”مُلّا اور بہشت“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”مُلّا اور بہشت“ میں علامہ اقبال نے مُلّا کی ذہنیّت پر تبصرہ کیا ہے۔ جب کہ میں پہلے لِکھ چکا ہوں: مُلّا سے اُن کی مراد وہ علمائے سو ہیں جو اسلام کی روح سے ناآشنا ہیں، چنانچہ جاوید نامہ میں لکھتے ہیں:-
؎ بے نصیب از حکمتِ دینِ نبی ﷺ
آسمانش تیرہ از بے کوکبی
وہ جنابِ رسول پاک ﷺ کے دین کی حکمت سے محروم ہے،
اُس کا آسمان ستاروں کے نہ ہونے کی وجہ سے تاریک ہے۔
؎ مکتب و مُلّا و اسرارِ کتاب
کور مادر زاد و نورِ آفتاب
مکتب و مُلّا اور قرآن پاک کے اسرار (کی مثال یوں ہے)
جیسے مادرزاد اندھا اور آفتاب کی روشنی۔
(حوالہ: جاوید نامہ: فلک عطارد: حکمت خیر کثیر است)
آج کل یہ لفظِ ”مُلّا“ ہمارے ادب (Literature) میں کلمۂ تحقیر (ذِلّت و حقارت کی بات) بن گیا ہے، یعنی اس کا مفہوم یکسر بدل گیا ہے۔ پہلے زمانہ میں، بلکہ مغلیہ سلطنت کے زوال تک یہ لفظ بہت وقیع (باوقار، بلند مرتبے والا، معزز، ذی عزت، ذی وقار) تھا چنانچہ تاریخ میں سعد الدین تفتا زانی، جلال الدین دوانی، محب اللہ بہادری، نظام الدین محمد سہالوی، عبدالعلی بحرالعلوم (غالباً سید محمد مہدی بحر العلوم مراد ہیں)، صدرالدین شیرازی وَغَیرَہُم (اور ان سب کے علاوہ ، اور بہت سے) یہ سب حضرات مُلّا کے لقب سے مشہور ہیں اور دُنیا جانتی ہے کہ یہ علماء معقولات میں اپنے اپنے زمانہ کے اِمام گزرے ہیں۔ اگر میں اِن کے علمی کارناموں کی تفصیل بیان کروں تو یہ شرح تاریخ الحکماء بن جائے گی۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ یہ حضرات منطق (Logic) اور فلسفہ (Philosophy) میں کانٹؔ (Immanuel Kant) اور ہیگلؔ (Georg Wilhelm Friedrich Hegel) کے ہم پایہ ہیں۔
جب انگریزوں نے 1857ء کے بعد ہندوستان میں علم اور عُلماء کو ختم کرنے کی مہم شروع کی تو کُچھ عرصہ کے بعد مُلّا مِٹ گئے اور انگریزوں نے یہ معزز لقب اُن لوگوں کو دینا شروع کر دیا جو چھاؤنیوں میں مسلمان سپاہیوں کو پانچ وقت کی نماز پڑھانے پر متعیّن تھے۔ اپنے آقاؤں کی تقلید میں رفتہ رفتہ ہم بھی جہلا کو مُلّا کے نام سے یاد کرنے لگے۔ جس طرح ایک خاص لطیفہ کی مہربانی سے نائی اور حجام ”خلیفہ“ بن گئے، اُسی طرح انگریزوں کی علم دُشمنی کی بدولت نیم خواندہ اشخاص مُلّا کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ قصور اِس لفظ کا نہیں ہے بلکہ اُن نااہلوں کا ہے جن کو یہ لقب مفت میں مِل گیا۔ چنانچہ اِس زمانہ میں مُلّا اُسے کہتے ہیں جسے کسی علم یا فن میں دستگاہ حاصل نہ ہو۔ ایسا شخص لامحالہ کم علمی کے باعث اپنا وقت لایعنی بحث و تکرار میں صرف کرے گا اور بد آموزیٔ اقوام و ملل کا مُرتکب ہوگا۔
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
اِس مختصر سی نظم میں علامہ اقبال نے آج کل کے نام نہاد عُلماء کی ایک عام بُرائی کی طرف اشارہ کیا ہے، یعنی لڑنا، بحثیں کرنا اور خواہ مخواہ جھگڑے پیدا کرنے کی فکر میں رہنا جس سے خدا کے بندوں میں پھُوٹ پڑے۔
(حوالہ: مطالبِ بالِ جبریل از مولانا غلام رسول مہر)
آج کے نام نہاد مُلّا اپنے مفاد کی خاطر بحثوں اور اُلجھیڑوں میں پڑے رہتے ہیں اور یوں مِلّت میں پھُوٹ ڈالتے اور فرقہ پرستی کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔ اس نظم میں اسی صورتِ حال کا بیان ہے۔ راقم یزدانیؔ نے اس سلسلے میں یوں کہا ہے:-
مُلّا تجھے مبارک تیری پانچ وقتی ورزش
یہ زباں بھی ہو مبارک جو چھُری سے کم نہیں ہے
تجھے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ اُنس و اُلفت
تیرا دِل ہے پُر خشونت، تیری آنکھ نم نہیں ہے
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)
غالباً گذشتہ صفحات میں کسی مقام پر اِس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ”مسجدِ قرطبہ“، ”لینن – خدا کے حضور میں“، ”لالۂ صحرا“ اور ”ذوق و شوق“ کے علاوہ ”مُلّا اور بہِشت“ یہ سب علامہ اقبال کی اُن شاہکار نظموں میں سے ہیں جن کی بدولت اقبالؔ کو ایک بڑا شاعر مانا اور جانا جاتا ہے۔ اس مختصر سی زیرِ تشریح نظم میں تو اُن کا اوج کمال پر ہے۔
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از اسرار زیدی)
نظم ”مُلّا اور بہشت“ کی تشریح
مَیں بھی حاضر تھا وہاں، ضبطِ سخن کر نہ سکا
حق سے جب حضرتِ مُلّا کو مِلا حکمِ بہشت
حلِ لغات:
حاضر تھا | موجود تھا |
ضبطِ سُخن کرنا | زبان قابو میں رکھنا، چُپ رہنا |
حق | اللہ تعالیٰ |
مُلّا | مراد وہ علمائے سُو جو اسلامی روح سے ناآشنا ہیں |
بہِشت | جنّت |
تشریح:
ایک عرصے سے مُلّاؤں نے کج بحثی، منافقت اور تفرقہ پردازی کا جو بازار گرم کر رکھا ہے، اسی کے سبب بے شمار لوگوں خصوصیت کے ساتھ نوجوان نسل میں دین و مذہب کے ساتھ وہ لگاؤ نہیں جو ہونا چاہیے۔ اقبالؔ عمر بھر اپنے افکار کے ذریعے مُلّاؤں کے اِس کردار کے خلاف جہاد کرتے رہے۔ یہاں اُنہوں نے مُلّاؤں کے کردار کو جس قدر خوبصورت انداز میں پینٹ کیا ہے، وہ انتہائی لائقِ ستائش ہے۔ چنانچہ اِس شعر میں وہ آغاز اس طرح کرتے ہیں کہ:-
جس وقت مُلّا کو بہِشت میں بھیجنے کے لیے خدا تعالی نے حکم جاری کیا تو اِتفاق سے میں بھی وہیں موجود تھا، چنانچہ مُلّا کی پذیرائی کے اِس عمل کو دیکھ کر میری قوّتِ برداشت جواب دے گئی اور میں اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرنے سے خود کو روک نہ سکا۔
عرض کی مَیں نے، الٰہی! مری تقصیر معاف
خوش نہ آئیں گے اسے حُور و شراب و لبِ کشت
حلِ لغات:
عرض کرنا | بڑے ادب سے بات کرنا |
تفصیر | خطا، قصور |
حور | حوریں |
شراب | شرابِ طہور، وہ پاکیزہ شراب جو جنتیوں کو مِلے گی |
لبِ کِشت | شاداب سیرگاہ کا کنارہ، سبزہ و گُل |
تشریح:
چنانچہ حق تعالیٰ سے میں نے گزارش کی کہ الہی! میری جسارت معاف فرمائیے۔ بات یہ ہے کہ آپ اسے بہشت بھیج رہے ہیں، اِس جیسے شخص کو وہاں کی حوریں، پاکیزہ شراب اور سبزہ و گُل کیسے راس آئیں گے اور یہ چیزیں کیسے اس کے اطمینانِ قلب کا باعث ہو سکیں گی، جبکہ یہ تو اپنی فطرت کے لحاظ سے اُمّت میں تفرقہ اور لڑائی جھگڑے کا قائل رہا ہے۔
نہیں فردوس مقامِ جَدل و قال و اقول
بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت
حلِ لغات:
فردوس | جنّت، بہِشت |
جدل | لڑائی، جھگڑا |
قال | اُس نے کہا |
اقُول | میں کہتا ہوں |
قال و اقُول | ”اُس نے یہ کہا“ اور ”میں یہ کہتا ہوں“۔ مراد بحث و مباحثہ / مناظرہ |
سرِشت | فطرت، خصلت، طبیعت |
تشریح:
اس لیے کہ بہشت لڑائی جھگڑے، بحث و مباحثے اور تکرار کی جگہ تو نہیں ہے، جبکہ یہی چیزیں اللہ کے اس بندے کی فطرت اور خصلت ہیں، کیونکہ اِن کے بغیر یہ رہ ہی نہیں سکتا۔ پھر اسے بہِشت میں چین کیونکر آئے گا؟
ہے بد آموزیِ اقوام و مِلل کام اس کا
اور جنّت میں نہ مسجد، نہ کلیسا، نہ کُنِشت!
حلِ لغات:
بد آموزی | بُری تعلیم دینا، بُری بات سِکھانا |
اقوام | قوم کی جمع۔ قومیں |
مِلل | مِلّت کی جمع۔ قومیں |
کلیسا | گِرجا |
کنِشت | یہودی اور مجوسی عبادت گاہ، آتش کدہ، بُت خانہ |
تشریح:
مُلّا کا کام یہ ہے کہ مختلف قوموں اور جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف سکھا پڑھا کر فتنہ و فساد برپا کرے، بہشت میں اِس کا یہ شوق پورا نہ ہو سکے گا کیونکہ وہاں نہ مسجد ہے نہ گرجا نہ بُت خانہ وغیرہ، جنہیں یہ اپنے بحث طلب اور شر پسند ذوق کو تسکین دینے کے لیے استعمال کر سکے۔ پھر بہشت میں اِسے کیونکر قرار آئے گا اور یہ اپنی جنتی زندگی پر کیونکر مطمئن ہوگا؟
حوالہ جات
- شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بالِ جبریل از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی
- شرح بالِ جبریل از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح بالِ جبریل از اسرار زیدی
- مطالبِ بالِ جبریل از مولانا غلام رسول مہر