Skip to content
بالِ جبریل 137: دین و سیاست

بالِ جبریل 137: دین و سیاست


”دین و سیاست“ از علامہ اقبال

تعارف

نظم ”دین و سیاست“ کا مضمون یہ ہے کہ عیسائیت نے دین اور سیاست کو الگ الگ کرکے دونوں کی بربادی کا انتظام کر دیا۔ اقبالؔ نے ساتھ یہ بھی واضح فرما دیا کہ اس علیحدگی کا بنیادی سبب کیا تھا۔ یہ اسلام کے داعیِ برحق ﷺ کا معجزہ تھا کہ آپ ﷺ نے سیاست اور دین کو ایک رکھا۔ یہ مضمون اقبالؔ نے اپنی تمام کتابوں میں پیش کیا ہے۔

(حوالہ: مطالبِ بالِ جبریل از مولانا غلام رسول مہر)


اس نظم میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ دین اور سیاست کو الگ الگ ٹھہرانا دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ عیسائیت نے دین و سیاست کو الگ کرکے دونوں کی بربادی کا انتظام کیا۔ یہ اسلام کے داعیٔ برحق ﷺ کا معجزہ تھا کہ اُس نے سیاست اور دین کو ایک کر دیا۔ یہ مضمون اقبالؔ نے اپنی تمام کتابوں میںؐ جابجا پیش کیا ہے۔

(حوالہ: شرح بالِ جبریل از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی)

YouTube video

نظم ”دین و سیاست“ کی تشریح

کلیِسا کی بُنیاد رُہبانیت تھی
سماتی کہاں اس فقیری میں مِیری

حلِ لغات:

کلیسامسیحی کلیسا، عیسائیت
رہبانیّتترکِ دُنیا کا مسلک
سماناجگہ پانا، گھر کرنا
میریسرداری، بادشاہی، حکمرانی
حلِ لغات (بالِ جبریل 137: دین و سیاست)

تشریح:

اقبالؔ نے اس نظم میں یہ وضاحت کی ہے کہ اسلام نے سیاست اور دین کو مربوط کیا ہے، جبکہ عیسائیت نے مذہب اور سیاست کے مابین جو ربط ہونا چاہیے، اُس کو ختم کر دیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ خامی تھی کہ کلیسا نے اپنے عقائد کی بُنیاد ترکِ دُنیا (رہبانیّت) پر رکھی۔ مقصود یہ تھا کہ دُنیاداری اور مذہب کے جملہ معاملات کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھا جائے۔ اس صورتِ حال میں حکومت (سیاست) کی، کہ جو سراسر دُنیا داری ہے، کس طرح گنجائش نکل سکتی تھی اور دین و سیاست کی یکجائی کے امکانات کا عمل دخل کس طرح سے ہوسکتا تھا؟  واضح رہے کہ رومی کلیسا نے پوپ سے لے کر چھوٹے پادری تک۔۔ سب کے لیے تجرد (ترکِ دُنیا) لازمی قرار دیا ہے۔ اگر کوئی آدمی خادمِ دینِ عیسوی بننا چاہے تو وہ شادی نہیں کر سکتا کیونکہ اُن کے مطابق یہ کام دُنیا داروں کا ہے نہ کہ دینداروں کا۔ پادریوں کے علاوہ راہبوں اور راہبات کے لیے بھی تجرد لازمی ہے۔ راہب کے معنی ہی تارک الدُّنیا اور تارک الذاتِ دُنیوی۔

نوٹ: قرآنِ مجید کی رو سے جناب مسیح علیہ السلام نے اپنی اُمّت کو رہبانیّت (ترکِ دُنیا) کی تعلیم نہیں دی تھی، بلکہ یہ طریقہ خود اُنہوں نے داخلِ دین کر دیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے کہ:-

