”توحید“ از علامہ اقبال
فہرست
نظم ”توحید“ میں علامہ اقبال نے اِس بات پر افسوس کا اظہار فرمایا ہے کہ آج عقیدۂ توحید مسلمانوں کی عملی زندگیوں سے نکل کر صرف اور صرف علمِ کلام کا مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔
ہر کہ پیماں با ہو الموجود بست
گردنش از بند ہر معبود رست
جس کسی نے ہو المعبود (حاضر و ناظر اور زندہ و قائم ذات) سے عبودیت کا رشتہ اُستوار کر لیا، اُس کی گردن ہر باطل معبود کی زنجیر سے نجات پا گئی۔
(حوالہ: رموزِ بیخودی: ارکانِ اساسی ملیہ اسلامیہ: در معنی حریتِ اسلامیہ و سرِ حادثۂ کربلا)
نظم ”توحید“ کی تشریح
زندہ قُوّت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی
آج کیا ہے، فقط اک مسئلۂ عِلم کلام
حق اور باطل یا کفر اور اسلام کے درمیان جو تمیزی چیزیں ہیں ان میں توحید (یعنی اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا) بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ اللہ کو ماننے والے اپنے عمل سے اللہ کی کی وحدانیت کا ثبوت دیتے تھے، توحید مسلمان کا اصل سرمایہ تھا اور اس کی ساری زندگی اسی محور کے گِرد گھومتی تھی۔ وہ توحید کے مقتضا پر عمل کر کے دُنیا میں قوت اور شان و شوکت کے مالک تھے۔ مقتضا پر عمل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو زبان سے کہتے تھے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی اطاعت نہیں کرتے، تو واقعی اُن کا طرزِ عمل بھی یہی تھا۔
لیکن یہی توحید جو مسلمانوں کے لیے ایک زندہ (حقیقی اور پائیدار) طاقت کی حیثیت رکھتی تھی، آج صرف ایک علمِ کلام کے مسئلہ کے طور پر باقی رہ گئی ہے۔ اس پر علمی، دلیلی اور منطقی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں لیکن عملاً مسلمانوں میں یہ قوت ناپید نظر آتی ہے۔ مسلمانوں نے توحید کے اقتضاء پر عمل کرنا ہی چھوڑ دیا ہے، اس کا مفہوم بھی عام مسلمانوں کی زبانوں سے نکل گیا ہے۔ واضح ہو کہ علمِ کلام وہ علم ہے جس میں اسلامی عقائد کا فلسفہ بیان کیا جاتا ہے اور اُن کو عقل کے مطابق ثابت کیا جاتا ہے اور غیروں کے اعتراضات کے جواب دیے جاتے ہیں۔ اقبالؔ کا کہنا ہے کہ سرکارِ دو عالم ﷺنے ہمیں اللہ کی ذات اور صفات میں منطقی بحثوں سے منع فرمایا ہے۔ اس کے بجائے یہ حکم دیا تھا کہ ہم توحید پر ایمان لا کر، اس کی اقتضاء پر عمل کریں۔ ہم نے ارشادِ نبوی ﷺ کو پسِ پُشت ڈال دیا اور اس کے برعکس طریقہ اختیار کر لیا۔ چنانچہ آج کیفیت یہ ہے کہ توحید کے اقتضاء پر مسلمانوں کے کسی ملک میں عمل نہیں ہوتا، ہاں مسئلۂ توحید پر منطقی بحثیں ضرور ہوتی ہیں، جن سے فرد یا قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔
روشن اس ضَو سے اگر ظُلمتِ کردار نہ ہو
خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام
جب تک توحید کی اس زندہ قوت کی روشنی سے مسلمان کے عمل اور سیرت کی تاریکی میں تابندگی پیدا نہ ہو یعنی جب تک مسلمان توحید پر عملاً کار بند نہ ہو، اس کا اپنا مقام (کہ وہ کیا ہے؟ اور کس مقام پر ہے؟) اس سے چھپا ہوا رہے گا۔ اسی توحید پر عمل کی بنا پر ملتِ اسلامیہ کبھی دنیا کی عظیم ترین ملت تھی لیکن اب وہ اپنے مقاصد سے بے خبر ہے کہ اسے کس لیے دنیا میں بھیجا گیا تھا۔ جب تک وہ توحید سے آگاہ نہیں ہوتی، وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل نہیں کر سکتی۔ توحید کی تجلّی ہی کفر و باطل کے اندھیرے کو ختم کرتی ہے۔
مَیں نے اے میرِ سِپہ! تیری سِپہ دیکھی ہے
’قُلْ ھُوَ اللہ، کی شمشیر سے خالی ہیں نیام
