”حُسن و عشق“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
واضح ہو کہ نظم ”حُسن و عشق“ خالص رومانی شاعری کی مثال ہے اور اقبالؔ نے اس میں محبت کی جو خوبیاں بیان فرمائی ہیں وہ شیلےؔ اور کیٹسؔ کے خیالات سے بہت ملتی جُلتی ہیں اور سب جانتے ہیں کہ شیلےؔ کے نزدیک محبت ہی بنیادِ کائنات ہے۔ اجزائے کائنات کا ربطِ باہمی، اسی جذبۂ محبت پر موقوف ہے۔ بالفاظِ دِگر اجزائے کائنات کی وابستگی کا دوسرا نام محبت ہے۔ جس کے بغیر اس کائنات کا وجود ناممکن ہے۔ محبت نہ ہو تو انسانی زندگی ہر قسم کے کیف و سرُور سے معرّا ہو جائے گی۔ جو شئے انسانیت کو میکانیت سے جُدا کرتی ہے، وہ یہی محبت تو ہے۔ اگر محبت نہ ہو تو پھر انسان اور مشین میں کیا فرق ہے؟
(شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
یہ نظم بظاہر رومانی جذبے کی حامل معلوم ہوتی ہے لیکن علامہ نے اس میں درحقیقت تصوّف کے اس نظریہ کی تبلیغ کی ہے کہ محبت ہی تخلیقِ عالم کی بنیادی عِلّت اور اصلِ کائنات ہے۔ بعض ادیبوں کے بقول علامہ نے اس نظم میں محبت کی جو خصوصیات اور مضمرات بیان کی ہیں وہ شیلےؔ اور کیٹسؔ کے خیالات سے مِلتے جُلتے ہیں۔
(شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)
یہ نظم عملاً تین بند پر مشتمل ہے۔ اس کے مفہوم تک رسائی کے لیے اس حقیقت کا ادراک لازم ہے کہ اقبالؔ اپنے جذبۂ عشق کے حوالے سے ان اشعار میں اپنے محبوب سے مکالمہ کرتے ہوئے حُسن اور عشق کی نفسیات کو واضح کرتے ہیں۔ حسبِ معمول اس نظم کو بھی اُنہوں نے خوبصورت امیجز کے ذریعے سنوارا ہے اور ایسے استعارے بھی وضع کیے ہیں جو اس عہد کی شاعری میں نئی جہت سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔
(شرح بانگِ درا از اسرار زیدی)
اِس نظم کی ہیئت قابلِ توجہ ہے۔ مثنوی کے اشعار سے مسبح جیسے بند بنائے ہیں۔ ہر بند کا ٹیپ کا مصرع باہم مفقّٰی ہے۔ اِس نظم کا بنیادی تصوّر یہ ہے کہ حُسن و عشق دونوں لازم و ملزم ہیں۔ عشق سے حُسن کو رونق اور فروغ حاصل ہے اور حُسن، عشق کی گرمیٔ بازار کا موجب ہے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا ز پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی)
بند نمبر 1
یہ بند تشبیہِ مسلسل کی بہت عمدہ مثال ہے۔
جس طرح ڈُوبتی ہے کشتیِ سیمینِ قمر
نورِ خورشید کے طوفان میں ہنگامِ سحَر
حلِ لغات:
کشتیِ سیمینِ قمر | چاند کی چاندنی جیسی سفید کشتی، مراد چاند |
نورِ خورشید | سورج کی روشنی |
ہنگامِ سحر | صبح کے وقت |
تشریح:
اے میرے محبوب! جس طرح چاند کی روشن کشتی (سیمینِ قمر) صبح کے وقت (ہنگامِ سحر) سورج کی تیز روشنی (نورِ خورشید) کے طوفان میں ڈُوب جاتی ہے۔
جیسے ہو جاتا ہے گُم نور کا لے کر آنچل
چاندنی رات میں مہتاب کا ہم رنگ کنول
حلِ لغات:
آنچل | دوپٹا کا سِرا، پلُّو، دامن کا کنارہ |
مہتاب کا ہم رنگ | چاندنی جیسے رنگ والا، سفید |
تشریح:
یا جیسے چاند (مہتاب) جیسا سفید رنگ رکھنے والا کنول کا پھول، چاندنی رات کی تیز روشنی میں میں نور کا آنچل لے کر نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے (یعنی چاند کا ہم رنگ ہونے کے باعث چاندنی میں صاف نظر نہیں آتا)۔
جلوۂ طُور میں جیسے یدِ بیضائے کلیم
موجۂ نگہتِ گُلزار میں غنچے کی شمیم
حلِ لغات:
جلوۂ طُور | کوہِ طُور کی تجلّی |
یدِ بیضا | سفید / روشن ہاتھ، حضرت موسیؑ کے یدِ بیضا والے واقعہ کی طرف اشارہ ہے |
کلیم | کلیم اللہ: حضرت موسیؑ کا لقب، کلیم اللہ یعنی اللہ تعالی سے کلام کرنے والا |
موجہ | موج، لہر |
نگہتِ گُلزار | باغ کی خوشبو، مہک |
غُنچہ | کلی، بند پھول |
شمیم | پھول کی خوشبو |
تشریح:
یا جس طرح کوہِ طُور پر نُورِ خداوندی کی ضو (روشنی) سے حضرت موسیؑ کا سفیدی مائل ہاتھ (یدِ بیضا یعنی سفید ہاتھ۔ قرآن پاک میں ہے کہ حضرت موسیؑ آستین سے ہاتھ نکالتے تھے تو وہ اللہ تعالی کے حکم سے روشن ہو جاتا تھا) ایک طرح سے ناپید ہو جاتا ہے یعنی نُورِ خداوندی کی موجودگی میں نظر نہیں آتا۔ جلوۂ طُور سے اللہ تعالی کی صفات مُراد ہیں۔
یا جیسے طلوعِ سحر کے وقت گُلستان کے پھولوں کی اجتماعی خوشبو کی لہر (موجۂ نگہتِ گُلزار) ایک چھوٹے سے پھول کی انفرادی خوشبو (شمیم) کو اپنے دامن میں لپیٹ لیتی ہے (پورے باغ میں کے مقابلے میں ایک کلی کی مہک معمولی یا بہت چھوٹی چیز ہے)۔
ہے ترے سیلِ محبّت میں یونہی دل میرا
حلِ لغات:
سیلِ محبّت | محبّت کا سیلاب، محبّت کی طغیانی |
تشریح:
اسی طرح میرا دِل بھی تیری محبت کے سیلاب (سیلِ محبّت) میں خود کو گُم کر رہا ہے۔
پہلے بند کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح سورج کی روشنی کے سامنے چاند کی اور چاند کی روشنی کے سامنے کنول کی اور جلوۂ طُور کے سامنے یدِ بیضا کی اور باغ کی خوشبو کے سامنے کلی کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اُسی طرح تیرے سیلِ محبّت کے سامنے میرے دِل کی کوئی حیققت نہیں ہے۔ یعنی تُو اس قدر حسین و جمیل ہے کہ تیری ایک نگاہ مجھے دیوانہ بنا دینے کے لیے کافی ہے۔
بند نمبر 2
تُو جو محفل ہے تو ہنگامۂ محفل ہوں میں
حُسن کی برق ہے تُو، عشق کا حاصل ہوں میں
حلِ لغات:
ہنگامۂ محفل | محفل کی رونق |
برق | بجلی |
حاصل | فصل، پیداوار، نتیجہ |
تشریح:
اے میرے محبوب! اگر تُو ایک محفل ہے (تیری ذات مرکزِ عشاق ہے) تو اس محفل کی رونق (ہنگامۂ محفل) میرے دم سے ہے۔ اگر عاشق نہ ہو تو محبوب کی محفل سُونی ہو جائے گی۔ اگر تجھے بجلی قرار دیا جائے تو میری حیثیت اُس کھلیان (کھیت) کی ہے جسے بجلی اپنا تختۂ مشق بناتی ہے (یعنی جس پر بجلی گِرتی ہے۔ چونکہ محبوب عاشق کے دِل کو جلاتا ہے، اس لیے اقبالؔ نے محبوب کو برق سے تشبیہ دی ہے)۔
تُو سحَر ہے تو مرے اشک ہیں شبنم تیری
شامِ غربت ہوں اگر مَیں تو شفَق تُو میری
حلِ لغات:
اشک | آنسو |
شامِ غُربت | بے وطنی کی شام |
شفَق | غروبِ آفتاب کے وقت آسمان پر پھیل جانے والی سُرخی |
تشریح:
اگر تجھے صبح کا وقت (وقتِ سحر) سمجھ لیا جائے تو میرے آنسو تیری شبنم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر میں مسافرت اور بے سر و سامانی کے عالم (یعنی عالمِ غربت) میں آنے والی شام ہوں تو میری شفق اور رنگینی کا سامان تجھ سے ہے۔
مرے دل میں تری زُلفوں کی پریشانی ہے
تری تصویر سے پیدا مری حیرانی ہے
حلِ لغات:
زُلفوں کی پریشانی | زُلفوں کا بکھرا ہوا ہونا |
پیدا | ظاہر |
حیرانی | مکمل کھو جانا، حیرت |
تشریح:
تیری منتشر (پریشان / بکھری ہوئی) زلفوں کی طرح میرا دِل بھی مضطرب و پریشان رہتا ہے اور جب بھی میں تیری تصویر دیکھتا ہوں تو حیرانی میں ڈوب جاتا ہوں۔ محبوب کے انتہائی حُسن کے حوالے سے بات کی ہے۔
حُسن کامل ہے ترا، عشق ہے کامل مرا
حلِ لغات:
کامل | مکمل |
تشریح:
تیرا حُسن درجۂ کمال تک پہنچا ہوا ہے، میرا عشق درجۂ کمال تک پہنچا ہوا ہے۔
اِس بند میں حُسن و عشق کا لازم و ملزم ہونا ثابت کیا ہے۔ یعنی یہ ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے۔ حُسن اگر انجمن ہے تو عشق اس انجمن کی رونق ہے اور رونق کے بغیر انجم کا ہونا، نہ ہونا برابر ہوتا ہے۔ حُسن اگر بجلی ہے تو عشق وہ حاصل مہیا کرتا ہے جسے بجلی جلاتی ہے۔ حُسن اگر صبح ہے تو اُس کے ساتھ شبنم بھی ہونی چاہیے، عشق کے آنسو شبنم کی کمی کو پُورا کر دیتے ہیں۔ شام کے لیے شفق کا ہونا ضروری ہے۔ اگر عشق پردیس کی شام بن جائے تو حُسن اس شام کی پیشانی پر شفق بن جاتا ہے۔ عشق کا دِل پریشان ہوتا ہے۔ زُلفیں اُسی وقت تک حسین معلوم ہوتی ہیں جب تک پریشان رہتی ہیں گویا عشق کے دِل اور حُسن کی زلفوں میں پریشانی مشترک ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تُو اپنے حُسن میں بے نظیر ہے تو میں اپنے عشق میں بے مثال ہوں۔ اگر تیرا کوئی ثانی نہیں ہے تو میرا بھی کوئی ثانی نہیں ہے۔
بند نمبر 3
ہے مرے باغِ سخن کے لیے تُو بادِ بہار
میرے بیتاب تخیّل کو دیا تُو نے قرار
حلِ لغات:
باغِ سُخن | شاعر کا باغ یعنی شاعری |
بادِ بہار | موسمِ بہار میں چلنے والی ہوا |
بیتاب | بے قرار، بے چین، مضطرب |
تخیّل | تصوّر کی طاقت، ددوچنے کی طاقت و قوّت، خیال میں لانا، سوچ یا دھیان کی کیفیت، وہ خیال جو شاعر نظم کرتا ہے |
قرار | سکون، چین |
تشریح:
اے محبوب! میری شاعری کے گُلستان (باغ) میں تیرا وجود موسمِ بہار کی ہوا (بادِ بہار) کی مانند ہے۔ جیسے موسمِ بہار میں نئے نئے پھول کھِلتے ہیں، بالکل اسی طرح تیری محبت میرے دِل میں بہترین شاعرانہ تخیّلات پیدا کرتی ہے۔ واضح ہو کہ عشق شعر و شاعری کے لیے سب سے بڑا محرّک ہے۔ میرے بے قرار تخیّل کو تیری محبت ہی کے طفیل ٹھہراؤ اور توازن حاصل ہوا ہے۔ میرے خیالات کسی کے ذکر میں ادا کیے جانے کے مضطرب (بے چین) تھے۔ اب جب تُو مِل گیا ہے تو میرا اضطراب جاتا رہا ہے۔ گویا تیری ذات میرے دِل کی تسکین کا موجب ہے۔
جب سے آباد ترا عشق ہوا سینے میں
نئے جوہر ہوئے پیدا مرے آئینے میں
حلِ لغات:
جوہر | خوبی، عمدگی، صفت، صلاحیت |
تشریح:
جب سے تیرا عشق میرے سینے میں آباد ہوا ہے اور میرے دِل میں تیری آرزو پیدا ہوئی ہے، تب سے میرے آئینے میں نئے نئے جوہر پیدا ہورہے ہیں۔ اس استعارے سے مُراد یہ ہے کہ تیرے عشق کی بدولت میرے خیالات میں بڑی عظمت و بلندی پیدا ہو گئی ہے اور اس دم سے میرے فن میں بھی نئی تخلیقی صلاحیتیں رونما ہونے لگی ہیں۔
حُسن سے عشق کی فطرت کو ہے تحریکِ کمال
تجھ سے سر سبز ہوئے میری اُمیدوں کے نہال
حلِ لغات:
فطرت | مزاج، طبیعت |
تحریکِ کمال | کمال حاصل کرنے کی رغبت |
اُمیدوں کے نہال | اُمیدوں کے پودے |
تشریح:
مجھے اس حقیقت سے آگاہی حاصل ہوئی ہے کہ ذاتِ محبوب (حُسن) ہی عشق کو درجۂ کمال تک پہنچاتی ہے ، اور حُسن کے بغیر عشق کی تکمیل کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ چنانچہ (اے محبوب!) میری اُمیدوں اور آرزوؤں کے پودے (نہال) تیری ہی وجہ سے سرسبز و شاداب ہوئے ہیں۔ حُسن نہ ہو تو عشق کا وجود کیونکر ہوسکتا ہے۔ جب حُسن ہو تو عشق بھی وجود میں آجاتا ہے اور بڑے بڑے کارنامے انجام دینے لگتا ہے۔ یہ گویا اُمیدوں کے درخت کا سرسبز ہونا ہے۔
قافلہ ہو گیا آسُودۂ منزل میرا
حلِ لغات:
آسُودۂ منزل | جسے ٹھکانے پر پہنچ کر آرام مِل جائے |
تشریح:
چنانچہ تجھے پاتے ہی میرا قافلہ منزل تک رسائی میں کامیاب ہو گیا۔
اِس بند میں اقبالؔ نے یہ بتایا ہے کہ معشوق کی ذات، عاشق کے مخفی جوہروں (صلاحیتوں) کو اُبھارتی ہے اور اُس کو مرتبۂ کمال تک پہنچاتی ہے۔