”کلیسا“ یونانی زبان کے مشہور لفظ ایکلیزیا (Ecclesia) کا معرب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلیسا بھی مستعمل ہے۔ کلیسا کے لغوی معنی ہیں مجلسِ عوام۔ مسیحی ادبیات میں اس سے مراد ہے عبادت گاہ یا مذہبی تنظیم یا ادارہ برائے تبلیغ و اشاعتِ مذہبِ عیسوی۔ نیز پادریوں کی وہ جماعت جو اِس ادارہ کا انتظام کرے اور مذہب کے اصولوں کی حفاظت کرے اور مذہبی رسوم و روایات کو زندہ رکھے۔ اقبالؔ نے اس نظم میں کلیسا کو نصاریٰ کی مذہبی تعلیم کے معنی میں بیان کیا ہے۔”پیرِ کلیسا“ سے پوپ یا بابائے روم مراد ہے؛ جو رومن کیتھولک فرقہ کے عیسائیوں کا مذہبی پیشوا اور اُن کے عقیدہ کے مطابق یسوع مسیح کا سچا جانشین ہے، جو دوسروں کے گناہ معاف کر سکتا ہے اور خود گناہ سے محفوظ ہے۔

وَّرَهْبَانِيَّةً ِۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْـهِـمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّـٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِـهَا ۖ

”عیسائیوں نے ترکِ دُنیا کا عمل خود ہی پیدا کر لیا، جبکہ ہم نے اُنہیں اس کا حُکم نہ دیا تھا۔ ہمارا حکم تو یہ تھا کہ خدا کی رضا کو پیشِ نظر رکھیں، لیکن اُنہوں نے اِس حکم پر صحیح طور پر عمل نہ کیا“


(حوالہ: القرآن: سورۃ الحدید: آیت نمبر 27)


خصومت تھی سُلطانی و راہبی میں
کہ وہ سربلندی ہے یہ سربزیری

حلِ لغات:

خصومتدشمنی، مخالفت
سر بلندیسر اُونچا رکھنا
سربزیریفظی معنی سر نیچے رکھنا، سر جھُکائے رکھنے کی حالت، انتہائی پستی، عاجزی
حلِ لغات (بالِ جبریل 137: دین و سیاست)

تشریح:

سُلطانی و بادشاہت اور رہبانیّت (ترکِ دُنیا) کے مابین تو ازل ہی سے شدید اختلافات چلے آ رہے ہیں، اس لیے کہ حاکمیّت کا تصوّر تو انسان کی بلند مرتبت اور سربلندی کا حامل ہے۔ جب کہ ترکِ دُنیا کا معاملہ انسان کو پستی کی طرف دیکھنے والا اور غیر فطری ہے۔ سُلطانی حکومت کا نام ہے اور راہبی عاجزی اور مسکینی۔۔ بلکہ یہ غلامی کی دوسری شکل ہے۔

سربزیری: یعنی ترکِ دُنیا کر کے گِرجوں میں سر جھُکائے بیٹھے رہنا۔


سیاست نے مذہب سے پِیچھا چھُٹرایا
چلی کچھ نہ پِیرِ کلیسا کی پیری

حلِ لغات:

پیچھا چھُڑایاخود کو بچایا، خود کو کسی چیز سے نجات دِلائی
پیرِ کلیساگرجے کا راہب، مذہبی رہنما، پوپ، پاپائے روم
پیری چلنامذہبی رہنمائی کا کام آنا، بس چلنا
حلِ لغات (بالِ جبریل 137: دین و سیاست)

تشریح:

اس باہمی دُشمنی کے نتیجے میں سیاست مذہب سے الگ ہو گئی۔ پادری یا پوپ (عیسائیوں کے مذہبی رہنما) نے اس سلسلے میں بڑی کوشش کی کہ ایسا نہ ہو، لیکن اُس کا کوئی بس نہیں چل سکا اور یوں پادریوں کی اجارہ داری بھی ایک طرح سے ختم ہو کر رہ گئی۔ واضح ہو کہ پندرہویں صدی عیسوی میں میکاولی نے سیاست کو مذہب کی گرِفت سے آزاد کر دیا تھا۔ اگرچہ پوپ نے اس نظریہ کی بہت مخالفت کی لیکن رفتہ رفتہ تمام یورپیّن حکومتیں اس کے اثر سے آزاد ہو گئیں۔ چنانچہ انگلستان میں شاہ ہنری ششم نے پوپ کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کیا تھا۔

نوٹ: میکیاولی (Niccolò Machiavell) (1469ء تا 1527ء)، مشہور اطالوی سیاست دان جس نے کتاب الملوک لکھ کر یورپ میں وطن کو بنی آدم کا معبود بنا دیا۔ نظریۂ وطنیّت جس کی رو سے قومیں اوطان سے بنتی ہیں اسی باطل پرست اور مرسل شیطان کا ایجاد کردہ ہے، جو سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے کیونکہ قرآن مجید کی رو سے مسلمان قوم کی بنیاد وطن نہیں بلکہ دینِ اسلام ہے یعنی عقیدۂ توحید و رسالت۔


ہُوئی دِین و دولت میں جس دم جُدائی
ہوَس کی امیریِ، ہوَس کی وزیری

حلِ لغات:

ہَوَسحرس، لالچ
امیریامیر ہونا، حکمرانی
وزیریوزیر ہونا، حکمرانی
حلِ لغات (بالِ جبریل 137: دین و سیاست)

تشریح:

کہنا یہ ہے کہ جب دین و سیاست کے مابین جو رشتہ تھا وہ ٹوٹ گیا تو سربراہانِ مملکت اور اُن کے وزیر و مشیر بے شک برسرِ اقتدار تو رہے تاہم محض حرص و ہوَس کے بندے بن کر رہ گئے۔ گویا وہ دین سے علیحدگی کے سبب ہر طرح کی اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہو گئے اور نفسِ امارہ کے پیرو ہو گئے۔ اسی بات کو اقبالؔ نے ”ہوَس کی امیری“ سے تعبیر کیا ہے۔


دُوئی ملک و دِیں کے لیے نامرادی
دوئی چشمِ تہذیب کی نابصیری

حلِ لغات:

دُوئیدو ہونا، دو کو ماننا
نامُرادینامراد رہنا، ناکامی، مایوسی، محرومی
چشمِ تہذیبتہذیب کی آنکھ
نابصیریبصیرت سے خالی ہونا، اندھی آنکھ، نابینا ہونا
حلِ لغات (بالِ جبریل 137: دین و سیاست)

تشریح:

دین اور سیاست یا مذہب اور حکومت کے ایک دوسرے سے بے تعلق ہو جانے کے باعث نامُرادی ان دونوں کا مقدّر بن گئی ۔ اس دو رُخ اور متضاد رویّے کے سبب تہذیب اور کلچر بے بصر (اندھے) ہو کر رہ گئے، اور دونوں میں نیکی اور بدی کا تصوّر بے معنی ہو کر رہ گیا۔ یوں آج کی تہذیب نیک و بد میں تمیز سے بے نیاز ہو گئی۔ اقبالؔ کی رائے میں ”دوئی“ یعنی دین اور سیاست میں تفریق پیدا کرنا دونوں کے لیے مضر ہے چنانچہ اُنہوں نے اس اثر افریں طریق پر بیان کیا ہے:-

؏ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
(حوالہ: بالِ جبریل)

لفظ ”دوئی“ کو اقبالؔ نے اس شعر میں اس کے فلسفیانہ مفہوم کے لحاظ سے استعمال کیا ہےاور اس سے ثنویتِ مانی مراد لی جاتی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ تیسرین صدی عیسوی میں ایران میں ایک شخص پیدا ہوا جس کا نام مانی تھا۔ اُس نے مسیحیت اور بعض قدیم مذاہب کے امتزاج سے ایک نیا مذہب پیدا کیا تھا جس کی بنیادی تعلیم یہ تھی کہ کائنات میں دو متضاد طاقتیں کارفرما ہیں؛ خیر و شر یا نور و ظلمت۔ چونکہ مانی نے بھی مسیحیت کی طرح ترکِ دنیا کی تعلیم دی تھی اس لیے ایران، عراق، شام، فلسطین اور ایشائے کوچک کے بہت سے عیسائی اس کے پیرو ہو گئے اور اِن کی وساطت سے دوئی کا یہ عقیدہ کلیسا کے بنیادی عقائد میں داخل ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں زندگی کے ہر شعبہ میں تفریق پیدا ہو گئی۔ مثلاً روح جُدا ہے، مادہ جُدا ہے۔ اسی طرح دین جُدا ہے، دنیا جُدا ہے۔ نیز مذہب جُدا ہے، سیاست جُدا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ آدمیوں کے بھی دو طبقے ہو گئے؛ دُنیا دار اور دین دار اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جُدا ہیں۔


یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا
بشیری ہے آئینہ دارِ نذیری!