اے مسلمانوں کے لیڈر! میں نے تیری اور تیری فوج کی حقیقت دیکھ لی ہے۔ تیرے پاس لشکر تو موجود ہے لیکن اس لشکر کی میان میں ”قل ھو اللہ“ کی تلوار موجود نہیں ہے۔ ان کے سینوں میں ایمان اور وحدت کی وہ تجلی ہی نہیں، جس کی روشنی میں مومن اپنی منزل دیکھ سکتا ہے۔ آج حجاز کا قافلہ یعنی مسلمان موجود تو ہیں، لیکن ان میں اپنے اسلاف جیسا ایمانِ کامل موجود نہیں ہے۔ وہ زبان سے ”قل ھو اللہ احد“ کہتے تو ہیں، لیکن ان کا عمل اس کے بالکل بر عکس ہے۔ بقول اقبالؔ:۔
؎ قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
(حوالہ: بالِ جبریل: ذوق و شوق)
آہ! اس راز سے واقف ہے نہ مُلّا، نہ فقیہ
وحدت افکار کی بے وحدتِ کردار ہے خام
افسوس! نہ ہمارے علماء اس راز سے واقف ہیں، نہ فقہا۔۔ کہ جب تک قوم میں کردار کی وحدت پیدا نہ ہو، افکار کی وحدت (افکار کی وحدت کی مزید تشریح کے لیے چینل پر موجود ویڈیو ”ہندی اسلام“ ملاحظہ فرمائیں) اگر پیدا ہو بھی جائے تو کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ آج کے مسلمانوں میں نہ وحدتِ کردار ہے نہ وحدتِ افکار ہے۔ آج کے پیشہ ور دینی رہنما توحید کی باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن اُن کا اپنا کردار اس سے بالکل مختلف ہے، جس کی وجہ سے مسلمان قوم میں بھی خیالات و اعمال کی یگانگت موجود نہیں بلکہ ہر طرف منافقت نظر آتی ہے۔ واضح رہے کہ زبان سے لا الہ کہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، جب تک ہمارا عمل ہمارے اس قول کی گواہی نہ دے۔
؎ خِرد نے کہہ بھی دیا ’لااِلہ‘ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
(حوالہ: ضربِ کلیم: تصوّف)
ایک سچا مسلمان قرآن کی عملی تصویر ہوتا ہے۔ جیسا کہ اقبالؔ فرماتے ہیں:۔
؎ یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن
(حوالہ: ضربِ کلیم: مردِ مسلمان)
قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام!
آخر میں اقبالؔ اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ ہمارے موجودہ ”امام“ جو صرف نمازوں میں امامت کراتے ہیں، یہ لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں کہ قوم کا مفہوم کیا ہے اور قومیں کیسے بر سرِ عروج آتی ہیں اور ان کی امامت و قیادت کیسے کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قوم کی رہنمائی سے قاصر ہیں۔ ایسے پیشہ ور اور خود غرض علماء، فقیہہ اور امام جن کی باتیں علامہ نے مذکورہ بالا اشعار میں کی ہیں۔ یہ جو دو رکعتیں پڑھانے والے امام ہیں وہ بیچارے اس حقیقت کو کیونکر سمجھ سکتے ہیں کہ قوم کیا شے ہے اور قوموں کی امامت کیونکر کی جاتی ہے۔ گویا نام نہا مُلّا محض سجدے کرانا جانتے ہیں، لیکن مِلّت کو کس طرح ایک زندہ و قوی اور باعظمت مِلّت بنانا ہے، اس سے وہ بے خبر ہیں۔ وہ شوق و جذبۂ عمل سے دُور ہیں۔ اقبالؔ کی نظر میں امامِ برحق کی تعریف یہ ہے:-
؎ ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
(حوالہ: ضربِ کلیم: امامت)
نوٹ
میں اس جگہ پر اقبالؔ کے اس تبصرہ پر اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان دو رکعت کے اماموں سے زیادہ لائقِ ملامت وہ امام ہیں، جو مسجدوں کے دائرے سے باہر مسلمانوں کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ بیشک مساجد کے مُلّا، اس حقیقت سے باخبر نہیں کہ قوم کیا چیز ہے؟ اور قوموں کی امامت کیا ہے۔ لیکن ہمارے یہ قائدین اور رہنما، جو عالی شان ایوانوں میں صوفوں پر براجمان ہیں، یہ بھی تو اس حقیقت سے نابلد ہیں کہ قوم کسے کہتے ہیں اور قوموں کی امامت کی چیز ہے۔ اور میری رائے میں یہ لیڈر زیادہ قابلِ ملامت ہیں کیونکہ قوم مسجدوں میں تو بہت کم جاتی ہے، جبکہ دن رات انہی کاٹھیوں کا طواف کرتی رہتی ہے، مُلّاؤں سے واسطہ تو تھوڑی دیر کا ہے۔ سارا وقت تو انہی لیڈروں کی خوشامد میں بسر ہوتا ہے۔
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی