”طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام“ علامہ اقبال نے 1907ء میں لکھی تھی۔ اس میں خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ اپنی قوم کے نوجوانوں کو خطاب کیا ہے اور انہیں وہ پیغام دیا ہے جو ان کی شاعری اور اُن کے فلسفہ کی ساری کائنات ہے یعنی عشقِ رسول ﷺ کا پیغام۔ اسی بات نے اُنہیں مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا بنا دیا ہے اور ان کے کلام کو سندِ دوام عطا کر دی ہے۔ واضح ہو کہ 1907ء کا زمانہ ہندوستان میں علی العموم اور بنگال میں علی الخصوص سیاسی شورش کا زمانہ تھا۔ چونکہ مسلمانانِ ہند کے سامنے کوئی نصب العین نہیں تھا اور اُن کے گمراہ ہوجانے کا قوی اندیشہ تھا، اس لیے اقبالؔ نے قوم کے نوجوانوں کو عشق اور عمل کا پیغام دیا۔ اس نظم میں ہمیں ان تصوّرات کا ابتدائی نقش نظر آتا ہے جنہوں نے آگے چل کر ایک منظم فلسفۂ زندگی کی صورت اختیار کر لی۔ بالفاظِ دیگر اس نظم میں وہ چنگاریاں پوشیدہ ہیں جو کچھ عرصہ بعد شعلہ بن گئیں۔
اس نظم کا مفہوم پہلے شعر میں پوشیدہ ہے یعنی اگر پہلے شعر کا مطلب سمجھ لیا جائے تو ساری نظم کا مطلب سمجھ میں آجائے گا۔ کہتے ہیں کہ اربابِ عقل، قوم کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ عقل کی پیروی کرو، لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ عشق کا اتباع کرو۔ بالفاظِ دیگر اس نظم میں عقل اور عشق کا موازنہ پیش کیا ہے۔ یہ اقبالؔ کا وہ محبوب موضوع ہے جسے انہوں نے پیامِ مشرق سے لے کر ارمغانِ حجاز تک ہر کتاب میں بیان کیا ہے۔ یعنی عقل پر عشق کی برتری۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلکِ عقل اور مسلکِ عشق میں کا فرق ہے؟ اس کا جواب تو بہت تفصیل طلب ہے، مختصراً یوں سمجھ لیجیے کہ مسلکِ عقل سے شریعت کے ظاہری پہلو کی اتباع مراد ہے اور مسلکِ عشق میں طاہری پہلو کے علاوہ باطنی پہلو کی اتباع بھی شامل ہے۔ اس کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں:-
مثلاً زیدؔ، شریعت کے ظاہری ارکان نماز، روزہ، زکوۃ، اور حج پر پابندی کے ساتھ عمل کرتا ہے، تو اربابِ عقل (اوروں) کے نزدیک وہ اسلام کے تمام تقاضوں کو پورا کر رہا ہے۔ یہ طبقہ زیدؔ سے کسی مزید عمل کا مطالبہ نہیں کرتا۔ لیکن اربابِ عشق کے نزدیک ابھی زیدؔ کے ایمان میں نقص ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ زیدؔ حقیقی معنوں میں اس وقت مسلمان ہوگا جب اس کے اندر سرکارِ دوعالم ﷺ کے نام پر سر کٹانے کا جذبہ پیدا ہو جائے گا۔
اُردو کے شاعرِ یکتا اور ملتِ اسلامیہ کے نامور فرزند حضرت مولانا ظفر علی خاں صاحب قبلہ نے اسی نکتہ کو یوں بیان کیا ہے:-
نماز اچھی روزہ اچھا حج اچھا اورزکوۃ اچھی!
مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک مر مِٹُوں میں خواجۂ یثرب کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
خلاصۂ کلام یہ کہ مسلکِ عشق کی رو سے مسلمان کا ایمان اس وقت کامل ہو سکتا ہے جب وہ عشقِ رسول ﷺ میں سرشار ہو کر اپنا تن، من اور دھن سب کچھ سرکارِ دوعالم ﷺ کی بارگاہ میں نظر کر دے۔
ایک شخص پانچوں وقت کی نماز پڑھتا ہے اور رمضان کے تیسوں روزے رکھتا ہے، ہر سال زکوۃ ادا کرتا ہے اور بشرطِ استطاعت فریضۂ حج بھی بجا لاتا ہے لیکن جب اسلام کے نام پر سر کٹانے کا موقع آتا ہے تو بڑی خاموشی کے ساتھ گھر کا دروازہ بند کر کے بیٹھ جاتا ہے۔ اقبالؔ کی اصطلاح میں یہ شخص مسلکِ عقل پر گامزن ہوگا کیونکہ عقل اُسے سمجھاتی ہے کہ اگر تُو مارا گیا تو پھر تیرے بیوی بچے برباد ہو جائیں گے۔
اقبالؔ کہتے ہیں کہ اس کی بجائے مسلکِ عشق اختیار کرو، جو یہ کہتا ہے کہ کچھ پروا نہیں اگر تیرے بیوی بچے برباد ہوجائیں اور تیرا سارا گھر لُٹ جائے، کیونکہ مقصدِ حیات زن و فرزند نہیں بلکہ اسلامؔ ہے۔ اس کی حفاظت اور بقا کے لیے بے خطر میدانِ جہاد میں سر کٹا دے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
واضح ہو کہ اقبالؔ نے یہ نظم اول تا آخر رمز و ایماء کے پردہ میں لکھی ہے۔ اس لیے ساری نظم میں کسی لفظ کے حقیقی یا لغوی معنی مراد نہیں ہیں۔
کلامِ اقبالؔ علی گڑھ کالج میں ہمیشہ سے مقبول اور ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے مگر پیامِ اقبالؔ جو ہم آج شائع کر رہے ہیں، نہایت ہی غور سے پڑھے جانے کے لائق ہے۔ طلبۂ علی گڑھ کی خصوصیت سے شائع کرنے کی یہ وجہ ہے کہ مسلمانانِ ہند کی آئندہ امیدیں بہت کچھ ان کے ساتھ وابستہ ہیں، ورنہ سب پڑھے لکھے نوجوان اس دردمندانہ مشورے کے مخاطب ہو سکتے ہیں جو حضرت اقبال نے ان چند اشعار کے جامع الفاظ اور بلیغ اشارات میں انہیں دیا ہے۔
(مخزن، بابت جون 1907ٔء، صفحہ نمبر 57)
(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)
نظم ”طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام“ کی تشریح
اَوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے
اوروں یعنی عقل کی منشاء پر چلنے والوں کی تلقین اور ہے (جو یہ ہے کہ دنیا میں خوب ترقی حاصل کرو، دولت حاصل کرو، عہدے حاصل کرو، خطابات حاصل کرو) لیکن میں کچھ اور کہتا ہوں یعنی عقل والوں کے مسلک کے خلاف مسلکِ عشق اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہوں اور عشق سے میری مراد عشقِ رسول ﷺ ہے جس میں مسلمانوں کو نہ سرکار سے خطابات ملیں گے، نہ جاگیریں ملیں گی، نہ عہدے ملیں گے اور نہ دولت ملے گی۔۔ بلکہ جو کچھ پاس ہے اُسے بھی خدا اور رسول ﷺ کی راہ میں خرچ کر دینا ہوگا ورنہ ایمان کامل نہ ہوگا۔
طائرِ زیرِ دام کے نالے تو سُن چُکے ہو تم
یہ بھی سُنو کہ نالۂ طائرِ بام اور ہے
تم ان پرندوں کے نالے تو بہت سن چکے ہو جو جال میں پھنسے ہوئے تھے، جو پرندہ چھت کی منڈیر پر بیٹھا ہے، اس کا نالہ بھی سُن لو۔
مراد یہ ہے کہ: اے نوجوانو! تُم اپنی قوم کے محکوم اور غلام رہنماؤں کی تقریریں تو بہت سُن چکے ہو جو ذہنی طور پر انگریزوں کے غلام تھے، اب ذرا ایک مومن کا پیام بھی سُن لو۔ مردِ مومن ایک آزاد شخص ہوتا ہو جو ہمیشہ حق کا ساتھ دیتا ہے اور بغیر کسی خوف کے حق بات کہنے کا عادی ہوتا ہے، اس لیے اس کا پیغام محکوم اور غلام ذہنیت رکھنے والے لوگوں کے پیغام سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔
آتی تھی کوہ سے صدا رازِ حیات ہے سکُوں
کہتا تھا مورِ ناتواں لُطفِ خرام اور ہے
عیش پسند، عافیت کوش اور کاہل افراد یہ کہتے ہیں کہ سکون (بے عملی) ہی انسانی زندگی کا مقصد ہے لیکن چیونٹی کی طرح جدوجہد کرنے والے اس کے خلاف یہ تلقین کرتے ہیں کہ زندگی کا لطف جدوجہد اور کوشش میں ہے۔
جذبِ حرم سے ہے فروغ انجمنِ حجاز کا
اس کا مقام اور ہے، اس کا نظام اور ہے
حجاز کی محفل (یعنی مِلتِ اسلامیہ) کی تمام تر رونق اور زیبائش کعبہ سے محبت اور عشق کی وجہ سے ہے۔ جذبۂ اسلام سے سرشاری ہی سے ملتِ اسلامیہ کا فروغ و رونق ہے۔ ملتِ اسلامیہ اسی وقت اقبال مند اور سربلند رہ سکتی ہے کہ جب اس کے دل میں حرمِ پاک کے عشق کا جذبہ موجود ہو۔ وہ اپنے دینی اصول کو ایک لمحے کے لیے بھی نہ بھولے۔ اسی جذبے کے سبب یہ امر واضح ہو سکے گا کہ دوسری اقوام و مذاہب کے مقابلے میں ملتِ اسلامیہ کا نظام کس قدر منفرد و مختلف ہے۔
اس طرح دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دیگر اقوام کے مقابلے میں مسلمانوں کے اصول بھی مختلف ہیں اور اُن کی زندگی کا نظام بھی یکسر جدا گانہ ہے۔
موت ہے عیشِ جاوداں، ذوقِ طلب اگر نہ ہو
گردشِ آدمی ہے اور، گردشِ جام اور ہے
اگر کسی شخص کے دِل میں ذوقِ طلب نہ ہو یعنی عشقِ رسول ﷺ کا جذبہ موجزن نہ ہو تو اُس کا انجام فنا ہے۔ وہ شخص کبھی حیاتِ ابدی حاصل نہیں کر سکتا۔ یاد رکھو! گردشِ جام یعنی عیش و عشرت اور گردشِ آدمی یعنی جذبۂ محبتِ رسول ﷺ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یاد رکھو! شراب کی مستی کو عشقِ رسول ﷺ کی مستی ہے کوئی نسبت نہیں ہے، اگرچہ مستی دونوں جگہ موجود ہے۔
اگر انسان کو ہمیشہ رہنے والی عیش و عشرت حاصل ہو اور اُس کے دل میں آرزو اور تمنا نہ ہو، تو یہ عیش و عشرت انسان کو کاہل اور سست بنا دے گی اور یوں اس کی موت کا سامان بن جائے گی۔ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسان اور شراب کے پیالے کی گردش میں بہت فرق ہے۔ پیالہ محفل میں چکر لگاتا ہے تو صرف اس لیے کہ لوگوں کو عیش و سرُور حاصل ہو لیکن آدمی کی حرکت (گردش) اور جدوجہد کا مقصد ی ہے کہ اسے نئی چیزیں ملیں، اس کی تحقیق کا قدم آگے بڑھے، اس کے مقاصد قریب تر آئیں۔ گردش میں اگرچہ پیالہ اور آدمی ایک ہیں، لیکن دونوں کا مدعا ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔
شمعِ سحَر یہ کہہ گئی سوز ہے زندگی کا ساز
غم کدۂ نمود میں شرطِ دوام اور ہے
صبح کے وقت شمع نے اپنے ختم ہونے سے پہلے یہ نکتہ بیان کیا کہ جلنا اور دُکھ اُٹھانا زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ یہ دنیا جو محض غم و الم اور دکھاوے پر منحصر ہے، اس میں ہمیشگی پانے کا طریقہ یہی ہے کہ انسان جدوجہد اور جستجو میں لگا رہے اور چین و سکون سے درگُزر کرے۔
بادہ ہے نیم رس ابھی، شوق ہے نارسا ابھی
رہنے دو خُم کے سر پہ تم خشتِ کلیسیا ابھی
مراد یہ ہے کہ اے نوجوانو! تمہاری شراب (خواہشِ انقلاب) ابھی پختہ نہیں ہوئی ہے اور تمہارا جذبۂ عشقِ رسول ﷺ ابھی مرتبۂ کمال کو نہیں پہنچا ہے یعنی ابھی تمہارے اندر اسلامی انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی ہے، اس لیے مصلحتاً تم ابھی کچھ عرصہ کے لیے اپنے کالج کا نظم و نسق انگریز پرنسپل (انگریزی حکومت) ہی کے ہاتھ میں رکھو۔
”خُم“ سے مراد کالج اور ”خشتِ کلیسا“ سے مراد انگریز پرنسپل ہے۔ یہ غالباً اُس زمانے کی نظم ہے جب علی گڑھ میں کالج کا پرنسپل انگریز تھا اور اس کے خلاف ہڑتال ہوئی تھی۔ اقبالؔ طلبہ کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ابھی ہمیں کسی قسم کے ہنگامے شروع نہ کرنے چاہیئیں کیونکہ جو صلاحیتیں ایسے ہنگاموں کے لیے لازم ہیں، وہ ہم میں ابھی پختہ نہیں ہوئیں اس شعر سے یہ مراد بھی لی جا سکتی ہے کہ اقبالؔ نے اپنی قوم کے نوجوانوں کو ان ہنگاموں سے الگ رہنے کی تلقین کی اور فرمایا کہ انگریزی راج کے خلاف اُٹھنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ ذرا انتظار کرو اور اپنی قوم میں پوری بیداری پیدا ہو لینے دو تاکہ جو قدم اُٹھایا جائے، سوچ سمجھ کر اور نفع و نقصان کا اندازہ کرتے ہوئے اُٹھایا جائے۔
شراب بنانے والے مٹکے میں ضروری مسالا ڈالتے ہیں تو اس کے منہ پر اینٹ رکھ کر لیپ دیتے ہیں تاکہ آہستہ آہستہ شراب میں جوش آئے اور نشہ پیدا ہو۔ اقبالؔ کہتے ہیں کہ ہمارے مٹکے کی شراب ابھی پُختگی کے آخری درجے پر نہیں پہنچی اور ہمارا شوق ابھی خام ہے، لہذا اس پر مسیحیت کی جو اینٹ رکھی ہوئی ہے، اُسے نہ ہٹاؤ اور شراب کے نشے کو مرتبۂ کمال تک پہنچادو۔