حلِ لغات:

اعجازمعجزہ
صحرا نشیںلفظی معنی صحرا میں رہنے والا، مراد ہے نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ پاک سے
بشیریبشارت دینا، لوگوں کو حق راہ پر چلا کر ثواب کی خوشخبری سُنانا
آئینہ دارظاہر کرنے والا
نذیریلفظی معنی ڈرانا، عذابِ قیامت سے ڈرانا
حلِ لغات (بالِ جبریل 137: دین و سیاست)

تشریح:

متذکرہ انتشار کا یہ ردِ عمل تھا کہ پیغمبرِ انقلاب حضور سرورِ کائنات ﷺ نے مبعوث ہونے کے ساتھ جہاں دعوتِ اسلام دی، وہاں معاشرے میں بھی انقلابی تبدیلیاں لانے کے لیے دین اور سیاست کو یکجا کر دیا اور دینی احکام کو ہی حکمرانی کا منشور قرار دیا۔ اس کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ حاکمِ وقت پر لازم ہے کہ وہ فرمانِ الہی کی ہر قیمت پر تعمیل کرے اور دوسروں کو بھی ان کی مکمل اطاعت پر آمادہ کرے۔ اس کا منطقی نتیجہ اس صورت میں نمودار ہوا کہ حاکم اور عام لوگ فطرے طور پر ایک احتسابی عمل کے زیرِ اہتمام زندگی بسر کرنے لگے اور یوں خودبخود بُرائی سے دُور ہوتے چلے گئے۔

اقبالؔ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے دین اور سیاست کی تفریق کو مِٹایا۔ اسلام دین اور حکومت۔۔ دونوں کا جامع ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ بشیر بھی ہیں اور نذیر بھی ہیں یعنی رسول بھی ہیں اور صاحبِ امر بھی۔ ”بشیری“ سے مُراد ہے دین اور ”نذیری“ سے مُراد ہے سیاست۔ یعنی آپ ﷺ دین اور سیاست۔۔ دونوں کے جامع ہیں۔


اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی
کہ ہوں ایک جُنیّدی و اردشیری

حلِ لغات:

جُنّیدیاشارہ ہے حضرت جنید بغدادیؒ کی طرف۔ مراد ہے بہت بڑی صوفی کی صفت، دین داری، درویشی، فقر
اردشیریاشارہ ہے ایران کے ساسانی خاندان کے بانی اردشیر کی طرف۔ مراد شہنشاہی ہے یعنی سیاست، بادشاہت
حلِ لغات (بالِ جبریل 137: دین و سیاست)

تشریح:

اقبالؔ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے احکامِ خداوندی کی روشنی میں یہ بات واضح فرما دی کہ بنی آدم کی فلاح و بہبود اسی میں مضمر ہے کہ دیندار اور دُنیادار یعنی صوفی اور سیاستدان، درویش اور بادشاہ کے امتیاز کو مِٹا دیا جائے اور جو ہمارا بادشاہ ہو وہی ہمارا دینی پیشوا بھی ہو۔ مثلاً فاروقِ اعظمؓ؛ کہ آپؓ بیک وقت فرماں روا بھی تھے اور رسول اللہ ﷺ کے جانشین بھی تھے۔

”جنیدی“: منسوب بحضرت جنید بغدادیؒ، یہاں اس سے مُراد ہے طبقۂ زہاد یا صوفیہ یا عُلمائے دین۔

”اردشیری“: منسوب بہ شہر اردشیر۔ اردشیر نام ہے بہمن بن اسفندیار کا اور سامانؔ کا، جو ساسانی خاندان کا بانی ہے اور شیرویہ بن پرویز کے بیٹے کا؛ یہاں اِس سے مُراد ہے اربابِ سیاست۔

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments