے عمل پر موقوف ہے۔ بقول اقبالؔ:-
؎ ’ہر لحظہ ہے قوموں کے عمل پر نظر اُس کی
بُرّاں صفَتِ تیغِ دو پیکر نظر اس کی!‘
(حوالہ: ضربِ کلیم: تقدیر)
طویل سجدہ اگر ہیں تو کیا تعجُّب ہے
ورائے سجدہ غریبوں کو اَور کیا ہے کام
حلِ لغات:
تعجُّب | حیرت، اچنبھا، حیرانی، انوکھا پن |
ورائے سجدہ | سجدے کے علاوہ |
تشریح:
اگر ہندوستان کے امام طویل سجدہ کرتے ہیں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ سجدوں کے علاوہ (ورائے سجدہ) اور ان غریبوں کو کام بھی کیا ہے۔ نہ قواعد پریڈ سے کوئی تعلق ہے، نہ اپنے گھوڑے کی نگہداشت سے کوئی علاقہ ہے، نہ اپنے ہتھیاروں کی صفائی کی ضرورت ہے، نہ رات کو سرحدوں کی حفاظت کا کام ہے، نہ جسمانی ورزش کی ضرورت ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے گھروں پر جا کر اُنہیں جہاد کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ غلامی کی ”نعمت“ نے مسلمانوں کو ان تمام ”زحمتوں“ سے بری الذمہ کر دیا ہے۔ یوں بھی اگر دیکھا جائے تو غلام قومیں ہمیشہ اپنے آقاؤں کے سامنے جھکی رہتی ہیں اور اُن کی محتاج ہوتی ہیں۔
خدا نصیب کرے ہِند کے اماموں کو
وہ سجدہ جس میں ہے مِلّت کی زندگی کا پیام!
حلِ لغات:
نصیب کرے | قسمت میں کرے، توفیق عطا فرمائے |
امام | نماز پڑھانے والا، امامت کرنے والا، رہنما |
مِلّت | مسلمان قوم |
پیام | پیغام |
تشریح:
اللہ تعالی سے میری دُعا ہے کہ ہندوستان کے پیش اماموں کو نماز میں ایسے سجدے کرنے کی توفیق ہو جن میں مِلّت کی زندگی کا پیغام مضمر ہو (یعنی ایسے سجدے جو مِلّت کی سربلندی اور عظمت کا باعث بن جائیں) اور جب وہ سبحان ربی الاعلی کہہ کر سب سے اعلی رب کی پاکی بیان کریں تو قوم کو واقعی درس دیں کہ سب سے اعلی اور ارفع جس کی غلامی کا شرف حاصل کرنا چاہیے وہ اللہ تعالی کی ذاتِ پاک ہے نہ کہ دنیا کے عوام اور اقوام۔
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی