Skip to content
بانگِ درا 110: نصیحت

بانگِ درا 110: نصیحت

”نصیحت“ از علامہ اقبال

فہرست

تعارف

علامہ اقبالؔ نہ یہ نظم انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے (منعقدہ اپریل 1911ء) میں شیخ عبدالقادر کے ایک نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی۔ نظرثانی میں نہ صرف اِس کا عنوان بدل دیا گیا  بلکہ اِس کے ایک مصرع میں ترمیم کی گئی اور تین شعر قلمزد کر دیے گئے۔ یہ شعر باقیاتِ اقبالؔ اور سرودِ رفتہ میں دیے گئے ہیں۔ بانگِ درا میں شمولیت کے وقت علامہ اقبال نے ترتیب کے اعتبار سے بھی نظم ”نصیحت“ کو نظم ”شکوہ“ سے بعد لکھا جبکہ سرودِ رفتہ میں اس کے متروک اشعار ”شکوہ“ نظم سے پہلے دیے گئے ہیں۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد)


اِس نظم میں اقبالؔ نے اپنے زمانے کے لیڈروں کی اصلی تصویر دکھائی ہے۔ یہ نظم طنزیہ شاعری کی ایک بہترین مثال ہے۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

YouTube video

تشریح

میں نے اقبالؔ سے از راہِ نصیحت یہ کہا
عاملِ روزہ ہے تُو اور نہ پابند نماز

حلِ لغات:

ازراہِ نصیحتنصیحت کے طور پر
عاملعمل کرنے والا
حلِ لغات (بانگِ درا 110: نصیحت)

تشریح:

ایک دن میں نے اقبالؔ سے یہ کہا کہ:-

اے اقبالؔ! تیری پہلی خوبی یہ ہے کہ نہ تو تُو روزے رکھتا ہے اور نہ ہی نماز کی پابندی کرتا ہے۔ مراد ہے کہ تجھے شریعتِ اسلامیہ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔


تُو بھی ہے شیوۂ اربابِ ریا میں کامل
دل میں لندن کی ہوَس، لب پہ ترے ذکرِ حجاز

حلِ لغات:

شیوہعادت، چال چلن، طریق
اربابِ ریامکّار (ریا کار) لوگ
ہوَسلالچ۔ مُراد تمنّا
حجازعرب کا وہ علاقہ جہاں مکہ مکرمہ اور مدینہ منوّرہ کے مقدّس شہر ہیں
حلِ لغات (بانگِ درا 110: نصیحت)

تشریح:

تیری دوسری خوبی یہ ہے کہ تُو لیڈروں کی طرح ریاکار ہے بلکہ اس فنِ لطیف میں کامل ہے (یعنی ریاکاری میں کمال کی حس کو پہنچ گیا ہے)

اس کی مثال یہ ہے کہ تُو ذِکر تو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا کرتا ہے لیکن تیرے دِل میں لندن کی خواہش چھپی رہتی ہے یعنی تیرے دِل میں انگریز کی محبّت بسی ہوئی ہے لیکن تُو زبان سے عشقِ رسول ﷺ کا اظہار کرتا ہے۔


جھُوٹ بھی مصلحت آمیز ترا ہوتا ہے
 تیرا اندازِ تملُّق بھی سراپا اعجاز

حلِ لغات:

مصلحت آمیزوہ کام جو کسی کی بہتری کے لیے کیا جائے
اندازِ تملُّقچاپلُوسی / خوشامند کا انداز
سراپامکمل، پورا
اعجازکرامت، کرِشمہ، معجزہ
حلِ لغات (بانگِ درا 110: نصیحت)

تشریح:

تیسری خوبی یہ ہے کہ ”دروغِ مصلحت آمیز“ پر عمل کرتا ہے یعنی سو فیصدی جھوٹ بولتا ہے لیکن جب قوم اس کی وجہ دریافت کرتی ہے تو اس کی پوشیدہ مصلحتیں بیان کرتا ہے۔ مثلاً:-

  • ”اگر میں سچ بولتا تو فلاں صاحب ناراض ہوجاتے“
  • ”کالج کی گرانٹ بند ہوجاتی“
  • ”وہ آئندہ کسی اجلاس میں شریک نہ ہوتے“
  • ”کسی مسلمان کو ڈسٹرکٹ بورڈ میں نامزد نہ فرماتے“

وغیرہ وغیرہ۔

نیزچوتھی خوبی یہ کہ تُو خوشامد اور چاپلوسی کے فن میں طاق ہے۔۔ بلکہ تیرے ایجاد کردہ طریقِ خوشامد میں تو معجزہ کا رنگ پایا جاتا ہے۔۔ کوئی شخص اس فن میں تیرا مقابلہ نہیں کرسکتا۔


ختم تقریر تری مدحتِ سرکار پہ ہے
 فکرِ روشن ہے ترا مُوجدِ آئینِ نیاز

حلِ لغات:

مدحتِ سرکارحکومت کی تعریف
فکرِ روشنروشن خیال۔ مُراد عمدہ سوچ / سمجھ / عقل
مُوجدایجاد کرنے والا، بنانے والا
آئینِ نیازنیازمندی کا طریقہ، عجز و انکسار کے طریقے
حلِ لغات (بانگِ درا 110: نصیحت)

تشریح:

تیری پانچویں خوبی یہ ہے کہ تُو ہمیشہ اپنی تقریر کو سرکار (برطانیہ) کی مدحت و ستائش پر ختم کرتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات جب تجھے جنرل نِکلسن کے ساتھ آبائی تعلقات کا خیال آجاتا ہے تو پھر بھری مجلس میں تُؤ پُکار اُٹھتا ہے کہ ”انگریزوں سے غداری“ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے غداری کے متر ادف ہے۔

؏ پھِرُوں جو اُس سے تو مجھ سے مرا خدا بھی پھِر جائے

تیرا ”روشن فکر“ نیازمندی اور عاجزی کے نت نئے نئے طریقے ایجاد کرتا رہتا ہے۔ تُو نے حکمرانوں کے سامنے خود کو حقیر ثابت کرنے کا نیا انداز ظاہر کیا ہے۔


درِ حکّام بھی ہے تجھ کو مقامِ محمود
پالِسی بھی تری پیچیدہ تر از زلفِ ایاز

حلِ لغات:

درِ حُکٗامحاکموں کا دروازہ
مقامِ محمودبہت پسندیدہ جگہ، بلند درجہ
پالیسی (Policy)حکمتِ عملی
پیچیدہ ترزیادہ اُلجھا ہوا
زُلفِ ایازایاز کی زُلف۔ ایاز محمود غزنوی کا غلام تھا، بعض روایات میں اُسے محمود غزنوی کا عاشق اور محبوب بھی بتایا گیا ہے۔
حلِ لغات (بانگِ درا 110: نصیحت)

تشریح:

تیری چھٹی خوبی یہ ہے کہ تُو حکام کی کوٹھیوں کے طواف کو اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتا ہے۔ اور تیری حکمتِ عملی بھی ایسی پیچیدہ ہے کہ کسی کی سمججھ میں نہیں آتی کہ دراصل تیرا مقصد کیا ہے۔

؏ باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیّاد بھی
(شاعر: ثاقب لکھنوی)

مقامِ محمود: یہ ترکیب سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 79 سے ماخوذ ہے۔ اقبالؔ نے بظاہر اس ترکیب کے لغوی معنی مراد لیے ہیں یعنی مسلمان حکام کے دروازوں کو اپنے حق میں بہت مفید (قابلِ تحسین مقام) سمجھتے ہیں لیکن دوسرے معنی یہ بھی مراد ہوسکتے ہیں کہ دنیا پرست مسلمان انگریزوں کی چوکھٹ کو اپنے لیے ”قُربِ خداوندی“ سے کم نہیں سمجھتے۔

پالیسی: پالیسی انگریزی زبان کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے طریقِ کار۔ مراد ہے دنیا میں ترقی حاصل کرنے کا طریقہ۔ واضح ہو کہ پالیسی موجودہ سیاسیات کی اصطلاح ہے اور اس میں عیاری اور فریب کا مفہوم پوشیدہ ہے۔ چنانچہ آج کل ووٹوں کے امیدوار کو خواہ وہ ”صالح“ ہو یا ”غیر صالح“، بڑی پالیسی سے کام لینا پڑتا ہے ورنہ کامیابی حاصل ہونی دشوار ہے۔

پیچیدہ تر از زُلفِ ایاز: بڑا بلیغ مصرع ہے۔ یعنی آج کل کے لیڈروں کی پالیسی، معشوق کی زلفوں سے بھی زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے۔ پیچیدگی سے وہی منافقت مراد ہے کہ ظاہر کچھ اور باطن کچھ۔

؎ اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
(حوالہ: ارمغانِ حجاز: ابلیس کی مجلسِ شوریٰ)


اور لوگوں کی طرح تُو بھی چھُپا سکتا ہے
پردۂ خدمتِ دیں میں ہوَسِ جاہ کا راز

حلِ لغات:

پردۂ خدمتِ دیںدینِ اسلام کی خدمت کے بہانے
ہوَسِ جاہدُنیاوی جاہ و شوکت کے حصول کی ہَوَس
حلِ لغات (بانگِ درا 110: نصیحت)

تشریح:

تیری ساتویں خوبی یہ ہے کہ تُو دوسروں کی طرح اوّل درجہ کا مکّار ہے اور پبلک کو فریب دینے کے فن میں ماہر ہے۔ یعنی تُو دنیا حاصل کرنے کے لیے مذہب فروشی بھی کرسکتا ہے اور دین کی خدمت کے پردے میں دنیاوی عزت حاصل کرنے کے ارادوں اور خواہشوں کو پوشیدہ کرسکتا ہے۔

پردۂ خدمتِ دیں میں ہوَسِ جاہ کا راز: یعنی بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کررہے ہیں لیکن دراصل وہ اپنی ترقّی کے لیے سارے جتن کررہے ہوتے ہیں۔


نظر آجاتا ہے مسجد میں بھی تُو عید کے دن
 اثرِ وعظ سے ہوتی ہے طبیعت بھی گداز

حلِ لغات:

اثرِ وعظمذہبی تقریر
گُدازپِگھلی ہوئی، متاثر
حلِ لغات (بانگِ درا 110: نصیحت)

تشریح:

تیری آٹھویں خوبی یہ ہے کہ تُو عید، بقر عید کو شاہی مسجد میں نماز پڑھنے بھی چلا جاتا ہے اور اپنے ذاتی اثر و رسوخ کی بنا پر پہلی صف میں جگہ بھی حاصل کرلیتا ہے۔ نیز یہ کہ جب تُو وعظ سنتا ہے تو تیرا رومال بھی اشکوں سے تر ہوجاتا ہے مگر یہ آنسو صرف دِکھاوے کے ہوتے ہیں۔


دست پرورد ترے مُلک کے اخبار بھی ہیں
چھیڑنا فرض ہے جن پر تری تشہیر کا ساز

حلِ لغات:

دست پروَردہاتھ کا پالا ہوا، احسان مند
فرض ہےلازم ہے
تشہیر کا سازمُراد شہرت کا سامان، مشہوری (Publiclity) کرنا
حلِ لغات (بانگِ درا 110: نصیحت)

تشریح:

نویں خوبی یہ ہے کہ تُو ملک کے تمام مقتدر اخباروں کی بھی خدمت کرتا ہے اور وہ بھی اپنے کالموں مین تیرا ”ذکرِ خیر“ کرتے ہیں۔

یعنی یہ نام نہاد لیڈر میڈیا کو رشوت کے ذریعے خرید لیتے ہیں۔ پھر یہی میڈیا اُن کے جھوٹ کو سچ اور سیاہ کو سفید بنا کر پیش کرتا ہے۔ اُنہیں فرشتہ صفت ظاہر کرتا ہے اور جھوٹی تحریریں لِکھ لِکھ کر یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ نام نہاد لیڈر ہی عوام کے سب سے زیادہ ہمدرد ہیں۔

دست پرورد: یعنی اخباروں کے مالکوں کو بھی بھاری قیمتیں دیتا رہتا ہے تاکہ وہ تیرا پروپیگینڈہ کرتے رہیں۔

تشہیر کا ساز چھیڑنا: یعنی مشہوری (Publicity) کرنا۔


اس پہ طُرّہ ہے کہ تُو شعر بھی کہہ سکتا ہے
 تیری مِینائے سخن میں ہے شرابِ شیراز

حلِ لغات:

طُرّہمزہ، لُطف
مینائے سُخنشاعری کی صراحی، شاعرانہ کلام
شرابِ شیرازحافظ شیرازی کی سی شاعری کا انداز
حلِ لغات (بانگِ درا 110: نصیحت)

تشریح:

دسویں اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ تُو شاعر بھی ہے اور تیرے کلام میں حافظ شیرازی کی طرح بڑی دِلکشی ہے۔


جتنے اوصاف ہیں لیڈر کے، وہ ہیں تجھ میں سبھی
 تجھ کو لازم ہے کہ ہو اُٹھ کے شریکِ تگ و تاز

حلِ لغات:

اوصافوصف کی جمع، خوبیاں
لیڈررہنما
تگ و تازدوڑ دھوپ، جد و جہد
حلِ لغات (بانگِ درا 110: نصیحت)

تشریح:

غرض ہندوستان کے بڑے بڑے لیڈروں کی جو صفات ہونی چاہیئیں وہ ساری تجھ میں موجود ہیں۔ اس لیے تجھے چاپیے کہ اپنی لیڈری چمکانے کے لیے جد و جہد کرے۔


غمِ صیّاد نہیں، اور پر و بال بھی ہیں
پھر سبب کیا ہے، نہیں تجھ کو دماغِ پرواز

حلِ لغات:

صیّادشکاری
پر و بالصلاحیت و اِستعداد
دماغِ پروازپرواز کی خواہش
حلِ لغات (بانگِ درا 110: نصیحت)

تشریح:

خلاصۂ کلام یہ کہ گرفتاری کا تجھے خوف نہیں (ملاحظہ ہو خوبی نمبر 5) اور معاش کی تجھے فکر نہیں (ملاحظہ ہو خوبی نمبر 4) پھر کیا وجہ ہے کہ تُو لیڈری کے لیے کوشش نہیں کرتا؟

غمِ صیاد نہیں: یعنی حکومت کی خفگی یا عتاب کا اندیشہ نہیں (کیونکہ تُو تو درِ حکام کو مقامِ محمود سمجھتا ہے)

پرو بال بھی ہیں: یعنی لیڈر کے اوصاف موجود ہیں۔

دماغِ پرواز: دنیاوی ترقی کی آرزو۔


”عاقبت منزلِ ما وادیِ خاموشان است
حالیا غُلغلہ در گنبدِ افلاک انداز“

حلِ لغات:

عاقبتنتیجہ، انجام
وادیِ خاموشانخاموش لوگوں کی وادی، مراد قبرستان
استہے
حالیاآج، حال
غُلغُلہہنگامہ
در گُنبدِ افلاکآسمانوں کے گُنبد میں
حلِ لغات (بانگِ درا 110: نصیحت)

تشریح:

آخر شعر خواجہ حافظ شیرازی کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ:-

”آخرکار ہماری زندگی خاموش لوگوں کی وادی یعنی قبرستان ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس وقت تُو آسمانوں کے گنبد میں ایک ہنگامہ برپا کردے۔“

یہاں پر یہ شعر طنزاً استعمال ہوا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ:-

کیا تُو نے اس نکتہ پر غور نہیں کیا کہ جب زندگی کا انجام فنا ہے تو لازم ہے کہ انسان چند روزہ زندگی کو حتی المقدور ”عزت اور راحت“ کے ساتھ بسر کرے۔ مرنے کے بعد تو گوشۂ گمنامی میں ہی چلے جانا ہے۔ کم از کم اس زندگی میں تو کوئی ہنگامہ برپا کرلے۔پس لازم ہے کہ تُو اُٹھ اور ساری دُنیا میں اپنے نام کا ڈنکا بجا۔

در حقیقت یہ نظم ملک کے لیڈروں پر طنز کی حیثیت رکھتی ہے اور اس میں سیاسی لیڈروں کے تمام ہتھکنڈے بتائے گئے ہیں۔

تبصرہ

اِس نصیحت کا جو جواب اقبالؔ نے دیا تھا، وہ سننے کے قابل ہے:-

سُن کے کہنے لگا اقبالؔ بجا فرمایا
شک مجھے آپ کی باتوں میں نہیں بندہ نواز
مجھ میں اوصافِ ضروری تو ہیں موجود مگر
ہے کمی ایک، کہوں تم سے جو ہو فاش نہ راز
ڈھب مجھے قوم فروشی کا نہیں یاد کوئی
اور پنجاب میں ملتا نہیں اُستاد کوئی
(حوالہ: باقیات اقبال، ص ۳۶۲)

یہ شعر نظر ثانی میں حذف کردیے تھے۔

اس نظم میں دراصل مسلمانوں کے غلط کار لیڈروں کا خاکہ اُڑایا گیا ہے، اُن کے عام اوصاف یہ تھے:-

  1. شریعت کے احکام میں سے نماز روزہ جیسے اہم فرائض سے بے پروائی
  2. پرلے درجے کی ریاکاری
  3. جھوٹ اور خوشامد
  4. حاکموں کی نیاز مندی کو ذریعہ عزت سمجھنا
  5. پُر پیچ پالیسی
  6. دنیوی سر بلندی کی حرص کو خدمتِ دین کا لباس پہنانا
  7. عید کے دِن مسجد میں چلے جانا
  8. وعظ سُن کر ریاکاری سے آنسو بہانا
  9. اخباروں کو کچھ دے دِلا کر اپنے حق میں مضمون لِکھواتے رہنا

(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)

حوالہ جات

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments