Skip to content
ضربِ کلیم 29: تصوّف

ضربِ کلیم 29: تصوّف


”تصوّف“ از علامہ اقبال

نظم ”تصوّف“ کا تعارف

یہ نظم معانی، سوز و گُداز اور حقیقتِ بیان کے لحاظ سے اقبالؔ کی غیر فانی نظموں میں سے ہے۔ اِس قدر سلیس اور دِلکش انداز ہے کہ ہر شعر دِل کی گہرائیوں میں اُترتا چلا جاتا ہے۔ اثر آفرینی کا تو یہ عالم ہے کہ پندرہ سال سے اِس کو مسلسل پڑھ رہا ہوں، لیکن ہنوز طبیعت سیر نہیں ہوئی۔

حالانکہ فلسفیانہ نظم ہے، یعنی اس میں تصوّف کی حقیقت بیان کی ہے اور نہایت عمیق خیالات ظاہر کیے ہیں، لیکن ہر مصرعِ ثانی میں بالکُل میرؔ کا رنگ نظر آتا ہے۔۔ وہی سوز و گُداز اور وہی تاثیر ہے جو میرؔ کا طُغرائے اِمتیاز (ممتاز ہونے کی نشانی) ہے۔

(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)


یہ اشعار بھی ریاض منزل (بھوپال) میں لِکھے گئے۔

(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)


یہ ایک فلسفیانہ نظم ہے جس میں تصوّف کی حقیقت بیان کی گئی ہے اور نہایت عمیق خیالات ظاہر کیے گئے ہیں۔ یہ نظم معانی و مطالب، سوز و گُداز اور حقیقتِ بیان کے لحاظ سے اقبالؔ کی غیر فانی نظموں میں شمار ہوتی ہے۔

(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی)

نظم ”تصوّف“ کی تشریح

یہ حکمتِ ملکُوتی، یہ علمِ لاہُوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کُچھ بھی نہیں

حلِ لغات:

حکمتِ ملکُوتی”ملکُوت“ تصوّف کی ایک اصطلاح ہے۔ ”حکمتِ ملکُوتی“ سے مُراد ہے وہ فلسفہ جس کا تعلق فرشتوں کی دُنیا سے ہو، مراد ریاضت اور عبادت
علمِ لاہُوتی”لاہُوت“ بھی تصوّف کی ایک اصطلاح ہے۔ ”علمِ لاہُوتی“ سے مُراد ہے وہ علم جو خدا کی معرفت کے متعلق بحث کرے
حرمکعبہ، یہاں اس سے مُراد ہے اسلام
درماںعلاج، معالجہ، چارہ
حلِ لغات (ضربِ کلیم 29: تصوّف)

تشریح:

اِس نظم میں علامہ اقبال اُن صوفیاء سے خطاب کرتے ہیں جو ذکر و فکر کی دُنیا میں زندگی گزار دیتے ہیں لیکن میدانِ عمل میں آ کر مسلمانوں کے اصل دُکھ درد کا علاج نہیں کرتے۔ فرماتے ہیں کہ اگر اربابِ تصوّف کی لِکھی ہوئی تفاسیر، اور اُن کا مدوّن کردہ علمِ باطنی اسلام کی مُصیبتوں کا ازالہ نہیں کر سکتا تو پھر یہ سب چیزیں، اور سارے علوم و فنون بیکار ہیں۔ یعنی اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی نگاہ میں ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔

جو تصوّف حرم یعنی اسلام کے درد کا علاج نہیں کر سکتا، وہ کسی کام کا نہیں۔ مختصر یہ کہ جو علم و حِکمت، مسلمان صوفیاء کو جہاد فی سبیل اللہ پر آمادہ نہیں کر سکتا، وہ بالکُل بیکار ہے۔

سرکارِ دو عالم ﷺ کی اور آپ ﷺ کے جانثاروں یعنی صحابہ اکرامؓ کی زندگیوں پر نظر کرو، کیا کوئی صُوفی اُن سے بڑھ کر قرآن ارو سُنت سے باخبر ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی صوفی اُن سے بڑھ کر تصوّف سے آگاہ ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں! تو اُن کی زندگیوں کا مطالعہ کرو اور دیکھو، کیا اُن لوگوں نے ساری عُمر حجروں میں بیٹھ کر مراقبہ میں بسر کی؟ پھر غور کرو کہ سرکارِ دو عالم ﷺ کی سب سے بڑی آرزو کیا تھی؟ کیا حضورِ پُرنور ﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ:-

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي مَا تَخَلَّفْتُ عَنْ سَرِيَّةٍ، وَلَكِنْ لاَ أَجِدُ حَمُولَةً، وَلاَ أَجِدُ مَا أَحْمِلُهُمْ عَلَيْهِ، وَيَشُقُّ عَلَىَّ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنِّي، وَلَوَدِدْتُ أَنِّي قَاتَلْتُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقُتِلْتُ، ثُمَّ أُحْيِيتُ ثُمَّ قُتِلْتُ، ثُمَّ أُحْيِيتُ “‏‏

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوصالح نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سُنا، آپ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میری اُمّت پر یہ امر مشکل نہ گزرتا تو میں کسی سریہ (یعنی مجاہدین کا ایک چھوٹا سا دستہ جس کی تعداد زیادہ سے زیادہ چالیس ہو) کی شرکت بھی نہ چھوڑتا۔ لیکن میرے پاس سواری کے اتنے اونٹ نہیں ہیں کہ میں اُن کو سوار کر کے ساتھ لے چلوں اور یہ مجھ پر بہت مشکل ہے کہ میرے ساتھی مجھ سے پیچھے رہ جائیں۔ میری تو یہ خوشی ہے کہ اللہ کے راستے میں میں جہاد کروں، اور شہید کیا جاؤں۔ پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں۔

(حوالہ: صحیح البُخاری: كتاب الجهاد والسير: 2972)

کیا اِس میں کوئی شک ہے کہ جیسا نازُک زمانہ، اِسلام پر آج آیا ہوا ہے، گذشتہ چودہ سو سال میں اس کی نظیر نہیں مِلتی۔ کیونکہ آج ساری دُنیا اسلام کو مِٹا دینے کے پے در پے ہے۔ کُفر کی جس قدر صُورتیں دُنیا میں موجود ہیں، سب نے اِسلام کے خلاف سازش کر رکھی ہے اور جس قدر سیاسی نظام ہیں، سب اسلام کے خلاف صف آراء ہو چُکے ہیں۔ آج طاغُوتی قوّتیں صاف الفاظ میں اعلان کر رہی ہیں کہ دُنیا میں جہالت، سفاہت، ضلالت اور تمام بُرائیوں کے لیے تو جگہ نِکل سکتی ہے لیکن محمدِ عربی ﷺ کے قائم کردہ نظام کے لیے گُنجائش نہیں ہے۔

صدرِ جمہوریہ امریکہ چار ہزار سال پُرانے نظامِ حیات اور ضابطۂ اخلاق سے استعفادہ کرنے کو تیّار ہے۔ وہ تبّت کے گُمنام لاما کے گُمنام تر ضابطۂ اخلاق سے استمداد کے لیے آمادہ ہے۔ وہ ہزاروں سال سے مُردہ زبان (سنسکرت) کی اخلاقی کتابوں سے دریوزہ گری کر سکتا ہے۔ لیکن زندہ رسول ﷺ اور زندہ کتاب (قرآنِ مجید) کے زندگی بخش اخلاقی ضابطہ (Moral Code) کا ذکر بھی زبان پر نہیں لاتا۔ (ماخوذ از ڈانؔ، 24 نومبر 1950ء)

اندریں حالات اگر تصوّف کا لٹریچر اور تصوّف کے وظائف۔۔ صوفیوں کو سر بکف ہونے پر آمادہ نہیں کر سکتے، تو کُچھ بھی نہیں کر سکتے اور اِن چیزوں کا کُچھ فائدہ نہیں ہے۔


یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سُرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کُچھ بھی نہیں

حلِ لغات:

نیم شبینیم شب؛ یعنی آدھی رات کا وقت
مُراقبےمُراقبہ کی جمع؛ دھیان، گیان، تصوّر، سوچ بچار، گردن جھکا کر فکر کرنا، اللہ کے ماسوا کو چھوڑ کر محض اللہ کی طرف دِل لگانا، Meditation
نگہباننگراں، پاسباں، پاسدار، محافظ
حلِ لغات (ضربِ کلیم 29: تصوّف)

تشریح:

اگر تیرے یہ مراقبے، یہ راتوں کے اذکارِ سری وجہری (خاموشی اور بلند آواز سے اللہ کا ذکر) اور یہ سارا جوش و خروش اور یہ اللہ ہو کے نعرے، یہ قوالی کی کیفیت انگیز محفلیں، یہ ختمِ خواجگانِ چِشت و مشائخِ نقشبند، یہ حلقۂ ذکر، یه کیف و مستی، یہ زُلفیں اور یہ عمامے، یہ عبائیں اور یہ قُبائیں، یہ تسبیحیں اور یہ مُصلّے، غرضکہ یہ تمام لوازمات اگر تیری خودی کی نگہبانی نہیں کر سکتے، تجھے تیرے مقام سے آگاہ نہیں کر سکتے، تیری ذات کی پرورِش نہیں کر سکتے تو سب بیکار و بے معنی و بے فائدہ ہیں۔


یہ عقل، جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار
شریکِ شورشِ پنہاں نہیں تو کُچھ بھی نہیں

حلِ لغات:

مہ و پروینچاند اور سِتارے
شریکشامل، داخل، ساتھی
شورشِ پِنہاںچھُپا ہوا ہنگامہ
حلِ لغات (ضربِ کلیم 29: تصوّف)

تشریح:

یہ عقلِ انسانی کہ جو چاند اور ستاروں پر  کمند ڈال رہی ہے، یہ عقل کہ جس کی بدولت آج انسان مریخ سے نامہ و پیام کا سلسلہ قائم کر رہا ہے اور فطرت کے راز ہائے سربستہ کھول رہا ہے، یہ اگر ”شریکِ شورشِ پنہاں نہیں، تو کُچھ بھی نہیں“۔

واضح ہو کہ ”شورشِ پنہاں“ سے اقبالؔ کی مُراد جذبۂ عشقِ حقیقی ہے۔ یعنی اگر انسانی عقل و خِرد عشقِ الہی کے ما تحت نہ ہو تو پھر وہ عقل و خِرد بالکل بیکار ہے۔۔ وہ دُنیا تو عطا کر سکتی ہے، دین عطا نہیں کر سکتی۔ سرکارِ دو عالم ﷺ کے دین کی خاطر سرفروشی کا جذبہ پیدا نہیں کرسکتی۔ جہادِ فی سبیل اللہ کے لیے میدان جنگ میں سر سے کفن باندھ کر جانے کا مشورہ نہیں دے سکتی، کیونکہ:-

؎ عقل در اسبابِ پیچاک و علل
عشق چوگاں بازِ میدانِ عمل

عقل اسباب اور وسائل کے چکر میں پڑی رہتی ہے، جبکہ عشق میدانِ علم کا شہسوَار ہے۔

(حوالہ: رموزِ بیخودی: در معنی حُریّتِ اسلامیہ و سِرِ حادثۂ کربلا)


خِرد نے کہہ بھی دیا ’لااِلہ‘ تو کیا حاصل
دِل و نِگاہ مسلماں نہیں تو کُچھ بھی نہیں

حلِ لغات:

خِرَدعقل، دانائی، سمجھ، دانش
حلِ لغات (ضربِ کلیم 29: تصوّف)

تشریح:

اگر کوئی شخص، اپنی عقلِ سلیم کی بدولت اس نتیجہ پر پہنچ جائے ضرور کوئی ہستی ایسی ہے جس نے یہ دُنیا بنائی ہے، تو بھی چنداں فائدہ مرتّب نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جب تک خِرد کے ساتھ مسلمان کا دِل اور اُس کی نگاہ–  یہ دونوں قوتیں بھی مسلمان نہ ہو جائیں۔۔ اُس وقت تک وہ مسلمان، حقیقی معنی میں مسلمان یعنی مومن نہیں ہو سکتا۔

واضح ہو کہ مغربی فلسفہ میں دِل و نِگاہ کی نہ کوئی حیثیت تسلیم کی گئی ہے اور نہ اُن کا ذکر کیا گیا ہے۔ مغربی حکماء دِل کو محض ایک پارۂ گوشت تصوّر کرتے ہیں جس کا کام خون پھینکتا ہے اور بس۔ لیکن اسلام میں دِل کا مرتبہ عقل سے بھی بڑھا ہوا ہے۔ جس طرح عقل انسانی زندگی کا مرکز ہے، دِل بھی مرکز ہے۔ لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ”دِل“ کی اصلاح کرو، یا

؏ دِلِ مُردہ دِل نہیں ہے، اِسے زندہ کر دوبارہ
(حوالہ: ضربِ کلیم)

تو اُس وقت دِل سے ہماری مراد یہ پارۂ گوشت نہیں ہوتی بلکہ اِس میں جو روحانی قوّت مخفی ہے، وہ مراد ہوتی ہے۔ یوں سمجھو کہ جس طرح دماغ بظاہر ایک مضغۂ گوشت (گوشت کا لوتھڑا) ہے، لیکن اس میں قوّتِ مدرکہ ایک ناقابل فہم طریقہ سے تصرف کرتی ہے۔ اسی طرح دل بھی بظاہر گوشت کا ٹُکڑا ہی ہے، لیکن اس میں بعض روحانی قوّتیں مخفی ہیں، جن کا علاقہ اسی عالم سے نہیں، بلکہ اُس عالم، یعنی عالمِ لاہوت سے ہے اور انسان کے اخلاق کی اصلاح صرف دِل کی اصلاح سے ہو سکتی ہے اسی لیے صوفیائے کرام نے تزکیۂ قلب کو مقدّم قرار دیا ہے۔

اللہ نے حضور سرورِ کائنات ﷺ کی بعثتِ مبارکہ کا سب سے بڑا مقصد یہی قرار دیا ہے کہ آپ ﷺ تزکیۂ نفوسِ انسانی کا بہترین طریقہ دُنیا کو سِکھا دیں، تاکہ انسان اللہ سے رابطۂ قلبی پیدا کر سکے۔

لَقَدْ مَنَّ اللّـٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِـيْهِـمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِـمْ يَتْلُوْا عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتِهٖ وَيُزَكِّـيْـهِـمْ وَيُعَلِّمُهُـمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَۚ وَاِنْ كَانُـوْا مِنْ قَبْلُ لَفِىْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ (164)

اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا ہے جو ان میں انہیں میں سے رسول بھیجا (وہ) ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور اُنہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور دانش سکھاتا ہے، اگرچہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے۔

(حوالہ: سورۃ آلِ عمران: آیت نمبر 164)

خود حضور سرورِ کائنات ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:-

بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق

میں اِس لیے بھیجا گیا ہوں کہ بہترین قسم کے اخلاق کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دُوں۔

(حوالہ: موطا امام مالک: كتابِ حُسن الخلق: 8)

الحق، انسانی اخلاق کا مرکز چونکہ قلب ہے، اِس لیے حضور ﷺ نے تمام تر توجہ قلب کی اصلاح پر مبذول فرمائی۔ اِس مرکز کی اہمیّت کا اندازہ اِس حدیث سے ہوسکتا ہے:-

أَلاَ وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ‏.‏ أَلاَ وَهِيَ الْقَلْبُ

فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ اِنسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹُکڑا ہے، اگر وہ فاسد ہو جائے تو سارا جسم فاسد ہو جاتا ہے اور اگر اُس کی اصلاح ہو جائے تو سارے جسم کی اِصلاح ہو جاتی ہے۔ آگاہ ہو جاؤ کی وہ (مضعۂ گوشت) اِنسان کا قلب ہے۔

(حوالہ: صحیح البُخاری: کتاب الایمان: 52)

غرض اگر عقل کے ساتھ قلب بھی مسلمان ہو جائے، یعنی اس کی بھی قرآنی طریق پر اصلاح ہو جائے تو انسان کامل ہو جاتا ہے۔

”عقل و دِل“ کے بعد تیسری چیز نگاہ ہے، یعنی وہ بصیرت یا فراستِ مومِنانہ، جو عقلؔ اور دِلؔ کے مسلمان ہو جانے کے بعد پیدا ہوتی ہے اور یہ نگاہ دراصل وہ نور ہے جو مومن کے قلب میں پیدا ہو جاتا ہے۔ یا صحیح تر الفاظ میں جب مومن کے دِل کا آئینہ چمکنے لگتا ہے تو اس میں نورِ الہی کا عکس پڑنے لگتا ہے ، اور اقبالؔ اُسی عکس یا چمک کو نگاہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ بس مومن سب کُچھ اُسی کے ذریعہ سے دیکھتا ہے اور پھر سارے علوم اُس پر مُنکشت ہوجاتے ہیں۔

لہذا اقبالؔ یہ کہتے ہیں کہ حقیقی تصوّف یہ ہے کہ مسلمان اپنی عقل کے ساتھ ساتھ اپنے دِل اور اپنی نگاہ کو بھی مسلمان بنائے۔ اگر اُس نے یہ نہیں کیا، تو پھر کُچھ بھی نہیں کیا۔

واضح ہو کہ ”عقل و دِل و نگاہ“ کو مسلمان بنانے کا طریقہ اقبالؔ نے بال جبریل میں بیان کر دیا ہے:-

؎ عقل و دِل و نِگاہ کا مُرشدِ اوّلیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بُت کدۂ تصوّرات
(حوالہ: بالِ جبریل: ذوق و شوق)


عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری
فروغِ صبح پریشاں نہیں تو کُچھ بھی نہیں

حلِ لغات:

عجبعجیب، حیرت انگیز
پریشاںپھیلا ہوا، مُنتشر، بے ربط
فروغِ صُبحصُبح کی روشنی
حلِ لغات (ضربِ کلیم 29: تصوّف)

تشریح:

اے مخاطب ! اگر تجھ کو میری گفتگو کُچھ عجیب سی یا کُچھ پریشان سی معلوم ہو تو حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ اِس لیے کہ اگر صبح کی روشنی میں پھیلاؤ نہیں ہے تو وہ سراسر بیکار ہے۔ یعنی میری گفتگو، میرا پیغام، میری تعلیم۔۔ کُفر کی تاریکی کو دُور کرنے والی ہے، گویا کُفر کی رات کے لیے پیامِ صُبح ہے اور سب جانتے ہیں کہ جب صُبح ہوتی ہے تو دُنیا میں ہر جگہ ہلچل مچ جاتی ہے، ہر سُو حرکت کے آثار نظر آنے لگتے ہیں۔ اِسی لیے فروغِ صبح کو پریشانی سے تعبیر کیا ہے۔


حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
2 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
Farman Ul Haq

Outstanding!!